اسلام قبول کرنے کے محرک کے متعلق ایک برطانوی نَو مُسلم کی آپ بیتی کی تلخیص کر کے ترجمہ شائع کیا تھا ۔ اس پر دہلی (بھارت) سے ایک محترمہ نے سوال پوچھا ۔ میں نے جواب میں لکھا ”میں نہیں جانتا اسلامی موسیقی کیا ہوتی ہے“۔ اس کے بعد کراچی سے ایک محترمہ نے وکی پیڈیا پر لکھے کا حوالہ دیا ۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ اس امر کی وضاحت ہو جانی چاہیئے
قرآنی آيات اور احاديث گانے بجانے كے آلات اور موسيقی كی مذمت پر دلالت كرتے ہيں اور انہيں استعمال نہ كرنے كا كہتے ہيں ۔ قرآن مجيد راہنمائی كرتا ہے كہ ايسی اشياء كا استعمال گمراہی اور اللہ تعالٰی كی آيات كو مذاق بنانے كا باعث ہے جيسا كہ اللہ تعالٰی كا فرمان ہے
”اور لوگوں ميں سے كچھ ايسے بھی ہيں جو لغو باتيں خريدتے ہيں تا كہ لوگوں كو بغير علم اللہ كی راہ سے روك سكيں اور اسے مذاق بنائيں ۔ يہی وہ لوگ ہيں جن كے لئے ذلت آميز عذاب ہو گا (سورۃ 13 لقمان آیت 6)“۔
صرف شادى بياہ كے موقع پر دف بجانی جائز ہے اور يہ بھی صرف عورتوں كے لئے خاص ہے كہ وہ آپس ميں دف بجا سكتی ہيں تاكہ نكاح كا اعلان اور سفاح اور نكاح كے مابين تميز ہو سكے اور عورتوں كا آپس ميں دف بجا كر شادى بياہ كے موقع پر گانے ميں كوئی حرج نہيں ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں برائی و منكر پر ابھارا نہ گيا ہو اور نہ ہی عشق و غرام كے كلمات ہوں اور يہ كسی واجب اور فرض كام سے روكنے كا باعث نہ ہو اور اس ميں مرد شامل نہ ہوں بلكہ صرف عورتيں ہی سُنيں اور نہ ہی اعلانيہ اور اونچی آواز ميں ہو كہ پڑوسيوں كو اس سے تكليف اور اذيت ہو اور جو لوگ لاؤڈ سپيكر ميں ايسا كرتے ہيں وہ بہت ہی بُرا كام كر رہے ہيں كيونكہ ايسا كرنا مسلمان پڑوسيوں وغيرہ كو اذيت دينا ہے اور شادى بياہ وغيرہ موقع پر عورتوں كے لئے دف كے علاوہ كوئی اور موسيقی كے آلات استعمال كرنا جائز نہيں مثلاً بانسرى گٹار، سارنگی وغيرہ بلكہ يہ برائی ہے ۔ صرف انہيں دف بجانے كی اجازت ہے ليكن مردوں كے لئے دف وغيرہ ميں سے كوئی بھی چيز استعمال كرنی جائز نہيں ۔ نہ تو شادى بياہ كے موقع پر اور نہ ہی كسی اور موقع پر بلكہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے تو مردوں كے لئے لڑائی كے آلات اور ہُنر سيكھنے مشروع كئے ہيں كہ وہ تير اندازی اور گھڑ سواری اور مقابلہ بازى كريں اور اس كے علاوہ جنگ ميں استعمال ہونے والے دوسرے آلات مثلا ٹينك ہوائی جہاز اور توپ اور مشين گن اور بم وغيرہ جو جھاد فى سبيل اللہ ميں معاون ثابت ہوں ۔ ديكھيں مجموع الفتاوی ابن باز (3/423 و 424)
اور شيخ الاسلام رحمہ اللہ كہتے ہيں کہ يہ علم ميں ركھيں كہ قرون ثلاثہ الاولٰی جو سب سے افضل تھے اس ميں نہ تو سرزمين حجاز ميں اور نہ ہی شام اور يمن ميں اور نہ مصر اور مغرب ميں اور نہ ہی عراق و خراسان كے علاقوں ميں اہل دين اور تقوٰی و زہد اور پارسا و عبادت گزار لوگ اس طرح كی محفل سماع ميں شريك اور جمع ہوتے تھے جہاں تالياں اور شور شرابہ ہوتا، نہ تو وہاں دف بجائی جاتی اور نہ ہی تالی اور سارنگی اور بانسرى بلكہ يہ سب كچھ دوسرى صدی كے آخر ميں بدعت ايجادى كی گئی اور جب آئمہ اربعہ نے اسے ديكھا تو اس كا انكار كيا اور اس سے روكا ۔ ديكھيں مجموع الفتاوى (11/569)
اور رہا ان نظموں اور ترانوں كا جنہيں اسلامی نظموں اور ترانوں كا نام ديا جاتا ہے اور ان ميں موسيقی بھی ہوتی ہے تو اس پر اس نام كا اطلاق اسے مشروع نہيں كرتا بلكہ حقيقت ميں يہ موسيقی اور گانا ہی ہے اور اسے اسلامی نظميں اور ترانے كہنا جھوٹ اور بہتان ہے اور يہ گانے كا بدل نہيں سكتے تو ہمارے لئے يہ جائز نہيں كہ ہم خبيث چيز كو خبيث چيز سے بدل ليں بلكہ ہم تو اچھی اور پاكيزہ چيز كو خبيث اور گندی كی جگہ لائينگے اور انہيں اسلامی سمجھ كر سُننا اور اس سے عبادت كی نيت كرنا بدعت شمار ہو گی جس كی اللہ نے اجازت نہيں دی
تفصیل
اكثر علماء كرام نے لہو الحديث كی تفسير گانا بجانا اور آلات موسيقی اور ہر وہ آواز جو حق سے روكے بيان كی ہے امام طبری ابن ابی الدنيا اور ابن جوزی رحمہم اللہ نے درج ذيل آيت كی تفسير ميں مجاہد رحمہ اللہ كا قول نقل كيا ہے ۔ فرمان باری تعالٰی ہے ”اور ان ميں سے جسے بھی تو اپنی آواز بہكا سكے بہكا لے اور ان پر اپنے سوار اور پيادے چڑھا لا اور ان كے مال اور اولاد ميں سے بھی اپنا شريك بنا لے اور ان كے ساتھ جھوٹے وعدے كر لے اور ان كے ساتھ شيطان كے جتنے بھی وعدے ہوتے ہيں وہ سب كے سب فريب ہيں (سورت 17الاسراء آیت 64 و 65)
مجاہد رحمہ اللہ كہتے ہيں يہ گانا اور آلات موسيقی اور بانسری وغيرہ ہيں اور طبری نے حسن بصری سے ان كا قول نقل كيا ہے كہ اس كی آواز دف ہيں ديكھيں (جامع البيان ۔ 15 / 118-119) ۔ ذم الملاہی ( 33 ) تلبيس ابليس (232 )
اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں ”يہ اضافت تخصيص ہے جس طرح اس کی طرف گھڑ سوار اور پيادے كی اضافت كی گئی ہے چنانچہ ہر وہ كلام جو اللہ تعالٰی كی اطاعت كے بغير ہو اور ہر وہ آواز جو بانسری يا دف يا ڈھول وغيرہ كی ہو وہ شيطان كی آواز ہے”۔ ديكھيں اغاثۃ اللھفان (1 / 252)
امام ترمذی رحمہ اللہ نے ابن ابی ليلی كی سند سے حديث بيان كی ہے وہ عطاء سے بيان كرتے ہيں اور وہ جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالٰی عنہ كے ساتھ نكلے تو ان كا بيٹا ابراہيم موت و حيات
كی كش مكش ميں تھا ۔ رسول كريم صلی اللہ عليہ و سلم نے بيٹے كو گود ميں ركھا تو ان كی آنكھوں سے آنسو بہنے لگے تو عبد الرحمن كہنے لگے ” آپ رونے سے منع كرتے ہيں اور خود رو رہے ہيں ؟“
تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ”ميں رونے سے منع نہيں كرتا بلكہ دو احمق اور فاجر قسم كی آوازوں سے منع كرتا ہوں ۔ ايك تو مزامير شيطان اور موسيقی كے آلات اور نغمہ كے وقت نكالی جانے والی آواز سے اور دوسرى مصيبت كے وقت چہرے پيٹنے اور گريبان پھاڑنے كےساتھ آہ بكا كرنے كی آواز ۔ سنن ترمذی حديث نمبر (1005)
امام ترمذى كہتے ہيں ”يہ حديث حسن ہے اور اسے امام حاكم نے المستدرك (4/43) اور بيہقی نے السنن الكبری (4/69) اور الطيالسی نے مسند الطيالسی حدی نمبر اور امام طحاوی نے شرح المعانی (4/29) ميں نقل كيا ہے اور علامہ البانی نے اسے حسن قرار ديا ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ كہتے ہيں ”اس سے مراد گانا بجانا اور آلات موسيقی ہيں ۔ ديكھيں تحفۃ الاحوذی (4/88)
صحيح حديث ميں نبی كريم صلی اللہ عليہ وسلم كا يہ بھی فرمان ہے ”ميرى امت ميں كچھ لوگ ايسے آئينگے جو زنا اور ريشم اور شراب اور گانا بجانا اور آلات موسيقی حلال كر لينگے اور ايك قوم پہاڑ كے پہلو ميں پڑاؤ كريگی تو ان كے چوپائے چرنے كے بعد شام كو واپس آئينگے اور ان كے پاس ايك ضرورتمند اور حاجتمند شخص آئيگا وہ اسے كہيں گے كل آنا تو اللہ تعالٰی انہيں رات كو ہی ہلاك كر ديگا اور پہاڑ ان پر گرا دے گا اور دوسروں كو قيامت تك بندر اور خنزير بنا كر مسخ كر ديگا
امام بخاری نے اسے صحيح بخاری (10/51) ميں معلقا روايت كيا ہے اور امام بيہقی نے سنن الكبری (3/272) ميں اسے موصول روايت كيا ہے اور طبرانی نے معجم الكبير (3/319) اور ابن حبان نے صحيح ابن حبان (8/265) ميں روايت كيا ہے اور ابن صلاح نے علوم الحديث (32 ) ميں اور ابن قيم نے اغاثۃ اللھفان (255) اور تہذيب السنن (2/1270-272) اور حافظ ابن حجر نے فتح الباری (10/51) اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے سلسلۃ الاحاديث الصحيحۃ (1/140) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح الباری ميں كہتے ہيں ۔ المعازف يہ گانے بجانے كے آلات ہيں اور قرطبی نے جوہری سے نقل كيا ہے كہ معازف گانا ہے اور ان كی صحاح ميں ہے كہ يہ گانے بجانے كے آلات ہيں اور ايك قول يہ بھی ہے كہ يہ گانے كی آوازيں ہيں اور دمياطی كے حاشيہ ميں ہے معازف دف اور ڈھول وغيرہ ہيں جو گانے ميں بجائے جاتے ہيں اور لہو و لعب ميں بجائے جائيں ۔ ديكھيں فتح البارى (10/55) ۔ اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں ۔ اس كی وجہ دلالت يہ ہے كہ معازف سب آلات لہو كو كہا جاتا ہے ۔ اس ميں اہل لغت كے ہاں كوئی اختلاف نہيں اور اگر يہ حلال ہوتے تو اسے حلال كرنے كی بنا پر مذمت نہ كی جاتی اور نہ ہی اس كا حلال كرنا شراب اور زنا كے ساتھ ملايا جاتا ۔ديكھيں اغاثۃ اللہفان (1/256)
اس حديث سے گانے بجانے كے آلات كی حرمت ثابت ہوتی ہے اور اس حديث سے كئی طرح استدلال ہوتا ہے
پہلی وجہ ۔ نبی كريم صلی اللہ عليہ وسلم كا فرمان وہ حلال كر لينگے ۔ يہ اس بات كی صراحت ہے كہ يہ مذكور اشياء شريعت ميں حرام ہيں ۔ تو يہ لوگ انہيں حلال كر لينگے اور ان مذكورہ اشياء ميں معازف يعنی گانے بجانے كے آلات بھی شامل ہيں
دوم ۔ ان گانے بجانے والی اشياء كو ان اشياء كے ساتھ ملا كر ذكر كيا ہے جن كی حرمت قطعی طور پر ثابت ہے ۔ اگر ان معازف اور گانے بجانے والی اشياء كی حرمت ميں اس حديث كے علاوہ كوئی ايك آيت يا حديث نہ بھی وارد ہوتی تو اس كی حرمت كے لئے يہی حديث كافی تھی اور خاص كر اس طرح كے گانے كی حرمت ميں جو آج كل لوگوں ميں معروف ہے ۔ يہ وہ گانے ہيں جس ميں فحش اور گندے قسم كے الفاظ استعمال ہوتے ہيں اور اسے مختلف قسم كی موسيقی و ساز اور طبلے و ڈھول اور سارنگی و بانسری اور پيانو و گِٹار وغيرہ كے ساز پائے جاتے ہيں اور اس ميں آواز ہيجڑوں اور فاحشہ عورتوں كی ہوتی ہے ۔ ديكھيں حكم المعازف للالبانی اور تصحيح الاخطاء و الاوھام الواقعۃ فی فھم احاديث النبی عليہ السلام تاليف رائد صبری (1/176)
اور شيخ ابن باز رحمہ اللہ كہتے ہيں معازف ہی وہ گانے ہيں جن كے متعلق رسول كريم صلی اللہ عليہ وسلم نے يہ خبر دی تھی كہ آخری زمانے ميں كچھ لوگ ايسے آئيں گے جو شراب و زنا اور ريشم كی طرح اسے بھی حلال كر لينگے ۔ يہ حديث علامات نبوت ميں شامل ہوتی ہے كيونكہ يہ سب كچھ واقع ہو چكا ہے اور يہ حديث جس طرح شراب اور زنا اور ريشم كو حلال كرنے والے كی مذمت پر دلالت كرتی ہے ۔ اسی طرح اس كی حرمت اور اسے حلال كرنے والے كی مذمت پر بھی دلالت كرتی ہے ۔ گانے بجانے اور آلات لہو سے اجتناب كرنے والی آيات و احاديث بہت زيادہ ہيں اور جو شخص يہ گمان ركھتا ہے كہ اللہ تعالٰی نے گانا بجانا اور آلات موسيقی مباح كئے ہيں اس نے جھوٹ بولا ہے اور عظيم قسم كی برائی كا مرتكب ہوا ہے ۔ اللہ تعالٰی ہميں شيطان اور خواہشات كی اطاعت سے محفوظ ركھے اور اس سے بھی بڑا اور قبيح جرم تو اسے مباح كہنا ہے ۔ اس ميں كوئی شك و شبہ نہيں كہ يہ اللہ تعالٰی اور اپنے دين سے جہالت ہے ۔ بلكہ يہ تو اللہ تعالٰی اور اس كی شريعت پر جھوٹ بولنے كی جسارت و جراءت ہے
اللہ تعالٰی سے ہم سلامتی و عافيت كی دعا كرتے ہيں
مزيد تفصيل كے لئے آپ درج ذيل كتب كا مطالعہ كريں
تلبيس ابليس (237) المدخل ابن حجاج (3/109) الامر بالاتباع والہنی عن الابتداع للسيوطی ( 99 ) ذم الملاہى ابن ابی الدنيا
الاعلام بان العزف حرام ابو بكر
جزائری تنزيہ الشريعۃ عن الاغانی الخليعۃ
تحريم آلات الطرب للالبانی
واللہ اعلم
الشيخ محمد صالح المنجد
السلام و علیکم
جزاک اللہ ۔۔۔ آج کے دور میں اس قدر عام ہو گیا ہے ہر جگہ موسیقی کا استعمال کہ بچنا بہت مشکل نظر آتا ہے ۔۔۔۔ موسیقی/آلات موسیقی کی اتنی ذیادہ مذمت کے بعد جو لوگ قوالی کی صورت، نعتوں اور مذہبی ترانوں کو موسیقی کے ساتھ عام کر رہے ہیں ان کو بھی اللہ ہدایت دے کہ ایک تو موسیقی اس پر اس کے ساتھ اللہ اور رسولﷺ کا نام استعمال کرنا ۔۔ اللہ ہم پر رحم فرمائے۔
لوگ ایک بڑی معروف بات کہتے ہیں کہ “موسیقی روح کی غذا ہے” میں نے کسی جگہ پڑھا تھا اس کے جواب میں کہ “موسیقی بدروحوں کی غذا ہو سکتی ہے”
سیما آفتاب صاحبہ
موبائل فون کمپنی کے روزانہ پیغام آتے ہین اسلامی ٹیونز ۔ ۔ ۔ ۔ میں دیکھتے ہی حذف کر دیتا ہون ۔ مزید میرے خیال کے مطابق نعت یا حمد پڑھنا درست ہے لیکن اِنہیں گانا قبیح ہے ۔ دیگر ایسی نعتیں بنا لی گئی ہیں جنہیں پڑھنے سے آدمی بھٹک سکتا ہے
جناب افتخار اجمل صاحب،
السلام وعلیکم،
یقینا اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اسلام میں موسیقی کا کوئی تصور نہیں۔
میں نے بھی اذان کا اثروالی پوسٹ کے جواب میں یہی لکھا تھا۔
کہ اسلام میں موسیقی کا کوئی کانسیپٹ یا وجود نہیں۔
جہاں تک وکی پیڈیا کا حوالہ دینے کا تعلق ہے وہ میں نے گوروں کے حوالے
سے دیا تھا کہ گورا اسلامی موسیقی کی اصطلاح کن چیزوں کے لئے استعمال
کرتا ہے ۔
اس کا مطلب قطعا نہ تھا کہ میں گورے کی بات سے متفق ہوں۔
گورا صوفیانہ کلام اور حمدو نعت کو اسلامی موسیقی کہتا اور سمجھتا ہے۔
ضروری نہیں کہ میں بھی یہی سمجھتی ہوں۔
میری ناقص معلومات کہتی ہیں کہ اسلام موسیقی کو حرام قرار دیتا ہے
اور ہمارے نبی نے اس سے منع فر مایا۔
ان کا منع فرمانا ہمارے لئے کافی ہے کہ اس سے باز رہیں۔
بینائی صاحبہ
جیسا آپ نے وِکی پِیڈِیا پر دیکھا دوسرے بہت سے لوگوں نے بھی دیکھا ہو گا ۔ میں نے یہ تحریر اسلئے لکھی کہ دوسرے دیکھنے والے اصل صورتِ حال سے واقف ہو جائیں
جناب افتخار اجمل صاحب،
میں آپ کے اس پوسٹ سے سو فیصد متفق ہوں۔
جناب محترم
افتخار اجمل صاحب
سلامِ مسنون
موسیقی کے جائز یا ناجائز ہونے پر مسلم امہ کے علما کی رائے ایک سی نہیں ان میں کافی اختلاف ہے. میں معافی چاہتے ہوئے عرض کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے صرف ایک طبقہ کی نمائیندگی پیش کی ہے. موسیقی کے حرام ہونے پر آپ کے پیش کردہ دلائل سے میں متفق نہیں کیونکہ بیشتر ضعیف حوالوں کو آپ نے کوٹ کیا ہے. ایک موسیقی ہی نہیں ضعیف حدیثوں کے چلن نے مذہب کے نام پر معاشرے میں بیجا شدت پسندی کو فروغ دیا ہے.
میری محترم بہنوں محترمہ سیما آفتاب صاحبہ و محترمہ بینا بہن صاحبہ کے تبصرے صرف ایک طبقہ کی نمائیندگی ہوئی. جبکہ دوسرے فریق کے پاس بھی مضبوط دلائل موجود ہیں. دونوں گروہوں کے دلائل پیش قدمت ہیں اور فیصلہ آپ کا.
Qte
Given that your objection revolves mainly around music and why music is not permissible, here is the clarification for that in the light of fatwa issued by Sheikh Yusuf Al-Qaradawi :
The whole issue of singing is controversial, whether it is with musical accompaniment or not. Some issues succeeded to gain the Muslim scholars’ agreement, while others failed. All scholars have unanimous view on the prohibition of all forms of singing and music that incites debauchery, indecency, or sin. As for musical instruments, given the weakness of the evidence indicating that they are forbidden, the rule to be applied here is the one states that all things are originally deemed permissible as long as there is no Shari`ah text that prohibits them.
Singing is no more than melodious words; if these are good, singing is considered good; but if they are bad, such singing is deemed bad. Talk that contains forbidden content is prohibited. What if that talk is accompanied with rhythm and melody?
Scholars agree on the permissibility of singing without instrumental accompaniment and where the content is not prohibited. This sort of singing is allowed only in certain occasions such as: weddings, feasts, welcoming a traveler, and the like. This is based on the hadith of the Prophet (peace and blessing be upon him) that states: “He (peace and blessings be upon him) asked, ‘Have you given the girl (i.e., the bride) anything as a present?’ They (the attendants) replied, ‘Yes.’ He asked, ‘Did you send a singer along with her?’ ‘No’, said `A’ishah. The Prophet (peace and blessings be upon him) then said, ‘The Ansar are a people who love poetry. You should have sent along someone who would sing: Here we come, to you we come, greet us as we greet you.’” In this case, we can say that a woman can sing only in front of women and her non-marriageable male kin.
In the subject of musical instruments, scholars disagree on the matter. Some of them permit all sorts of singing, be it accompanied with musical instruments or not, and even consider it recommended. A second group of scholars permit singing only when is not accompanied with a musical instrument. A third group declare it to be prohibited whether it be accompanied with a musical instrument or not; they even consider it as a major sin. In supporting their view, they cite the hadith narrated by Imam Al-Bukhari on the authority of Abu Malik or Abu `Amir Al-Ash`ari (doubt from the sub-narrator) that the Prophet (peace and blessings be upon him) said, ‘From among my followers there will be some people who will consider illegal sexual intercourse, the wearing of silk (clothes), the drinking of alcoholic drinks and the use of musical instruments, as lawful.’ Although this hadith is in Sahih Al-Bukhari, its chain of transmission is not connected to Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him) and this invalidates its authenticity. Ibn Hazm rejects it for that very reason. Moreover, the sub-narrator, Hisham Ibn `Ammar is declared ‘weak’ by many scholars of the Science of Hadith Methodology.
Besides, this hadith does not clearly prohibit the use of musical instruments, for the phrase ‘consider as lawful,’ according to Ibn Al-`Arabi, has two distinct meanings:
First : Such people think all these (the things mentioned) are lawful.
Second : They exceed the proper limits that should be observed in using these instruments. If the first meaning is intended, such people would be thus disbelievers.
In fact, the hadith in hand dispraises the manners of a group of people who indulge themselves in luxuries, drinking alcohol and listening to music. Therefore, Ibn Majah narrates this hadith from Abu Malik Al-Ash`ari in the following wording: “From among my followers there will be some people who will drink wine, giving it other names while they listen to musical instruments and the singing of female singers; Allah the Almighty will make the earth swallow them and will turn them into monkeys and pigs.” (Reported by Ibn Hibban in his Sahih )
Conclusion on Permissibility of Musical Instruments
In the light of the above, it is clear that the religious texts that stand as a basis for those who maintain that singing is haram are either ambiguous or inauthentic. None of the hadiths attributed to Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him) is valid as evidence on the judgment of prohibition. Moreover, all these hadiths are declared ‘weak’ by the followers of Ibn Hazm, Malik, Ibn Hanbal, and Ash-Shafi`i.
In his book, Al-Ahkam , Al-Qadi Abu Bakr Ibn Al-`Arabi says, “None of the hadiths maintaining that singing is prohibited are considered authentic (by the scholars of the Science of Hadith Methodology).” The same view is maintained by Al-Ghazali and Ibn An-Nahwi in Al-`Umdah . Ibn Tahir says, “Not even a single letter from all these Hadiths was proved to be authentic.”
Ibn Hazm says, “All the hadiths narrated in this respect were invented and falsified.”
Proofs of Those Who Maintain that Singing is Halal :
First : The Textual Proofs:
They base their argument on some authentic hadiths of Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him). One of these hadiths is the following:
`A’ishah (may Allah be pleased with her) narrated: “Allah’s Messenger (peace and blessings be upon him, came to my house while two girls were singing beside me the songs of Bu`ath (a story about the pre-Islamic war between the two tribes of the Ansar, the Khazraj and the Awus). The Prophet (peace and blessings be upon him) laid down and turned his face to the other side. Then Abu Bakr came and spoke to me harshly saying, ‘Musical instruments of Satan near the Prophet (peace and blessings be upon him)?’ Thereupon, Allah’s Messenger (peace and blessings be upon him) turned his face towards him and said, ‘Leave them.’ When Abu Bakr became inattentive, I signaled to those girls to go out and they left.” (Reported by Al-Bukhari)
This indicates that these two girls were not so young as claimed by some scholars. If they were, Abu Bakr would not have been angry with them in such manner. In addition, in this hadith, the Prophet (peace and blessings be upon him) wanted to teach the Jews that Islam has room for merriment and that he himself was sent with a moderate and flexible legislation. There is also another important lesson to learn here. It draws our attention to the fact that one needs to introduce Islam to others in a good fashion, along with displaying its moderateness and magnanimity.
Moreover, we can also cite as corroborating this Allah’s words that read, “But when they spy some merchandise or pastime they break away to it and leave thee standing. Say: That which Allah hath is better than pastime and than merchandise, and Allah is the best of providers.” (Al-Jumu`ah: 11)
In this verse, Allah Almighty joins pastime with merchandise. He does not dispraise any of them, He just only rebuked the Companions who left Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him) alone giving the khutbah (Friday Sermon), when they all rushed to attend to the caravan and beating of the drums celebrating its arrival.
Second : In Respect of Islam’s Spirit and Basics:
It is a fact that Allah had prohibited for the Children of Israel some of the good things of this worldly life as a punishment for their misdeeds.
He says, “Because of the wrongdoing of the Jews, We forbade them good things which were (before) made lawful unto them, and because of their much hindering from Allah’s way. And of their taking usury when they were forbidden it, and of their devouring people’s wealth by false pretences. We have prepared for those of them who disbelieve a painful doom.” (An-Nisa’: 160-161)
Before sending Prophet Muhammad, He Almighty referred to him in the earlier scriptures as, “Those who follow the Messenger, the Prophet who can neither read nor write, whom they will find described in the Torah and the Gospel (which are) with them. He will enjoin on them that which is right and forbid them that which is wrong. He will make lawful for them all good things and prohibit for them only the foul.” (Al-A`raf: 157)
Thus, Islam left nothing good or sound but declared it to be halal (lawful). This is a sign of mercy to this Ummah (nation or community), moving along the line of its comprehensive and eternal message. Allah Almighty says, “They ask you (O Muhammad) what is made lawful for them. Say: (all) good things are made lawful for you.” (Al-Ma’idah: 4)
If we are to delve deeply into this matter, we will find that love for singing and melodic voices are almost a human instinct. We can observe an infant lying in his cradle soothed and sleeping by the sound of a lullaby. Mothers and nannies are always in the habit of singing for babies and children. Moreover, birds and animals respond to nice voices and rhythmic melodies.
Thereupon, if singing is thus a human instinct, it is not for Islam to defy humankind’s instincts. Islam came to refine and promote the human instinct. Ibn Taymyiah says, “Prophets were sent to polish and discipline man’s instinct and not to change or modify it.” This is pursuant to the hadith that reads, “When Allah’s Messenger came to Madinah, he found them (i.e., the people of Madinah) celebrating two days. He said, ‘What are these days?’ They replied, ‘We used to rejoice in these days during the pre-Islamic era.’ He (peace and blessings be upon him) said, ‘Verily, Allah Almighty has given you two alternative days which are much better: these are Al-Adha and Al-Fitr days (`Eids).’ ” (Reported by Ahmad, Abu Dawud and An-Nasa’i)
Moreover, if singing is to be considered rejoicing and play, these are not haram ; this is in pursuant to the famous idea that man needs some time to relax a bit and rejoice. The Prophet (peace and blessings be upon him) said to Hanzalah who thought himself to be a hypocrite for his attendance to his wife and children and the change that affected him when he was apart from Allah’s Prophet (peace and blessings be upon him), “O Hanzalah! Part of your time should be devoted (to the worldly affairs) and part of time (should be devoted to prayer and meditation).” (Reported by Muslim)
`Ali Ibn Abu Talib says, “Amuse yourselves for some time, for if hearts are exposed to too much strain, they turn blind.”
Abu Ad-Darda’ said, “I refresh myself with some amusement in order to make myself stronger on the path of right.”
Imam Al-Ghazali answered someone who asked him: “Isn’t singing some kind of play and rejoice?” He said, “Yes. But, all that exists in this present life is mere play and rejoice. All that takes place between a husband and his wife is play, except sexual intercourse that is the direct cause of reproducing children. This has been reported from Allah’s Messenger and his honorable Companions.”
In fact, leisure time is refreshing to the heart and alleviates its tensions at the same time. Excessive strain and efforts render the heart bored and blind. Amusing the self refreshes and renews its strength and vigor. One who continuously works hard at something should take a break for a while in order to restore and regain his energy and firm will lest he totally collapses in future. When one takes a break, he thus restores his strength and vigor. Only Prophets can stand absolute seriousness. Having leisure time is a form of treatment for diseases of the self, weariness and boredom. But, leisure should not be excessive. This will go against the whole issue of rejoicing hearts to make them able to go on.
One who is familiar with and experienced in the nature of the human heart and self knows for certain that recreation and relaxation are necessary treatments for one’s well-being.
On Music – Fatwa by Shaykh Yusuf al-Qaradawi
Given that your objection revolves mainly around music and why it is permissible, here is the clarification for that in the light of fatwa issued by Sheikh Yusuf Al-Qaradawi :
The whole issue of singing is controversial, whether it is with musical accompaniment or not. Some issues succeeded to gain the Muslim scholars’ agreement, while others failed. All scholars have unanimous view on the prohibition of all forms of singing and music that incites debauchery, indecency, or sin. As for musical instruments, given the weakness of the evidence indicating that they are forbidden, the rule to be applied here is the one states that all things are originally deemed permissible as long as there is no Shari`ah text that prohibits them.
Singing is no more than melodious words; if these are good, singing is considered good; but if they are bad, such singing is deemed bad. Talk that contains forbidden content is prohibited. What if that talk is accompanied with rhythm and melody?
Scholars agree on the permissibility of singing without instrumental accompaniment and where the content is not prohibited. This sort of singing is allowed only in certain occasions such as: weddings, feasts, welcoming a traveler, and the like. This is based on the hadith of the Prophet (peace and blessing be upon him) that states: “He (peace and blessings be upon him) asked, ‘Have you given the girl (i.e., the bride) anything as a present?’ They (the attendants) replied, ‘Yes.’ He asked, ‘Did you send a singer along with her?’ ‘No’, said `A’ishah. The Prophet (peace and blessings be upon him) then said, ‘The Ansar are a people who love poetry. You should have sent along someone who would sing: Here we come, to you we come, greet us as we greet you.’” In this case, we can say that a woman can sing only in front of women and her non-marriageable male kin.
In the subject of musical instruments, scholars disagree on the matter. Some of them permit all sorts of singing, be it accompanied with musical instruments or not, and even consider it recommended. A second group of scholars permit singing only when is not accompanied with a musical instrument. A third group declare it to be prohibited whether it be accompanied with a musical instrument or not; they even consider it as a major sin. In supporting their view, they cite the hadith narrated by Imam Al-Bukhari on the authority of Abu Malik or Abu `Amir Al-Ash`ari (doubt from the sub-narrator) that the Prophet (peace and blessings be upon him) said, ‘From among my followers there will be some people who will consider illegal sexual intercourse, the wearing of silk (clothes), the drinking of alcoholic drinks and the use of musical instruments, as lawful.’ Although this hadith is in Sahih Al-Bukhari, its chain of transmission is not connected to Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him) and this invalidates its authenticity. Ibn Hazm rejects it for that very reason. Moreover, the sub-narrator, Hisham Ibn `Ammar is declared ‘weak’ by many scholars of the Science of Hadith Methodology.
Besides, this hadith does not clearly prohibit the use of musical instruments, for the phrase ‘consider as lawful,’ according to Ibn Al-`Arabi, has two distinct meanings:
First : Such people think all these (the things mentioned) are lawful.
Second : They exceed the proper limits that should be observed in using these instruments. If the first meaning is intended, such people would be thus disbelievers.
In fact, the hadith in hand dispraises the manners of a group of people who indulge themselves in luxuries, drinking alcohol and listening to music. Therefore, Ibn Majah narrates this hadith from Abu Malik Al-Ash`ari in the following wording: “From among my followers there will be some people who will drink wine, giving it other names while they listen to musical instruments and the singing of female singers; Allah the Almighty will make the earth swallow them and will turn them into monkeys and pigs.” (Reported by Ibn Hibban in his Sahih )
Conclusion on Permissibility of Musical Instruments
In the light of the above, it is clear that the religious texts that stand as a basis for those who maintain that singing is haram are either ambiguous or inauthentic. None of the hadiths attributed to Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him) is valid as evidence on the judgment of prohibition. Moreover, all these hadiths are declared ‘weak’ by the followers of Ibn Hazm, Malik, Ibn Hanbal, and Ash-Shafi`i.
In his book, Al-Ahkam , Al-Qadi Abu Bakr Ibn Al-`Arabi says, “None of the hadiths maintaining that singing is prohibited are considered authentic (by the scholars of the Science of Hadith Methodology).” The same view is maintained by Al-Ghazali and Ibn An-Nahwi in Al-`Umdah . Ibn Tahir says, “Not even a single letter from all these Hadiths was proved to be authentic.”
Ibn Hazm says, “All the hadiths narrated in this respect were invented and falsified.”
Proofs of Those Who Maintain that Singing is Halal :
First : The Textual Proofs:
They base their argument on some authentic hadiths of Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him). One of these hadiths is the following:
`A’ishah (may Allah be pleased with her) narrated: “Allah’s Messenger (peace and blessings be upon him, came to my house while two girls were singing beside me the songs of Bu`ath (a story about the pre-Islamic war between the two tribes of the Ansar, the Khazraj and the Awus). The Prophet (peace and blessings be upon him) laid down and turned his face to the other side. Then Abu Bakr came and spoke to me harshly saying, ‘Musical instruments of Satan near the Prophet (peace and blessings be upon him)?’ Thereupon, Allah’s Messenger (peace and blessings be upon him) turned his face towards him and said, ‘Leave them.’ When Abu Bakr became inattentive, I signaled to those girls to go out and they left.” (Reported by Al-Bukhari)
This indicates that these two girls were not so young as claimed by some scholars. If they were, Abu Bakr would not have been angry with them in such manner. In addition, in this hadith, the Prophet (peace and blessings be upon him) wanted to teach the Jews that Islam has room for merriment and that he himself was sent with a moderate and flexible legislation. There is also another important lesson to learn here. It draws our attention to the fact that one needs to introduce Islam to others in a good fashion, along with displaying its moderateness and magnanimity.
Moreover, we can also cite as corroborating this Allah’s words that read, “But when they spy some merchandise or pastime they break away to it and leave thee standing. Say: That which Allah hath is better than pastime and than merchandise, and Allah is the best of providers.” (Al-Jumu`ah: 11)
In this verse, Allah Almighty joins pastime with merchandise. He does not dispraise any of them, He just only rebuked the Companions who left Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him) alone giving the khutbah (Friday Sermon), when they all rushed to attend to the caravan and beating of the drums celebrating its arrival.
Second : In Respect of Islam’s Spirit and Basics:
It is a fact that Allah had prohibited for the Children of Israel some of the good things of this worldly life as a punishment for their misdeeds.
He says, “Because of the wrongdoing of the Jews, We forbade them good things which were (before) made lawful unto them, and because of their much hindering from Allah’s way. And of their taking usury when they were forbidden it, and of their devouring people’s wealth by false pretences. We have prepared for those of them who disbelieve a painful doom.” (An-Nisa’: 160-161)
Before sending Prophet Muhammad, He Almighty referred to him in the earlier scriptures as, “Those who follow the Messenger, the Prophet who can neither read nor write, whom they will find described in the Torah and the Gospel (which are) with them. He will enjoin on them that which is right and forbid them that which is wrong. He will make lawful for them all good things and prohibit for them only the foul.” (Al-A`raf: 157)
Thus, Islam left nothing good or sound but declared it to be halal (lawful). This is a sign of mercy to this Ummah (nation or community), moving along the line of its comprehensive and eternal message. Allah Almighty says, “They ask you (O Muhammad) what is made lawful for them. Say: (all) good things are made lawful for you.” (Al-Ma’idah: 4)
If we are to delve deeply into this matter, we will find that love for singing and melodic voices are almost a human instinct. We can observe an infant lying in his cradle soothed and sleeping by the sound of a lullaby. Mothers and nannies are always in the habit of singing for babies and children. Moreover, birds and animals respond to nice voices and rhythmic melodies.
Thereupon, if singing is thus a human instinct, it is not for Islam to defy humankind’s instincts. Islam came to refine and promote the human instinct. Ibn Taymyiah says, “Prophets were sent to polish and discipline man’s instinct and not to change or modify it.” This is pursuant to the hadith that reads, “When Allah’s Messenger came to Madinah, he found them (i.e., the people of Madinah) celebrating two days. He said, ‘What are these days?’ They replied, ‘We used to rejoice in these days during the pre-Islamic era.’ He (peace and blessings be upon him) said, ‘Verily, Allah Almighty has given you two alternative days which are much better: these are Al-Adha and Al-Fitr days (`Eids).’ ” (Reported by Ahmad, Abu Dawud and An-Nasa’i)
Moreover, if singing is to be considered rejoicing and play, these are not haram ; this is in pursuant to the famous idea that man needs some time to relax a bit and rejoice. The Prophet (peace and blessings be upon him) said to Hanzalah who thought himself to be a hypocrite for his attendance to his wife and children and the change that affected him when he was apart from Allah’s Prophet (peace and blessings be upon him), “O Hanzalah! Part of your time should be devoted (to the worldly affairs) and part of time (should be devoted to prayer and meditation).” (Reported by Muslim)
`Ali Ibn Abu Talib says, “Amuse yourselves for some time, for if hearts are exposed to too much strain, they turn blind.”
Abu Ad-Darda’ said, “I refresh myself with some amusement in order to make myself stronger on the path of right.”
Imam Al-Ghazali answered someone who asked him: “Isn’t singing some kind of play and rejoice?” He said, “Yes. But, all that exists in this present life is mere play and rejoice. All that takes place between a husband and his wife is play, except sexual intercourse that is the direct cause of reproducing children. This has been reported from Allah’s Messenger and his honorable Companions.”
In fact, leisure time is refreshing to the heart and alleviates its tensions at the same time. Excessive strain and efforts render the heart bored and blind. Amusing the self refreshes and renews its strength and vigor. One who continuously works hard at something should take a break for a while in order to restore and regain his energy and firm will lest he totally collapses in future. When one takes a break, he thus restores his strength and vigor. Only Prophets can stand absolute seriousness. Having leisure time is a form of treatment for diseases of the self, weariness and boredom. But, leisure should not be excessive. This will go against the whole issue of rejoicing hearts to make them able to go on.
One who is familiar with and experienced in the nature of the human heart and self knows for certain that recreation and relaxation are necessary treatments for one’s well-being.
These proofs on the permissibility of singing are extracted from the texts and rules of Islam, and these are sufficient to clarify the issue.
In addition to this, the people of Madinah, who were very pious and God-fearing, the Zahiriyyah, who were very literal regarding the textual proofs, and the Sufis, who were very strict and rigid, were all quoted to have declared the permissibility of singing.
Imam Ash-Shawkani says in his book “ Nayl Al-Awtar ”, “The people of Madinah and those who agreed with them from among the Zahiriyyah and the Sufis maintain that singing is permissible, even when it is accompanied by a musical instrument such as the lute or the flute. Abu Mansur Al-Bughdadi Ash-Shafi`i narrate that `Abdullah Ibn Ja`far saw nothing wrong in singing, and he, himself, used to compose the music for his own slaves who used to sing these melodies in his presence. This took place during the time of Commander of the Faithful, `Ali Ibn Abi Talib. Abu Ja`far Al-Bughdadi narrates the same after Al-Qadi Shurayh, Sa`id Ibn Al-Musaiyb, `Ata’ Ibn Abu Rabah, Az-Zuhri and Ash-Shi`bi.”
Ar-Ruwaiyani narrates on the authority of Al-Qaffal that Malik Ibn Anas maintained that singing with musical instruments is permissible. Also, Abu Mansur Al-Furani quotes Malik as maintaining that playing the flute is permissible.
Abu Al-Fadl Ibn Tahir narrates, “The people of Madinah never disputed over the permissibility of playing the lute.”
Ibn An-Nahwi narrates in his “ Al-`Umdah ”: “Ibn Tahir said, ‘The people of Madinah showed consensus over this (issue). Also, all the Zahiriyyah maintained the same.’”
Al-Mawardi attributes the permissibility of playing the lute to some of the Shafi`i followers and students. This has been narrated also by Abu Al-Fadl Ibn Tahir after Abu Ishaq Ash-Shirazi; and it is narrated by Al-Isnawi after Ar-Ruwaiyani and Al-Mawardi. Again, this is narrated by Al-Adfuwi after Sheikh `Izz Ad-Deen Ibn `Abd As-Salam. It is also narrated after Abu Bakr Ibn Al-`Arabi.
All these scholars consider singing that is accompanied by musical instruments permissible, but as for singing that is not accompanied by musical instruments, Al-Adfuwi says, “In some of his jurisprudence-related books, Al-Ghazali narrates the consensus of the scholars on its permissibility.” Also, Ibn Tahir narrates the consensus of the Prophet’s Companions and those who succeeded them on this very topic. Ibn An-Nahwi states in Al-`Umdah that singing and listening was deemed permissible by a group of the Companions and the Followers.
Conditions and Terms:
There are some conditions and terms that should be observed regarding listening to singing, as follows:
1. Not all sorts of singing are permissible. Rather, the permissible song should comply with the Islamic teachings and ethics. Therefore, the songs praising the tyrants and corrupt rulers disagree with Islamic teachings. In fact, Islam stands against transgressors and their allies, and those who show indifference to their transgression. So, the same goes for those songs that imply giving praises to such attitude!
2. Also, the way the song is performed weighs so much. The theme of the song may be good, but the performance of the singer – through intending excitement and arousing others’ lusts and desires along with trying to seduce them – may move it to the area of prohibition, suspicion or even detest. The Glorious Qur’an addresses the wives of Prophet Muhammad (peace and blessings be upon him) saying, “O you wives of the Prophet! You are not like any other women. If you keep your duty (to Allah), then be not soft of speech, lest he in whose heart is a disease aspire (to you), but utter customary speech.” (Al-Ahzab: 32) So, one has to show caution to music when there is softness of speech accompanied with rhyme, melody, and special effects!
3. Singing should not be accompanied with something that is prohibited such as alcohol, nakedness, mixing of men with women that is common in pubs and nightclubs, etc.
4. Islam has declared excessiveness as prohibited in everything. The same goes for excessiveness in leisure and recreation even though these things are permissible ! This indicates that the emptiness of the mind and heart has to be observed and tackled during man’s short-term life. One should know that Allah Almighty will ask every one about his life and his youth in particular.
There are some things in which one is to be his own judge and Mufti. If there is some kind of singing that arouses his own lust or desire, and takes him away from the real life, he should avoid it then and block that very gate from which the winds of trial and seduction may come and erase his religion, morals and heart. If he does this, he will live in peace and tranquility.
Warning against playing with the word “ haram ”
To conclude, we address the respectful scholars who tackle the word “ haram ” easily and set it free in their writings and fatwas that they should observe that Allah is watching over them in all that they say or do. They should also know that this word “ haram ” is very dangerous. It means that Allah’s Punishment is due on a certain act or saying, and should not be based upon guessing, whims, weak Hadiths, not even through an old book. It has to be supported by a clear, well-established text or valid consensus. If these last two are not found, then we revert the given act or saying to the original rule: “permissibility governing things”. We do have a good example to follow from one of our earlier pious scholars. Imam Malik (may Allah be pleased with him) who said: “It was not the habit of those who preceded us, the early pious Muslims, who set good example for the following generations, to say, ‘This is halal , and this is haram . But, they would say, ‘I hate such-and-such, and maintain such-and-such, but as for halal and haram , this is what may be called inventing lies concerning Allah. Did not you hear Allah’s Statement that reads, ‘Say: Have you considered what provision Allah has sent down for you, how you have made of it lawful and unlawful? Say: Has Allah permitted you, or do you invent a lie concerning Allah?” (Yunus: 59) For, the halal is what Allah and His Messenger made lawful, and the haram is what Allah and His Messenger made unlawful.
Source: Shaykh Qaradawi, Halal wal-Haram fil-Islam.
Unqte
Nazneen Khan
نازنین خان صاحبہ
آپ نے جو تاویل نقل کی ہے ایسی تاویلیں میری نظر سے گذری ہیں ۔ میں صرف دین اسلام کا پیروکار ہوں جو اللہ نے اپنے رسول سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے ذریعہ ہم تک پہنچایا ۔ میرے عِلم یا مطالعہ کی بنیاد وہ فقیہ یا مجتہد ہیں جن کی استدلال کے بالترتیب چار ماخذ یا ذرائع ہیں (1) قرآن حکیم (2) سنت (3) اجماع (4) قیاس ۔ سُنّت کی بھی تین اقسام ہیں (1) سنت قولی (2) سنت فعلی (3) سنت تقریری یا اقراری ۔ اہلِ سُنّت کے چار مذاہب ہیں (1) ابوحنیفہ نعمان ابن ثابت ۔ وفات 150 ھ (2) مالک ابن انس ۔ وفات 179 ھ (3) شافعی محمد بن ادریس ۔ وفات 204 ھ (4) احمد بن حنبل ۔ وفات 240 ھ
چھ دہائیوں سے زیادہ عرصہ پر محیط مطالعہ کے باوجود میں جو کچھ قرآن و حدیث صحیحہ میں ہے اور جو متذکرہ بالا چار فقیہا نے اجتہاد کے بعد لکھا اُسی پر عبور حاصل نہیں کر پایا ہوں کسی اور کی کیا بات کروں
آپ نے طبقے کی بات کی ہے ۔ طبقات یا فرقہ بندی ہی نے دین اسلام کا حُلیہ بگاڑا ہوا ہے اور جگ ہنسائی کا بھی موجب ہیں ۔ دین اسلام کے حوالے سے تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہو گا کہ دین میں طبقات کا دور 300 ھجری کے بعد شروع ہوتا ہے ۔ کیا یہ سمجھ لیا جائے کہ پہلی تین صدیوں کے جو فقیہ اور مُجتحد تھے وہ بھاری قسم کی کمی چھوڑ گئے تھے ؟ معذرت خواہ ہوں کہ میں ایک شریعت کو چھوڑ کر کئی سے نپٹنے کی طاقت نہیں رکھتا ۔ ایک بات مدِ نظر رہے کہ گانے اور پڑھنے میں فرق ہوتا ہے ۔ حمد و ثنا پڑھنے یا لکھنے سے منع نہیں کیا گیا بشرطیکہ اس میں اللہ کی مقرر کردہ حدود کی پابندی کی گئی ہو . البتہ گانا منع ہے ۔ اللہ ہمیں سیدھی راہ دکھائے. باقی ان شاء اللہ شام کو لکھوں گا
محترمی
سلام مسنون
میرے کمنٹس کے جواب میں آپ نے اوپر جو کچھ لکھا وہ کوئی جواب نہ ہوا. یا تو آپ احادیث کی اقسام کو نہیں جانتے اور نہیں مانتے اور ان میں فرق کو تسلیم نہیں کرتے. یا پھر یہ کہیئے آپ ضعیف منکر صحیح کے چکّر میں نہیں پڑنا چاہتے اور آپ کے نزدیک احادیث کی تمام اقسام جن میں …
مرفوع
موقوف
آحاد
متواتر
مقبول
حسن
صحیح
غیر مقبول
ضعیف
معلق
منقطع
مرسل
معضل
موضوع
متروک
شاذ
منکر
سب کے سب ایک ہی ہیں ان میں کوئی فرق نہیں تو بات یہیں ختم کیجیئے بے کار کی بحث سے کوئی فائدہ نہیں.
معافی چاہتے ہوئے آپ سے ایک بات اور کہنا چاہتی ہوں کہ جب بات کسی بھی ٹاپک پر ہورہی ہو آپ اسی ٹاپک پر قائم رہیئے اِدھر اُدھر ہوکر اپنے تجربات نہ پیش کیجیئے. ورنہ اس کے معنیٰ “میں نہ مانوں” کے ہو جائینگے. میرا اشارہ آپ کے تازہ مضمون پر ہے جس میں آپ نے بند باندھا ہے “میں نہ مانوں” کہہ کر. آپ کا یہ فعل اصل بات سے توجہ ہٹانا شمار ہوگا..
نازنین خان
نازنین خان صاحبہ
آپ کے بعد دوپہر 4 بج کر 17 منٹ پر لکھے تبصرے کے سلسلے میں عرض ہے کہ آپ کا عِلم بہت زیادہ ہے اور میں طالب علم ہوں اسلئے صرف اتنا ہی لکھتا ہوں جتنا عِلم میں اپنی 76 سالہ زندگی میں حاصل کر سکا ہوں
قبل دوپہر ایک انتہائی ضروری کام کی وجہ سے میں نے اپنا جواب نامکمل شائع کر دیا تھا ۔ اب اسے پورا کر رہا ہوں ۔ میں الفقہ علی المذاھب الأربعہ ۔ المؤلف عبد الرحمن الجزيری سے استفادہ حاصل کرتا ہوں جو میرے پاس 1984ء سے ہے ۔ یہ چار موٹی موٹی کتابون پر مُشتمل ہے ۔ گو میری متذکرہ تحریر الفقہ علی المذاھب الأربعہ سے نقل نہیں گئی لیکن اسی کے مطابق ہے ۔ عبد الرحمن الجزيری صاحب 1882ء میں مصر میں پیدا ہوئے ۔ 1896ء سے 1909ء تک جامعہ الازہر میں تعلیم پانے کے بعد جامعہ الازہر میں اُستاد مقرر ہوئے ۔ 1912ء میں منسٹری آف رِلیِجِیئس انڈومنٹ کے محکمہءِ مساجد کے اِنسپیکٹر مقرر ہوئے ۔ پھر چیف اِنسپیکٹر کے عہدے پر ترقی پائی ۔ پھر الازہر کالج آف پرنسیپلز آف رِیلِیجِیئن کے پروفیسر مقرر ہوئے جس کے بعد وہ الازہر کمیٹی آف سِینیئر سکالرز کے رُکن بنائے گئے تھے ۔ جامعہ الازہر مصر کے ایک عظیم پروفیسر تھے ۔ 1941ء میں وفات پائی
يوسف القرضاوی صاحب جن کا حوالہ آپ نے دیا ہے 9 ستمبر 1926ء کو مصر میں پیدا ہوئے تھے ۔ 1953ء میں جامعہ الازہر سے اِسلامِک تھیالوجی میں گریجوئیشن کی ۔ 1960 میں اصولِ دین میں ماسٹرز کیا ۔ 1973ء میں زکات اور اس کے سماجی مسائل پر اثرات لکھے تھیسس کی بنیاد پر پی ایچ ڈی حاصل کی ۔ 1977ء میں قطر کی یونیورسٹی کے ڈین بنے ۔ یہ حقیقت مدِ نظر رہے کہ 1956ء میں مصر میں جمال عبدالناصر کی حکمرانی شروع ہوئی جو کہ سوشلِسٹ تھا ۔ اب ڈاکٹر يوسف القرضاوی صاحب کے خاص خاص فتوے ۔ میں اِن فتووں کا ترجمہ اس خدشے کے تحت نہیں کر رہا کہ کہیں اِن کی رُوح تبدیل نہ ہو جائے ۔ اور اسلئے بھی کہ آپ اُردو کی نسبت انگریزی میں زیادہ دسترس رکھتی ہیں
Sheikh Al-Qaradawi has layed to waste and caused to die the creed of loyalty and disownment (al-walaa al-baraa) with respect to the Kuffaar.
He said about the Christians, “Then all of the affairs are shared between us since we are the sons of a single land, our destination is the same and our Ummah is one. I say about them, ‘Our Christian brothers’ and some people reject this from me and say how can I say that they are our Christian brothers? [Allaah says] “Verily the Believers are but a single brotherhood”. Yes, we are believers and they are believers from another angle”. (Programme for Sharee’ah and Life, in the lecture Non-Muslims in Light of the Sharee’ah, dated 12/10/97 in Qunaat.) And the lectures and books of this man are replete with this theme, such as what occurs in his book ‘Fataawaa al-Mu’aasarah’, ‘al-Khasaa’is al-Aammah lil-Islaam’ and Malaamih al-Mujta’ma’ al-Muslim’. Likewise, he also fills many of his da’wah programmes with this theme as is well known. Compare this with the saying of Allaah, the Most High, “You will not find anyone who believes in Allaah and the Last day showing friendship for those who resist and oppose Allaah and His Messenger, even if they be their fathers or their sons or their brothers or their kindred…” (Al-Mujadilah 58:22)
He also said in the same gathering, “the Copts (Christians) have offered thousands of “martyrs” (shuhadaa)…”.
He said, “The enmity that is between us and the Jews is for the sake of land only, not for the sake of the religion…”. (al-Ummah al-Islaamiyyah Haqeeqah, Laa Wahm, p.70). He also corroborated this in his programme, ‘as-Siraa’ Bain al-Muslimeen wal-Yahood’.
He also said concerning the saying of Allaah the Most High, “You will indeed find the most severe in their enmity towards those who believe to be the Jews and the Pagans…” that this is in relation to the circumstances during the era of the Prophet ( ) and is not in relation to the current times. (In the programme, Ash-Sharee’ah wal-Hayaat).
He also used the last part of the verse to justify closeness to the Christians in the current times. (In the lesson entitled, Non-Muslims in the Shade of the Islamic Sharee’ah, which was in the programme, Ash-Sharee’ah wal-Hayaat).
He also affirmed in many places that Islaam – as he claims – reveres the revealed religions. (In the lesson entitled, Deen ul-Bashaa’ir wal-Mubashshiraat, which was in the programme, Ash-Sharee’ah wal-Hayaat, dated 24/1/1999).
And he stated that the adherents of other religions are like the Muslims, due to them is what is due to the Muslims, and upon them is what is upon the Muslims. (Islaam and Secularism, p. 101). He has mentioned this in many of his other lectures and programmes.
And he claims that Jihaad is for the purpose of defending all of the religions not just for Islaam alone. (In the lesson entitled, State Relations, which was in the programme, Ash-Sharee’ah wal-Hayaat).
He also made it permissible to give congratulations to the Infidels on their days of celebration. (In the lesson entitled, Non-Muslims in the Shade of the Islamic Sharee’ah, which was in the programme, Ash-Sharee’ah wal-Hayaat).
________________________________________
Sheikh Al-Qaradawi’S Position Towards Arts and Entertainment
Sheikh Al-Qaradawi is one of well-known and most popular of the callers to singing and entertainment and he affirms this matter from numerous angles:
He affirms in many of his books that singing is lawful, the cinema is lawful (halaal) and is a good thing. (This occurs in his books in general such as “al-Halaal wal-Haraam”, “al-Marji’iyyah al-Ulyaa”, “Fataawaa Mu’aasirah and others. As for his verdict on the cinema, then he mentions this in “al-Halaal wal-Haraam”).
He mentions how he himself likes to follow up the songs of Faayizah Ahmad, Shaadiyah, Umm Kulthoom, Fairoz and other women. (In the Qatari magazine called ar-Raayah, no. 5969, dated 19/Jumaadah al-Ulaa/1419).
This is only a very small selection of the Qaradawite theorem concerning music and singing. One may refer to the abovementioned books for more of his calamities in this regard.
Respected,
Mr. Ifteqar Ajmal sahab
Salam e masnoon
Furthermore for your kind consideration please find below “A Famous Happening in the life of Imam Boqari about Authenticity of Hadees”
Imam Bukhari was very interested in history and the Ahadith (sayings of the Prophet). He sought the company of great scholars in order to learn and discuss the Ahadith of the Holy Prophet. He visited various countries, travelling to Damascus, Cairo, Baghdad, Basra. Mecca, Medina etc. During his stay in Baghdad, he frequently held discussions with the Imam Ahmed Hanbal, the founder of the Hanbali school of law.
During all these travels, Imam Bukhari had one aim: to gather as much knowledge as possible and to make the greatest possible collection of the Traditions of the Holy Prophet. He wrote profusely all the time. He once said that, “l have written about 1800 persons, each of whom had a Saying of the Prophet, and I have written only about those who have passed my test of truthfulness.”
The Imam possessed one of the most amazing memories, and his contribution to the science of the Ahadith remains unequalled. He wrote several books on Ahadith but in his book: “Al-Jami-al-Sahih’: the Imam had recorded all the Sayings of the Prophet which he found to be genuine after thorough examination and scrutiny. He spent sixteen years in research and examined more than sixty thousand Sayings from which he selected some 7,275 Sayings whose genuineness and accuracy he established beyond the slightest doubt. Deducting duplicates, the Imam’s collection contain about four thousand distinct Sayings.
There is a famous happening in the life of Imam Bukhari (rahmatullahi alayhi) by which one can get an idea of how much care the Muhaddithin took in ascertaining the authenticity of the Hadith.
Imam Bukhari (rahmatullahi alayhi) traveled to meet a man in order to take Hadith from him.
But he saw this man calling his horse with an empty vessel in his hand, as if there was food in that vessel, moving it in order for the horse to come near so he can grab the horse.
So Imam Bukhari (rahmatullahi alayhi) asked him, “What is in that vessel?” And the man said, “Nothing.”
Then Imam Bukhari (rahmatullahi alayhi) said, “By Allah, I will not take Hadith from you, because you are a liar.”
So it is not befitting for an individual (him or her) to be with the liars, or to be upon that which is a lie, or to be consistent upon lying.
Hope the above meets your willingness to accept the truth.
Best Regards
Nazneen Khan
محترمہ نازنین صاحبہ. السلام علیکم و رحمۃ اللہ
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ امام بخاری صاحب کی سچائی کی سند بیان کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ اُنہیں کسی نے آج تک غلط نہیں کہا ۔ ایک چھوٹی سی تصحیح کر لیجئے ۔ جس آدمی کے پاس لمبا سفر کر کے امام بخاری حدیث معلوم کرنے گئے تھے اور معلوم کئے بغیر واپس آ گئے تھے وہ بکری کو خالی جھولی سے ٹہلا رہا تھا ۔ گھوڑے کو نہیں ۔ عجب اتفاق یہ ہے کہ صحیح بخاری کی تمام جلدیں میرے پاس 1984ء سے ہیں ۔ میرے کمپیوٹر میں بخاری ۔ مُسلم ۔ ابنِ ماجہ ۔ سُنن ابو داؤد ۔ ترمزی سب ہیں اور اب میرے موبائل فون میں بھی بخاری اور مُسلم ہیں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے امام بخاری اور اُن کے دوسرے ہم عصر عُلماء کی سوانح میں نے جوانی ہی میں پڑھ لی تھیں اور بھُولا نہیں ہوں ۔ جن کے خیالات کو میں سو فیصد نہیں مانتا اُنہیں بھی پڑھ کر ہی فیصلہ کیا تھا ۔ میری درخواست ہے کہ آپ مہربانی کر کے جو میں نے يوسف القرضاوی صاحب کے متعلق لکھا ہے اُس پر اپنی رائے کا اظہار فرمایئے
بھئی گستخی معاف لیکن میں تو گانے سُنا کرتا ہوں اور خوب شوق سے سُنتا ہوں، اب اسے میری کمزوری یا نفس پرستی یا جو دل کرے کہیئے، اس لیئے میں تو موضوع پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ہوں، ہاں لیکن موضوع سے ہٹ کر اسپیکر پر مسجد سے آذان کے علاوہ دیگر تمام آوازوں کے متعلق بھی یہی فتویٰ لگانا چاہئے کہ : آذان کے علاہ مسجد سے اور کوئی اعلانيہ اور اونچی آواز پیدا نہ ہو كہ پڑوسيوں كو اس سے تكليف اور اذيت ہوتی ہے اور جو لوگ لاؤڈ سپيكر ميں ايسا كرتے ہيں وہ بہت ہی بُرا كام كر رہے ہيں كيونكہ ايسا كرنا مسلمان اور غیر مسلم ہر طرح کے پڑوسيوں وغيرہ كو اذيت دينا ہے!
عبدالرؤف صاحب
موضوع موسیقی ہے مسجد نہیں ۔ آپ تحریر پڑھیئے ۔ اس میں جہاں گانے کی اجازت لکھا ہے اس کے ساتھ شرط ہے کہ آواز اتنی اُونچی نہ ہو کہ محلے مین کسی کو اذیت پہنچے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ نماز اور اذان کا مسجد سے تعلق ہے کسی اور چیز کا نہیں ۔ اگر کوئی کرتا ہے تو وہ ثواب نہین کماتا بلکہ ۔ ۔ ۔ ۔ اس مضمون پر جو تنقید کی گئی ہے اس پر غور نہیں کیا
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام وعلیکم،
اس موضو ع پر میری رائے بالکل دوٹو ک ہے کہ اسلام خوشی منانے کی اجازت
تو دیتا ہے ، مسکرا نے ، خوش رہنے اور خوشی میں شکر کا بھی کہتا ہے
لیکن موسیقی کی اجازت نہیں دیتا۔
میرے ناقص علم میں اب تک یہی آیا ہے۔
خوش ہیں تو میٹھا بنائیے ، خوش ہیں تو دوسروں کو ہنسا ئیے ، خوش ہیں تو
غر یبوں میں اپنی خو شی کا صدقہ دیجئے ، خوش ہیں تو شکر انے کے نفل
پڑ ھیئے ، لیکن خوش ہیں تو موسیقی سننے نہ بیٹھ جائٰیں۔
میرے علم کی کوتاہی ہے کہ میں نے صحیح بخاری پڑھنے کی سعادت ابھی تک
حا صل نہیں کی مگر آن لائن پڑھنے کا عمل گاہے بگا ہے جاری ہے۔
قرآن کی قرات کا حوالہ بھی یہاں دلائل میں دیا جاتا ہے کہ قرا ن کی تلاوت خود
ہم قافیہ الفاظ میں ہے ۔ مگر اس کا مطلب موسیقی یا گانا نہیں ہے ۔ نعوذ بااللہ
مجھے تو ہندی فلموں کی دھنوں پہ نعتیں پڑھنے والے مولوی حضرا ت سے بھی
اختلاف ہے جن کی دلیل ہے کہ فلمی دھنیں لوگوں میں مقبول ہوتی ہیں تو اس بہانے
وہ نعت بھی ذوق وشوق سے سنتے اور یاد کر لیتے ہیں
یہ بھی بے معنی دلیل ہے۔
جناب افتخار اجمل صاحب
سلامِ مسنون
پہلی بات یہ ہے کہ امام بخاری کی سچائ کی سند نہی پیش کی جا رہی۔۔ سند حدیث کی ہوتی ہے اور وہ تو صرف ایک واقعہ یے ان کے اپنے بارے میں. بہت سے واقعے بیان کرتے ہیں لوگ امام صاحب کے بارے میں… یہ بھی ہے ان میں سے ایک.
بتانا یہ مقصود ہے کہ امام صاحب نے حدیثوں کے معاملے میں کس قدر احتیاط برتی ہے۔۔ اور آپ نے امام صاحب کی سوانح حیات اپنی جوانی میں پڑھی ہے تو آپ کو یہ بھی معلوم ہوا ہوگا کہ اس میں بھی لوگوں میں اختلاف ہے کہ بکری تھی یا گھوڑا۔۔ پر شائد آپ نے بکری کا ہونا صحیح جانا. آپ کی طرح میں نے بھی پڑھا میں نے گھوڑا ہونا صحیح جانا. بحر حال چونکہ مسئلہ بکری یا گھوڑے کا نھی ہے اسلیۓ بات کو طول نا دینا ہی مناسب ہے۔۔
اور میں نے قرضاوی صاحب اور ابن تیمیہ رح کے فتوے جو گانے کے جواز میں تھے آپ کو بھیجے۔۔ اس کا مطلب ہرگز یہ تو نہ ہوا کہ میں قرضاوی صاحب کی تمام آراوں سے متفق ہوں۔۔ وہ انکا اپنا اجتھاد ہے۔۔ موصوف نے اپنے اجتھاد سے بہت سے فتوے دیۓ ہیں۔۔ جس اجتھاد پے لوگوں کو اعتراض ہوا وہ لوگوں نے ظاہر کیا۔۔ اور جن سے لوگوں کو اعتراض نا ہوا وہ لوگوں نے تسلیم بھی کیا۔۔ اب اس کا مطلب یہ تو نہ ہوا کہ اگر موصوف کوئ صحیح راۓ بھی دیں تو اسکو دوسرے چند اعتراضات کی وجہ سے قبول نہ کیا جاۓ۔۔ انسان معصوم عن الخطا تو ہے نہی۔۔ ہاں اگر آپ کو قرضاوی صاحب کی راۓ (ان کے کچھ قابل اعتراض فتوؤں کی وجہ سے) قابل قبول نہی لگتی تو آپ محض امام ابن تیمیہ رح کی راۓ کو مد نظر رکھیۓ۔۔
میرا اختلاف گانا گانے کو مطلقاً حرام قرار دینے کی راۓ سے تھا۔۔
بات یہ ہے کہ جس چیز کی حرمت قراٰن و حدیث میں نہیں ہے اس کو کیسے حرام قرار دیا جا سکتا یے۔ جبکہ وہ چیز اللّہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود رہی ہو اور اللہ کے رسول کے سامنے ہوتی رہی ہو۔۔ مثلاً حضرت حسان بن ثابت(رض) شاعری گنگناتے تھے مسجد میں، حضرت عائشہ (رض) کے گھر دو انصاری لڑکیوں کا گانا گانا اور اللّہ کے رسول کی مدینہ آمد پر اھل مدینہ کا “طلع البدر علينا” بلند آواز سے گانا اور اللّہ کے رسول کے سامنے دوران جنگ صحابہ کا دشمن کی ہجو میں اشعار گا کر پڑھنا اس بات پے دلالت کرتے ہیں کہ محض “گانا” حرام نہی ہے اور نہ اس میں کوئی قباحت ہے۔۔ ہاں اگر اس کے ساتھ موسیقی ہو یا اس کلام میں بدکاری یا شرک کی بو ہو تو اس کی حرمت میں کوئ دو راۓ نہی۔
کسی بات کے حلال و حرام ہونے کے لیئے قرآن و حدیث سے دلیل درکار ہوتی ہے محض قیل و قال سے کوئی چیز حلال سے حرام نہیں ہوجاتی.
نازنین خان
نازنین خان صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
محترمہ ۔ اس موضوع پر مزید بحث کرنے کا میں اپنے آپ کو اہل نہیں سمجھتا ۔ میرا کام پیغام پہنچانا ہے ۔ وہ میں نے اپنے مطالعہ اور سمجھ کے مطابق پہنچا دیا ۔ مجھے صرف اپنے کئے کا جواب دینا ہے ۔آپ اپنا مؤقف درست جانتی ہیں اس پر چلتی رہیئے اللہ مجھے سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ
افتخار صاحب اب تو یومِ خواتین پر بھی موبائل ٹونز کا پیغام آتا ہے ۔۔۔ جی بالکل بچپن میں جو نعتیں سنتے تھے سمجھے بغیر اب غور کیا تو کتنے ہی کلام ایسے ہیں جو بالکل بھی مناسب یا شایانِ شان نہیں ۔۔ اللہ ہمیں ہدایت دے !!
اوپر کافی بحث و مباحثہ دیکھنے میں آیا ( معذرت کہ پورا نہیں پڑھ سکی ) ۔۔۔ یہ موضوع ایسا ہے جس پر لا تعداد موضوعات کی طرح بحث کے بعد بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلتا ۔
جہاں تک میری اپنی رائے کی بات ہے تو سب سے پہلے ۔۔۔ جس بات کو اللہ اور اس کے نبیﷺ نے حرام/ منع فرما دیا اس کے آگے لیکن اور مگر کی گنجائش نہیں کیونکہ دنیا کا کوئی بھی انسان حضرت محمد ﷺ سے کامل نہیں ہو سکتا ۔۔ دوسرے یہ کہ ہم انسان ہیں اور ہمیشہ شیطان کے نشانے پر ہوتے ہیں تو ہمیشہ’ اگر مگر ‘ میں ہی اپنے غلط کاموں کی توجیح پیش کرتے رہتے ہیں اس لئے ہی شاید فتووں کی تلاش میں رہتے ہیں ۔۔۔لیکن کبھی کبھی کوئی چھوٹی سی بات ایسے دل کو لگ جاتی ہے کہ پھر انسان کسی گنجائش کی تلاش میں نہیں رہتا … ایسے ہی میرے مطالعے میں ایک تحریر آئی جس کے بعد کم از کم مجھے کسی فتوے کی ضرورت نہیں رہی اور اللہ اور اس کے رسولﷺ کے احکام کی کچھ حکمت بھی سمجھ آگئی ۔۔۔ تحریر کیونکہ کچھ طویل ہے اس لئے میں نے اسے اپنے بلاگ پر پوسٹ کیا ہے یہ ہے اس کا لنک :
http://seems77.blogspot.com/2016/03/music.html
اور اسلامی موسیقی کے بارے میں یہ دو لنک پیش خدمت ہیں
http://islamqa.info/ur/47996
https://islamqa.info/ur/23351
اللہ ہمیں سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرمائے آمین!! ۔۔۔ جزاک اللہ
سیما آفتاب صاحبہ ۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاۃ
یہاں تھوڑی سی وضاحت کرنا چاہوں گا ۔ پڑھنا اور گانا دو مختلف طریقے ہیں ۔ آپ کے دیئے ہوئے ربط میں تحریر ہے ” بغير كسى موسيقى اور آلہ موسيقى كے“۔ آلہءِ موسیقی تو میوزیکل اِنسٹرومنٹس ہو گئے ۔ خالی ” موسیقی“ کا لفظ گانے کیلئے استعمال کیا گیا ہے ۔ اسے سمجھنے کیلئے آپ کو ”سا رے گا ما پا دا نی“ سیکھنا پڑے گا
جزاک اللہ وضاحت کے لئے : ) … اس طرح تو بغیر موسیقی جو بھی کلام پیش کیا جاتا ہے وہ ‘گانا’ ہوا??
بڈھے طوطے بھی بھلا کبھی سیکھتے ہیں??
موسیقی کی حرمت پر قرآن اور حدیث کے احکامات کا ذکر اس پوسٹ میں کیا جاچکا ہے۔
وہ لوگ جو موسیقی کے جواز پیش کرتے ہیں وہ دلائل کے دریا میں اترنے سے پہلے دیکھ لیں کہ دلائل دینے والا نفس کو مرغوب اُن چیزوں (جن کے بارے میں قرآن و سنت، احادیث کے ذریعے ممانعت کی گئی ہو) کے جواز کے لیے تو دلائل نہیں گھڑ رہا؟
وہ لوگ جو غامدی اور ان جیسے چند لوگوں جو موسیقی کو حلال کہتے (پہلی اسٹیج میں مطلقاً حرام نا ہونے کا کہتے ہیں) ہیں اور اس کے دلائل دیتے ہیں، میں ان خواتین و حضرات جو ان دلائل سے متاثر ہیں مگر اپنے اندر اخلاص رکھتے ہیں کی توجہ میں ایک نکتہ لانا چاہتا ہوں۔
اللہ تعالیٰ کی اُن حرام کردہ چیزوں میں سے وہ جو نفس کو مرغوب ہیں اور چند لوگ اس کے جواز کے لیے اپنے علم کو جواز تراشنے کے لیے استعمال کرتے ہیں در اصل انکا علم ان کے کسی کام نہیں۔ جو لوگ اپنے خواہش کی پیروی کرتے ہیں انکا علم انہیں بھٹکانے, شکوک پیدا کرنے، تاویلات میں مدد دیتا ہے۔ یہ میں نہیں کہہ رہا قرآن پاک کہہ رہا ہے۔
بل اتبع الذين ظلموا اهواءهم بغير علم فمن يهدي من اضل الله وما لهم من ناصرين۔
سورة الروم ۔ آیت ۲۹
ترجمہ: مگر جو ظالم ہیں بےسمجھے اپنی خواہشوں کے پیچھے چلتے ہیں تو جس کو خدا گمراہ کرے اُسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اور ان کا کوئی مددگار نہیں۔
افرايت من اتخذ الهه هواه واضله الله على علم وختم على سمعه وقلبه وجعل على بصره غشاوة فمن يهديه من بعد الله افلا تذكرون۔
سورة الجاثیہ ۔ آیت ۲۳
ترجمہ: بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا رکھا ہے اور باوجود جاننے بوجھنے کے (گمراہ ہو رہا ہے تو) خدا نے (بھی) اس کو گمراہ کردیا اور اس کے کانوں اور دل پر مہر لگا دی اور اس کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا۔ اب خدا کے سوا اس کو کون راہ پر لاسکتا ہے۔ بھلا تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے؟
ؑعامر صاحب
اللہ آپ کو جزائے خیر دے