پشاور میں آرمی پبلک سکول پر 16 دسمبر 2014ء کو دہشتگرد حملہ ہوا ۔ بتایا گیا تھا کہ سکول کے ہال میں کسی تقریب کے سلسلے میں سب اکٹھے ہوئے تھے اور یہ کہ دہشتگرد پچھلی دیوار سے داخل ہوئے
ایک سال 7 ہفتے بعد یعنی 20 جنوری 2016ء کو چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر دہشتگرد حملہ ہوا ۔ اس کے بارے میں بھی یہی بتایا گیا کہ سکول کے ہال میں کسی تقریب کے سلسلے میں سب اکٹھے ہوئے تھے اور یہ کہ دہشتگرد پچھلی دیوار سے داخل ہوئے
سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلے واقعہ کے بعد ایسی تقریبوں کیلئے بالخصوص پچھلی دیوار کے حفاظتی اقدامات کیوں نہ کئے گئے ؟
جواب ظاہر ہے کہ ہمارے ذہن ابھی تک حقیقت پہچاننے سے محروم ہیں
ہم لوگ تقاریر اور مباحث کے شوقین بن چکے ہیں اور عمل ہم دوسروں کی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔ اس سب سے قطع نظر میں وہ حقائق لکھنا چاہتا ہوں جو اِسی مُلک پاکستان کے ماضی کا حصہ بن چکے ہیں یا بنا دیئے گئے ہیں
میں نے 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں ملازمت شروع کی تو وہاں سکیورٹی کا ایک سادہ لیکن مؤثر نظام قائم تھا ۔ اُس زمانے میں 7 بڑی فیکٹریاں تھیں ۔ ہر فیکٹری کا سربراہ جنرل منیجر ہوتا تھا ۔ جس کے ماتحت کچھ منیجر ہوتے تھے ۔ ہر فیکٹری میں پیداوار (پروڈکشن) کے انچارج 4 سے 6 اسسٹنٹ منیجر ہوتے تھے ۔ ہر اسسٹنٹ منیجر کو اپنے علاقے کا سکیورٹی آفیسر بھی سمجھا جاتا تھا ۔ سکیورٹی کا چھوٹا سا محکمہ تھا جس کے کارندے ظاہر نہیں ہوتے تھے ۔ وہ فیکٹریوں اور متعلقہ محکموں میں کھُلی آنکھوں اور کھُلے دماغوں کے ساتھ گھومتے رہتے اور کوئی مشکوک چیز یا حرکت نظر آنے پر اپنے سربراہ اور متعلقہ ورکشاپ کے اسسٹنٹ منیجر کو مطلع کرتے ۔ اس اطلاع پر فوری کاروائی کی جاتی ۔ اگر اسسٹنٹ منیجر کی طرف سے کچھ سُستی ہوتی یا وہ موجود نہ ہوتا تو سکیورٹی کا سربراہ وہاں پہنچ جاتا ۔ ورنہ اپنے دفتر میں بیٹھا جائزہ لیتا رہتا (مانیٹرنگ کرتا) ۔
کوئی اہل کار اپنی فیکٹری کے بارے میں کسی قسم کی معلومات کسی غیر متعلقہ آدمی کو نہیں بتاتا تھا اور ساتھ ہی اپنے اِرد گِرد بھی نظر رکھتا تھا اور ذرا سے شک پر اپنے افسر کو مطلع کرتا تھا
پی او ایف کے اہل کار اچھے طریقہ سے سکیورٹی کلیئرنس کے بعد بھرتی کئے جاتے ۔ میرے بھرتی کیلئے مُنتخِب ہو جانے کے بعد پولیس سمیت 3 خُفیہ اداروں کے اہلکاروں نے میرے متعلق تحقیقات کی تھیں۔ یہ لوگ جہاں جہاں قیام رہا وہاں کے محلے داروں اور سکول کالج جہاں تعلیم حاصل کی تھی سے معلومات حاصل کرتے تھے ۔ یہ سب کچھ مجھے ملازمت شروع کرنے کے کئی سال بعد معلوم ہوا تھا جب مجھے ایک سکیورٹی ڈیوٹی پر لگایا گیا تھا
بھرتی ہو جانے کے بعد بھی کئی بار میری سکیورٹی کلیئرنس ہوئی جس کا عَلم مجھے ریٹائرمنٹ سے ایک دو سال قبل ہوا تھا
دوسری اہم بات یہ ہے کہ شہریوں کی بھاری اکثریت بھی اپنے فرائض بالخصوص مُلکی سکیورٹی کے سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے تھے ۔ محلے اور گلی میں سے گذرنے والے ہر شخص پر نظر رکھی جاتی کہ کوئی مشکوک کاروائی تو نہیں کرتا ۔ تمام محلے داروں میں ایک قسم کا بھائی چارہ ہوتا تھا ۔ اس قسم کا رویّہ سب کی بہتری اور حفاظت کا ضامن تھا
صرف ایک واقعہ نمونہ کے طور پر ۔ ہماری گلی میں کوئی شخص آیا اور کچھ دیر بعد واپس چلا گیا تھا ۔ اُسے ہمارے 3 محلہ داروں نے دیکھا ۔ پہلے اُنہوں نے آپس میں سرگوشی کی اور پھر گلی کے ہر گھر کے ایک معتبر شخص سے بات کی سے ۔ اُنہیں اُس وقت تک چین نہ آیا جب تک اطمینان نہ ہو گیا کہ کچھ نہیں ہوا اور کچھ ہونے کا خدشہ بھی نہیں کیونکہ وہ شخص راستہ بھول کر ہماری گلی میں آ گیا تھا
آج کے حالات پر نظر ڈالیئے اور سوچیئے کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں ؟
آجکل ہم نے ساری ذمہ داری پولیس اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے سر پر ڈالی دی ہے اور اپنی کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتے ۔ جب دِل چاہتا ہے سکیورٹی والوں یا حکومت کو جی بھر کے کوس لیتے ہیں اور پھر اپنے دھندوں میں لگ جاتے ہیں ۔ اپنے ہموطن یا اپنے شہر یا گاؤں والے تو کیا ہمیں اپنے عزیز و اقارب کی بھی پرواہ نہیں ۔ بس ایک فکر ہے کہ ہمیں کرنا کچھ نہ پڑے اور دولت کے انبار لگ جائیں
نتیجہ پھر یہی ہوتا ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں
اللہ ہمیں اپنئ ذمہ داریاں سمجھنے اور انہیں نبھانے کی توفیق عطا فرمائے
Pingback: دہشتگرد ۔ ہم اور سکیوریٹی « Jazba Radio
محترمی
سلامِ مسنون
وقت اور حالات کے تناذُر میں بہت اچھی بات کی طرف توجہ دلائی آپ نے.
آپ جب بھرتی ہوئے تھے اس وقت جو احساس زمہ داری و شعور عوام میں تھا وہ جزبہ حب الوطنی جو اپنی زات اور اپنے گھر سے زیادہ ملک کی سالمیعت کی فکر زیادہ اہمیت رکھتی تھی وہ سب آج کہاں گیا، کس نے اُسے ‘ہیک اور ہائی جیک’ کرلیا.! آپ کی تنقید بجا اور درست ہے پر تنقید کے ساتھ اِصلاح کی بھی بات ہونی چاہیئے اس بِگاڑ کے اسباب کا بھی زکر آپ فرماتے اور عوام کے احساس و شعور کو جگاتے و احساس دلاتے کہ جو مطاع ہم میں گُم ہوگئی ہے اسے ازسرنو تازاہ کرنے کی بات ہوتی، گوکہ مضمون اور طویل ہوجاتا پر آپ کی بات اور بھی زیادہ بہتر ہوئی ہوتی.
نازنین
(غلطیوں کی کریکشن فرما دیجیئے گا.)
نازنین صاحبہ ۔ و علیکم السلام
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا ۔ کارواں کے دل سے احساسِ زیان جاتا رہا
مسئلہ حُب الوطنی کا نہیں انسانیت کا ہے ۔ جب تک دوسرے کی جان پر گذر رہی ہے پرواہ نہیں کی جاتی ۔ جن الفاظ کے ہجّے غلط ہیں اُن کے درست یہ ہیں ۔ جذبہ ۔ ذات ۔ ذمہ داری ۔ سالمیت ۔ ذکر ۔ متاع ۔ تازہ ۔ مزید ایک بات کا خیال رکھیئے کہ آپ مندرجہ ذیل نشانات انگریزی کے استعمال کرتی ہین جن سے عبارت اُلٹ پُلٹ ہو جاتی ہے ۔ انہیں استعمال نہ کریں تو بہتر ہے
“ . ‘ ,
اس مشکل سے بچنے اور آسانی سے اُردو یا انگریزی بلکہ عربی اور ہندی بھی لکھنے کیلئے آپ مندرجہ ذیل انسٹال کر لیجئے
http://en.softonic.com/s/swiftkey-keyboard-full-version-free:android
السلام و علیکم ۔۔۔۔۔ بالکل درست کہا آپ نے ساری بات انسانیت کی ہے ۔۔ جب تک خود پر نہ گزرے تب تک کسی کو پرواہ نہیں ہوتی ۔۔۔ بحیثیت قوم ہم بالکل بے حس ہو چکے ہیں کسی بھی واقعے کا اثر صرف چند دن رہتا ہے اس کے بعد اگلے واقعے تک پھر سے Hibernation Mode میں چلے جاتے ہیں ۔۔۔ اللہ ہم سب پر رحم فرمائے آمین!!
Pingback: یہ میرا مسئلہ نہیں ؟ | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I
Pingback: یہ میرا مسئلہ نہیں ؟ « Jazba Radio