إِنَّ الله لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ (سورت13الرعدآیت11) ترجمہ ۔ الله تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے ۔ ۔ ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (سورت 53 النّجم آیت 39) ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔ ۔ ۔ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ ۔ ۔ ميرا مقصد انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچانا ہے ۔ ۔ ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَيَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدة مِنْ لِسَانِی يَفْقَھُوا قَوْلِی
عافیہ خان صاحبہ
آپ الفاظ میں پھنس گئی ہیں ۔ پورے مضمون کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ آپ نے جو کہا ہے اس کی دلیل کے طور پر قرآن شریف کی آیت مع نام سورت و آیت نمبر تحریر فرمائیں گی
طارق جمیل صاحب میرے پیر یا اُستاذ نہیں ہیں نہ سیاست میں ہیں ۔ نہ فرقہ بندی میں ۔ اللہ کے نیک بندے ہیں اور اللہ کی راہ میں نکلے رہتے ہیں ۔ سادہ طبیعت ہیں اور عالِم ہیں ۔ بین الاقوامی طور پر مسلمانوں میں جانے جاتے ہیں
پچھلا جواب حذف کردیجئے گا
ایک اصلاحی لکھاری ابو یحییٰ کا کہنا ہے
“آپ اپنی ناک اونچا کرنے کی جتنی کوشش کرتے ہیں، اپنا قد اتنا ہی گھٹاتے چلے جاتے ہیں”
یہی معاملہ ہے کہ دوسرے پر انگلی اٹھاتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ باقی تین انگلیوں کا رخ ہماری اپنی طرف ہوتا ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ہم میں ‘خوش خلقی’ کی صفت روز بہ روز گھٹتی چلی جارہی ہے ۔۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔
ہم بولتے بہت ہیں لیکن سوچتے کم ہیں، ہم دوسروں کو تو بتاتے ہیں لیکن خود کو نہیں سمجھاتے، ہم دوسروں کو یاد دلاتے ہیں لیکن خود بھول جاتے ہیں، ہم اچھی باتوں کو دوسروں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں مگر اپنے ساتھ شئیر کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ہم دوسروں کا احتساب کرنا چاہے ہیں مگر اپنا احتساب نہیں کر پاتے، ہم دوسروں کی لاکھوں گز زمین پر انہیں برائی کے بجائے بھلائی کی فصل کی کاشت کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور اپنی دو گز زمین پر وہ فصل کاشت نہیں کرنا چاہتے۔ یہی ہماری خرابی کی بنیادی وجہ ہے۔
یہ کون سے اسلام کی بات کرتے ہیں وہ. طارق جمیل صاحب ہیں کون کچھ ان کا حُلیہ و تعارف بتادیتے , آیا سیساسی آدمی ہیں یا مولانا ٹائپ.
چاہے جس نے بھی کہی ہو بہت احمقانہ بات کہی کہ ناچنے والیوں کو برا کہنے سے اسلام منع کرتا ہے.
یا وہ حضرت رنگیلے مزاج ہوں گے جاتے ہونگے ان محفلوں میں کہہ گئے ہونگے ترنگ میں.
آپ کو یہ کیسے یاد آگئے…
عافیہ خان
عافیہ خان صاحبہ
آپ الفاظ میں پھنس گئی ہیں ۔ پورے مضمون کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ آپ نے جو کہا ہے اس کی دلیل کے طور پر قرآن شریف کی آیت مع نام سورت و آیت نمبر تحریر فرمائیں گی
طارق جمیل صاحب میرے پیر یا اُستاذ نہیں ہیں نہ سیاست میں ہیں ۔ نہ فرقہ بندی میں ۔ اللہ کے نیک بندے ہیں اور اللہ کی راہ میں نکلے رہتے ہیں ۔ سادہ طبیعت ہیں اور عالِم ہیں ۔ بین الاقوامی طور پر مسلمانوں میں جانے جاتے ہیں
پچھلا جواب حذف کردیجئے گا
ایک اصلاحی لکھاری ابو یحییٰ کا کہنا ہے
“آپ اپنی ناک اونچا کرنے کی جتنی کوشش کرتے ہیں، اپنا قد اتنا ہی گھٹاتے چلے جاتے ہیں”
یہی معاملہ ہے کہ دوسرے پر انگلی اٹھاتے وقت ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ باقی تین انگلیوں کا رخ ہماری اپنی طرف ہوتا ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ ہم میں ‘خوش خلقی’ کی صفت روز بہ روز گھٹتی چلی جارہی ہے ۔۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔
ہم بولتے بہت ہیں لیکن سوچتے کم ہیں، ہم دوسروں کو تو بتاتے ہیں لیکن خود کو نہیں سمجھاتے، ہم دوسروں کو یاد دلاتے ہیں لیکن خود بھول جاتے ہیں، ہم اچھی باتوں کو دوسروں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں مگر اپنے ساتھ شئیر کرنے کی کوشش نہیں کرتے، ہم دوسروں کا احتساب کرنا چاہے ہیں مگر اپنا احتساب نہیں کر پاتے، ہم دوسروں کی لاکھوں گز زمین پر انہیں برائی کے بجائے بھلائی کی فصل کی کاشت کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور اپنی دو گز زمین پر وہ فصل کاشت نہیں کرنا چاہتے۔ یہی ہماری خرابی کی بنیادی وجہ ہے۔
تحریر: ابو یحییٰ
https://seems77.blogspot.com/2014/01/blog-post_13.html