اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے
اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے
اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے
اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب
اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں
پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے
اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی
پر نام تیری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر
مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
فریاد ہے اے کشتی اُمت کے نگہباں
بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
کر حق سے دعا اُمت مرحوم کے حق میں
خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھِرا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے
نسبت بہت اچھی ہے اگر حال بُرا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی
ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ
بہت خوب ۔۔ یہ آپ کی شاعری ہے؟؟
سیما آفتاب صاھبہ ۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاۃ
بی بی ۔ یہ دعا خواجہ الطاف حسین حالی صاحب نے ایک صدی سے زیادہ قبل مانگی تھی
اوہ میری کم علمی : ) ۔۔۔ میں نے اب تک الطاف حسین حالی کے نام سے اتنا ہی حصہ پڑھا تھا
اے خاصہ خاصانِ رسل وقت دعا ہے
امت پہ تری آکے عجب وقت پڑا ہے
وہ دیں جو بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے
پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے
جزاک اللہ