کِیتی جِیُوندیاں نہ خدمت ماپیاں دی ۔ ۔ (کی جیتے جی نہ خدمت والدین کی)
مَویاں ڈھونگ رچاوَن دا کی فائدہ ۔ ۔ ۔ (مرنے پر ڈھونگ رچانے کا کیا فائدہ)
پہلے کول بہہ کے دُکھڑا پھَولیا نئیں ۔ ۔ ۔ (پہلے پاس بیٹھ کے دُکھ سُکھ کھولا نہیں)
پِچھوں رَون کُرلاوَن دا کی فائدہ ۔ ۔ ۔ ۔ (بعد میں رونے اور بین کرنے کا کیا فائدہ)
ساہ ہُندیا بُھکھ نہ پیاس پُوچھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (سانس تھی تو کبھی بھوک نہ پیاس کا پوچھا)
پِچھوں دیگاں چڑھاون دا کی فائدہ ۔ ۔ ۔ (بعد میں دیگیں چڑھانے کا کیا فائدہ)
جِیدے تے ماپے نہ گئے راضی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جس سے اُس کے والدین خوش نہ گئے)
اوہنوں مکے وَل جاوَن دا کی فائدہ ۔ ۔ ۔ ۔ (اُسے مکہ کی طرف جانے کا کیا فائدہ)
گذشتہ روز یعنی 21 مارچ کی تاریخ کو یہاں یعنی متحدہ عرب امارات میں بطور “ماؤں کے دِن” کے منایا جاتا ہے۔
عبدالرؤف صاحب
یہ جدیدیت کے نمائشی شاخسانے ہیں. میلے ٹھیلوں میں سے ایک میلہ. ماں کا دن منانے کی روائت اس دنیا سے چلی جہاں ماں کی خدمت سے بچنے کیلئے اسے غیروں کے سپرد کر دیا جاتا ہے. آپ ہر بات کو پلٹنے کے ماہر ہیں
سر جی، میری ایسی جُرات کہ آپ کی کسی بات کو پلٹوں؟
میں نے تو بس اُس ملک کے بارے میں ایک خبر دی تھی، جہاں آج کل میری رہائش ، اور ہاں پاکستان میں “ماؤں کا دن” ہر سال مئی کے دوسرے اتوار کو منایا جاتا ہے، یعنی 2016 میں 8 مئی کا دن ہوگا
ویسے نظم اچھی ہے اور میں نے بلا اجازت و بلا حوالہ کے آگے بڑھا دی ہے
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ
بالکل درست بات ہے ۔۔۔۔ جس سے اس کے ماں باپ خوش نہیں اس سے رب کیسے خوش ہو سکتا ہے کہ اللہ کے بعد ہم پر سب سے زیادہ حق تو اپنے ماں باپ کا ہی ہے۔ جزاک اللہ
عبدالرؤف صاحب
پلٹنے کی بات میں نے صرف ایک نہیں میرے بلاگ پر کئے ہوئے اکثر تبصروں کے حوالے سے کی تھی ۔ شاید والدین اور اساتذہ کا قصور ہے کہ آج کی جوان نسل مغرب کی دِلدادہ ہے جس کے نتیجہ میں اُنہیں میلے ٹھیلے سوجھتے رہتے ہیں کہ آسان طریقہ ہے رُو نمائی کا ۔ خواہ کسی ایسے مُلک میں بغیر تحقیق کے بھی ایک ماہ رہائش نہ رہی ہو ۔ یہ الگ بات ہے کے سالوں اُس دنیا میں رہ کر بھی کبھی اُنہیں وہاں کی حقیقت کی تلاش کا موقع نہیں ملا یا خیال نہیں آیا
جزاک اللہ خیر