ایک سیمینار میں 50 لوگ شریک تھے ۔ مقرر نے سب کو ایک ایک غبارہ دے کر کہا ”سب اپنے اپنے غبارے پر اپنا نام لکھیں”۔
جب سب نے نام لکھ لئے تو سارے غبارے ایک کمرے میں ڈال دیئے گئے اور سب کو 5 منٹ میں اپنا اپنا غبارہ تلاش کر کے لانے کا کہا گیا
سب اپنے غبارے تلاش کرنے میں لگ گئے ۔ اس بھگدڑ میں کئی غبارے پاؤں کے نیچے آ کر پھٹ گئے اور 5 منٹ میں کسی کو اپنا غبارہ نہ ملا
یہی عمل دوہرایا گیا لیکن اس بار یہ کہا گیا کہ ”جو غبارہ کسی کے ہاتھ میں آئے وہ اس پر نام دیکھ کر جس کا وہ ہے اُسے دے دے”۔
اس طرح 5 منٹ میں سب کو اپنے اپنے غبارے مل گئے
مقرر نے سب کو مخاطب کر کے کہا ” اسی طرح ہماری زندگی ہے ۔ ہم اپنی خوشیاں تلاش کرتے ہوئے افراتفری میں دوسروں کی خوشیاں پاؤں کے نیچے کُچل دیتے ہیں ۔ ہم لوگ یہ نہیں سمجھتے کہ ہماری خوشیاں دوسروں کے ساتھ وابسطہ ہیں ۔ ہم دوسروں کو اُن کی خوشیاں دیں گے تو ہمیں ہماری خوشیاں بھی مِل جائیں گی اور یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے“۔
بہت خوبصورت مثال سے واضح کیا ہے ۔۔۔ زبردست : )
اپنی خوشیوں کی تلاش میں راستے میں دوسروں کو خوشیاں دیتے چلو تو راستہ خود ہی صاف ہوتا چلا جاتا ہے : )
سیما آفتاب صاحبہ
میں شکر گذار ہو کہ آپ میری تحاریر صرف پڑھتی ہی نہیں بلکہ میری حوصلہ افزائی بھی کرتی ہیں ۔ میری اِن باتوں کی وجہ سے میرے قاریوں کی تعداد 100 تک رہ گئی ہے جو 200 سے کم کبھی نہیں ہوئی تھی اور ہزاروں میں جاتی تھی
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ
اس کا مطلب ہے یا تو آپ کا انداز بدل گیا یو لوگوں کا ذوق بدل گیا؟ : )
سیما آفتاب صاحبہ
دونوں ہی بدل گئے ہیں ۔ میں کچھ سنجیدہ ہو گیا ہوں لیکن اصل مسئلہ فیس بُک کا ہے جس نے سب جوانوں اور کچھ بوڑھوں کو بھی کھینچ لیا ہے
جی ٹھیک کہا آپ نے ۔۔۔ لوگ وقت کی رفتار کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی کوشش میں لگ گئے ہیں ۔۔۔۔ جب می نے انٹرنیٹ استعمال کرنا شروع کیا تھا تب فورم کا زمانہ تھا اور میں خود ایک ‘ہلچل’ نامی فورم پر بہت ایکٹو تھی ۔۔۔ پھر فیس بک آیا تو فورم بھی زوال پذیر ہو گیا اور ذوق بھی : )