جب 1964ء میں لاہور میں پاکستان میں پہلا ٹیلی ویژن چینل شروع ہوا تو ایک بزرگ نے کہا ”شیطانی چرخہ شروع ہو گیا“۔ یہ بات ہم جوانوں کو اچھی نہ لگی کیونکہ ہم سمجھتے تھے کہ ٹی وی کے بغیر ہماری معلومات ادھوری رہیں گی اور ہم ترقی نہیں کر سکیں گے ۔ پھر جب 15 سال قبل پرائیویٹ چینل شروع ہوئے اور 5 سال میں کھُمبیوں (mushrooms) کی طرح پھیل گئے تو اُس دور کے جوانوں نے خوشیوں کے شادیانے بجائے کہ اب تو عِلم کے دہانے کھُل گئے ۔ پاکستان کے عوام دن دُونی رات چوگنی ترقی کرنے لگیں گے اور ہر آدمی کے پاس عِلم کا اتنا خزانہ آ جائے گا کہ سنبھالنا مُشکل ہو جائے گا ۔ یہی کچھ کم نہ تھا انٹرنیٹ عام ہوا تو نام نہاد سوشل میڈیا بھی میدان میں کود کر چوکڑیاں بھرنے لگا
جب سنبھلنے کا موقع ملا تو سال 2010ء گذر چکا تھا ۔ احساس ہوا کہ سوشل میڈیا نے لوگوں کو غیر سوشل بنا کر رکھ دیا ہے اور اُنہیں گِرد و پیش کی بھی خبر نہیں رہی ۔ رہے ٹی وی چینل تو وہ پروپیگنڈہ ۔ سنسنی خیزی اور بے مقصد ڈراموں کا مرکز ہیں ۔ ایسی ایسی خبریں بناتے ہیں کہ جس کے متعلق خبر ہوتی ہے وہ بھی دنگ رہ جاتا ہے ۔ جیسے جنرل راحیل شریف رِیٹائرمنٹ کے بعد عمرہ کرنے گئے تو اُن کے 39 اسلامی ممالک کی دہشتگردی کے خلاف فوج کا کمانڈر مقرر ہونے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر دیا ۔ جنرل راحیل شریف بھی شاید وہ نوٹیفیکیشن تلاش کرتے پھر رہے ہوں گے
پچھلے 3 سالوں سے اگر ایک ٹی وی چینل ایک سیاسی لیڈر کی پگڑی اُچھال رہا ہے تو دوسرا کسی دوسرے سیاسی لیڈر کے پرخچے اُڑا رہا ہے ۔ یہاں تک کہ عدالت میں کیس ہے تو خود ہی مدعی ۔ گواہ اور مُنصف بن کر فیصلہ صادر کر دیتے ہیں
جہاں تک عِلم کا تعلق ہے تو اب حال یہ ہے کہ جو تھوڑا عِلم لوگوں کے پاس تھا وہ بھی ٹی وی چینلوں کی تیار کردہ کہانیوں اور سنسنی خیزی میں دب کر اگر دم نہیں توڑ چُکا تو بے ہوش ضرور پڑا ہے
سوشل میڈیا پر ایسی ایسی باتیں انسانی یا مذہبی فریضہ سمجھ کر دھڑا دھڑ شیئر کی جاتی ہیں کہ انسانی حقوق اور مذہب کا کچھ عِلم رکھنے والے حیرت میں اپنی اُنگلیاں کو دانتوں سے کاٹ لیتے ہیں ۔ ایک ادنٰی سی مثال ہے کہ ایک بچے کی گمشدگی کا اعلان جو کچھ سال قبل ہوا تھا اُس کی تصویر کے ساتھ انسانیت اور مذہب کا واسطہ دے کر لکھا گیا کہ جس کسی کو ملے دیئے پتہ پر پہنچائے ۔ اس اعلان کو اتنا زیادہ گھُمایا گیا کہ بچے کے باپ نے رحم کی اپیل کر دی
آج میں سوچتا ہوں کہ وہ بزرگ کتنے دُور اندیش تھے کہ 1964ء ہی میں وہ کہہ دیا تھا جِسے ہم آج سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں
یہی ہوتا ہے بڑوں کی بات کا مذاق اڑانے کا انجام
سیما آفتاب صاحبہ. السلام علیکم
اچھی بی بی. میری مجال کہ میں کسی بزرگ کے حضور کسی قسم کی گستاخی کروں. میں نے تو کبھی کسی بچے کا بھی مذاق نہیں اڑایا
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میں نے آپ کو تھوڑی کہا تھا ۔۔۔۔ ہم عمومی بزرگوں کی باتوں کو’ بڑے میاں/بڑی بی کی بڑ’ کہہ کر نظر انداز کردیتےہیں جو کہ اکثر آگے جا کر بالکل درست ثابت ہوتا ہے۔