یہ بہت پرانی ضرب المثل یا محاوہ یا کہاوت ہے ۔ آجکل کی اُردو میں اس کو لکھیں گے ” راستہ پر چلنے والا ہی راستہ کی نوعیت سے واقف ہوتا ہے اور کسی آدمی سے واسطہ پڑے تو اُس کی اصلیت کا پتہ چلتا ہے“۔ بات سولہ آنے کھری یعنی بالکل درست ہے
اس سلسلے میں زندگی میں بہت تجربات ہوئے جن میں سے ایک یہ ہے ۔ ایک شخص ہمارے ادارے میں کام کرتا تھا ۔ 30 سال اُس کے ساتھ دفتر کا تعلق رہا ۔ میں اُسے بطور 5 وقت کے نمازی باعِلم مسلمان کے جانتا تھا ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ایک دن ہمارے ہاں آئے تو باتوں باتوں میں نجانے کیسے بات قرآن و حدیث تک جا پہنچی
کہنے لگے ”حدیثیں ایسے ہی لوگوں نے خود لکھ لی ہوئی ہیں ۔ ہم انہیں نہیں مانتے”۔
میں نے صرف اتنا کہا ”مجھے قرآن شریف کی وہ آیت بتا دیجیئے جس میں نماز پڑھنے کا طریقہ مع اُس کے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے کا ذکر ہو“۔
خاموشی ۔ مگر میں نہ مانوں
ایسے اہلِ قرآن نامی مُنکرینِ حدیثوں کے لیئے ایک ہی سوال : قرآن بھی تو لوگوں نے ہی لکھا تھا وہ کونسا توراۃ کی طرح لکھی لکھائی تختیوں کی صورت میں اترا تھا ؟؟؟
اس میں کوئ شک نہیں ہے انسانوں کا تبھی پتہ چلتا جب وا پیے
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام وعلیکم،
بات تو بالکل سچی ہے۔
جب تک کسی سے وا سطہ نہ پڑے ۔ اس کی اصلیت معلوم نہیں ہوتی
میں نے بھی کئی ایسے لوگ دیکھے اور پر کھے ہیں
ایک لڑ کی جسے دس بر س تک دوست سمجھتی رہی
ساتھ پڑھا، یونیورسٹی ساتھ ساتھ گئے
لیکن جب میرے ہی آفس میں جاب کر نے لگی اور شارٹ کٹ کے ساتھ
میری باس بن بیٹھی تو اس کی اصلیت کھل کے سامنے آگئی ۔
لیکن ابھی بھی میں لوگوں کو پر کھنے میں کچی ہوں ۔
جب تک کوئی پیروں سے زمین کھینچ کے نہ چلتا بنے جان ہی نہیں پاتی
کہ وہ خودغرض یا غلط ہے۔
عرض کیا ہے کہ :
خداوندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں
کہ درویشی بھی عیّاری ہے، سُلطانی بھی عیّاری !
بینائی صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ کا خیال درست ہے ۔ میں ہر اُس رواج ۔ رسم یا طریقہ سے دور رہنے کی کوشش کرتا ہوں جو رسول اللہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے وصال کے 3 صدیاں بعد شروع ہوا ۔ لوگ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی مدینہ آمد پر دف بجا کر گانے کی مثال دیتے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ بچیاں تھیں اور وہ وقت احیائے دین (اسلام) کا ابتدائی دور تھا ۔ اُس وقت تک تو شراب بھی حرام نہ ہوئی تھی ۔ مدینہ منورہ کا ہی واقعہ ہے کہ ایک صحابی کے مرثیہ گانے کی اطلاع حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو ملی تو وہ اُسی وقت اُٹھ کر تیز تیز چلتے اُس صحابی کے پاس پہنچے ۔ ابھی اُنہوں نے جو کچھ ہاتھ میں تھا صحابی کے سر پر مارنے کیلئے ہاتھ اُوپر اُٹھایا ہی تھا کہ صحابی نے اللہ اور اللہ کے رسول کی پناہ مانگ لی جس پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا
جناب افتخار اجمل صا حب ،
السلام وعلیکم،
بالکل بجا فر مایا آپ نے۔ ہمیں ہر ممکن متنازعہ باتوں سے بچنا چا ہیئے۔
آپ کے پاس تو ما شا ءاللہ علم کا خزانہ ہے مگر میرا علم بہت ناقص ہے
اس لئے میں زیادہ بحث میں یوں نہیں پڑتی کہ سچ بولوں گی اور ہار جاؤں گی والا معاملہ
نہ ہوجائے ۔
اسلام میں موسیقی حرام ہے اور اس پہ میرا دل راضی ہے تو کوئی اپنی لاکھ دلیلوں سے
مجھے قائل نہیں کر سکتا۔ ہرا ضرور سکتا ہے میرا دل نہیں بدل سکتا۔
اسی لئے میں نے اس پوسٹ پہ جواب لکھنا چھوڑ دیا ہے۔
جناب افتخار اجمل صا حب ،
السلام وعلیکم،
ایک محترمہ مسلسل بحث میں ہیں اس بات پہ جس پہ پہلے کوئی ابہام نہیں پایا
جاتا تھا۔
کچھ لوگوں کا کام محض بحث برائے بحث ہے۔
یا اپنی علمیت کا گاہ بگاہے اظہار۔
بندی ان دونوں سے قاصر ہے اس لئے میرا وہاں سے نکلنا ہی بہترہے۔
بینائی صاحبہ. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ
آپ کا رویہ درست ہے
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
اسے کہتے ہیں
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا : )
واقعی جب تک ‘ ٹھیک ٹھاک’ واسطہ نہ پڑے کسی کی اصلیت پتا نہیں چلتی ۔۔ چاہے وہ سفر ہو یا بحث : )
سیما آفتاب صاحبہ ۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاۃ
ایک واقعہ ہے کہ ایک صحابی رسول اللہ ﷺ کے پاس کسی کی سفارش لے کر آئے تو آپ نے پوچھا ”کبھی اس کے ساتھ ایک چھت کے نیچے رہے ہو ؟“ صحابی نے جواب دیا ” نہیں“۔ پھر پوچھا ” کبھی اس کے ساتھ سفر کیا ہے ؟“ جواب دیا ”نہیں“۔آں حضرت ﷺ نے فرمایا ” پھر تم اُسے نہیں جانتے“۔
جزاک اللہ ۔۔۔۔ جی بالکل ایسا ہی ہے : ) ۔۔ بس ہم اندازے ہی لگاتے رہتے ہیں لوگوں کے بارے میں ۔