Yearly Archives: 2015

آج کے دن


آج کے دن کم از کم مندرجہ ذیل اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے

1 ۔ انسانیت سے دوستی کا ڈنڈورہ پیٹنے والے امریکہ نے ہروشیما کی شہری آبادی پر ایٹم بم گرایا جس سے 2555000 کی آبادی میں سے 66000 انسان ہلاک اور 69000 زخمی ہوئے ۔ یعنی 26 فیصد مر گئے اور مزید 27 فیصد زخمی ہوئے ۔ صرف 47 فیصد بچے ۔ زخمیوں میں سے بہت سے اپاہج ہو گئے

2 ۔ پی آئی اے کی قاہرہ مصر کے لئے پہلی آزمائشی پرواز نمعلوم وجوہات کی بناء پر قاہرہ کے قریب صحرا میں گر کر تباہ ہو گئی اور 200 کے قریب لوگ ہلاک ہو گئے

3 ۔ پی آئی اے کا فوکر فرینڈشپ طیارہ راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے روات کے قریب گر کر تباہ ہو گیا اور 25 لوگ ہلاک ہو گئے ۔

میں زوڈیاک سائینز میں یقین نہیں رکھتا لیکن جو اس کا شوق رکھتے ہیں ان کے لئے لکھ دیتا ہوں کہ چھ اگست کے لئے زوڈیآک سائین اسد یا لیو ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے ۔

Warm, generous, open spirit; strong leaders, readily noticed whenever they enter a room; enjoy being center stage; regal appearance and often a dramatic personality; strong pride and occasionally arrogant; susceptible to flattery and easily embarrassed; good follow-through, will see a project to its conclusion; often artistic and creative; natural understanding of children; loyal and ardent lovers; may make fun of themselves, but won’t appreciate others doing so.

آج کے دن جموں شہر میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام ریاست حیدر آباد کے کسی حساب دان نے اس کی پیدائش کے سال کی بنیاد پر افتخار اجمل رکھا

میں پاگل ؟ ؟ ؟

میں نے اُس منہ کو بھی کھانا دیا جس نے مجھ پر بہتان تراشی کی
میں نے اُس کے چہرے سے بھی آنسو پونچھے جس نے مجھے رُلایا
میں نے اُسے بھی سہارا دیا جس نے مجھے گرانے میں کسر نہ چھوڑی
میں نے اُن لوگوں کے ساتھ بھی بھلائی کی جو میرے لئے کچھ نہیں کر سکتے
میں نے اُن لوگوں کی بھی مدد کی جنہوں نے میری پیٹھ میں چھُرا گھونپا

یہی کہیں گے نا ۔ کہ میں پاگل ہوں ؟ ؟ ؟

لیکن میں اپنے آپ کو دوسروں کی نفرت میں ضائع نہیں کرنا چاہتا
میں ایسا ہی رہنا چاہتا ہوں
کیونکہ
میں جو کچھ بھی ہوں ۔ میں ہوں اور یہ میری فطرت ہے
زندگی آسان نہیں لیکن تمام تر مشکلات کے ساتھ میں اسے بطور خود گذارنا چاہتا ہوں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ بیج اور فصل

مستقل مزاجی بونے والا اطمینان کی فصل پائے گا
محنت بونے والا کامیابی کی فصل پائے گا
یقین بونے والا ایمان کی فصل پائے گا

محتاط رہیئے کہ جو آج بوئیں گے کل کو اُسی کے مطابق فصل پائیں گے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Guilty of Being Poor “

ملے جب اُن سے

شعر ہے
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

لیکن جناب ہوا یوں کہ دبئی سے ہماری روانگی سے ایک دِن قبل ہمیں جب وہ ملنے آئے تو
کبھی دل میں اُن کو آفریں کہتے
کبھی اپنے آپ پہ پشیماں ہوتے

اپنے شہر یا گاؤں سے کسی دوسری جگہ جائیں تو اُمید ہوتی ہے کہ وہاں کوئی جاننے والا رابطہ کرے گا ۔ کاشف علی صاحب سے ملاقات پچھلی دفعہ ہو گئی تھی ۔ اُن کا پیغام ملا کہ وہ عید سے پہلے پاکستان چلے جائیں گے اور ستمبر میں واپسی ہو گی ۔ کوشش کریں گے کہ جانے سے قبل ملاقات کریں ۔ کام مشکل تھا ۔ خیر جب عیدالفطر گذر گئی اور مزید کوئی پیغام نہ آیا تو عبدالرؤف صاحب کا ای میل کا پتہ تلاش کر کے رابطہ کیا ۔ جواب ملا کہ وہ وٹس ایپ پر مجھ سے رابطے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے تھے ۔ ہم ٹھہرے پَینڈُو (دیہاتی) رَومِنگ نہیں لی تھی اور سِم بھی نکال کر نئے موبائل فون (وَن پلَس وَن) جو بیٹے زکریا نے بھیجا ہے میں لگا دی تھی ۔ پھر پیغام کیسے ملتا ۔ خیر اُنہوں نے اتوار کو دفتری اوقات کے بعد ملنے کا وعدہ کیا

ہم لوگ 11 جولائی کو الروضہ (دی گرینز) سے مثلث قریۃ الجمیرا (جمیرا وِلیج ٹرائی اینگل) منتقل ہو گئے تھے ۔ عبدالرؤف صاحب کیلئے بھی یہ علاقہ نیا تھا سو بہت گھوم گھما کر پہنچے ۔ مجھے ساتھ لیا اور کسی ریستوراں کی تلاش میں نکلے جہاں ٹی وِد سِمپَیتھی یعنی چائے مع کھانے کی چیز کے پیش کی

میں سجھتا تھا کہ بلوچ ہیں ڈیرہ بُگٹی یا چاغی کی پہاڑیوں کے باسی ہوں گے ۔ اُن کے جو تبصرے میرے بلاگ پر ہوتے تھے اُن سے سمجھا تھا کہ مضبوط جسم اور تنا ہوا چہرہ رکھتے ہوں گے ۔ صورتِ حال بالکل ہی اُلٹ نکلی ۔ وہ نکلے کراچی نارتھ ناظم آباد کے باشندے لیکن الطاف حسین کی خوشبو بھی اُن کے قریب سے نہ گذری تھی ۔ داڑھی جو کبھی نہ مُونڈھی تھی خوبصورت لگ رہی تھی ۔ بات بھی انکساری سے کرتے ۔ میں پشیماں نہ ہوتا تو کیا کرتا ؟

چائے وغیرہ کے بعد مجھے واپس چھوڑا ۔ دوبارہ دبئی آنے پر ملنے کا وعدہ لیا اور خود اسلام آباد آنے پر ملنے کا وعدہ کر کے چلے گئے

کہتے ہیں ہر لمحہ اور ہر ملاقات کچھ سکھانے کیلئے ہے بشرطیکہ کوئی سیکھنا چاہے ۔ عبدالرؤف صاحب بھی مجھے بہت کچھ سکھا گئے
ا ۔ پنجابی میں کہتے ہیں ۔ راہ پیئا جانے تے واہ پیئا جانے
2 ۔ ہیں کواکب کچھ ۔ نظر آتے ہیں کچھ اور
3 ۔ بھولپن میں ایک بات ایسی کہہ گئے کہ میرا مرید ہونے کو جی چاہا ۔ میں نے داڑھی کی بات کی تو لجاجت سے بولے ”والد صاحب نے مجبور کیا تھا کہ داڑھی رکھ لو سو شروع ہی سے رکھ لی ۔ خیر ۔ اللہ کی مہربانی سے اس نے میرے کردار پر عمل دِکھایا ہے“۔ اللہ تعالٰی نے مسلمان عورتوں کو پورا جسم چھُپانے والا لباس پہننے کا حُکم دیا ہے تاکہ وہ پہچانی جا سکیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کو بھی اپنے متعلق یہی سوچنا چاہیئے

قرآن شریف کا قدیم ترین نُسخہ برمنگھم یونیورسٹی میں دریافت

سُبحان اللہ ۔ نہ مُلک مسلمانوں کا ۔ نہ یونیورسٹی مسلمانوں کی ۔ نہ محقق مُسلم ۔ اور ثبوت کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے زمانہ سے آج تک قرآن کی عبارت میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ۔ تفصیل کچھ یوں ہے

اتحادیوں کی سلطنت عثمانیہ پر 1908ء سے 1918ء تک یلغار کے نتیجہ میں شرق الاوسط (مشرقِ وسطہ) اتحادیوں کے قبضہ میں چلا گیا ۔ آج کا عراق اُن دنوں تعلیم کا گڑھ تھا ۔ 1920ء میں کلدائی قوم کا ایک پادری (بابل کا باشندہ) الفانسو مِنگانا (Alphonse Mingana) مُوصل سے عربی کے 3000 قلمی نُسخے برطانیہ لے کر گیا تھا ۔ یہ نُسخے 95 سال سے مِنگانا کا ذخیرہ (Mingana Collection) کے نام سے برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری میں گُمنام حیثیت میں پڑے تھے اور کسی کے عِلم میں نہ تھا کہ ان میں قرآن شریف کا دنیا کا قدیم ترین نُسخہ بھی ہے

قرآن شریف کے اس نُسخے کی عمر کا تعین ریڈیو کاربن ڈیٹنگ (Radiocarbon dating) یعنی جدید سائنسی طریقہ کے ذریعہ کیا گیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ نسخہ کم از کم 1370 سال پرانا ہے ۔ چنانچہ یہ قرآن شریف کے دنیا میں اب تک حاصل کئے گئے قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے ۔ برطانیہ کے لائبریری ماہر ڈاکٹر محمد عیسٰے والے کا کہنا ہے کہ یہ ایک حیران کُن دریافت ہے جس سے مسلمانوں کو مُسرت ہو گی
1یہ اوراق بھیڑ یا بکرے کی کھال کے ہیں

پرانے ترین نُسخے
جب پی ایچ ڈی کرنے والے محقق البا فیڈیلی (Alba Fedeli) ان اوراق کی باریک بینی کی تو ان کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور نتیجہ حیران کن نکلا ۔ ٹیسٹ کرنے کے بعد آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلریٹر یونٹ (Oxford University Radiocarbon Accelerator Unit) نے بتایا کہ بھیڑ اور بکرے کی کھال پر لکھے گئے قرآن شریف کے نسخے بہت پرانے ہیں ۔ یونیورسٹی کے مخصوص مخازن کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ہم نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا کہ یہ نسخہ اتنا پرانا ہو گا
2

برمنگھم یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس (Prof David Thomas) جو اسلام اور عیسائیت کے پروفیسر ہیں نے کہا ”جس کسی نے بھی اسے لکھا ہو گا وہ ضرور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کو قریب سے جانتا ہو گا اور اُس نے اُنہیں بولتے ہوئے بھی سُنا ہو گا ۔ ان ٹیسٹوں سے جو 95 فیصد درست ہوتے ہیں قرآن شریف کے نسخے کے مختلف اوراق کی تاریخیں 568ء اور 645ء کے درمیان نکلتی ہیں ۔ اس کا یہ مطلب ہوا کہ اس کی لکھائی طلوعِ اسلام کے چند سال کے اندر شروع ہوئی“۔

پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے مزید کہا ”مسلمانوں کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم پر قرآن شریف کا نزول 610ء اور 632ء کے درمیان ہوا جبکہ 632 اُن کے وصال کا سال ہے“۔
3

پروفیسر ڈیوڈ تھامس نے بتایا کہ قرآن شریف کے کچھ حصے کھال کے بنے کاغذ ۔ پتھر ۔ کھجور کے پتوں اور اونٹ کے کشانے کی چوڑی ہڈی پر بھی لکھے گئے تھے ۔ ان سب کو کتابی شکل لگ بھگ 650ء میں دی گئی تھی ۔ متذکرہ نسخے کی عبارت تقریباً وہی ہے جو آج کے قرآن شریف کی ہے ۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے قرآن شریف میں کوئی تحریف نہیں ہوئی یا بہت ہی کم تبدیلی ہوئی ہے“۔

حجازی رسم الخط میں لکھا ہوا قرآن شریف کا نسخہ سب سے پرانے نسخوں میں سے ایک ہے ۔ برمنگھم یونیورسٹی میں موجود نسخہ زیادہ سے زیادہ 645ء کا ہو سکتا ہے

یہ معلومات سین کوفلان (Sean Coughlan) کے 22 جولائی 2015ء کو شائع ہونے والے مضمون سے لی گئیں

بادشاہی مسجد لاہور

میری ڈائری میں 27 جنوری 1957ء کی تحریر
زمین سے مسجد کے صحن کے فرش تک 24 سیڑھیاں ہیں
مینار کی 183 سیڑھیاں ہیں

بادشاہی مسجد لاہور مُغل بادشاہ ابو المظفر محی الدین محمد اورنگ زیب (1658ء تا 1707ء) نے تعمیر کرائی ۔ اس کی تعمیر 1671ء میں شروع ہوئی اور 1673ء میں مکمل ہوئی ۔ یہ پاکستان اور جنوبی ایشیا میں دوسری سب سے بڑی اور دنیا میں پانچویں سب سے بڑی مسجد ہے ۔ حکومتِ پاکستان نے 1993ء میں اسے دنیا کے ورثہ میں شامل کرنے کیلئے یونیسکو کو درخواست کی ۔

سکھوں کے دورِ حکومت (1799ء تا 1849ء) میں اسے فوج کے گھوڑوں کا اصطبل بنا دیا گیا تھا ۔ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی نے 1849ء میں لاہور کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد اس کے استعمال میں تبدیلی نہ کی اور ملحقہ شاہی قلعے کو ملٹری گیریزن کے طور پر استعمال میں رکھا ۔ مسجد کی چار دیواری میں سے تین میں 80 ہُجرے جو طُلباء کے مطالعہ کیلئے تھے انہیں سکھوں نے ملٹری سٹور کے طور پر استعمال کیا ۔ برطانوی حکومت نے اس خدشے پر انہیں مسمار کر دیا کہ کہیں انہیں برطانیہ مخالف سرگرمیوں کیلئے استعمال نہ کیا جائے اور وہاں کھُلے دلان بنوا دیئے تھے جو آج تک موجود ہیں ۔ مسجد کے غلط استعمال سے عمارت کو کافی نقصان پہنچا تھا ۔ انگریزوں نے مسمانوں میں پھیلتے غم و غصے کو بھانپ کر 1852ء میں ایک بادشاہی مسجد بحالی اتھارٹی بنائی ۔ 1852ء کے بعد کبھی کبھی تھوڑی تھوڑی مرمت کا کام ہوتا رہا ۔ جب 1939ء میں سکندر حیات خان وزیرِ اعلٰی پنجاب بنا تو اُس نے مسلمانوں سے مرمت کیلئے چندہ اکٹھا کیا اور مرمت کے کام میں تیزی آئی تھی ۔ مرمت اور زیبائش کا زیادہ کام پاکستان بننے کے بعد ہوا

ناگہانی ملاقات

کل یعنی بروز اتوار بتاریخ 19 جولائی 2015ء میں اپنی بیگم ۔ بیٹی ۔ بیٹے ۔ بہو بیٹی ۔ پوتا اور پوتی کے ساتھ دبئی فیسٹیول سٹی مول کے گھریلو سامان کے حصے میں پھر رہا تھا کہ میری بیگم نے میری توجہ پیچھے کی جانب مبزول کرائی ۔ میں نے مُڑ کر دیکھا تو ایک خوش پوش جوان ۔ درمیانہ قد سڈول جسم ساتھ برقعے میں ملبوس مہین سی بیگم اور ماشاء اللہ خوبصورت پھول ننھی سی بیٹی پُش چیئر یا سٹرولر میں ۔ موصوف بولے ” آپ اجمل ؟ اجمل بھوپال ہیں ؟“

میں نے جی کہا اور اپنی رَیم اور پھر ہارڈ ڈسک کو 15 گیگا ہَرٹس پر چلایا مگر کہیں یہ اِمَیج نہ پایا ۔ بندہ بشر ٹھہرا کم عقل ۔ کم عِلم ۔ ناتجربہ کار ۔ پر اِتنا بھی گیا گذرا نہیں ۔ قصور تھا اُس تصور کا جو قائم ہوا تھا موصوف کے بلاگ پر کسی زمانہ میں لگی تصویر کو دیکھ کر جسے ہم نے اُن کی شبیہ سمجھا تھا یا شاید وہ نو جوانی یعنی شادی سے پہلے کے زمانہ کی تھی جس میں موصوف کا اُونچا قد اور جسم پھریرا محسوس ہوا تھا ۔ خیر یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہو گذرا

اگلے لمحے ۔ وہ خوبصورت جوان بولے ” میں عمران ہوں ۔ عمران اقبال“۔

میں جون تا اگست 2012ء میں دبئی میں تھا تو عمران اقبال صاحب نے مجھ سے ماہ رمضان کے دنوں میں رابطہ کیا تھا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی تھی لیکن ملاقات کا بندوبست نہ ہو سکا تھا

میں جنوری تا اپریل 2014ء میں دبئی میں تھا تو کاشف علی صاحب کا پیغام ملا کہ اگر اُنہیں فلائیٹ کا پتہ چل جاتا تو مجھے ملنے ایئرپورٹ پہنچ جاتے ۔ بہر کیف چند دن بعد وہ میرے پاس پہنچ گئے اور مجھے ساتھ لے کر قریبی ریستوراں میں جا بیٹھے ۔ گپ شپ ہوئی اور آئیندہ ملنے کا وعدہ بھی ۔ مگر اللہ کو منظور نہ ہوا ایک طرف میں شدید بیمار پڑ گیا اور دوسری طرف کاشف علی صاحب آشوبِ چشم میں مبتلاء ہو گئے ۔ اب آنے سے قبل کاشف علی صاحب سے رابطہ ہوا تو بتایا کہ وہ عید سے ایک دو دن قبل پاکستان چلے جائیں گے اور ستمبر میں واپس آئیں گے ۔ میں اس دفعہ صرف ایک ماہ کیلئے آیا ہوں ۔ اگلے پیر اور منگل کی درمیانی رات اِن شآء اللہ ہماری واپسی ہو گی

عمران اقبال صاحب نے یہ بھی بتایا کہ آجکل عمران خان کے حمائتی ہیں اور نواز شریف کی ہِجو لکھتے ہیں ۔ کیوں نہ ہو ہم نام جو ہوئے ۔ میں نے اُن سے ایک ایسا سوال پوچھا جس کا جواب خود عمران خان بھی شاید نہ دے سکے ۔ سوال ہے ” 9 کروڑ روپیہ جو دھرنے میں موسیقی پر خرچ کیا گیا اسے شوکت خانم میموریل ہسپتال میں مُفلِس مریضوں کے علاج پر کیوں خرچ نہ کیا گیا ؟“ یہ سوال میں عمران خان کے کئی جان نثاروں سے پوچھ چکا ہوں ۔ پہلے تو کوئی مانتا نہ تھا کی موسیقی پر خرچ ہوا اور کہتے تھے کہ ڈی جے بٹ نے یہ کام اعزازی (بلامعاوضہ) کیا ۔ اب تحریک انصاف نے ادائیگی کا اقرار کر لیا ہے تو موضوع کو کسی اور طرف دھکا دے دیتے ہیں یا ہنس دیتے ہیں

میری طرف سے تمام بلاگران اور قارئین کی خدمت میں درخواست ہے کہ جب بھی اسلام آباد تشریف لائیں ۔ مجھے کم از کم ایک دن قبل اطلاع کر دیں تا کہ ملاقات کا شرف حاصل کرنے کی کوشش کر سکوں ۔ بہنیں اور بیٹیاں بھی مدعو ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ وہ میری بیگم سے مل کر خوش ہوں گی