Monthly Archives: January 2016

پھُول اور بات کی پہچان

میاں محمد بخش کہ چند شعر میں 8 نومبر 2015ء کو لکھ چُکا ہوں ۔ میاں محمد بخش ایک اور جگہ لکھتے ہیں
قدر پھُلاں دی بُلبُل جانے ۔ صاف دماغاں والی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (قدر پھولوں کی بُلبُل جانتی ہے جس کی سوچ درست ہے)
گِرج کی جانے سار پھُلاں دی ۔ مُردے کھاون والی ۔ ۔ ۔ ( مُردے کا گوشت کھانے والا گِدھ پھولوں کی خاصیت کیا جانے گا)

مر مر ہِک بناون شیشہ، مار وٹّہ اِک بھندے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (عمارت بننے میں بہت وقت لگتا ہے مگر گرانے میں وقت نہیں لگتا)
دُنیا اُتّے تھوڑے ریہہ گئے ، قدر شناس سُخن دے ۔ ۔ ۔ (بات کی سمجھ رکھنے والے دنیا میں کم رہ گئے ہیں)

اوّل تے کُجھ شوق نہ کسے، کون سُخن اج سُندا؟ ۔ ۔ ۔ ۔ (اوّل تو دورِ حاضر میں کسی کو عقل کی بات سُننے کا شوق ہی نہیں)
جے سُنسی تاں قصّہ اُتلا ، کوئی نہ رَمزاں پُندا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اگر سُنیں گے بھی توسطحی طور پر ۔ بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے)

لَد گئے اوہ یار پیارے ، سُخن شناس ہمارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (جو ہمارے پیارے دوست بات سمجھنے والے تھے وہ ختم ہو گئے ہیں)
سُخن صراف مُحّمدبخشا ،لعلاں دے ونجارے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (محمد بخش ۔ بات کی نوک پلک دیکھ کر پرکھنے والے دراصل ہیرے بانٹتے ہیں)

میری باجی چلی گئی

ہمارا ارادہ 5 فروری تک دبئی میں رہنے کا تھا لیکن میرے اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ میری سب سے بڑی بہن جو مجھ سے ساڑھے 5 سال بڑی تھیں اور 1980ء میں والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد میرا بہت خیال رکھتی تھیں وہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات اس دارِ فانی سے کوچ کر کے عالمِ برزخ میں چلی گئیں

اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

علِمِ دین کی حامل اور اس پر کاربند رہنے والی ۔ بطور ڈاکٹر ہر مریض کا درد محسوس کرنے والی اور اُن کا علاج ہی نہیں اُن کے لئے آنسو بہانے اور اللہ سے اُن کی شفاء مانگنے والی ۔ نادار لڑکیوں کی شادیوں کے پورے اخراجات اُٹھانے والی ۔ ہر کسی کا دِل میں درد رکھنے والی ۔ والدین ۔ سب بہن بھائیوں اور اپنی تعلقدار خواتین کے بچوں کو سویٹر بُن کے دینے والی ۔ میری پیاری باجی ہمیں درد میں چھوڑ کر چلی گئی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی میری پیاری باجی کی تمام نیکیاں قبول فرمائے اور اُسے جنت الفردوس میں اعلٰی مقام عطا فرمائے

قارئین سے التماس ہے کہ میری باجی کیلئے دعائے مغفرت کریں

اُن کی طبیعت خراب ہونے اور خصوصی نگہداشت کے کمرے میں داخل کئے جانے کی اطلاع ہمیں بھائیجان (بہنوئی) نے جمعہ کو رات ساڑھے آٹھ بجے دی اور دعا کیلئے کہا اس سے قبل وہ ہمیشہ ہمیں دلاسہ دیا کرتے تھے ۔ اس وجہ سے ہم پریشان ہو گئے اور سو نہ سکے ۔ اور بھاری دِلوں کے ساتھ اپنی پیاری باجی کی تندرستی کیلئے اللہ کے حضور دعائیں مانگنے لگے لیکن اُن کا سفر ختم ہو چکا تھا ۔ رات 12 بجے اُن کی رحلت کی اطلاع ملی ۔ میرے بیٹے نے بھاگ دوڑ کر کے اپنی والدہ ۔ اپنے اور میرے لئے نشستیں محفوظ کرا لیں اور ہم 11 بجے اسلام آباد اور پونے ایک بجے اُن کی رہائش واہ چھاؤنی پہنچ گئے

ہمارا مُلک اور ہم

” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے ؟“
” اس مُلک میں کیا رکھا ہے ؟“

میرے بہت سے پڑھے لکھے ہموطن بلا توقّف اور بلا تکلّف یہ فقرے منہ سے ادا کرتے ہوئے نہ شرماتے ہیں اور نہ تھکتے ہیں
خاموش اکثریت اِن فقروں کو سُننے کے اس قدر عادی ہو چکے ہیں کہ اُنہیں اِن میں کوئی قباحت نظر نہیں آتی

کبھی ہم نے سوچا کہ ہم پر اس مُلک کی کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ؟
کیا ہم نے اپنی ذمہ داریوں میں سے 10 فیصد بھی ادا کر دی ہیں ؟

” نہیں یہ ہم کیوں سوچیں ؟ ہم تو پیدا ہوئے اپنی ماں کے بطن سے ۔ پلے اور پڑھے اپنے باپ کی کمائی سے ۔ ملازمت یا کاروبار کیا اپنی عقل اور تعلیم کے زور پر ۔ ہمیں اس مُلک نے کیا دیا جو ہم پر اس کی ذمہ داریاں عائد ہوں ؟“

آپ 14 اگست کو یومِ آزادی یا قائداعظم کے الفاظ میں یومِ استقلال منانے کی بجائے 31 دسمبر اور یکم جنوری کی درمیانی رات نیو ایئر نائٹ مناتے ہیں
آپ مسلمان ہیں لیکن رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ کے بتائے ہوئے تہوار عیدین کو جوش و جذبہ سے منانے کی بجائے ہندوؤں کے تہوار بسنت کو بڑے شوق اور جوش و جذبہ سے مناتے ہیں
آپ کو قائدِ اعظم اور اُن کے رُفقاء کی سوانح میں تو کوئی دلچسپی نہیں لیکن ایکٹر بالی وُڈ کا ہو یا ہالی وُڈ کا اُس کے متعلق آپ کا عِلم وسیع ہے
آپ دفتر میں ہوں تو گپ شپ کرنا لازمی سمجھتے ہیں اور سرکاری (قومی) اشیاء بالخصوص ٹیلیفون کا اپنی ذات کیلئے استعمال اپنا حق سمجھتے ہیں
سڑک پر گاڑی چلا رہے ہوں تو سُرخ بتی پر رُکنا یا کسی دوسری گاڑی کا آپ کی گاڑی سے آگے ہونا اپنی توہین سمجھتے ہیں
آپ کو پاکستانی کہلانا پسند نہیں
آپ کو اپنی زبان بھی گنوار لگتی ہے ۔ جب تک اس میں انگریزی کی بے ربط ملاوٹ نہ کر لیں آپ کا کھانا ہضم نہیں ہوتا
آپ کو اپنے لوگوں ۔ اپنی ثقافت میں بد بُو آتی ہے

آپ اس مُلک کو چھوڑ کر چلے جایئے ۔ جس ملک میں جانا چاہیں گے وہ مُلک آپ کو آسانی سے قبول نہیں کرے گا ۔ اگر آپ میں وہ وصف ہو گا جو اس مُلک کو چاہیئے تو آپ کو داخلے کی اجازت ملے گی ۔ وہاں آپ کو کولہو کے بیل کی طرح کام کرنا پڑے گا ۔ اپنی مرضی نہیں چلے گی اور نہ آپ کی اُوٹ پٹانگ باتیں جو آپ یہاں کرتے ہیں کوئی برداشت کرے گا ۔ وہاں آپ کو سب کچھ اُن کی مرضی سے کرنا پڑے گا ۔ مانا کہ اُن کی تابعداری کرنے کے بعد آپ کو وہاں کی شہریت مل جائے گی مگر اگلی کئی نسلوں تک آپ کو پاکستانی ہی کہا جائے گا ۔

کبھی تو حق بات سوچیئے
اس سراب سے نکل آیئے جس میں آپ گھِرے ہوئے ہیں

کیا اس مُلک نے آپ کو ایک شناخت نہیں بخشی ؟
کیا یہ مُلک آپ کا بوجھ نہیں اُٹھا ہوئے ؟
کیا آپ کے وفات پاجانے والے بزرگ اس کی مٹی کے نیچے دفن نہیں ہیں ؟
اپنی تمام تر کمیوں کے باوجود کیا آپ کو یہاں علاج معالجہ کی سہولت آسانی سے نہیں ملتی ؟ اگر آپ نہیں جانتے تو سُن لیجئے ۔ میں جرمنی کے ایک بڑے شہر ڈُوسل ڈَورف میں تیز بُخار میں مبتلاء ہوا ۔ جس ادارہ کے ساتھ میں حکومتِ پاکستان کی طرف سے کام کر رہا تھا اُس کے اعلیٰ افسر نے پوری کوشش کی کہ جلد از جلد میرے علاج کا بندوبست ہو ۔ کئی گھنٹوں کی کاوش کے بعد جو ڈاکٹر سے ملاقات کا وقت ملا وہ 10 دن بعد کا تھا ۔ میں نے کہا ”10 دن میں یا تو میں اللہ کے حُکم سے تندرست ہو گیا ہوں گا یا مر چکا ہوں گا“۔ ہمیں اپنے مُلک میں 2 گھنٹے انتظار کرنا پڑ جائے تو ہم طوفان مچا دیتے ہیں
یہی نہیں اپنے مُلک میں آپ کے رشتہ دار آپ کی خدمت کو تیار رہتے ہیں ۔ اگر رشتہ دار قریب نہ رہتے ہوں تو محلے دار آپ کی مدد کو تیار رہتے ہیں ۔ لیکن آپ اُس یورپ اور امریکہ کی طرف دیکھتے ہیں جہاں کسی کے پاس آپ کی بات سُننے کا بھی وقت نہیں ہوتا

آپ کے وطن اس خداداد مملکت پاکستان میں کیا نہیں ہے ؟
ہر قسم کا موسم ۔ سردی ۔ بہار ۔ گرمی ۔ برسات اور خزاں
ہر قسم کی زمین ۔ برف سے لدے پہاڑ ۔ سر سبز پہاڑ ۔ چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ میدان ۔ ہرے بھرے کھیت ۔ صحرا ۔ دریا ۔ نہریں ۔ سمندر ۔ حسین وادیاں ۔ دنیا کی بلند ترین چوٹیاں سوائے مؤنٹ ایورسٹ کے ۔ دنیا کے سب سے بڑے گلیشیئر ۔
ہر قسم کے پھل ۔ سیب ۔ ناشپاتی ۔ انگور ۔ داخ ۔ لیچی ۔ گلاس (انگریزی میں چَیری) ۔ امردو ۔ پپیتا ۔ کیلا ۔ مالٹے ۔ کینو ۔ میٹھا ۔ لیموں ۔ چکوترا (انگریزی میں گریپ فروٹ)۔ خوبانی ۔ آلو بخارا ۔ آڑو ۔ لوکاٹ ۔ بگو گوشہ ۔ بیر ۔ گرنے یا گرنڈے ۔ فالسے ۔ بادام ۔ مونگ پھلی ۔ اخروٹ ۔ اناناس ۔ انار ۔ تُوت ۔ شہتوت ۔ چیکُو ۔ کھجور ۔ رس بھری ۔ سٹابری ۔ تربوز ۔ خربوزہ ۔ مونگ پھلی ۔ سردا ۔ گرما ۔ دنیا کا لذیذ ترین آم ۔ اور ہمارے مُلک کے کِینو کا بھی دنیا میں ثانی نہیں ہے
ہر قسم کی اور بہترین سبزیاں۔ نام لکھنے شروع کروں تو میں لکھتے اور آپ پڑھتے تھک جائیں گے ۔ صرف اتنا بتا دیتا ہوں کہ دنیا کی بہترین گندم اور بہترین چاول (باسمتی) ہمارے مُلک پاکستان میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ باسمتی چاول صرف پاکستان کی پہچان ہے کسی اور مُلک میں نہیں پایا جاتا ۔ اور ہاں ہمارے مُلک کی کپاس بھی مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے

کبھی تو ان نعمتوں کیلئے اللہ کے شکرگذار ہو کر اپنے اس وطن کی بہتری کا سوچیئے اور اس کیلئے محنت کیجئے
جتنی محنت آپ غیر ممالک کیلئے یا وہاں جا کر کرتے ہیں اور جس نظم و ضبط کی پابندی آپ وہاں کرتے ہیں اتنا اپنے ملک پاکستان میں کریں پھر اپنا مُلک بہترین ہو جائے گا اور اس میں روزگار کے اتنے مواقع ہو جائیں گے کہ کسی ہموطن کو غیر ممالک میں دھکے کھانے کی حاجت نہیں رہے گی

اللہ ہم سب کو حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور سیدھی راہ پر گامزن کرے

دعا

Flag-1آج عیسوی جنتری کا نیا سال شروع ہو چکا ہے ۔ اس نئے سال کیلئے میری دعا ہے ۔ قاریات اور قارئین سے التماس ہے کہ وہ بھی دعا کریں

خدا کرے کہ مری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو
خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویشِ ماہ و سال نہ ہو
ہر ایک فرد ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو
خدا کرے کہ مرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو