یہ کہانی 22 جنوری 2016ء کی تحریر کا تتمّہ ہے
کسان اور اس کی بیوی بازار سے ڈبے میں کچھ لے کر آئے ۔ معلوم کرنے کیلئے کہ وہ کھانے کیلئے کیا لائے ہیں ایک چوہے نے دیوار میں سوراخ سے دیکھا ۔ کھانے کی چیز کی بجائے چوہے دان دیکھ کر اُس کی جان ہی نکل گئی
وہ بھاگا بھاگا گیا اور مُرغی سے کہا “کسان چوہے دان لایا ہے”۔
مرغی نے چوہے کی بات مسترد کرتے ہوئے کہا “یہ تمہارا مسئلہ ہے ۔ مجھے کوئی پریشانی نہیں”۔
چوہا دوڑتا ہوا بکری کے پاس پہنچا اور کہا “کسان چوہے دان لایا ہے”۔
بکری نے چوہے سے کہا “مجھے تمہارے ساتھ ہمدردی ہے مگر میں اس کیلئے پریشان نہیں ہوں”۔
پریشان حال چوہے نے گائے کے پاس جا کر دوہرایا “کسان چوہے دان لایا ہے”۔
گائے نے کہا ”میں تمہارے لئے دعا کروں گی مگر میری تو چوہے دان میں ناک بھی نہیں گھستی”۔
چوہا بد دل ہو کر سر لٹکائے اپنے بِل میں جا کر گر پڑا اور سوچتا رہا کہ جب بھی وہ کسان کے گھر کچھ کھانے جائے گا چوہے دان میں پھنس جائے گا
اگلی رات کسان کے گھر کڑاک کی آواز آئی ۔ کسان کی بیوی اندھیرے ہی میں دیکھنے گئی کہ چوہا پکڑا گیا ہے ۔ اسے کسی چیز نے کاٹ لیا ۔ دراصل چوہے دان میں ایک گذرتے ہوئے سانپ کی دم پھنس گئی تھی ۔ بیوی کی چیخ و پکار سن کر کسان دوڑا آیا ۔ صورتِ حال دیکھ کر وہ بیوی کو ہسپتال لے گیا جہاں اسے ٹیکا لگایا گیا اور کہا کہ اسے مرغی کی یخنی پلائی جائے ۔ کسان نے اپنی مرغی ذبح کر کے بیوی کیلئے یخنی بنا دی ۔ بیوی یخنی پیتی رہی مگر اسے کئی دن بخار رہا ۔ اس کی علالت کا سن کر قریبی رشتہ دار مزاج پرسی کیلئے آئے ۔ ان کے کھانے کیلئے کسان نے بکری ذبح کر ڈالی ۔ کچھ دن بعد کسان کی بیوی فوت ہو گئی تو بہت سے لوگ تدفین اور افسوس کرنے کیلئے آئے ۔ انہیں کھانا کھلانے کیلئے کسان نے گائے کو ذبح کیا
چوہا دیوار میں سوراخ سے یہ سب کچھ نہائت افسوس کے ساتھ دیکھتا رہا
یاد رہے کہ جب بھی ہم میں سے کوئی پریشانی میں مبتلا ہو تو سب کو اس کی مدد کرنا چاہیئے ۔ اسی عمل کا نام انسانیت ہے ۔ کون جانے کل ہم میں سے کس کی باری ہو گی
ذبردست تمثیلی کہانی ہے، سب سے مزے کی بات تو یہ ہے کہ کہانی جانوروں کی سنائی اور سبق انسانیت کا پڑھا رہے ہیں
عبدالرؤف صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ انسان تو ویسے ہی سمجھ جاتے ہیں جو باقی ہیں اُنہیں سمجھانے کا طریقہ تلاش کرنا پڑتا ہے
بہت زبردست اور سبق آموز … آج کسی کی مدد کریں گے تو کل مشکل وقت میں کوئی کام آئیگا
میرا تبصرہ کہاں غائب ہو گیا ۔۔۔ چلیں دوبارہ لکھ دیتی ہوں ( پھلا تو اب یاد نہیں آرہا کہ کیا لکھا تھا)
بہت سبق آموز تحریر ہے ۔۔۔ یس سے مجھے بچپن میں پڑھی ہوئی نظم یاد آگئی
ٹہنی پہ کسی شجر کی تنہا
بلبل تھا کوئی اداس بيٹھا
کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی
اڑنے چگنے ميں دن گزارا
پہنچوں کس طرح آشياں تک
ہر چيز پہ چھا گيا اندھيرا
سن کر بلبل کی آہ و زاری
جگنو کوئی پاس ہی سے بولا
حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے
کيڑا ہوں اگرچہ ميں ذرا سا
کيا غم ہے جو رات ہے اندھيری
ميں راہ ميں روشنی کروں گا
اللہ نے دی ہے مجھ کو مشعل
چمکا کے مجھے ديا بنايا
ہيں لوگ وہی جہاں ميں اچھے
آتے ہيں جو کام دُوسروں کے
السلام و علیکم افتخار اجمل صا حب،
امید ہے مزاج بخیر ہوں گے۔
بہت ہی عمدہ کہانی پڑ ھنے کو ملی ساتھ ساتھ بہتر ین سبق بھی۔
ہماری پوری قوم کو صرف ایک مسئلہ کھا گیا، یہ سوچنا کہ یہ میرا مسئلہ نہیں۔ “
ملک کے سب سے بڑے شہر کے چھوٹے بڑے سب علاقوں میں گٹر ابل رہے ہیں۔
ساری سڑکیں ٹوٹی پڑی ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ کی قلت ہے اور پر ائیوٹ اتنی بینک لیز پہ نکل آئی ہے کہ سڑکو ں پہ پانچ پانچ گھنٹوں کا ٹر یفک جام ہے۔۔۔ہسپتا لوں میں ڈا کٹر نہیں ۔ میڈ یکل اسٹورز پہ دوا ئیں نہیں۔ اسکولوں میں کتا بیں نہیں۔
مگرجھولی بھر بھر کے ووٹ لے جانے والی کرا چی کی پارٹی کہتی ہے ۔ یہ ہمارا مسئلہ نہیں۔
وفاقی حکومت کہتی ہے ۔ کرا چی سے جس نے ووٹ لیا ہے وہ کرا چی کو سنبھالے۔ کرا چی ہمارا مسئلہ نہیں۔
کرا چی کی پارٹی جو واحد کام کر سکتی ہے وہ کرا چی والوں کی تعداد میں کمی لانا ہے تا کہ ٹرانسپورٹ ، صحت اور دیگر وسا ئل پر آبادی کا بوجھ کم ہو سکے ۔
گولیاں مار مار کے صحت ، ٹرانسپورٹ اور تعلیم مانگنے والوں کی تعداد میں کمی ،وسا ئل کو متوازن کر دے گی ۔
یہی سوچ ہے ان کی ۔
سیما آفتاب صاحبہ
آپ نے تو مجھے ایک سُہانا دور یاد کرا دیا ۔ یہ نظم ہماری دوسری یا تیسری جماعت کی کتاب میں تھی اور مجھے از پر اب تک یاد ہے
بینائی صاحبہ
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ اپنی کوتاہیوں کو دوسروں کے سر ڈال دیا جاتا ہے ۔ اگر سب کچھ مرکزی حکومت نے ہی کرنا ہے تو صوبائی حکومتوں کا کیا کام ہے ؟ خیبر پختونخوا اور سندھ والے خود کچھ کرتے نہیں اور صبح شام مرکزی حکومت کو کوستے رہتے ہیں
جی بالکل ۔۔۔ مجھے بھی تب سے اب تک یہ یاد ہے
بینائی صاحبہ ۔۔۔ بالکل متفق آپ کی بات سے