بھُولی ہوئی ہوں میں داستاں ۔ گذرا ہوا خیال ہوں
جس کو نہ کوئی سمجھ سکے میں ایسا اِک سوال ہوں
سب نے مجھے بھُلا دیا ۔ نظروں سے یوں گرا دیا
جیسے کبھی ملے نہ تھے ۔ اِک راہ پر چلے نہ تھے
تھم جاؤ میرے آنسوؤ ۔ کسی سے نہ کوئی گلہ کرو
وہ حسنِ خُلق کی مثال ہیں ۔ میں ماضی کا زوال ہوں
جس کو نہ کوئی سمجھ سکے میں ایسا اِک سوال ہوں
کرنا ہی تھا اگر ستم اور دینا تھا عمر بھر کا غم
درسِ وفا دیا تھا کیوں ؟ خُلق کی راہ پر چلایا تھا کیوں
سب نے نگاہ پھیر لی ۔ اب میں ہوں اور میری بے بسی
ویران شب کے چاند کا ۔ میں کھویا ہوا جمال ہوں
جس کو نہ کوئی سمجھ سکے میں ایسا اِک سوال ہوں
بھُولی ہوئی ہوں میں داستاں ۔ گذرا ہوا خیال ہوں
کس نے بھلا دیا آپ کو؟؟
سیما آفتاب صاحبہ
یہ ہمارے بچپن کے زمانہ کا ایک مشہور گیت ہے جسے ہر آدمی کا بنانے کیلئے میں نے معمولی سی ترمیم کی ہے
جی گیت تو میں نے بھی سنا ہوا ہے ۔۔۔۔ ترمیم پہ اب غور کیا
لوگوں کا کیا غم۔۔۔
نیک نے نیک سمجھا بد نے بد جانا مجھے،
جتنا جس کا ظرف تھا اتنا ہی پہچانا مجھے
سیما آفتاب صاحبہ
واہ. آپ نے تو کمال کا شعر کہہ دیا. مقرر ارشاد
شکریہ : )
مکرر کا کیا ہے پھر سے چھاپ دیتی ہوں
“نیک نے نیک سمجھا بد نے بد جانا مجھے،
جتنا جس کا ظرف تھا اتنا ہی پہچانا مجھے”