یہ کیا کہ سورج پہ گھر بنانا اور اُس پہ چھاؤں تلاش کرنا
کھڑے بھی ہونا تو دَلدَلوں پہ ۔ پھر اپنے پاؤں تلاش کرنا
نِکل کے شہر میں آ بھی جانا چمکتے خوابوں کو ساتھ لیکر
بلند و بالا عمارتوں میں ۔ پھر اپنے گاؤں تلاش کرنا
کبھی تو بیعت فروخت کر دی ۔ کبھی تمثیلیں فروخت کر دیں
میرے وکیلوں نے میرے ہونے کی سب دلیلیں فروخت کر دیں
وہ اپنے سورج تو کیا جلاتے ۔ میرے چراغوں کو بیچ ڈالا
فراک اپنے بچا کے رکھے ۔ میری سبیلیں فروخت کر دیں
خدا ہیں لوگ گناہ و ثواب دیکھتے ہیں
ہم تو روز ہی روز حساب دیکھتے ہیں
کُچل کُچل کے فُٹ پاتھ کو ۔ نہ چلو اِتنا
یہاں پہ مزدور رات کو خواب دیکھتے ہیں
(کلام ۔ سلمان)
انسان ایسا ہی ہے
سیما آفتاب صاحبہ
آپ نے تو تصدیق کی مُہر ثبت کر دی
جی تو اور کیا ۔۔۔ کہتی ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے
حاصل کو چھوڑ کر لاحاصل کے پیچھے اپنی زندگی لگا دیتا ہے اور پھر کہتا ہے ‘یہ نہیں ملا، وہ نہیں ملا” ۔۔۔ ور جو ملا تھا اس کی قدر نہ کی۔ ۔۔ ایسا ہی تو ہے انسان