یہ سطور میرے ایک دوست نے بھیجیں ہیں ۔ یہ اُن کے ایک واقفِ کار کی خود نوشت آپ بیتی ہے ۔ سوچا کہ اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کی جائیں
پچھلے دنوں اسلام آباد کے پوش علاقے میں ایک دوست کے ساتھ ایک کیفے جانے کا اتفاق ہوا ۔ کچھ کھانے کا مُوڈ نہیں تھا تو بس دو فریش لائم منگوا لئے
ایک سیون اَپ کین کی قیمت 50 روپے ہے ۔ ایک لیموں کی قمیت اگر مہنگا بھی ہو تو 5 روپے ہے ۔ سٹرا شاید 2 روپے میں پڑتا ہو گا ۔ ٹوٹل ملا کر 109 روپے بنتے ہیں ۔ بل آیا تو مجھ سے پہلے میرے دوست نے بل دیکھے بغیر ویٹر کو اپنا ویزا کارڈ تھما دیا ۔ میرا دوست واش روم گیا ۔ اتنے میں ویٹر کارڈ اور پرچی واپس لے آیا ۔ میں نے بل اٹھا کر دیکھا تو تفصیل یوں تھی
فریش لائم -/1200 ۔ جی ایس ٹی -/204 ۔ ٹوٹل -/1404
اس بل کو دیکھ کر نہ مجھے کوئی حیرت ہوئی اور نہ میرے دوست نے ایسا محسوس کیا
ایسی بہت ساری چیزیں ہیں جہاں ہم بے دریخ پیسے خرچ کرتے ہیں
تین سال کی وارنٹی والا کوٹ دس ہزار میں خرید کر اگلے سال دو اور لیں گے
سال میں چار جوڑے جوتوں کے لیں گے
ہوٹلنگ پر ہزاروں روپے برباد کریں گے
انٹرنیٹ، تھری جی، موبائل سیٹس، ٹائی، شرٹس، گھڑیاں، پین، لائٹرز، گیجٹس، لیپ ٹاپس اور پتہ نہیں کیا کیا
لیکن ہم خرچ کرتے رہتے ہیں ۔ جب کماتے ہیں تو خرچ کرنے کے لئے ہی کماتے ہیں
لیکن کبھی غور کریں کہ فریش لائم کے یہ 1404 روپے کسی کی زندگی میں کتنے اہم ہیں
آج بارش میں ایک جگہ انتظار کرتے ہوئے درخت کے نیچے خاتون نظر آئیں ۔ ہم کہتے ہیں یہ ایک بھکاری ہے ۔ بھیک مانگنا ان کا پیشہ ہے
غور کریں تو یہ ماں ہے ۔ ستر سالہ بوڑھی ماں ۔ جھریوں سے بھرا چہره سفید بال ایک چادر میں سردی اور بارش سے بچنے کی کوشش میں جانے کس مجبوری اور کس آس میں یہاں بیٹھی انسانیت کا ماتم منا رہی تھی
کبھی اپنی ماں کی مجبوری کا تصور کیجئے اور پھر اپنے دل کو ٹٹولئے کہ کیا یہ ایک بھکاری ہے؟
میں اظہار سے قاصر ہوں کہ میں اس وقت کس کیفیت کا شکار ہوں ۔ میں نے ان اماں جی کو ایک نوٹ تھمایا ۔ بڑی حسرت اور کرب سے کہنے لگیں ”بیٹا اس کا کھلا ہوتا تو یہاں بیٹھ کر کیا کرتی“۔
میں نے کہا ”ماں جی بس رکھ لیں“۔ جانے کتنی بار انہوں بے یقینی سے مجھے دیکھا ۔ پھر ایک نگاہ نوٹ پر ڈالی ایک مجھ پر ڈالی اور ایک آسمان پر ڈالی ۔ اس ایک نگاہ میں خوشی، طمانیت، دعا، شکر اور پتہ نہیں کیا کیا تھا ۔ اس نگاہ نے مجھے جتنی خوشی دی میں بیان کرنے سے قاصر ہوں ۔ اس ایک نگاہ نے مجھے اور ماں جی کو بیک وقت اپنے رب کے حضور جھکا دیا
فریش لائم ضرور پیجیے لیکن اگر پیسے فریش لائم سے ختم نہیں ہوتے تو کسی کی مدد کر کے اور خوشی دے کر بھی کبھی ختم نہیں ہوں گے ۔ اپنے آس پاس کے کمزور اور لاچار لوگوں پر ضرور نظر ڈالئے
آج خوشی کا ایک راز بتاتا ہوں ۔ کہیں بہت جلدی میں جاتے ہوئے ۔ کہیں ٹریفک میں پھنسے ہوئے ۔ کہیں بارش میں چلتے ہوئے ۔ کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھے ہوئے ۔ اپنے آس پاس دیکھیئے اور کوئی اس طرح کی اماں یا کوئی بھی ضرورت مند نظر آئے تو دوڑ کر جایئے اور اسے بس ایک نوٹ تھمایئے ۔ اور واپس آکر اپنے کام لگ جایئے ۔ پھر دیکھیئے کہ آپ کے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے
السلام و علیکم ورحمۃ اللہ
بالکل ۔۔۔ بات ساری سمجھ کی ہی ہے ۔۔۔ جزاک اللہ
یہ واقعہ پڑھ کر اپنا ایک واقعہ یاد آگیا
ایک بار اپنی کزنز کے ساتھ ایک ریسٹورنٹ جانا ہوا اور وہاں ہم نے ڈرنک میں فریش لائم ہی منگوایا ۔۔۔ اور جب اسے بناتے دیکھا تو میں نے کہا ” کہ اتنا مہنگا لیموں ہے ان کا”
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام و علیکم،
آپ کے دوست کی اس سوچ سے سو فیصد اتفاق ہے۔
بلکہ آپ شاید حیران ہوں کہ گزشتہ ماہ میں نے ایل آربی ٹی جو نابینا افراد کے مفت علاج
کا ادارہ ہے ،اس کی رمضان کی اشتہاری مہم کے لئے بالکل ایسا ہی کانسیپٹ دیا
کہ جب ایک عورت مہنگا برانڈڈ کرتا کسی بوتیک سے اپنے ہاتھ میں لیتی ہے
اسی وقت ایک باکس آجاتا ہے جس پہ لکھا ہے کہ یہ کرتا چار ہزار کا ہے جبکہ
ضعیفی کے باعث ہونے والی نا بینائی کے آپر یشن کی قیمت بھی یہی ہے۔
ایک آدمی ریسٹورینٹ میں بل پکڑتا ہی ہے کہ ایک با کس آجاتا ہے ، کھانے کا بل
چھ ہزار چار سو چوالیس ، اس قیمت میں ایک غریب کا موتیا کا اپریشن اور
دونوں آنکھوں میں لینس فٹ ہوجاتے ہیں۔
تیسری سچوئشن میں لڑکا سینما کے ٹکٹ گھر پہ کھڑا ہے ۔ دوست اور اپنے لئے
پانچ پانچ سو کے دو ٹکٹ لیتا ہے۔ باکس آجاتا ہے کہ نو سو ننانوے رو پے
ایک چھوٹے بچے کی نا بینا آنکھوں کو روشنی مل سکتی ہے اگر آپ آ ج فلم نہ دیکھیں
توکوئی یہ دنیا دیکھ سکتا ہے۔
جانتے ہیں ، کلائینٹ نے کیا کہا؟ انہوں نے کانسیپٹ مسترد کر تے ہوئے کہا
ہم لوگوں سے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اپنی تفر یح چھوڑ کے ہم کو چندہ صدقہ دیں۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟
آپ چاہیں تو میں پاور پوائنٹ پر یزینٹیشن بھیج سکتی ہوں ۔
میرا کانسیپٹ جو ریجیکٹ ہوگیا !
کیونکہ ہمارے دل سخت ہو گئے ہیں
اللہ ہم سب پہ رحم کرے۔
Pingback: 25 اپریل تا 1 مئی: اس ہفتہ کی بہترین تحریر – ووٹنگ | منظرنامہ
Speechless kafiat hoti hay Ajmal sb…..ek din main nay morning main petrol dalwaya….rest amount meray hath mai thi…..samnay say ek aurat aa rahi thi jis k shoulder per kapray ka bag tha papers collection k lye….main nay horn dia….to wo bura sa face bana k aai….but jb main nay usay koi kaam kehnay ki bajaye wo rest amount usay pakrai to yaqeen karain…..aaj bhi khial aata hay to dil khush ho jata hay……bohat achi tehreer hay……khush rahye
Beenai Sahiba!
Kb tk logon ki bay-hissi ka matam kartay rahain hum……chorain….aur bus…..apnay hissay ka dia jalati chali jain…..kabhi na kabhi to sub theek ho jaye ga, in sha Allah
حمیرا نور صاحبہ
خوش آمدید ۔ جی آپ نے بالکل درست کہا
Pingback: 25 اپریل تا 1 مئی: اس ہفتہ کی بہترین تحریر - افتخار اجمل بھوپال | منظرنامہ
افتخار اجمل بھائ صاحب اسلام وعلیکم میرا وہی دقیانوسی طریقہ ہے مخاطب کرنے کا بہر اپ کی بہترین تحریر پڑھی تو لکھنا مناسب سمجھا آپ کو بھائ بنایا تو آپ اس وعدے پر پورا نہ رہے خیر ابھی تک تو واپس نہیں پہنچی واپسی پر ایک دفعہ تو ملاقات کروں گی ۔ واقعی آپ ایسے رحم دل انسان ہیں لیکن وعدے کے پکے نہیں میری کسی بات کا جواب نہ ملا شکریہ آللہ آپ کو سلامت رکھے آمین
محترمہ شمیم صاحبہ
وعدہ خلافی میری سمجھ سے باہر ہے ۔ بہرکیف ملزم بنانے کا شکریہ