یو کے کی وارکی فاؤنڈیشن (VArkey Foundation) نے غیرمعمولی اساتذہ کیلئے ایک سالانہ انعام کا بندوبست کیا جو ایسے اُستاد کو دیا جائے گا جس نے اپنے پیشے میں نمایاں کارکردگی دکھائی ہو ۔ اس میں جتنے والے استاذ کو مارچ میں منعقد ہونے والی رسم میں ایک ملین امریکی ڈالر انعام دیا جائے گا ۔ پہلے مرحلے میں چوٹی کے 10 اساتذہ کا انتخاب ہوا ہے جن میں 4 خواتین ہیں اور اِن 4 میں مندرجہ ذیل 2 خواتین مسلمان ہیں ۔ ( یہاں کلک کر کے یہ 10 اساتذہ دیکھے جا سکتے ہیں)
عقیلہ آصفی ایک پاکستانی خاتون ہیں جنہوں نے افغانستان میں تعلیم و تربیت پائی تھی ۔ وہ 1992ء میں مہاجرین کے ساتھ پاکستان آ کر پنجاب میں کوٹ چاندانا کے افغان مہاجرین کیمپ میں رہیں ۔ اس علاقے میں کوئی سکول کام نہیں کر رہا تھا ۔ انتہائی قدامت پسند ہونے کے باعث لڑکیوں کی تعلیم کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا تھا اور خاتون استاذ کا کوئی تصوّر نہ تھا ۔ عقیلہ آصفی مستعار لئے ہوئے خیمے میں بچوں کی تعلیم کا بندوبست کیا ۔ اُس نے منفی رویّہ اور مزاہمت کا بڑی محنت سے مقابلہ کرتے ہوئے 20 خاندانوں کو اپنی بچیوں کو پڑھانے پر راضی کر لیا ۔ شروع مین غیر متنازعہ مضامین پڑھانے شروع کئے جیسے ذاتی اصولِ صحت (personal hygiene) ۔ گھریلو انتظامی صلاحیت (home management skills) اور دینی تعلیم ۔ لوگوں کا اعتماد حاصل کر لینے کے بعد دری زبان ۔ ریاضی ۔ جغرافیہ اور تاریخ بھی پڑھانا شروع کئے
بلیک بورڈ چاک وغیرہ کیلئے کوئی سرمایہ نہ ہونے کی وجہ سے عقیلہ آصفی کڑے کے ٹکڑوں پر ہاتھ سے لکھ کر خیمے کی دیواروں سے چپکاتی تھیں اور رات کو بیٹھ کر طالبات کیلئے کتابیں لکھتی تھیں اور شروع میں بچے زمین پر لکھتے تھے ۔ اب اس کیمپ میں 9 سکول کام کر رہے ہیں اور بہت سی خواتین پڑھاتی ہیں ۔ طالب علموں کی تعداد 1500 سے زائد ہے جن میں 900 لڑکیاں ہیں ۔ تعلیم کا مثبت نتجہ یہ سامنے آیا ہے کہ کم عمری اور زبردستی کی شادیوں میں کمی آ گئی ہے ۔ عقیلہ آصفی کے سکول سےے فارغ التحصیل زیادہ تر افغان مہاجر لڑکیاں اور کچھ پاکستانی بچوں کی تعداد 1000 سے زیادہ ہے ۔ ان میں سے کچھ افغانستان میں انجنیئر ۔ ڈاکٹر ۔ استاذ اور سرکاری ملازم بن چکے ہیں ۔ اب عقلیلہ آصفی اسلام آباد میں 1800 مہاجر بچوں کو تعلیم دے رہی ہیں
عقلیلہ آصفی کو 2015ء میں یو این ایچ سی آر کا نانسن انعام بھی مل چکا ہے
ایک 43 سالہ فلسطینی خاتون حنّان الحروب ہیں جنہوں نے بتایا ” اسرائیلی قابض فوجیوں کی کاروائیوں نے ہمارے بچوں کے کردار کو بُری طرح متاءثر کیا ہے ۔ اس بگاڑ پر قابو پانے کیلئے میں کھیل کھیل میں پڑھاتی ہوں تاکہ بچون میں غیر متشدد رجحان ترقی پا سکے اور وہ امن پسند شہری بنیں“۔حنّان الحروب نے مزید بتایا ”اسرائیلی فوجیوں نے میرے خاوند کو زخمی کر دیا ۔ اُس کا خون بہہ رہا تھا اسرائیلی فوجی اُس پر قہقہے لگاتے رہے ۔ اس واقعہ سے میرے بچوں کے ذہنوں پر بہت بُرا اثر چھوڑا ۔ میرا طرزِ تعلیم نے ایسے بچوں اُس سکتے کی حالت سے باہر نکلنے اور اپنے آپ پر بھروسہ کرنے مین مدد دی ہے“۔
حنّان الحروب کہتی ہیں کہ یہ انعام جیت کر اسے اپنے ملک (فلسطین) کو دنیا کے نقشے پر قائم کرنے کیلئے استعمال کریں گی ۔ حنّان الحروب نے کہا ”میری جیت ثابت کر دے گی کہ فلسطینی استاذ تمام مُشکلات پر قابو با سکتا ہے ۔ میرا یہ انعام جیتنا میرے مُلک فلسطیں کی جیت ہو گی“۔
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام و علیکم،
بہت اچھا ہوا کہ آپ نے اس موضوع پہ گفتگو کی۔
مجھے کافی عرصے سے اس موضوع پہ کسی صاحب ِ علم کی رائے در کار تھی۔
کہ عورتوں اور مردوں کی برابری کا جو غلغلہ مغرب سے مشرق تک چھا گیاہے۔
اس کی بنیاد کیاہے؟ اور ہمیں اس کے بارے میں کیا موقف رکھنا چاہیئے۔
میری ناقص رائے اور محدود علم کہتا ہے کہ عورت عزت میں تو مرد کےبرابر ہے لیکن
صلاحیت ، قوت اور طاقت میں نہیں۔
میں اور میری بہنوں نے باپ ، بھائی اور شوہر کے بغیر جینا سیکھا ہے
سب کچھ کر ڈالنے کے باوجود
میرے باپ کا جنازہ اٹھانے کو میرے باپ کے بھانجے ، بھتیجے ہی آئے ۔ وہ کام ہم نہیں کر سکتے تھے۔
ان کے لئے اسپتالوں کے چکر ، راتوں کو آئی سی یو کے باہر راتیں کاٹنا۔
مگر جنازہ ہم نہیں اٹھا سکتے تھے۔
میڈیکل سائنس بھی کہتی ہے کہ مرد کی ہڈیا ں زیادہ وزنی ہیں۔ مرد کے خون میں ہیمو گلوبن زیادہ ہے
عورت کی ہڈیا ں وزن میں کم ہیں ۔ہیمو گلوبن جو عورت کا زیادہ سے زیادہ ہے وہ مرد کا
کم سے کم ہو نا چاہیئے۔
ہر میڈیکل رپورٹ پہ ایم ( میل ) اور ایف ( فیمیل ) کے لئے علیحدہ علیحدہ درج ہوتا ہے۔
اسلام نے یقینا عورت کو میراث میں حق دیا۔ گواہی کا حق دیا ۔ روز قیامت حساب کتاب
دونوں کا ایک سا ہوگا۔
نماز ، روزے ، حج ، زکوہ کا ثواب ایک جیسا ملے گا۔
لیکن اس کے باوجود کہیں کہیں مرد کو عورت پہ فضیلت دی ہے کیونکہ
مرد عورت کے نگہبان ہیں اور ان کو کما کے کھلاتے ہیں۔
مجھے اس موضو ع پہ اپنی کوئی را ئے قائم کر نے میں دشواری ہے۔
براہ کرم راہنمائی فرماکے شکر یہ کا موقع دیں۔
بینائی صاحبہ. السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ نے درست کہا کہ عورت ہر لحاظ سے مرد کے برابر نہیں ہے. عصرحاضر میں عورت کے موضوع کو پیچیدہ بنا دیا گیا ہے. عورت کی بہت سی خوبیاں ہیں مگر ہر لحاظ سے عورت مرد کے برابر نہیں ہو سکتی. مثال کے طور پر ایک حد تک جسمانی تکلیف مرد کی نسبت عورت زیادہ برداشت کر لیتی ہے . جذباتی یا ذہنی تکلیف عورت کی نسبت مرد زیادہ برداشت کر لیتا ہے. عورت کی نسبت مرد زیادہ تیز بھاگ سکتا ہے. اس کی وجہ جسمانی ساخت ہے. عورت مرد کی نسبت زیادہ وہمی اور ڈرپوک ہوتی ہے. عورت فیصلہ کرتے ہوئے جذبات کا اثر لیتی ہے جبکہ مرد عقل سے زیادہ کام لیتا ہے. یہ سب سائنس ہی کہتی ہے
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام وعلیکم ۔
جواب دینے کا ازحد شکریہ۔
مغرب نے عورت کی برابر ی کا جو تصور دیا ہے وہ عورت کے جاب کر نے ، ڈرائیونگ ،
اپنے شوہر کا انتخاب خود کر نے اورآزادنہ گھومنے پھرنے ، فیصلے کرنے کے لئے ہے۔
وہ کیا پہنےِ ؟ کہاں جائے؟ کس سے دوستی کرے؟ کس سے شادی کرے؟
یہ ماں باپ نہیں ، ایک اٹھارہ سال کی لڑکی طے کرتی ہے ۔
جبکہ ہمارے ہاں تمام تر تباہی کے باوجود اقدار کا ڈھانچہ ابھی بھی کھڑا ہے۔
جس کے باعث لڑ کیاں ماں باپ کی مرضی سے ایسا کرتی ہیں۔
اور یہ بہت حد تک ان کے حق میں بہتر ہے۔
کیونکہ ماں باپ ، ہمارے بارے میں ہم سے بہتر سو چ سکتے ہیں،
ان کو ہم سے محبت بھی ہے اور دنیا کا تجربہ بھی ۔ اس لئے۔
بے شک صلاحیت وسائل کی محتاج نہیں ہوتی ۔