إِنَّ الله لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ (سورت13الرعدآیت11) ترجمہ ۔ الله تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے ۔ ۔ ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (سورت 53 النّجم آیت 39) ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔ ۔ ۔ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ ۔ ۔ ميرا مقصد انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچانا ہے ۔ ۔ ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَيَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدة مِنْ لِسَانِی يَفْقَھُوا قَوْلِی
درست ۔۔۔ اس سے مجھے ایک بات یاد آئی جو میں نے سورۃ الفرقان کے باب میں پڑھی تھی
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا “اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں”. جن قابل نفرت لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں، جب جاہل ان سے گفتگو کرتے ہیں، جب کوئی غصے میں ان سے گفتگو کرتا ہے، جب بے ادب لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں، اور جب کوئی آپ کو بے عزت کرے تو تکلیف ہوتی ہے ، جب کوئی آپ کو کچھ غلط کہے تو تکلیف ہوتی ہے، اور اللہ نے ان سب لوگوں کو جاھلون کہا ہے، جاھل عربی میں عاقل کے مخالف ہے، جاھل کا عربی میں معنی ہے “کوئی ایسا شخص جس کا اپنے جذبات پر قابو نا ہو” ان کے دماغ میں کوئی غلط لفظ آتا ہے تو وہ ان کی زبانوں سے بھی ادا ہوجاتا ہے، وہ اس بارے میں سوچتے بھی نہیں. میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، آپ ڈرائیو کر رہے ہیں، چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے، وہ شخص آکر آپ پر چلانے لگ جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں، اوہ اچھا! می تمہیں بتاتا ہوں.. نہیں، رُکیں! وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا “اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں. آپ انہیں سلام کہتے ہیں، یا سوری کہہ کر مہذب طریقے سے گفتگو کا اختتام کرتے ہیں. آپ کو یہ کرنا سیکھنا ہوگا، اگر نہیں کر سکتے تو آپ اس گروپ نمبر 1 میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہیں. اور اللہ نے یہاں یہ نہیں کہا “اگر” اس نے فرمایا “جب”.. جب کا مطلب ہے یہ ضرور ہوگا.
آپ نہیں جانتے لوگ آپ سے ایسا برتاو کیوں کر ہے ہیں؛ ممکن ہے ان کہ زندگی میں کافی مسئلے ہیں جس کے باعث وہ آپ پر غصہ کر جاتے ہیں، اس لیے آپ کو ان سے اچھا برتاو کرنا چاہیے، کچھ مرد اور خواتین تھے جو نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آ کر ان پر چلانے لگ گئے تھے، اور وہ مسلمان تھے، اور آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم ناراض نہیں ہوئے تھے. جب لوگ آپ سے برا برتاو کریں تو آپ کو نرمی سے جواب دینا چاہیے، یہ سنت میں سے ہے. یہاں بہت سے شادی شدہ مرد موجود ہیں، آپ کی بیوی ایسی بہت سی باتیں کہہ سکتی ہے، جو سننے بعد آپ اسے جاہل نہیں کہیں گے اب سے مگر “سلام” کہیں گے. آگے سے جواب نا دیں، چپ رہیں! اور سسٹرز، آپ کے شوہر بعض ایسی باتیں کہہ جائیں گے جن سے آپ کو بہت غصہ آئے گا، مگر آپ کچھ نا کہا کریں، اس وقت چپ رہا کریں، بس “سلام”. موضوع بدل دیں. اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کوئی آپ سے لڑ رہا ہے تو آپ آگے سے “سلام” کہنے لگ جائیں اس کا مطلب ہے، آرام سے بات کرنا، امن سے بات کرنا، اس طریقے سے گفتگو کرنا کہ سننے والے کو برا نا لگے. یہ پہلے لوگوں کا گروہ تھا، وہ لوگ جو اپنا غصہ قابو کر سکتا ہے، وہ لوگ جو اپنی ego ختم کردیتے ہیں پھر چاہیں وہ حق بجانب ہی کیوں نا ہوں. میں آپ کو امام ابو حنیفہ کا قصہ سناتا ہوں، وہ اپنے وقت کے عظیم فقہی تھے اور لوگ ہر وقت ان کے پاس کسی فتوے کے لیے آیا کرتے تھے. ان کی والدہ نے ان سے ایک سوال پوچھا، انہوں نے جواب دے دیا، مگر ان کی والدہ نے کہا “تم کچھ نہیں جانتے میں کسی اور سے جا کر پوچھ لیتی ہوں.” اب جس شخص سے وہ دریافت کرنے گئیں، وہ داعی(وہ فتوے نہیں دے سکتا تھا) تھا، اس نے کہا میں پہلے اس پر کچھ ریسرچ کرلوں پھر آپ کو بتاونگا، اور وہ ابو حنیفہ کے پاس آیا اور ان سے کہا آپ کی والدہ آئیں تھیں اور ایسا ہوا. ابو حنیفہ نے کہا: یہ جواب ہے اس سوال کا مگر انہیں مت بتانا کہ میں نے تمہیں بتایا ہے. بعض اوقات آپ کی فیملی میں ایسے لوگ ہونگے جو آپ کو سننا پسند نہیں کریں گے. ممکن ہے آپ اسلام سے بہت قریب ہوگئے، مگر وہ نہیں ہیں اور اس وجہ سے آپ کو غصہ آتا ہے، آپ کو غصہ آتا ہے کہ آپ کے خاندان میں کچھ خواتین ہیں جو حجاب نہیں لیتیں، آپ کو غصہ آتا ہے کہ کچھ نوجوان نماز ادا نہیں کرتے، مگر.. ان پر غصہ مت ہوا کریں، ان سے پرامن طریقے سے گفتگو کریں! آپ کا غصہ انہیں دین سے دور ہی لے جائے گا بس. ایک وقت تھا جب آپ بھی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے، اگر تب کوئی آپ پر غصہ کرتا تو کیا آپ نماز پڑھنا شروع کردیتے یا دین سے اور دور چلے جاتے؟ سوچیں اس بارے میں! آپ کو ان سے نرمی سے پیش آنا چاہیے اور اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ ان کا دل نرم کردے. اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ اسلام سے فرمایا تھا کہ فرعون سے اچھے سے پیش آنا، وہ فرعون جس نے موسیٰ علیہ اسلام کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ہر سال ہزاروں بچوں کا قتل کرتا تھا، خود کو خدا کہتا تھا، کتنی وجوہات تھی اس سے نفرت کرنے کی اور اللہ نے فرمایا کہ جب تم اس کے پاس جاو تو اس سے نرمی سے بات کرنا!! اگر انہیں فرعون سے نرمی کا برتاو رکھنے کا کہا جا سکتا ہے، تو آپ کی بیوی، یا آپ کے شوہر، آپ کی اولاد، کزنز، بہن بھائی، انکل کا کیا حق ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں غصہ دلاتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپ کے نرم رویے کے حق دار ہیں. یہی قَالُوا سَلَامًا ہے
درست ۔۔۔ اس سے مجھے ایک بات یاد آئی جو میں نے سورۃ الفرقان کے باب میں پڑھی تھی
وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا “اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں”. جن قابل نفرت لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں، جب جاہل ان سے گفتگو کرتے ہیں، جب کوئی غصے میں ان سے گفتگو کرتا ہے، جب بے ادب لوگ ان سے گفتگو کرتے ہیں، اور جب کوئی آپ کو بے عزت کرے تو تکلیف ہوتی ہے ، جب کوئی آپ کو کچھ غلط کہے تو تکلیف ہوتی ہے، اور اللہ نے ان سب لوگوں کو جاھلون کہا ہے، جاھل عربی میں عاقل کے مخالف ہے، جاھل کا عربی میں معنی ہے “کوئی ایسا شخص جس کا اپنے جذبات پر قابو نا ہو” ان کے دماغ میں کوئی غلط لفظ آتا ہے تو وہ ان کی زبانوں سے بھی ادا ہوجاتا ہے، وہ اس بارے میں سوچتے بھی نہیں. میں ایک مثال سے سمجھاتا ہوں، آپ ڈرائیو کر رہے ہیں، چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے، وہ شخص آکر آپ پر چلانے لگ جاتا ہے اور آپ کہتے ہیں، اوہ اچھا! می تمہیں بتاتا ہوں.. نہیں، رُکیں! وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا “اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے ہیں. آپ انہیں سلام کہتے ہیں، یا سوری کہہ کر مہذب طریقے سے گفتگو کا اختتام کرتے ہیں. آپ کو یہ کرنا سیکھنا ہوگا، اگر نہیں کر سکتے تو آپ اس گروپ نمبر 1 میں شامل ہونے کے اہل نہیں ہیں. اور اللہ نے یہاں یہ نہیں کہا “اگر” اس نے فرمایا “جب”.. جب کا مطلب ہے یہ ضرور ہوگا.
آپ نہیں جانتے لوگ آپ سے ایسا برتاو کیوں کر ہے ہیں؛ ممکن ہے ان کہ زندگی میں کافی مسئلے ہیں جس کے باعث وہ آپ پر غصہ کر جاتے ہیں، اس لیے آپ کو ان سے اچھا برتاو کرنا چاہیے، کچھ مرد اور خواتین تھے جو نبی کریم صل اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس آ کر ان پر چلانے لگ گئے تھے، اور وہ مسلمان تھے، اور آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم ناراض نہیں ہوئے تھے. جب لوگ آپ سے برا برتاو کریں تو آپ کو نرمی سے جواب دینا چاہیے، یہ سنت میں سے ہے. یہاں بہت سے شادی شدہ مرد موجود ہیں، آپ کی بیوی ایسی بہت سی باتیں کہہ سکتی ہے، جو سننے بعد آپ اسے جاہل نہیں کہیں گے اب سے مگر “سلام” کہیں گے. آگے سے جواب نا دیں، چپ رہیں! اور سسٹرز، آپ کے شوہر بعض ایسی باتیں کہہ جائیں گے جن سے آپ کو بہت غصہ آئے گا، مگر آپ کچھ نا کہا کریں، اس وقت چپ رہا کریں، بس “سلام”. موضوع بدل دیں. اور اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ کوئی آپ سے لڑ رہا ہے تو آپ آگے سے “سلام” کہنے لگ جائیں اس کا مطلب ہے، آرام سے بات کرنا، امن سے بات کرنا، اس طریقے سے گفتگو کرنا کہ سننے والے کو برا نا لگے. یہ پہلے لوگوں کا گروہ تھا، وہ لوگ جو اپنا غصہ قابو کر سکتا ہے، وہ لوگ جو اپنی ego ختم کردیتے ہیں پھر چاہیں وہ حق بجانب ہی کیوں نا ہوں. میں آپ کو امام ابو حنیفہ کا قصہ سناتا ہوں، وہ اپنے وقت کے عظیم فقہی تھے اور لوگ ہر وقت ان کے پاس کسی فتوے کے لیے آیا کرتے تھے. ان کی والدہ نے ان سے ایک سوال پوچھا، انہوں نے جواب دے دیا، مگر ان کی والدہ نے کہا “تم کچھ نہیں جانتے میں کسی اور سے جا کر پوچھ لیتی ہوں.” اب جس شخص سے وہ دریافت کرنے گئیں، وہ داعی(وہ فتوے نہیں دے سکتا تھا) تھا، اس نے کہا میں پہلے اس پر کچھ ریسرچ کرلوں پھر آپ کو بتاونگا، اور وہ ابو حنیفہ کے پاس آیا اور ان سے کہا آپ کی والدہ آئیں تھیں اور ایسا ہوا. ابو حنیفہ نے کہا: یہ جواب ہے اس سوال کا مگر انہیں مت بتانا کہ میں نے تمہیں بتایا ہے. بعض اوقات آپ کی فیملی میں ایسے لوگ ہونگے جو آپ کو سننا پسند نہیں کریں گے. ممکن ہے آپ اسلام سے بہت قریب ہوگئے، مگر وہ نہیں ہیں اور اس وجہ سے آپ کو غصہ آتا ہے، آپ کو غصہ آتا ہے کہ آپ کے خاندان میں کچھ خواتین ہیں جو حجاب نہیں لیتیں، آپ کو غصہ آتا ہے کہ کچھ نوجوان نماز ادا نہیں کرتے، مگر.. ان پر غصہ مت ہوا کریں، ان سے پرامن طریقے سے گفتگو کریں! آپ کا غصہ انہیں دین سے دور ہی لے جائے گا بس. ایک وقت تھا جب آپ بھی نماز نہیں پڑھا کرتے تھے، اگر تب کوئی آپ پر غصہ کرتا تو کیا آپ نماز پڑھنا شروع کردیتے یا دین سے اور دور چلے جاتے؟ سوچیں اس بارے میں! آپ کو ان سے نرمی سے پیش آنا چاہیے اور اللہ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ ان کا دل نرم کردے. اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ اسلام سے فرمایا تھا کہ فرعون سے اچھے سے پیش آنا، وہ فرعون جس نے موسیٰ علیہ اسلام کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی، وہ ہر سال ہزاروں بچوں کا قتل کرتا تھا، خود کو خدا کہتا تھا، کتنی وجوہات تھی اس سے نفرت کرنے کی اور اللہ نے فرمایا کہ جب تم اس کے پاس جاو تو اس سے نرمی سے بات کرنا!! اگر انہیں فرعون سے نرمی کا برتاو رکھنے کا کہا جا سکتا ہے، تو آپ کی بیوی، یا آپ کے شوہر، آپ کی اولاد، کزنز، بہن بھائی، انکل کا کیا حق ہے؟ یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیں غصہ دلاتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں جو اپ کے نرم رویے کے حق دار ہیں. یہی قَالُوا سَلَامًا ہے