طارق سرمد صاحب نے 22 مئی 2013ء کو لکھا
آج سے پورے 22 سال قبل 22 مئی 1991ء کو میں نے اپنے قیاس سے بہت کم گہرے پانی میں چھلانگ لگائی جس کے نتیجہ میں زندگی بھر کیلئے اپاہج ہو گیا لیکن یہ واقعہ مجھے مذہب کی دنیا میں لے گیا ۔ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ میں زندہ نہیں رہوں گا اور شاید میں ہسپتال تک بھی زندہ نہ پہنچنے پاؤں گا ۔ منطقی طور پر میری موت کے آثار بہت زیادہ تھے
اب ماضی کی طرف دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ میں واقعی مر گیا تھا ۔ معجزہ یہ ہوا کہ میں دوسری بار بطور ایک بالکل مُختلِف فرد کے پیدا ہوا ۔ صرف پانی میں چھلانگ لگانے والے لمحہ نے مجھے زندگی کو ایک بالکل مُختلِف رنگ میں دکھایا ۔ مجھے بہت سخت لمحات میں سے گذرنا پڑا اور اب بھی گذر رہا ہوں ۔ شاید اب پہلے سے زیادہ لیکن اُس واقعہ کے سبب مجھ پر مندرجہ ذیل انکشافات ہوئے
1 ۔ اللہ موجود ہے
2 ۔ مجھے اتنے زیادہ لوگ چاہتے ہیں
3 ۔ زندگی کچھ حاصل کر لینے کیلئے بہت چھوٹی ہے اور جب تک سانس اور سوچ باقی ہے زندگی کی ممکنات لاتعداد ہیں
4 ۔ میں وہیل چیئر پر بھی اتنا کچھ کر سکتا ہوں کہ میری زندگی اس کا آدھا بھی حاصل کرنے کیلئے کم ہے چنانچہ جو پاس نہیں اور جو حاصل نہیں کر پائے اس کی شکائت کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنی توجہ صرف جو پاس ہے اور جو آپ کر سکتے ہیں پر مرکوز رکھی جائے تو
اللہ کی عنائت و کرم کا احساس ہوتا ہے
5 ۔ بہت سے لوگ ساری زندگی شکوے شکائتوں میں گذار دیتے ہیں ۔ میں اِن کی سوچ کو بدل کر انہیں شاکی سے تحصیل کنندہ بنانے کا سبب بنوں
6 ۔ مشکلات بڑی نہیں ہوتیں ۔ ہم کسی وقت چھوٹے بن جاتے ہیں
7 ۔ دنیا میں کوئی عمل ناممکن نہیں ہے
8 ۔ اپنی استداد سے زیادہ محنت کرنے میں زندگی گذارنا ہی اصل زندگی ہے
9 ۔ جو لوگ اپنی قسمت خود بناتے ہیں وہی کامیاب ہوتے ہیں اور جو دوسروں کی مدد یا قسمت کی طرف دیکھتے رہتے ہیں وہ ہمشہ انتظار ہی کرتے رہتے رہتے ہیں
10 ۔ زندگی کیسی بھی ہو اچھی ہوتی ہے
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کاش ان باتوں کا احساس مجھے میرے حادثہ سے قبل ہو جاتا ۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ کیا حادثہ میری زندگی میں پیش آنے والی بہترین چیز تھی ۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ آدمی اپنی زندگی کی قدر کرنا کب سیکھے گا اور اس کیلئے حادثوں کا انتظار نہیں کرے گا
Pingback: دکھاتا ہے آسماں رنگ کیسے کیسے « Jazba Radio
محترمی
سلامِ مسنون
“کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کاش ان باتوں کا احساس مجھے میرے حادثہ سے قبل ہوجاتا”
بہت اچھی یاد دہانی…!
ہم میں سے اکثر کو حادثہ سے قبل سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی یا ہم سوچنا ہی نہیں چاہتے. اسی سوچ و طرزعمل کو آنکھوں پر پردہ پڑجانا سے تشبیح دی گئی ہے. یہ تو اللہ کی کرم فرمائی ہے کسی کسی کو موت کی دہلیج سے بچا لے جائے اور اس کی آنکھیں کھول دے جس طرح موصوف کی آنکھیں کھلیں. ورنہ آدمی یہ سمجھنے لگتا ہے سب کو تو مرنا ہے مجھے ابھی زندہ رہنا ہے. دیکھا جائے گا جو ہوگا. یہ رویہ ہم میں سے اکثر کا ہوتا ہے.
انسان جب کس حادثہ سے دوچار ہوتا ہے یا موت اس کے سر پر منڈلا رہی ہوتی ہے تب ہی خوف و گھبراھٹ میں اللہ کی یاد آتی ہے اور اس کی زبان سے خیر کے الفاظ ادا ہوتے ہیں. جبکہ اس سے قبل وہ اپنی دنیا میں مگن اور اسی تگ و دو میں اللہ سے غافل اور کھویا ہوا ہوتا ہے.
اسی لیئے انسان کو ہمہ وقت اپنی حیثیت اور اپنے وجود کے بارے میں ہمیشہ یہ احساس ہونا چاہیئے کہ یہ دنیا کی زندگی عارضی ہے اور مجھے اللہ کے ہاں اپنے کیئے کا حساب دینا ہوگا. یہ دنیا میرے لیئے امتحان گاہ ہے اور میری ساری زندگی کی مصروفیات امتحان کی پرچے ہیں. تب ہی انسان کی زندگی اچھے سے گزرے گی اور امید ہے کہ وہ اللہ کے ہاں بھی کامیاب قرار پائے گا.
نازنین خان
آیت : اِلَّا الَّذِيْ فَطَرَنِيْ فَاِنَّہٗ سَيَہْدِيْنِ۲۷ سورۃ الزخرف۔
ترجمہ : مگر وہ جس نے مجھے پیدا کیا پس بیشک وہ عنقریب ضرور مجھے راستہ دکھائے گا ۔٢٧
عبدالرؤف صاحب
اللہ جزائے خیر دے
السلام و علیکم!!
بہت مفید تحریر۔۔۔ہر کام میں اللہ کی کوئی نہ کوئی مصلحت ہوتی ہے ، اگر حادثے س دوچار نہیں ہوتے تو شاید یہ سب نہیں سوچ پاتے اور کر پاتے جو حادثے کے بعد ان کو خیال آیا۔