دی ایسوسی ایشن آف امریکن یونیورسٹیز نے حال ہی میں اپنی ایک سروے رپورٹ کا خلاصہ شائع کیا ہے جس کے مطابق امریکہ کی 27 یونیورسٹیوں کی 150000 طالبات سے اُن پر جبری جنسی زیادتی (Forced Sexual Attacks) کے بارے میں پوچھا گیا تھا ۔ ان لڑکیوں کے جوابات پر مبنی رپورٹ کے مطابق پچھلے ایک سال میں اوسط 23 فیصد طالبات جنسی زیادتی کا شکار ہوئیں ۔ ان میں خاصی تعداد زنا بالجبر کا نشانہ بنیں ۔ طالبات کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں میں جنسی زیادتی ایک بڑا مسئلہ بن چکے ہیں
نیچے آخر میں متذکرہ سروے کا خلاصہ دیکھیئے
متذکرہ سروے میں اپنی مرضی سے جنسی تعلق یا زنا شامل نہیں ہے ۔ صرف مرضی کے خلاف زبردستی کی گئی جنسی زیادتیوں کے اعداد و شمار ہیں ۔ یہ حالت اُس معاشرے کی ہے جہاں بغیر شادی جنسی تعلقات رکھنا رواج بن چکا ہے اور اسے قانونی ۔ معاشرتی اور اخلاقی طور پر بُرا نہیں جانا جاتا ۔ اس بالرضا فعلِ بد سے شاید ہی کوئی فرد بچا ہو ۔ یہی نہیں بلکہ اُس معاشرے میں جسم فروشی کو قانونی حیثیت حاصل ہے اور ہم جنس پرستی کو بھی بُرا نہیں جانا جاتا ۔ وہاں شراب پینے کی بھی اجازت ہے اور نائٹ کلب بھی عام ہیں جہاں جنسی تسکین حاصل کی جاتی ہے
کمال یہ ہے کہ ان قباحتوں سے بچنے کیلئے اُن مُلکوں میں ہر قسم کی اَینٹرٹینمنٹ ۔ کھیلیں ۔ تھِئیٹر اور دوسری سہولتوں کی بھی کوئی کمی نہیں کہ کہا جائے کہ ایسی سہولتوں کا نہ ہونا ہے اتنی بڑی تعداد میں خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جانا ہے
یہ اُن لوگوں کا معاشرہ ہے جو لبرلزم اور روشن خیالی کے نام پر مغربی تہذیب کو پاکستان میں پھیلا کر ہمارے معاشرتی اور دینی اقدار بالخصوص شرم و حیا کے خاتمہ کے خواہاں ہیں ۔ اللہ ہمیں اس شیطانیت سے بچائے اور سیدھی راہ پر قائم کرے
Percentage prevalence of sexual assault for UNDERGRADUATE women
Cal. Tech = 13 . . . . . . . . . . . . . . . Texas A&M University = 15
Iowa State University = 19 . . . . . . . . University of Texas = 19
Case Western Reserve U. = 20 . . . . University of Florida = 20
University of Pittsburgh = 21 . . . . . . . . Purdue University = 22
University of Arizona = 22 . . . . . . . . Columbia University = 23
Cornell University = 23 . . . . . Washington U. in St. Louis = 23
Ohio State University = 24 . . . . . . . . . Univ. of Minnesota = 24
Univ. of N.C. = 24 . . . . . . . . . . . . . . University of Oregon = 24
University of Virginia = 24 . . . . . . . . . . . Brown University = 25
Michigan State University = 25 . . . . . . Harvard University = 26
Univ. of Missouri = 27 . . . . . . . University of Pennsylvania = 27
Dartmouth College = 28 . . . . . . . . . . . Univ. of Wisconsin = 28
Yale University = 28 . . . . . . . . . U. of Southern California = 30
University of Michigan = 30
Average of 27 universities = 23
حضور جان کی امان پاؤں تو عرض ہے کہ ایسی لعنتوں سے کوئی اسلامی ملک بھی بچا ہوا نہیں ہے، لیکن یہ اور بات ہے کہ انکے یہاں ایسی باتیں ریکارڈ پر ذرا کم کم ہی آتی ہیں
عبدالرؤف صاحب
اسلام مُلک کیا ہوتا ہے ؟ ایسا کوئی مُلک میرے عِلم میں نہیں
سر جی، اب اتنی بھی تجاہلِ عارفانہ نہ برتیئے
بقول ویکی پیڈیا کے اِس وقت کم سے کم 6 ممالک ایسے ہیں جوکہ خود کو اسلامی ممالک کہلواتے ہیں، اُن میں سے ایک “پاکستان” بھی ہے
مزید معلومات و تفاصیل کے لیئے مُلاحظہ ہو ربط : https://en.wikipedia.org/wiki/Muslim_world#Islamic_states
اب یہ نہ کہیئے گا کہ ویکی پیڈیا کی معلومات قابِل بھروسہ نہیں ہیں
ویسے پاکستان کا تو نام بھی بتاتا ہے کہ یہ ایک اسلامی ملک ہے : دیکھیئے ناں لفظ “اسلامی” بھی موجود ہے پاکستان کے نام میں :
اردو میں مکمل نام : اسلامی جمہوریہ پاکستان
انگریزی میں مکمل نام : The Islamic Republic of Pakistan
رومن حُروف میں مکمل نام : Islāmī Jumhūriyah Pākistān
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام و علیکم،
بالکل بجا فرمایا آپ نے کہ ترقی یافتہ دنیا خود عورت کے ساتھ جو سلوک
کر رہی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں
بس وہاں کوئی شرمین عبید نہیں جو اپنی قوم کی برائیوں کا اشتہار بنا بنا
کے پیسے کما ئے اور آسکر جیتے۔
عبدالرؤف صاحب
میں جاہل ہو سکتا ہوں لیکن اپنے آپ کو عارف نہیں سمجھتا ۔ گُستاخی کی معافی کے بعد عرض ہے کہ وِکِیپڈِیا میں لکھی ہر بات درست نہیں ہوتی ۔ آپ نے نام کی بات کی ہے ۔ نام تو جو چاہے رکھ لیں ۔ اسلامی تب بنتا ہے جب دین اسلام پر عمل کیا جائے یعنی اللہ کا بنایا قانون نافذ کیا جائے ۔ آپ کا پہلا تبصرہ بے عِلمی کی بنیاد پر ہو سکتا ہے ۔ حقیقت کی بنیاد پر نہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مُلک میں جہاں مسلمان رہتے ہیں اور حکمران بھی مسلمان ہیں اس میں آزاد دنیا کی نسبت بہت اچھا حال ہے ۔ میرا اندازہ ہے کہ آپ کے تبصرے میری تحاریر پر مبنی ہونے کی بجائے آپ کے اپنے خیلات کے آئینہ دار ہوتے ہیں
جی ضرور نام تو کچھ بھی رکھا جاسکتا ہے جیسے کہ اسلام میں سود کی حرُمت کے باوجود بھی مملکتِ خُداد میں ایک سودی بنک کا نام کچھ یوں ہے کہ “مُسلم کمرشل بنک”
اور آپ کی تحاریر ہوں یا میرے تبصرے یا کسی اور کی تحاریر و تبصرے سبھی لکھنے والے کے خیالات / معلومات / عقائد / تجربات کا ہی تو نچوڑ و عکس ہوتے ہیں
دراصل ہمارے خیالات “پاکستانیت” پر ٹکراتے ہیں، اس بات کا ادراک آپ کو بھی بخوبی ہے، اس لیئے مزید بحث کرنے کے بجائے اتنے پر ہی اکتفاء کرتے ہوئے دماغ میں کلبلانے والے خیالات کو بزور روکتے ہوئے ساتھ ساتھ کیبورڈ پر بھی چلنے والی اپنی شرارتی انگلیوں کو لگام دیتا ہوں۔
اسلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
عبدالرؤف صاحب ۔ وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
پاکستانیت کیا ہوتی ہے ؟ میں نے تو حُب الوطنی کی بات کی تھی کہ دین کے بعد دوسری چیز وطن ہے جس پر آپ نے فتوٰی صادر کیا تھا کہ اسلام میں وطنیت نہیں ہے ۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ آپ اسلام کی کون کون سی چیز پر عمل کرتے ہیں ۔ اختلاف تو حق سمجھا جاتا ہے اسلئے میں اعتراض نہیں کرتا
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ
یہ ساری تحقیق/رپورٹ ان نام نہاد روشن خیال لبرلز کی نظر سے بھی یقیناََ گزری ہوگی لیکن کہتے ہیں ناں کہ کبوتر آنکھیں بند کر سمجھتا ہے کہ بلی سے بچ گیا ۔۔ یہی حال ان روشن خیالوں کا ہے ۔۔۔۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے اور صحیح اور غلط میں تمیز کرنے کی توفیق دے آمین!!
اسلامُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سر جی ، بلاوجہ میں بحث موضوع سے ہٹ کر شیطان کی آنت کی طرح طویل ہوتی جارہی ہے
خیر میری سمجھ کے مطابق تو عملی اور اصلی اسلام کے دُو پہلو ہوتے ہیں، ایک انفرادی اور دوسرا اجتماعی : انفرادی سے مُرادجیسے نماز ، روزہ، زکوۃ اور اجتماعی میں معاشرت، معیشت اور مسلح جہاد وغیرہ۔
اور اسلام میں اصل تقسیم دین اور دنیا کی نہیں بلکہ دنیا اور آخرت کی ہے۔ دین و دنیا کی تقسیم سے اسلام دنیاوی امور سے خارج ہوکر صرف نماز، روزہ حج زکوٰۃ تک محدود ہوجاتا اور ہماری معاشرت، معیشت، معاملات اور اخلاقیات سے نکل جاتا ہے۔ دین اور دنیا الگ الگ نہیں بلکہ دنیا کے معاملات سراپا دین اور باعث اجر ہیں اگر انہیں اللہ کی رضا اور نبی کے طریقہ کے تحت برتا جائے۔
اس لیئے اب میں یا کوئی بھی شخص اسلام کے انفرادی پہلو پر انفرادی طور سے کتنا عمل کرتا ہے یہ اُسکا ذاتی معاملہ ہوتا ہے، جس کے لیئے وہ سوائے “اللہ” کے کسی کو جوابدہ نہیں ہوتا ہے، لیکن ہاں اُسکے خیر خواہ اُسے تنبیہ اور سرزش کرسکتے ہیں، جبکہ اسلامی حکومت اگر چاہے تو بعض اُمور پر تو تعزیری سزائیں بھی دے سکتی ہے اور یہی “امر بالمعروف و نہی عن المنکر” ہے۔
جبکہ اسلام کے اجتماعی پہلو پر عمل کرنا تو معاشرہ کے ہر فرد پر لازم ہوتا ہے اور ہر فرد اجتماعی امور پر عمل نہ کرنے کا جوابدہ ہوتا ہے، کیونکہ جب ایک پورا مُعاشرہ اسلام کے اجتماعی اُمور پر عمل کرتا ہے (اگرچہ افراد کی ایک بڑی تعداد بے ایمان و بے نمازی ہو۔) تب وہ معاشرہ اسلامی معاشرہ میں تبدیل ہوتا ہے اور یوں ایک اسلامی ریاست و حکومت قائم ہوتی ہے، ورنہ شراب کی بوتل پر شربت کا صرف لیبل لگانے سے وہ شربت نہیں بن جاتا ہے۔
عہدِ بنوی کے مکی اور مدنی دور میں یہی فرق ہے، مکہ میں اسلام صرف انفرادی پہلو تک محدود تھا، جبکہ مدینہ میں انفرادی کے ساتھ ساتھ اجتماعی پہلو بھی نافذ العمل تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نامی بوتل پر لیبل تو شربت کا ہے جبکہ اندر موجود محلول میں شراب کی آمیزش 90٪ ہے ، جبکہ اسکینڈے نیویا نامی بوتل پر شراب کا لیبل ہے جبکہ اندر کے محلول میں 90٪ شربت ہے۔
نوٹ:
01. ابھی اس بحث میں افراد کے اُمور سے متعلق فرضِ کفایہ اور فرضِ عین کی تفاصیل فلحال غیر ضروری ہے۔
02. پاکستان اور اسکینڈے نیویا کے حوالے سے بوتل، شراب اور شربت کے الفاظ بطور استعارہ استعمال کیئے ہیں۔
عبدالرؤف صاحب ۔ و علیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
درس دینے کا شکریہ ۔ اگر ہفتہ وار درس کا بندوبست کر لیں تو بہتوں کا بھلا ہوگا ۔ میرے بلاگ پر سرِ ورق لکھا ”راستہ صرف ایک“
https://theajmals.com/blog/%D8%B1%D8%A7%D8%B3%D8%AA%DB%81-%D8%B5%D8%B1%D9%81-%D8%A7%DB%8C%DA%A9/
آپ نے پڑھا ہوتا تو آپ کو اتنا ترَدّد نہ کرنا پڑتا ۔ ایک عمل پر آپ کا کافی زور کے کہ آپ بہت پڑھے لکھے ہیں ۔ میری طرح کم عِلم طالب عِلم نہیں ۔ آپ کا پاکستان سے س سکینڈے نیویا کا موازنہ کم علمی کا نتجہ لگتا ہے
چچا جان، حالانکہ بقول آپ کے آپ بُرا نہیں مناتے ہیں، لیکن پھر بھی مُجھے احساس ہورہا ہے، اس لیئے معذرت خواہ ہوں تمام دانستہ و دانستہ دل آذاریوں کے لیئے۔
اللہ حافظ
بھتیجا جی
جب چھوٹے بچے حدود سے باہر بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو بچے کو پیچھے قمیض سے پکڑ کر واپس کھنیچ لیا جاتا ہے ۔ اس کا مطلب بُرا منانا نہیں ہوتا بلکہ بچے کی اصلاح ہوتا ہے