Yearly Archives: 2015

موجودہ حالات کی جڑ کہاں ہے ؟

اگر آپ کو پاکستان سے ذرا سا بھی لگاؤ ہے تو کچھ وقت نکال کر مندرجہ ذیل اقتباس پڑھ کر اندازہ لگایئے کہ ہمارا یہ مُلک موجودہ حال کو کیسے پہنچا اور فکر کیجئے کہ اسے درست کیسے کرنا ہے
خیال رہے کہ بنی عمارت کو گرانا آسان ہوتا ہے لیکن نئی عمارت کی تعمیر وقت اور محنت مانگتی ہے اور گری عمارت کی بحالی کیلئے زیادہ وقت ۔ زیادہ محنت اور استقلال ضروری ہوتا ہے
مت بھولئے کہ آپ کا مُستبل آپ کے ہاتھ میں ہے اور اسے آپ ہی نے بنانا ہے

لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیر (جو نہ صرف پرویز مشرف کو قریب سے جانتے تھے بلکہ اُس دور میں روشن خیالی کے نام پر اس بے غیرتی اور بے ہودگی کے وجوہات سے بھی واقف تھے) لکھتے ہیں

میری ریٹائرمنٹ کے بعد مارچ 2006ء میں، جن دنوں میں نیب (NAB) میں تھا، امریکہ کے صدر حضرت جارج بُش اسلام آباد تشریف لائے۔ رات کو پریزیڈنٹ ہاؤس میں کھانا ہوا اور ایک ثقافتی پروگرام پیش کیا گیا۔ پروگرام میں پاکستان کی تہذیب پر ایک نگاہ ڈالی گئی کہ ہماری تہذیب پر تاریخ کے کیا اثرات رہے
پہلی تصویر ہمارے معاشرے کی موہنجو ڈارو کے ادوار کی پیش کی گئی۔ نیم عریاں لڑکیوں نے ناچ کر ہمیں سمجھایا کہ ہماری ثقافت کی ابتداء کہاں سے ہوئی
پھر بتایا گیا کہ الیگزینڈر کے آنے سے ہم نے ایک نیا رنگ حاصل کیا۔ اس رقص میں فیشن بدل گیا اور لباس بھی مزید سکڑ گئے
پھر اگلا رقص عکاسی کرتا تھا ہندوانہ تہذیب کی برہنگی کا جس کا اثر ہماری تہذیب پر رہا

جب لباس غائب ہونے لگے تو میں ڈرا کہ آگے کیا آئے گا لیکن پھر
کافرستان کی رقاصائیں آ گئیں کہ یہ اب بھی یہاں ناچتی ہیں۔ صرف اس پیشکش میں کچھ ملبوس نظر آئے
اگلے رقص میں چھتریاں لئے برطانیہ کی میم صاحبائیں دکھائی گئیں جنہوں نے چھتریوں کے علاوہ دستانے بھی پہنے تھے اور کچھ رومالیاں ہاتھوں سے باندھی ہوئی تھیں
پھر اگلے رقص میں پاکستان کی موجودہ تہذیب کی عکاسی میں لڑکوں اور لڑکیوں نے مل کر، خفیف سے ملبوس میں جنسی کنائیوں (sexual innuendoes) سے بھرپور رقص پیش کر کے حاضرین کو محظوظ کیا
آخر میں ایک اور انوکھا رقص پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ وہ مستقبل ہے جس کی طرف ہم رواں ہیں ۔ اسٹیج پر برہنہ جانوروں کی مانند بل کھاتے، لپٹتے ہوئے اپنے مستقبل کی تصویر دیکھ کر جی چاہا شرم سے ڈوب مروں، مگر حیوانیت نے آنکھیں بند نہ ہونے دیں

بچپن میں سنا تھا کہ یہاں کبھی محمد بن قاسم بھی آیا تھا اور بہت سے بزرگان دین بھی مگر شاید اُن کا کچھ اثر باقی نہ رہا تھا
جب ہم اپنا تماشا دکھا چکے اور حضرت بش اُٹھ کر جانے لگے تو تمام مجمع بھی اُن کے پیچھے دروازے کی طرف بڑھا۔ وہ دروازے پر پہنچ کر رُک گئے پھر ہماری طرف مُڑے تو سارا مجمع بھی ٹھہر گیا۔ دانت نکال کر اپنے مخصوص انداز میں مسکرائے، گھُٹنے جھُکا کر کو لہے مٹکائے، دونوں ہاتھوں سے چٹکیاں بجائیں اور سر ہلا کر تھوڑا اور مٹک کر دکھایا جیسے کہہ رہے ہوں، ”ہُن نَچو“۔
جس کی خوشی کے لئے ہم نے قبلہ بدل لیا، اپنی تاریخ جھٹلا دی، اپنا تمدن نوچ کر پھینک دیا، وہ بھی لعنت کر گیا

روشن خیالی کے نام پر بے شرمی اور بے غیرتی کے اس واقعہ کو بیان کرنے سے پہلے جنرل شاہد عزیز لکھتے ہیں

سی جی ایس (CGS) کی کرسی پر دو سال مجھ پر بہت بھاری گزرے۔ سب کچھ ہی غلط ہوا۔ افغانستان پر غیر جانبداری کا جھانسا دے کر امریکہ سے گٹھ جوڑ کیا اور مسلمانوں کے قتل و غارت میں شامل ہوئے۔ نئے نظام کے وعدے پر آنے والا ڈکٹیٹر ریفرنڈم کے جعلی نتیجے کے بل بوتے پر پانچ سال کے لئے صدر بنا، نااہل اور کرپٹ سیاستدانوں کی حکومت فوج کے ہاتھوں قائم کی گئی، امریکہ کے دباؤ پر کشمیر کو خیرباد کہا، بلوچستان میں علیحدگی پسندی کی آگ لگائی گئی، کاروباری ٹی وی چینلز کھولنے کا فیصلہ کر کے قوم کی فکریں بھی منڈی میں رکھ دیں۔ پھر ”سب سے پہلے پاکستان“ کا دوغلا نعرہ لگایا اور دین کو روشن خیالی، اعتدال پسندی (enlightened moderation) کا نیا رنگ دیا— ”دین اکبری“ سے آگے نکل کر ”دین پرویزی“۔

پاکستان میں دین کا رجحان ختم کرنے کے لئے یہ نسخہ امریکہ کا تجویز کردہ تھا۔ قبلہ واشنگٹن کی طرف موڑ نے کے بعد آہستہ آہستہ لوگوں کے ذہنوں کو قابو کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ تمام ٹی وی چینلز پیش پیش رہے۔ ایک سے ایک عالم اور فقیہ خریدے گئے۔ فرقہ وارانہ تنظیموں کے گند کو اُچھال اُچھال کر اُسے جہادیوں سے جا ملایا۔ پھر مُلا کی جہالت کو مروڑ کر دین کو بدنام کیا اور اُسے نیا رنگ دے کر، نئی اصلاحات پیش کی گئی۔ اسلام کے قواعد پر چلنے کو ”بنیادپرستی“ کہا گیا، پھر اُسے ”شدت پسندی“ سے جا ملایا یعنی ”مُلا کی جہالت کو چھوڑ دو اور اصل اسلام پر آ جاؤ، وہ یہ ہے جو میں بتا رہا ہوں“ ۔ کچھ سچ میں تمام جھوٹ ملا کر، ڈھولک کی تھاپ پر ایک ناچتا ہوا معاشرہ سیدھی راہ بتائی گئی۔ جہاں ہر شخص کو اللہ کی رضا چھوڑ کر اپنی من مانی کی چھُوٹ ہو۔ جب منزل دنیا کی رعنائیاں ہو اور دھَن دولت ہی خدا ہو، تو پھر یہی سیدھی راہ ہے

جنرل شاہد عزیر مزید لکھتے ہیں

پھر عورتوں پر معاشرے میں ہوتے ہوئے مظالم کو دینی رجحان سے منسلک کیا گیا اور حقوق نسواں کو آزادی نسواں کا وہ رنگ دیا گیا کہ عورت کو عزت کے مرتبے سے گرا کر نیم عریاں حالت میں لوگوں کے لئے تماشا بنایا

ایک مرتبہ کور کمانڈر کانفرنس میں کور کمانڈروں نے ملک میں پھیلتی ہوئی فحاشی پر اظہار تشویش کیا تو مشرف ہنس کر کہنے لگے ”میں اس کا کیا کروں کہ لوگوں کو ایک انتہا سے روکتا ہوں تو وہ دوسری انتہا کو پہنچ جاتے ہیں” اور پھر بات کو ہنسی میں ٹال دیا مگر حقیقت مختلف تھی۔ صدر صاحب کی طرف سے باقاعدہ حوصلہ افزائی کی گئی اور پشت پناہی ہوئی تو بات یہاں تک پہنچی۔ اس سلسلے میں کئی این جی اوز (NGOs) بھی کام کر رہی تھیں اور بے بہا پیسہ خرچ کیا جا رہا تھا۔ یہ سب کی آنکھوں دیکھا حال ہے۔

جنرل شاہد عزیر آگے لکھتے ہیں

جی ایچ کیو آڈیٹوریم (GHQ Auditorium)میں جنرلوں کو فوجی سیریمونیل لباس (ceremonial dress) میں، جو خاص احترام کے موقع پر پہنا جاتا ہے، بٹھا کر گانوں کی محفلیں سجائی گئیں

عرضِ بلاگر
کیا یہ حقیقت نہیں کہ ہم اپنے دین حتٰی کہ اپنی ثقافت سے منہ موڑ کر تباہی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں ؟
اور بجائے اپنی درستگی کے ۔ ہمارے دن رات دوسروں پر الزام تراشی کے نت نئے طریقے ایجاد کرنے میں گذرتے ہیں

سعودی شہزادہ اور قانون

یکم مئی 2004 بروز ہفتہ سعودی عرب کے دارالحکومت میں ایک انوکھا، مگر دلچسپ واقعہ پیش آیا۔ اس ملک میں ابھی تک الحمدللہ حدود اسلامی کا نظام نافذ ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اسلام دشمن طاقتوں‌اور حاسدین کے حسد کے باوجود ابھی تک سعودی عرب میں‌ خیروبرکات غالب ہیں۔

یہ 18 ستمبر 2002 ء کی بات ہے جب سترہ سالہ شہزدہ فہد بن نایف بن سعود بن عبدالعزیز نے اپنے ایک دوست پندرہ سالہ منذر بن سلیمان القاضی کو اپنے بھائی پندرہ سالہ شہزادہ سلطان بن نایف سے لڑتے ہوئے دیکھا۔ غصے میں وہ کلاشنکوف اٹھا لایا اور منذر پر فائرنگ کردی۔ منذر کو تین گولیاں ‌لگیں اور وہ وہیں‌جان بحق ہوگیا۔ شہزادے کو فوری طور پر گرفتار کرلیا گیا۔ سعودی وزارت عدل کے قانون کے مطابق ہر قتل کے کیس کو تیرہ قاضی دیکھتے ہیں، چنانچہ اس مقدمے کا فیصلہ بھی 14 جولائی 2003ء کو صادر کردیا گیا کہ اگر مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف نہیں کرتے تو اس کی گردن تلوار سے اڑا دی جائے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔

سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 178 ۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الۡقِصَاصُ فِی الۡقَتۡلٰی ؕ اَلۡحُرُّ بِالۡحُرِّ وَ الۡعَبۡدُ بِالۡعَبۡدِ وَ الۡاُنۡثٰی بِالۡاُنۡثٰی ؕ فَمَنۡ عُفِیَ لَہٗ مِنۡ اَخِیۡہِ شَیۡءٌ فَاتِّبَاعٌۢ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ اَدَآءٌ اِلَیۡہِ بِاِحۡسَانٍ ؕ ذٰلِکَ تَخۡفِیۡفٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ؕ فَمَنِ اعۡتَدٰی بَعۡدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیۡمٌ

ترجمہ ۔ اے ایمان والو! تم پر مقتولوں کا قصاص لینا فرض کیا گیا ہے۔ آزاد آزاد کے بدلے، غلام غلام کے بدلے، عورت عورت کے بدلے۔ ہاں‌جس کسی کو اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معافی دی جائے اسے بھلائی کی اتباع کرنی چاہیے اور آسانی کے ساتھ دیت ادا کرنی چاہیے۔ تمھارے رب کی طرف سے یہ تخفیف اور رحمت ہے، اس کے بعد بھی جو شرکشی کرے اسے دردناک عذاب ہوگا۔

زمانہ جاہلیت میں‌قصاص کا کوئی مستحکم دستور اور قانون نہ تھا، اس لئے زور آور لوگ کمزوروں پر جس طرح‌چاہتے ظلم کرتے۔ ظلم کی ایک شکل یہ تھی کہ ایک آدمی کے قتل کے عوض بسا اوقات قاتل کے پورے قبیلے ہی کو تہس نہس کردینے کی کوشش کی جاتی اور عورت کے بدلے مرد کو غلام کے بدلے آزاد کو قتل کرڈلتے۔ بعض لوگ طاقت اور دولت کے بل بوتے پر مقتول کے کمزور وارثوں کا مقدمہ دبا کر رکھتے تھے۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اس سارے فرق وامتیاز کو ختم کرتے ہوئے یہ قانون جاری کردیا کہ جو قاتل ہوگا، قصاص میں‌اسی کو قتل کیا جائے گا۔ قاتل آزاد ہے تو بدلے میں‌وہی آزاد، غلام ہے تو بدلے میں‌وہی غلام اور عورت ہے تو بدلے میں‌وہی عورت قتل کی جائے گی نہ کہ غلام کی جگہ آزاد اور عورت کی جگہ مرد یا ایک آدمی کے بدلے میں ‌متعدد آدمی۔

چنانچہ سعودی عرب میں‌نافذ شرعی قوانین پر عمل کرتے ہوئے انصاف پرور ججوں نے یہ فیصلہ سنادیا کہ اگر مقتول کے ورثاء قاتل کا خون بہا لے کر یا اللہ کے لئے معاف کردیں تو ٹھیک ورنہ قاتل بہرحال شرعی حدود کے مطابق گردن زنی ہے۔ اس مقدمے میں شاہی خاندان کے کسی فرد نے عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی اور نہ جج صاحبان نے عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے چھوڑا جیسے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں ہم دیکھتے ہیں‌، بلکہ انتہائی غیر جانبداری کے ساتھ قصاص کا حکم جاری کردیا گیا کیونکہ ان اسلامی ججوں‌کو خوب معلوم ہے اللہ تعالیٰ نے قصاص ہی میں اصل زندگی رکھی ہے اور اس کے نفاذ ہی سے ملک میں امن اور آشتی کے سائے تلے انسان راحت کے سانس لے سکتا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد برحق ہے
وًلًکُم فِی القِصَاصِ حَیاۃ یَاُولِی الاَلبَابِ لَعَلَکُم تَتَقُون سورۃ البقرۃ آیت 179 ۔
ترجمہ: عقلمندو! قصاص ہی میں تمھارے لئے زندگی ہے، تاکہ تم ( قتل وغارت سے) بچو۔

چونکہ اس واقعے میں‌مضرم شاہی خاندان کا فرد تھا اور شاہ فہد کے بھائی سعود کا پوتا تھا، اس لئے اس مقدمہ نے اور زیادہ اہمیت اختیار کرلی۔ واضح رہے کہ اس شہزادے کے دادا شاہ سعود بن عبدالعزیز سعودی عرب کے دوسرے حکمران تھے۔ مقتول سلیمان منذر بن سلیمان قاضی بھی ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتا تھا اور اس کا نسب نامہ بنو تمیم سے جا ملتا ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف فرمائی تھی۔ محمد بن عبدالوھاب بھی اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ مقدمے کے دوران بہت سے با اثر لوگوں نے کوشش کی کہ مقتول کے ورثاء خون بہا لے لیں اور شہزادے کو معاف کردیں مگر مقتول کے والد سلیمان نے ہر قسم کی پیشکش کو ٹھکرادیا ۔ ہر چند کہ

معاملہ ایک سعودی شہزادے کا تھا مگر اس دوران میں مقتول کے خاندان پر قطعی طور پر دباؤ نہیں ڈالا گیا اور نہ ہی قاضیوں پر کسی قسم کا دباؤ تھا، چنانچہ عدالت نے آزادانہ کاروائی کی اور سپریم کورٹ نے بھی یکم دسمبر 2003ء کو اپیل کورٹ کے فیصلے کی توثیق کردی۔ مقدمے کے دوران میں شہزادے کو ریاض کے اصلاحی مرکز میں رکھا گیا تھا اور بعد ازاں اسے ریاض کی سینٹرل جیل بھیج دیا گیا۔ اس دوران میں اس کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا گیا۔

صرف ایک مرتبہ اس کی اپنے والد نایف بن سعود کے ساتھ ملاقات ہوئی۔ یاد رہے قاتل مرحوم شاہ سعود کا پوتا تھا۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم
نامے میں لکھا کہ قاتل کو یکم مئی 2004ء کی صبح قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ یکم مئی، ہفتے کا دن، ریاض کے شہزادے کے لئے انتہائی حیرانی کا دن تھا۔ صبح‌سویرے بے شمار لوگ قصر الحکم کے پہلو میں میدانِ قصاص میں جمع تھے۔ ان میں شہزادے بھی تھے
اور مختلف بڑے بڑے قبائل کے سردار بھی۔ شہزادے کو بھی پہلے سے بتادیا گیا تھا کہ ہفتے کے دن اس کو قتل کردیا جائے گا۔ اس کے پیروں میں بیڑیاں پڑی ہوئی تھیں‌۔ صبح آٹھ بجے اس کو پولیس کی گاڑی سے نیچے اتارا گیا۔ اس نے قیدیوں کا مخصوص لباس پہنا ہوا تھا۔ صبح سویرے گورنر ریاض امیر سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے دفتر میں مقتول کے والد اور اس کے رشتہ داروں‌سے ملاقات کی اور بتایا کہ آج قاتل سے قصاص لیاجارہا ہے۔

نیز گورنر نے کہا کہ میں آپ لوگوں‌کے مقدمے میں کوئی مداخلت نہیں کرنا چاہتا اور نہ ہی شاہی خاندان نے اس مقدمے کے دوران میں عدالت پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ہے۔ ہاں‌،البتہ میں آپ کو اسلام میں معاف کرنے کی اہمیت سے ضرور آگاہ کروں گا ۔ اگر آپ
معاف کردیں تو یہ آپ کے اعلیٰ کردار کی دلیل ہوگی، اور اگر آپ قصاص لیتے ہیں تو یہ آپ کا حق ہے۔ امیر سلمان کے دفتر اور میدانِ قصاص کے درمیان کوئی زیادہ فاصلہ نہیں ہے۔ ادھر ایک دن پہلے شہزادے کی والدہ سارا دن مقتول کے گھر کے باہر بیٹھی رہی۔ اس نے مقدمے کے دوران میں چھ مرتبہ منذر کی والدہ سے رابطہ کیا اور اسے قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی کہ وہ اپنے بیٹے کے قاتل کو رضائے الٰہی کے لئے معاف کردے ۔ مگر منذر کی والدہ اپنے بیٹے کے قاتل کو معاف کرنے کیلئے ہرگز تیار نہیں تھی۔

منذر (مقتول ) کے والدین جمعہ کے روز سارا دن گھر پر نہیں‌تھے۔ سلیمان بن عبدالرحمٰن قاضی جن کی عمر ساٹھ سال کے قریب ہے اور شاہ سعود یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہیں، جاپانی پٹرول کمپنی میں ملازمت کرتے تھے اور اب ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں‌ہیں۔ بڑے بیٹے کا نام تمیم ہے۔ جس کے نام پر ان کی کنیت ہے۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے اخبارات کو انٹرویو دیا جو سعودی اخبارات میں‌شائع ہوا ۔ یہ کوئی ڈرامہ یا فلم کا حصہ نہیں‌تھا، جب صبح دس بجے کے قریب صلح اور معافی کی تمام تر اُمیدیں ختم ہوگئیں تو شہزادے کو پابجولاں آہستہ آہستہ مقتل کی طرف لایا گیا۔ سیکورٹی کے افراد نے اس کا بازو تھاما ہوا تھا ۔ صبح کے دس بج رہے تھے ۔ عدالت کے اہلکاروں نے مقتول کے والد سلیمان سے پوچھا ۔ کیا آپ قاتل کو پہچان رہے ہیں؟ اس نے، اس کے چچا زاد بھائیوں‌نے اور قبیلے کے افراد نے گواہی دی کہ یہی شہزادہ قاتل ہے ۔ ادھر جلاد نے تلوار میان سے نکال لی کہ شہزادے نے پکارا ۔ اے ابوتمیم! اللہ کی رضا کی خاطر مجھے معاف کردیں۔ اخباری نمائندوں کو سلیمان نے بتایا کہ میں نے گزشتہ تمام وقت صرف اور صرف قصاص پر زور دیا تھا۔ میرے چچا زاد بھائی عبدالرحمٰن نے مجھے ایک بار پھر کہا کہ پانچ منٹ تک غور کرلو ۔ میں سوچتا رہا۔

پانچ منٹ کے بعد پولیس کے چیف نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کیا فیصلہ کیا ہے۔ میں نے جواب دیا کہ قصاص لیا جائے، چنانچہ اس نے جلاد کو اشارہ کردیا۔ اس دوران میں قبیلے کے بعض افراد نے مجھے مشورہ دیا کہ میں ایک بار پھر استخارہ کرلوں، اور اپنے رب سے بھی مشورہ طلب کرلوں ۔ میں اس سے پہلے دو مرتبہ استخارہ کرچکا تھا، اور میں اسی نتیجے پر پہنچا کہ مجھے ہر حالت میں قصاص چاہئیے۔ آخری لمحات میں پھر میں نے استخارے کا فیصلہ کرلیا۔ مشہد (قتل گاہ) سے چند میٹر دور میں نے اپنا رخ قبلے کی طرف کرلیا۔ میرے نیچے کوئی مصلیٰ نہ تھا۔ ایک عزیز نے اپنا رومال سجدہ گاہ میں بچھادیا کہ سورج کی تمازت سے بچ سکوں۔ آدھ گھنٹہ میں نماز ادا کرتا رہا اور مسلسل اپنے رب سے مشورہ کرتا رہا۔ (ادھر لوگ دم سادھے سلیمان القاضی کی طرف دیکھ رہے تھے۔) نماز کے بعد میں نے اپنے بیٹے تمیم سے کہا کہ موبائل پر اپنی والدہ سے بات کراؤ ۔ میں نے اس سے پوچھا ۔ تمھارا کیا فیصلہ ہے؟ اس نے کہا ۔ تم جو بھی فیصلہ کروگے مجھے منظور ہے۔ پھر میں‌ نے اپنے بیٹے تمیم اور بھائی عبدالرحمٰن کو بلوایا اور ان کو بتایا کہ نماز استخارہ کے بعد میرا ذہن معاف کرنے پر آمادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ آخری فیصلہ تو تمہارا ہے مگر اللہ کے لئے معاف کردینا ہی بہتر ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اللہ ہمیں اس کے بدلے میں‌قیامت کو معاف کردے۔ اب چند لمحات کی بات تھی ۔ ۔ ۔

شہزادہ سر جھکائے ہوئے تھا۔ جلاد تلوار سونتے اشارے کا منتظر تھا کہ اچانک سلیمان القاضی نے پکارا ۔ جاؤ میں نے اللہ کے لئے تمہیں‌ معاف کردیا ۔ مجھے کسی نے مجبور نہیں کیا اور نہ مجھے کوئی مالی لالچ ہے ۔ ہاں، تمہیں قرآن حفظ کرنا چاہیے، بقیہ زندگی اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت اور فرمانبرداری میں‌گزارنی چاہیے۔ سلیمان القاضی نے جیسے ہی معاف کرنے کا اعلان کیا، لوگوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پھر میدان اللہ اکبر کے نعروں سے گونج رہا تھا۔ لا الہ الا اللہ کتنی ہی زبانوں پر تھا۔ حقیقی بلندی، اللہ کی ہے جس کے قانون پر عمل کرتے ہوئے قصاص لینے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر اسی کی رضا کے لئے معافی کا اعلان ہوا اور شہزادہ فہد کو نئی زندگی ملی۔ ۔ ۔ بے شمار لوگوں کی آنکھیں ‌اشکبار تھیں ۔ پھر سلیمان القاضی آگے بڑھا اور شہزادے کو گلے لگالیا۔ شہزادہ فہد نے سلیمان القاضی کے سر کے بوسے لئے، اپنے فعل پر ندامت کا اظہار کیا اور اس کا بار بار شکریہ ادا کیا کہ اس کے معاف کرنے کی بدولت اسے نئی زندگی ملی ہے۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ آئندہ اپنی نئی زندگی اللہ کی اطاعت میں گزارے گا اور خدمت خلق کو اپنا شعار بنائے گا۔

ادھر شہزادے کی والدہ معافی نامہ سے مایوس ہوکر سخت بے چینی واضطراب کی کیفیت میں‌ مبتلا تھی جو اس موقع پر کسی ماں‌کی
ہوسکتی ہے ۔ اسے ہسپتال میں داخل کرادیا گیا تھا۔ معافی نامہ کے فورا بعد شہزادہ فہد فہد بیڑیاں‌ پہنے ہی سکیورٹی کے عملے کے ہمراہ ہسپتال پہنچ گیا۔ چونکہ معافی ملنے کے بعد ابھی عدالتی کاروائی مکمل نہیں ہوئی تھی، اس لئے شہزادے کو بیڑیوں‌سمیت ہی اس کی ماں کے پاس ہسپتال لے جایا گیا۔ اس کی والدہ نے اسے دیکھ کر سخت حیرت کا اظہار کیا اور پوچھا کہ کیا فیصلہ ہوا ہے؟ جب انہیں بتایا گیا کہ مقتول کے ورثاء نے قصاص معاف کردیا ہے تو وہ بے اختیار اپنے بیٹے سے چمٹ گئیں ۔ وہ بار بار اللہ تعالیٰ کا اور پھر قاضی فیملی کا شکریہ ادا کررہی تھیں۔ قانون کے مطابق شہزادے کو دوبارہ عدالت میں پیش ہونا پڑا۔ جہاں مقتول کے ورثاء نے عدالت میں حلفیہ بیان دیا کہ انہوں نے بغیر کسی جبر و اکراہ کے قاتل کو معاف کیا ہے۔ اخبارات کے مطابق سلیمان القاضی نے دیت کی ایک خطیر رقم کو ٹھکرا دیا تھا۔ شاہی فیملی نے 70 ملین ریال تک دیت کی پیش کش کی تھی۔ بعض اخبارات کے مطابق یہ رقم 20 ملین تھی۔ بہرحال رقم 20 ملین ہو یا 70 ملین، بلاشبہ انتہائی زیادہ رقم تھی جسے مقتول کے والد نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ میں اپنے بیٹے کے خون کا سودا نہیں‌کرسکتا۔

اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے شہزادہ فہد کے والد نایف بن سعود نے بتایا کہ جس دن عدالتی حکم کا نفاذ ہونا تھا، اس روز صبح سویرے ایک عدالتی اہلکار نے فون پر بتایا کہ وہ عدالت پہنچ جائیں کیونکہ آج فیصلہ نافذ کیا جائے گا ۔ اس کے ساتھ گھر کے تمام افراد سخت پریشان اور بے چین ہوگئے ۔ شہزادے کی والدہ تو شدتِ غم سے بیہوش ہوگئیں، جنہیں فورا ہسپتال داخل کرا دیا گیا اور میں ریاض کے گورنر ہاؤس پہنچ گیا جہاں عملے کے ارکان نے مجھے صبر کی تلقین شروع کی ۔ بحیثیت والد اس موقع پر میری قلبی کیفیت کا اندازہ کیا
جاسکتا ہے ۔ اب کوئی معجزہ ہی میرے بیٹے کو بچا سکتا تھا اور بلاشبہ سلیمان القاضی نے عفو و درگذر کا مظاہرہ کرکے ایثار کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ ادھر شہزادہ فہد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ مقتول منذر کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک مسجد بنائے گا تاکہ رہتی دنیا تک اس کا ثواب مرحوم کو ملتا رہے ۔ وہ بار بار جذباتی انداز میں اپنے سابقہ اقدام پر شدید ندامت کا اظہار کررہا تھا اور یہ کہہ رہا تھا کہ اس کی آئندہ
زندگی ایک مثالی مسلمان کی زندگی ہوگی ۔ سلیمان القاضی نے معافی کے بعد دوبارہ ریاض کے گورنر امیر سلمان بن عبدالعزیز سے ملاقات کی جنہوں نے اس کے جذبہ انسانی کی تحسین کی ۔

دریں اثناء بہت سے افراد اور شہزادوں نے اس عظیم کارِ خیر پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا، نیز انہوں نے سعودی عرب میں اسلامی حدود کی تطبیق پر تحسین کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج کے واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ اس ملک میں انصاف سب کے لئے ہے۔ شہزادہ عبدالرحمٰن بن سعود بن عبدالعزیز نے کہا کہ مملکت کی بنیاد شریعت کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ آج حق اور انصاف کا بول بالا ہوا ہے، اور حقدار کو حق مل گیا ہے۔ یقیناً اللہ کے شکر کے بعد سلیمان القاضی اور ان کا خاندان فیملی شکریہ کے حقدار ہیں جنہوں نے آخری لمحات میں معافی کا اعلان کرکے ایک شہزادے کی جان بچالی۔ انہوں نے کہا کہ ریاض کے گورنر امیر سلمان بن عبدالعزیز بھی شکریہ کے مستحق ہیں جنہوں نے شرعی قوانین کو سب کے لیے یکساں رائج کیا اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں بنے اور نہ کوئی دباؤ ڈالا

راہنمائی فرمایئے

محترم قارئین اور قاریات ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
درخواست ہے کہ اپنی مصروفیات سے کچھ وقت نکال کر میری رہنمائی فرمائیں ۔ بہت مشکور ہوں گا
مجھے ایک عدد آئی پیڈ (iPad) یا پی سی ٹیبلٹ (PC Tablet) خریدنا ہے جس میں مندرجہ ذیل خصوصیات ہوں

1 ۔ سائیز 7 انچ کے لگ بھگ
2 ۔ موجودہ زمانے کا اینڈرائیڈ (Android) ہو
3 ۔ کیمرے 2 ہوں ایک سامنے سکائپ (Skype) کیلئے اور دوسرا پیچھے تصاویر کھینچنے کیلئے
4 ۔ اس میں سِم (SIM) لگ سکے یعنی بطور موبائل فون بھی کام کرے
5 ۔ وائی فائی (WiFi) پر کام کرتا ہو
6 ۔ اس میں اُردو لکھی جا سکتی ہو
7 ۔ وارنٹی والا ہو
8 ۔ قیمت کے معاملہ میں خیال رہے کہ مجھے ضرورت پوری کرنا ہے ۔ کسی پر مہنگی چیز کا رُعب نہیں ڈالنا
ورنہ مائیکروسافٹ سرفیس پرو 3 اور ایپل آئی فون 6 پلس کا مشورہ دینے والے بہت ہیں

اگر آپ اپنی تجویز بلاگ پر لکھنا مناسب خیال نہ کریں یا لکھنے میں دشواری ہو تو مندرجہ ذیل ای میل ایڈریس پر ای میل بھیج دیجئے
iftikharajmal@gmail.com

حساب اور تاریخ

اگر گیارہ کروڑ گیارہ لاکھ گیارہ ہزار ایک سو گیارہ یعنی ایک سو گیارہ ملین ایک سو گیارہ ہزار ایک سو گیارہ کو اتنے سے ہی ضرب دیں یعنی

111,111,111 X 111,111,111

تو حاصل ضرب ہوتا ہے

12,345,678,987,654,321

تاش کے پتوں میں ہر بادشاہ ایک خاص شخص کو بیان کرتا ہے
حُکم ۔ بادشاہ داؤد (King David) ۔ ۔ پان ۔ بادشاہ شارلے مان (Charlemagne) ۔ ۔ چڑیا ۔ بادشاہ سکندرِ اعظم (Alexander, the Great) اور اینٹ ۔ بادشاہ جولِیئس قیصر (Julius Caesar)
The Difference
تفصیل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” The Difference “

میں سڑک پر

جب میں اسلام آباد میں کار لے کر سڑک پر نکلتا ہوں تو جن عوامل سے عام طور پر دوچار ہوتا ہوں ان میں سے چند لکھنے لگا ہوں ۔ ان پر تنقید ہو سکتی ہے اور ان کا مذاق بھی اُڑایا جا سکتا ہے لیکن کچھ قارئین انہیں پڑھ کر اپنی اصلاح کی کوشش کریں تو یہی میرا حاصل و مقصود ہے
یہ واقعات ٹرک ۔ بس ۔ ویگن یا ٹیکسی ڈرائیوروں سے متعلق نہیں ہیں بلکہ پڑھے لکھے اور کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھنے والوں کے ہیں

1 ۔ میں سڑک کی بائیں قطار (lane) میں جا رہا ہوں ۔ بائیں طرف مُڑنے کا اشارہ دیا ہوا ہے ۔ میں موڑ کے قریب پہنچ کر داہنے آئینے میں پھر بائیں آئینےمیں دیکھتا ہوں دونوں اطراف کافی پیچھے تک سڑک خالی ہے ۔ جونہی میں مُڑنے لگتا ہوں ایک تیز رفتار گاڑی میری بائیں جانب سے قوس بناتی ہوئی سیدھی چلی جاتی ہے ۔ اگر اللہ کی مہربانی شاملِ حال نہ ہو جاتی تو شاید میں یہ لکھ نہ رہا ہوتا

2 ۔ چوراہے پر گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ میں داہنی طرف سے دوسری قطار میں ہوں کیونکہ مجھے سیدھا جانا ہے ۔ میرے آگے 5 گاڑیاں ہیں ۔ ٹریفک لائٹ سبز ہونے پر سب گاڑیاں چل پڑتی ہیں ۔ میں چوراہے کے قریب پہنچتا ہوں ۔ اچانک میرے بائیں جانب تیسری یعنی بائیں جانب مُڑنے والی قطار سے ایک گاڑی تیزی سے داہنی طرف مُڑ کر میری گاڑی کے سامنے والے بمپر کو مکمل توڑتی ہوئی داہنی طرف چلی جاتی ہے

3 ۔ میں نے بائیں جانب مُڑنا ہے اسلئے بائیں قطار میں ہوں ۔ رفتار کم ہے ۔ مُڑنے کا اشارہ دیا ہوا ہے ۔ میں مُڑنے کے قریب ہوں کہ ہارن کی آواز آنے لگی ۔ داہنے آئینے میں دیکھا تو دُور تک سڑک خالی نظر آئی ۔ گاڑی کے اندر والے آئینے میں دیکھا تو میرے پیچھے ایک گاڑی تھی ۔ سوچا شاید کوئی جان پہچان والا ہے اور مجھے ہارن سے مطلع کر رہا ہے ۔ پہچان نہ سکا ۔ پھر وہ کار تیزی سے میرے داہنی جانب والی قطار میں آئی اور میرے قریب سے گذرتے ہوئے محترمہ نے مجھے مُکا دکھایا اور کچھ بولتی ہوئی سیدھی چلی گئیں

4 ۔ سڑک پر بائیں جانب گاڑیاں پارک ہیں ۔ ان کے داہنی جانب 2 گاڑیاں متوازی کھڑی ہیں ۔ مجھے رُکنا پڑتا ہے ۔ پیچھے اور بہت سی گاڑیاں رُک جاتی ہیں اور اُن کے ہارن بجنے لگتے ہیں ۔ چند منٹ انتظار کے بعد میں گاڑی سے اُتر کر گیا اور جن صاحبان نے سڑک بند کر رکھی تھی سے گاڑیاں ایک طرف کرنے کی مؤدبانہ درخواست کی ۔ موصوف جوان انتہائی بیزاری اور بدتمیزی کے ساتھ گویا ہوئے ” اُدھر کہیں سے نکال لو گاڑی ۔ ڈسٹرب نہیں کرو“۔

5 ۔ چوراہے پر گاڑیاں کھڑی ہیں ۔ میرے داہنی طرف داہنی جانب مڑنے والی قطار ہے ۔ بائیں جانب 2 قطاریں ہیں ۔ اشارہ کھُلنے پر گاڑیاں چلتی ہیں ۔ میں چوراہے کو عبور کر چکا ہوں ۔ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی میرے اور میرے بائیں جانب والی گاڑی کے درمیان گھُس کر زبردستی میری گاڑی کے آگے گھُسنے کی کوشش کرتی ہے ۔ میں یکدم بریک لگاتا ہوں مگر وہ میری گاڑی کی بائیں ہیڈ لائیٹ کے بائیں جانب کو پچکا دیتی ہے ۔ اُس گاڑی کو روک لیا جاتا ہے گاڑی والے صاحب باہر نکلے بغیر مجھے ڈانٹ پلاتے ہیں ” اِن کو کار چلانا نہیں آتی ۔ اِن کی ٹائیمنگ غلط ہے ۔ دیر سے بریک لگائی ہے“۔ اور گاڑی بھگا کر لے جاتے ہیں

6 ۔ پارکنگ ایریا میں ایک گاڑی کھڑی کرنے کی جگہ دیکھ کر مُڑنے کا اشارہ دیا اور گاڑی پارک کرنے لگا ۔ ساتھ والی گاڑی باہر نکلنا شروع ہو گئی اور مجھے پیچھے ہٹنا پڑا ۔ جب جگہ بن گئی تو میں گاڑی پارک کرنے کو آگے بڑھا لیکن ایک گاڑی بڑی تیزی سے زبردستی گھُس کر وہاں کھڑی ہو گئی اور گاڑی والے صاحب جلدی سے نکل کر یہ جا وہ جا ۔ میں دیکھتا ہی رہ گیا

7 ۔ سروس روڈ پر سڑک کے دونوں جانب گاڑیاں پارک ہیں ۔ میں جانا چاہتا ہوں داہنے بائیں دیکھ کر کہ کوئی گاڑی نہیں آ رہی گاڑی رِیوَرس (reverse) کرتا ہوں ۔ آدھی گاڑی پیچھے آ چکی ہے کہ اچانک پیچھے سے موٹر سائیکل اور کاریں گذرنا شروع ہو جاتی ہیں ۔ کافی انتظار کے بعد گاڑیاں تھمتی ہیں تو جلدی سے گاڑی پیچھے لیجاتا ہوں ۔ مڑنے لگتا ہوں تو دیکھتا ہوں میں دونوں طرف سے گاڑیوں میں گھِر گیا ہوں اور موٹر سائیکل آگے سے گذرنا شروع ہو جاتے ہیں ۔ چند لمحے بعد ہارن بجنے شروع ہو جاتے ہیں لیکن کوئی شخص اتنا نہیں کرتا کے اپنی گاڑی تھوڑی پیچھے ہٹائے تاکہ میں گاڑی نکال لوں اور راستہ کھُل جائے

8 ۔ میں پارکنگ میں گاڑی کھڑی کر کے چلتا ہوں ۔ مارکیٹ میں داخل ہونے سے قبل بے خیالی میں داہنی طرف دیکھتا ہوں تو چونک جاتا ہوں ۔ ایک جوان میری گاڑی کے پیچھے اپنی گاڑی آڑی کھڑی کر کے چل دیئے ہیں ساتھ ایک جوان خاتون بھی ہیں ۔ اُن کے پاس جا کر مؤدبانہ درخواست کرتا ہوں کہ 2 گاڑیوں کے بعد بہت جگہ ہے اپنی گاڑی میری گاڑی کے پیچھے سے ہٹا کر اُدھر کھڑی کر دیجئے ۔ موصوف میری طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے اور خاتون سے گپ لگاتے چلے جا رہے ہیں ۔ میں 3 بار عرض کرتا ہوں مگر بے سود ۔ آخر میں اُس جوان کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑ کر غُصیلی آواز میں کہتا ہوں ”گاڑی ہٹائیں وہاں سے“۔ تو صاحب واپس جا کر گاڑی ہٹاتے ہیں ۔ کیا میرے ہموطن صرف ڈنڈے کی بات سمجھتے ہیں ؟

پشاور موڑ ؟ ؟ ؟

بات تو پشاور موڑ کی کرنا ہے لیکن پہلے دو شعر جو پشاور موڑ کے قریب ہی پڑھنے کو ملے
جی 9 مرکز میں یوٹیلیٹی سٹور کے پیچھے والے احاطہ میں قصاب کی ایک دکان پر لکھا ہے
وہ مجھ سے ہو جائیں ناراض ۔ کوئی گِلہ نہیں
خفا ہو کے مجھ سے ۔ میرا شہر تو نہ چھوڑیں

ایک ٹرک کے پیچھے لکھا تھا
سانپ بند کر دیئے سپیرے نے کہہ کر یہ
انسان ہی کافی ہے انسان کو ڈسنے کے لئے

اسلام آباد سکٹرز جی 9 ۔ ایچ 9 ۔ جی 8 اور ایچ 8 کے درمیان شاہراہ کشمیر اور نائنتھ یا آغا شاہی ایونیو جہاں ایک دوسری کو کاٹتی ہیں اس چوراہے ۔ چوک یا چورنگی کا نام پشاور موڑ مشہور ہو گیا ہوا ہے ۔ یہاں ایک انٹر چینج یا شاید سڑکوں کا گورکھ دھندا بن رہا ہے

جن لوگوں نے اسے تعمیر کیلئے بند ہونے سے قبل یعنی 9 ماہ قبل دیکھا تھا ۔ کیا وہ انٹر چینج بن جانے کے بعد اسے پہچان سکیں گے ؟
میں تو سرگرداں ہوں کہ ہفتہ وار بازار المعروف اتوار بازار کیسے جاؤں گا

ماڈل کی تصویر دیکھ کر اندازہ لگائیے

Peshawar Morr Interchange