یہ گیت میں نے 5 دہائیاں قبل سُنا تھا اور دِل میں بیٹھ گیا کہ یہ میرے مُستقبل کے متعلق ہی کہا گیا ہے
چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
تُو نے تِنکا تِنکا چُن کر ۔ نگری تھی اپنی بسائی
بارش میں تیری بھیگی پانکھیں دھوپ میں گرمی کھائی
غم نہ کر جو تیری محنت ۔ تیرے کام نہ آئی
اچھا ہے کچھ لے جانے سے دے کر ہی کچھ جانا
چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
ختم ہوئے دن اُس ڈالی کے جس پر تیرا بسیرا تھا
آج یہاں اور کل ہو وہاں یہ جوگی والا پھیرا تھا
یہ تیری جاگیر نہیں تھی چار دنوں کا میلہ تھا
سدا رہا ہے اس دُنیا میں کس کا آب و دانہ
چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
بھُول جا اب وہ مَست ہوا ۔ وہ اُڑنا ڈالی ڈالی
جگ کی آنکھ کا کانٹا بن گئی چال تیری متوالی
کون بھلا اُس باغ کو پوچھے ۔ ہو نہ جس کا مالی
تیری قسمت میں لکھا ہے ۔ جیتے جی مر جانا
چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
روتے ہیں وہ پنکھ پکھیرُو ساتھ تیرے جو کھیلے
جن کے ساتھ لگائے تُو نے ۔ ارمانوں کے میلے
بھیگی انکھیوں سے ہی اُن کی آج دعائیں لے لے
کِس کو پتہ اب اس نگری میں ۔ کب ہو تیرا آنا
چل اُڑ جا رے پنچھی کہ اب یہ دیس ہوا بیگانہ
جہاں دانہ پانی لکھا ہو پنچھی کو جانا تو پڑتا ہے ناں : )