Yearly Archives: 2015

کیا امریکہ سب سے غریب مُلک ہے

اگر اقوامِ متحدہ کی آخر 2013ء میں دنیا میں مہاجرین کی تعداد اور پناہ دینے والے ممالک کے متعلق حال ہی میں شائع ہونے والی رپورٹ کو دیکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ ہمارا پاکستان دنیا کا امیر ترین مُلک ہے یا یوں کہیئے کہ ہمارے ہموطن دنیا میں سب سے زیادہ وسیع القلب ہیں اور امریکہ سب سے غریب مُلک ہے ۔ ایتھوپیا سے بھی زیادہ غریب
Refugees 2013

قطب مینار

میں نے ڈائری میں 31 مارچ 1958ء کو لکھاQutub Minar Delhi
یوں تو دنیا کے مختلف شہروں میں بہت سے بلند و بالا مینار ہیں جو اپنی خوبصورتی کے لحاظ سے کچھ کم شاندار نہیں مگر سنگین مینار چوٹی سے زمین تک خوبصورت اور بلند اور قدیم سوائے قطب مینار کے اور کوئی نہیں ۔ قطب مینار خالص پتھر کا بنا ہوا ہے ۔ اس کی بلندی 238 فٹ ہے ۔ مینار میں چوٹی تک 378 سیڑھیاں ہیں ۔ اس مینار کا پہلا درجہ اگرچہ رائے پتھورا کے زمانہ کا بنا ہوا ہے مگر 1193ء میں اسلامی فتوحات مکمل ہو جانے پر سُلطان قطب الدن ایبک نے اس پر چار درجوں کا اضافہ کرایا اور اس مینار کو مازنہ قرار دے کر اس نسبت سے ایک عالیشان مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد قوت الاسلام کے نام سے معروف ہوئی ۔ جس مسجد کا ماذنہ اتنا بُلند ہو اس کی وسعت کا کیا اندازہ کیا جا سکتا ہے ۔ بت خانہ کے صحن میں ماذنہ اور مسجد کا ہونا اور بت خانہ کا بھی قائم رہنا اور لوہے کی لاٹ ہندو راج کا نشان سب کا ملا جُلا ایک جگہ ایک ہزار سال قائم رہنا یہ نظارہ سوائے دہلی کے اور کسی جگہ نظر نہیں آئے گا ۔ اب حال یہ ہے کہ نہ بُت خانہ میں پوجا ہوتی ہے نہ مسجد میں نماز نہ ماذنہ سے اذان

سُلطان قطب الدین ایبک کے انتقال کے بعد سلطان شمس الدین التمش 627 ھ بمطابق 1229ء میں مسجد قوت الاسلام میں تین درجوں کا اضافہ کیا جس پر اسلامی پرچم نہائت شان سے لہرایا کرتا تھا اور اسلام کے شیدائی شمس الدین التمش نے ہر درجہ پر جلی حروف میں آیاتِ قرآنی کندہ کروائیں ۔ قطب مینار نیچے سے 48 فٹ گول ہے اور اُوپر تک گاؤ دُم ہوتا چلا گیا ہے ۔ یہ ایسی خوبصورتی سے بنایا گیا ہےکہ تحریر سے باہر ہے ۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی بڑی بڑی سِلیں اس زمانہ میں جبکہ آلاتِ جرثقیل اور سائنٹفک آلات موجود نہ تھے تو کس طرح اس بلندی پر پہنچ کر لگائی گئی تھیں کہ آج ایک ہزار سال ہو گئے لیکن اُکھڑنے کا نام نہیں لیتیں ۔ قطب مینار کی بنیاد کس ساعتِ سعید میں رکھی گئی ہو گی کہ ہندوؤں کے زمانہ میں اس کا پہلا درجہ بنا ۔ مسلمانوں نے اسے سربلند کیا ۔ ان کے عروج و کمال کو دیکھا ۔ پھر ان کے زوال کو بھی دیکھا اور نجانے کب تک انقلابِ لیل و نہار کا مشاہدہ کرتا رہے گا

اہم بات
جب 1950ء کی دہائی کے آخری سالوں میں اٹلی میں موجود پِسا (Pisa) کے مینار کے تِرچھا یعنی ایک طرف کو جھُکا ہوا ہونے کا چرچا ہو رہا تھا والد صاحب نے ہمیں بتایا تھا کہ قطب مینار شروع دن سے ہی عمودی نہیں بلکہ کچھ تِرچھا بنا ہوا ہے جبکہ پِسا کا مینار تعمیر کی خامی کی وجہ سے جھُکنا شروع ہو گیا ہے ۔ مزید قطب مینار کی اُونچائی پِسا کے مینار سے 53 فٹ زیادہ ہے اور قطب مینار کی عمر پِسا کے مینار سے 180 سال زیادہ ہے مگر پروپیگنڈہ کے ذریعہ پِسا کے مینار کو عجوبہ قرار دیا جا رہا ہے اور قطب مینار کا نام کوئی نہیں لیتا

میاں بیوی ایک دوسرے کی بات کم سمجھتے ہیں

میاں بیوی کے رشتے کو دنیا بھر میں سب سے قریبی سمجھا جاتا ہے اور عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کی بات کسی اور کی نسبت زیادہ بہتر سمجھتے ہیں ۔ حالیہ سائنسی تحقیق اس نظریئے کی نفی کرتے ہوئے بتاتی ہے کہ دو اجنبی ایک دوسرے کی بات سمجھ سکتے ہیں مگر میاں بیوی نہیں

ہر شوہر (اور ہر بیوی) یہ دعوٰی کرتا (یا کرتی) ہے کہ وہ اپنے شریکِ حیات کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا (یا جانتی) ہے ۔ اس کے باوجود اکثر بیویاں اپنے شوہروں کے بارے میں کہتی ہیں کہ شوہر ان کی بات نہیں سُنتے ۔ اس کے برعکس اکثر شوہروں کو یہ شکائت ہوتی ہے کہ ان کی بیگم ان کی بات دھیان سے نہیں سُنتی ۔ ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ اس کا سبب ایک دوسرے کو نہ جاننا ہے

اکثر میاں بیوی طے کر لیتے ہیں کہ ان کی (یا کے) شریکِ حیات ان کے بارے میں سب کچھ جانتی (یا جانتے) ہیں لہٰذا آپس میں کچھ بتاتے ہوئے تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔ لیکن جب کسی دوسرے سے بات ہوتی ہے تو اُسے بات تفصیل سے بتائی جاتی ہے چنانچہ عام طور پر میاں بیوی کی نسبت دوسرے بات سمجھ لیتے ہیں ۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے بارے میں یہ فرض کر لینا کی وہ ایک دوسرے کو بہت اچھی طرح جانتے ہیں غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے جس کا نتیجہ بسا اوقات فاصلوں اور تنازعات کی صورت نکلتا ہے

قریبی تعلق یا رشتے کی خوش فہمی کے باعث ہم گفتگو کرتے وقت تفصیل کی بجائے اشارے کنائے یا مختصر جُملے سے کام لیتے ہیں اس گمان میں کہ سمجھ آجائے گی اور جب ایسا نہیں ہوتا تو نہ صرف یہ کہ ذہن کو جھٹکا لگتا ہے بلکہ شکوے شکائتیں بھی شروع ہو جاتی ہیں ۔ اس کے بر عکس جب ہم کسی اجنبی سے بات کرتے ہیں تو ہم ذہن میں رکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتا اور اُسے ہر چیز اچھی طرح سے سمجھاتے ہیں

یہ مسئلہ صرف میاں بیوی کا ہی نہیں گہرے دوستوں کا بھی ہے جو اسی زعم میں ہوتے ہیں کہ دوسرا اُسے اچھی طرح جانتا ہے اور بات وضاحت کے ساتھ نہیں کرتا ۔ نتیجہ غلط فہمیوں اور جھگڑوں میں نکلتا ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔دل و دماغ

ناکامی کو دل میں جگہ نہ دیجئے
ناکامی دل میں مایوسی پیدا کرتی ہے
اور
کامیابی کو دماغ میں جگہ نہ دیجئے
کامیابی دماغ میں تکبّر پیدا کرتی ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Earthquake predicted by animals “

راقم الحروف پر جملہ معترضہ

قیاس ہے کہ موضوع عام قارئین کی دلچسپی کا ہے اسلئے سرِ ورق جواب لکھنے کا سوچا

میری تحریر ” چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ شریکِ حیات“ شائع کرتے وقت مجھ سے غلطی ہوئی تھی جس کی میں نے تصحیح شائع کی ۔ اس پر عبدالرؤف صاحب نے لکھا ہے ۔
”محترم نہایت نازک موضوع چھیڑ دیا ہے ۔ سورۃ النساء کی آیات نمبر35 ۔ 34 کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں ۔ اگرچہ کہ اس آیت کے درست مفہوم کے بارے میں عصرحاضر کے اہل علم کی رائے دوسرے سے مختلف ہیں ۔ لیکن کم سے کم اس آیت میں یہ تو بلکل (بالکل) واضح ہے کہ ازواجی معاملات میں مردوں کو عورتوں پر کچھ فضیلت حاصل ہے ۔ اب یہ اور بات ہے کہ کسی مخصوص مرد میں اپنی فضیلت قائم اور برقرار رکھنے کا کمال نہیں ہو تو اسکی مثال سبھی پر حُجت نہیں بنائی جاسکتی ہے ۔ افسوس آجکل بے کمال مردوں کی بہتات ہوگئی ہے اور اپنی خفگی (خِفّت) مٹانے یا چھپانے کے لیے بقول حالی
خود بدلتے نہیں دین کو بدل دیتے ہی“۔

بلا شُبہ میری عقل نامکمل اور عِلم محدود ہے

مجھے ایک ہی بات سجمھ میں آئی ہے کہ اسلام دینِ فطرت ہے اور انسان کی فطرت اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے بنائی ہے ۔ میں نے تاریخ میں پڑھا کہ رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ ۔ پانچوں خُلفائے راشدین رضی اللہ عنہُم اور اُن کی رعایا کے درمیان ہر لحاظ سے برابری کا تعلق تھا سوائے چند عوامل کے ۔ رعایا کو تحفظ اور رزق فراہم کرنا حاکم کے ذمہ تھا جس کے بدلے میں حاکم کی اطاعت رعایا کے ذمے تھی ۔ آنکھ کھولنے کے بعد جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ اس سے بالکل مختلف ہے جس کا میں حوالہ بھی دینا نہیں چاہتا

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ
ایک عورت جو رسول اللہ ﷺ کی ھدائت میں یقین نہیں رکھتی تھی اور جب حضور ﷺ گذرتے تو اُن پر کوڑا پھنکتی تھی ۔ اُس عورت نے چند دن اپنا فعلِ بد نہ دُہرایا تو حضور ﷺ اُس کی خیریت دریافت کرنے گئے
امیرالمؤمنین (مسلمانوں کے حاکم) جناب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ اپنے علاقہ کا جائزہ لے رہے تھے تو ایک گھرانے سے بچوں کے رونے کی آوازیں آئیں ۔ وجہ پوچھنے پر عورت نے کہا ”بھوکے ہیں ۔ عمر کی جان کو رو رہے ہیں“۔عمر رضی اللہ عنہ پلٹے اور باوجود خادم کی تھیلا اُٹھانے کی پیشکش کے بیت المال سے آٹے کا تھیلا اپنے کندھے پر یہ کہتے ہوئے رکھا ”پوچھ عمر سے ہوگی“ اور اُس گھرانے میں پہنچایا

ایسے عوامل سے تاریخِ اسلام بھری پڑی ہے ۔ ان عوامل کی روشنی میں ہم جب خاوند کو بیوی پر حاکم کہتے ہیں تو اس کا مطلب ہو ہی نہیں سکتا کہ بیوی غلام ہے ۔ میری صاحبِ علم خواتین و حضرات سے عرض ہے کہ قرآن شریف کی کسی آیت کا مطلب الگ سے نہ لیا کریں بلکہ پورے قرآن شریف اور رسول اللہ ﷺ اور ان کے رفقاء رضی اللہ عنہم کے عمل کی بنیاد پر لیا کریں ۔ مزید جب بھی کسی بات کو سمجھنا ہو تو اپنی عقل کو مثبت سمت میں استعمال کیا کریں

عبدالرؤف صاحب نے متذکرہ آیات کا مکمل ترجمہ نہیں لکھا اور نہ ساری متعلقہ آیات کا احاطہ کیا ہے اس سلسلہ میں ”رشتہءِ ازداج“ کے موضوع پر میری 1984ء میں پیش کردہ تقریر کو بھی پڑھ لیں ۔ ہو سکتا ہے میں نے اس میں اپنا مدعا عام فہم طریقہ سے بیان کیا ہو اور سب کی سمجھ میں آ جائے
اللہ ہم سب کو سیدھی راہ پر قائم کرے