Yearly Archives: 2015

بلاگر خواتین و حضرات متوجہ ہوں

میں نے 25 مارچ 2015ء کو محترمات بلاگرات و محترمان بلاگران (Ladies and gentlemen bloggers) متوجہ ہوں کے عنوان سے 19 اپریل 2015ء کو سہ پہر 5 بجے اسلام آباد میں بلاگران کی مجلس کے انعقاد کی اطلاع دی تھی

اُمید تھی کہ میٹرو بس پروجیکٹ 19 اپریل سے قبل مکمل ہو جائے گا اور راولپنڈی و اسلام آباد کی متعلقہ سڑکوں پر ٹریفک خوش اسلوبی سے چلنے لگے گی ۔ باقی کام تو تقریباً مکمل ہو گیا ہے لیکن پشاور موڑ انٹرچینج مکمل ہوتا نظر نہیں آ رہا جس کے باعث راولپنڈی شہر ۔ کوہ مری اور جہلم کی طرف سے مجلس میں شرکت کیلئے تشریف لانے والوں کو دقت کا سامنا ہو سکتا ہے
مزید یہ کہ پروجیکٹ مکمل ہونے پر میٹرو بس تشریف لانے والوں کیلئے سہولت کا باعث بن سکتی ہے

اسلئے مجلس 19 اپریل کی بجائے اِن شاء اللہ 3 مئی 2015ء کو بوقت 5 بجے سہ پہر ہو گی اور اِن شاء اللہ یہ تاریخ بدلی نہیں جائے گی

تشریف لا کر شکریہ کا موقع دیجئے
کچھ استفسارات ہوں تو بلاتامل پوچھیئے ۔ بندہ تشریح کی پوری کوشش کرے گا

آمد کی اطلاع جمعہ یکم مئی تک بذریعہ اس تحریر پر تبصرہ
یا ای میل
یا ٹیلیفون دیجئے

iftikharajmal@gmail.com
0321-5102236

مقام انعقاد اور راستہ

مکان نمبر 14 بی ۔ سٹریٹ نمبر 31 ۔ سیکٹر ایف 8 ۔ اسلام آباد

یہ گھر سٹریٹ نمبر 31 کے آخر میں بائیں جانب ہے ۔ آخری سے پہلے والے گیٹ کے بائیں ستون پر لگی قندیل پر B۔14 لکھا ہے اور ستون پر میرا اور میرے دونوں بیٹوں (زکریا اور فوزی) کے نام لکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے نیچے گھنٹی کا بٹن ہے

سٹریٹ نمبر 31 سروس روڈ ویسٹ ایف 8 پر واقع ٹریفک پولیس کے دفتر کے سامنے ہے ۔ ایف 8 کے ساتھ نائنتھ اوینیو (9th Avenue) کے ایک طرف فاطمہ جناح پارک (ایف 9 پارک) ہے اور دوسری طرف سروس روڈ ویسٹ ایف 8 متوازی چلتی ہے

نائنتھ اوینیو پر آتے ہوئے جناح اوینیو عبور کرتے ہی داہنی طرف ناظم الدین روڈ پر مُڑ کر فوراً بائیں جانب سروس روڈ ویسٹ ایف 8 پر مُڑ جایئے

موٹر وے سے اسلام آباد آتے ہوئے آپ سیدھے شاہراہ کشمیر (Kashmir Highway) پر پہنچیں گے ۔ چلتے جایئے اور جی 4/9 اور جی 1/8 کے درمیان پشاور موڑ سے بائیں جانب نائنتھ اوینو پر مُڑ جایئے

راولپنڈی صدر یا ٹیکسلا سے آنے کیلئے جی ٹی روڈ سے شاہراہ کشمیر پر مُڑ جایئے پھر جی 4/9 اور جی 1/8 کے درمیان پشاور موڑ سے بائیں جانب نائنتھ اوینو پر مُڑ جایئے

راولپنڈی شہر سے آنے کیلئے مری روڈ سے بائیں جانب سٹیڈیم روڈ پر مُڑ کر سیدھے نائنتھ اوینیو پر چلے جایئے

جہلم کی طرف سے آنے کیلئے اسلام آباد ایکسپریس وے پر چلے جایئے ۔ زیرو پوائنٹ انٹر چینج سے بائیں جانب شاہراہ کشمیر پر چلے جایئے پھر جی 1/8 اور جی 4/9 کے درمیان پشاور موڑ سے داہنی طرف نائنتھ اوینیو پر مُڑ جایئے

کوہ مری کی طرف سے آنے کیلئے شاہراہ کشمیر پر چلتے ہوئے جی 1/8 اور جی 4/9 کے درمیان پشاور موڑ سے داہنی طرف نائنتھ اوینیو پر مُڑ جایئے

شالا مار یا شالیمار باغ ۔ لاہور

میری ڈائری میں 20 جنوری 1957ء کی تحریر

اصلی شاہی نام
پہلا تختہ ۔ فرح بخش
دوسرا تختہ ۔ فیض بخش

شاہ جہاں نے بصرفہ 6 لاکھ روپیہ تعمیر کروایا اور شاہ نہر پر مزید 2 لاکھ روپیہ خرچ آیا
تعمیر 3 ربیع الاول 1051ھ (1641ء) کو شروع ہوئی اور مکمل ایک سال 5 ماہ 4 دن میں ہوئی
رقبہ ۔ تقریباً 40 ایکڑ
درخت 24 جمادی لاول 1051ھ (1641ء) کو لگائے گئے
غور و پرداخت کیلئے 128 مالی کام کرتے تھے
نقصانات ۔ بہت سے سنگِ مرمر اور آرائش کی دوسری اشیاء سکھ اپنے دورِ حکومت (1767ء تا 1846ء) میں اُکھاڑ کر لے گئے

عرضِ بلاگر
نہر جو شالامار باغ کے عقب میں بہتی تھی اور اس کا پانی شالامار باغ میں بھی آتا تھا ناجانے کس دور میں خُشک ہوئی

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ دلِ ناراض

جب کوئی ناراض یا ناخوش ہوتا ہے تو عام طور پر یہ رجحان ہوتا ہے کہ انصاف سے کام نہ لیا جائے
ایسا آدمی اپنے آپ کو باور کراتا ہے چونکہ اُس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے تو اُس کا غیر مناسب سلوک یا کلام کوئی برائی نہیں

اللہ کا فرمان ہے ۔ سورۃ 4 النّسآء آیۃ 135 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے ۔ لہٰذا اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Letter inflames US feud over Iran talks “

جانور ۔ انسانوں سے زیادہ حساس

یہ اعتقاد صدیوں سے قائم ہے کہ جانوروں کو زلزلہ آنے کا وقت سے پہلے عِلم ہو جاتا ہے ۔ 373 قبل مسیح میں تاریخ دانوں نے لکھا کہ یونان کے شہر ھَیلائس کی زلزلے سے تباہی سے چند روز قبل جانور جیسے چوہے ۔ سانپ ۔ نیولا ۔ وغیرہ اس علاقہ سے چلے گئے تھے ۔ اسی طرح کے مزید واقعات صدیوں سے تاریخ میں مرقوم چلے آ رہے ہیں جن کے مطابق مچھلیوں کا اضطراب ۔ مرغیوں کا انڈے نہ دینا ۔ شہد کی مکھیوں کا پریشانی میں چھتے چھوڑ جانا دیکھا گیا ہے ۔ ماضی میں جانور پالنے والے کئی لوگوں نے بتایا کہ اُنہوں نے زلزلے سے قبل بلی یا کتے کو اضطراب اور بے قراری میں غُراتے دیکھا

سائنسدان عرصہ دراز سے یہ کھوجنے میں سرگرداں ہیں کہ جانوروں کو وقت سے قبل زلزلے کا کیسے عِلم ہو جاتا ہے ؟ لیکن کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکے ۔ سائنسی ترقی کے اس دور میں بھی ماہرین ارتعاش اراضی (زلزلے) کی پیش گوئی کرنے سے قاصر ہیں ۔ ماہرین نے یہ معلوم کرنے کی بھی بہت کوشش کی ہے کہ جانوروں کو زلزلہ کا قبل از وقت کیسے معلوم ہو جاتا ہے لیکن لاحاصل

کمال تو امریکی سائنسدادانوں کا ہے کہ اُنہوں نے اس حقیقت کو ہی مشکوک قرار دے دیا ہے کہ جانوروں کو زلزلہ کا قبل از وقت علم ہو جاتا ہے گویا ”نہ آنکھیں کھولو ۔ نہ بِلی نظر آئے“۔

چین میں 1975ء میں جانوروں کی غیرمعمولی حرکات سے اندازہ لگایا گیا کہ ہائی چینگ میں زلزلہ آنے والا ہے اور وہاں کی آبادی کو نکل جانے کی ھدائت کر دی ۔ چند دن بعد 7.3 شدت کا زلزلہ آیا جس سے کچھ لوگ زخمی ہوئے ۔ کہا جاتا ہے کہ اگر اکثر باشندے ہائی چینگ سے نکل نہ گئے ہوتے تو 150000 تک لوگ زخمی ہو سکتے تھے

سماٹرہ میں 26 دسمبر 2004ء کا زلزلہ اور سونامی ایک اور مثال ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ زلزلہ سے کچھ گھنٹے قبل تھائی لینڈ میں سیاحوں کی سواری والے ہاتھیوں نے اپنے ماہوتوں کا حُکم ماننے سے انکار کر دیا اور سوار سیاحوں کو گرا دیا تھا ۔ ایسا پہلے کبھی نہ ہوا تھا ۔ جزائر انڈیمان کے سمندر میں سمندری جانور جیسے سانپ ۔ مینڈک ۔ کچھوے ۔ کیکڑے اور مچھلیاں اضطراب کی حالت میں کود کر خُشکی پر آ گئے تھے ۔ سمجھ نہ آئی تو حضرتِ انسان کو نہ آئی

کانگڑہ میں 4 اپریل 1905ء کو آنے والے زلزلہ سے پچھلی رات کے دوران لاہور کے چڑیا گھر میں جانور غیرمعمولی پریشان ہو گئے تھے اور کھانے پینے سے انکار کر دیا تھا ۔ لاہور کا کانگڑہ سے فاصلہ 200 کلو میٹر ہے

ہمارے پاس 2001ء سے 2004ء تک ایک مخصوص قسم کی بلی تھی ۔ ایک دن میں لاؤنج میں بیٹھا تھا اور بلی میرے سامنے بیٹھی مجھے دیکھ رہی تھی ۔ اچانک بلی پر خوف طاری ہوا ۔ اُس نے میری طرف دیکھ کر کچھ اشارہ کیا ۔ پھر اُچھل کر صوفے کے نیچے گھُس گئی ۔ میں سمجھنے کی کوشش کر رہا تھا کہ زلزلے کے جھٹکے محسوس ہوئے ۔ جھٹکے ختم ہونے کے بعد بلی نکل کر پھر میرے سامنے بیٹھ گئی

بعض اوقات انسانوں میں بھی کچھ غیرمعمولی اثرات دیکھے گئے ہیں ۔ لاٹر (بھارت) میں 1993ء میں شدید زلزلہ آیا تھا ۔ لاٹر سول ہسپتال کے مطابق زلزلہ سے قبل ایک دن میں عام دنوں کی نسبت 6 گنا بچے پیدا ہوئے تھے اور اُس دن ہسپتال آنے والے مریضوں کی تعداد بھی عام دنوں سے 7 گنا کے لگ بھگ تھی

جذبہءِ انسانی خدمت

رُدھ کیتھرِینا مارتھا پفاؤGerman doctor (Ruth Katharina Martha Pfau) 9 ستمبر 1929ء کو جرمنی (Deusheland) کے شہر لائپزِگ (Leipzig) میں پیدا ہوئی 10 سے 18 سال کی عمر میں دوسری جنگِ عظیم کی ہولناکیاں دیکھتی رہی ۔ جرمنی پر اتحادی فوجیوں (برطانیہ ۔ امریکہ ۔ روس وغیرہ) نے اتنے بم برسائے تھے کہ سارا ملک جرمنی ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا اور لاکھوں شہری ہلاک ہو گئے تھے ۔ ایسے میں لائپزگ میں بھی ملبہ کے سوا کچھ نہ رہا تھا ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد بندر بانٹ ہوئی اور جرمنی کو مشرقی اور مغربی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا ۔ 1948ء میں رُدھ کیتھرِینا چھُپ کر مشرقی سے مغربی جرمنی پہنچ گئی جہاں مائنس (Mainz) اور ماربُرگ (Marburg) کی یونیورسٹیوں میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد اُس نے کیتھولک ادارہ دُخترانِ قلبِ مریم (Daughters of the Heart of Mary) میں شمیولیت اختیار کی جس نے رُدھ کیتھرِینا کو بھارت میں ایک تبلیغی مرکز بھیجا لیکن ویزہ سے متعلق کسی مسئلہ کی بناء پر 8 مارچ 1960ء کو اُسے کراچی میں رُکنا پڑ گیا جہاں اُسے جزام ( کوڑھ ۔ leprosy) کے بارے میں ہونے والا کام دکھایا گیا ۔ کراچی میں میکلیوڈ (اب آئی آئی چندریگر ) روڈ پر قائم جزام کے مریضوں کی کالونی (عُرفِ عام میں کوڑھی احاطہ) کے دورہ نے رُدھ کیتھرِینا کو بہت افسردہ کیا اور اس نے وہاں کام کرنے والے رضاکاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ کر لیا اور پاکستان کی ہی ہو کر رہ گئیں

1961ء میں رُدھ کیتھرِینا جزام کے علاج کے سلسلے میں بھارت کے جنوبی شہر ویلور سے تربیت حاصل کر کے آئی ۔ ڈاکٹر رُدھ کیتھرِینا مارتھا پفاؤ کے تعاون میں ایک پاکستانی ماہر امراضِ جلد ڈاکٹر زرینہ فضل بھائی نے 1965ء میں جزام کے علاج کیلئے ضمنی (paramedical) کارکنوں کی تربیت شروع کی ۔ 1971ء میں ڈاکٹر رُدھ کیتھرِینا نے صوبائی حکومتوں کے تعاون سے جزام کے علاج کا دائرہءِ کار بلوچستان ۔ سندھ ۔ خیبر پختونخوا ۔ آزاد جموں کشمیر اور شمالی علاقہ جات تک بڑھا دیا ۔ 1979ء میں وفاقی حکومت نے اُسے جزام کے سلسلہ میں وزارتِ صحت و سماجی بہبود کا مشیر مقرر کر دیا ۔ 1996ء تک اللہ کے فضل سے پاکستان میں جزام کے مرض پر مکمل قابو پا لیا گیا ۔ 2006ء میں ڈاکٹر رُدھ کیتھرِینا مارتھا پفاؤ سب کام ماری ایڈلیڈ لیپروسی سینٹر (Marie Adelaide Leprocy Center) کے چیف ایگزکٹِو کے حوالے کر کے اس کام سے علیحدہ ہو گئیں

ڈاکٹر رُدھ کیتھرِینا مارتھا پفاؤ نے پاکستان اور افغانستان میں اپنے کام کے متعلق جرمن زبان مین 4 کتابیں لکھیں جن میں سے ایک شمع روشن کرو (To Light a Candle) کا 1987ء میں انگریزی ترجمہ ہوا ۔ ڈاکٹر رُدھ کیتھرِینا مارتھا پفاؤ پہلی بار 1984ء میں افغانستان گئیں تھیں ۔ 8 مارچ 2010 کو ان کے پاکستان میں 50 سال مکمل ہوئے ۔ انہیں مندرجہ ذیل انعامات سے نوازا جا چکا ہے

1968: The Order of the Cross from Germany.
1969: Sitara-e-Quaid-e-Azam from Government of Pakistan
1979: Hilal-e-Imtiaz from Government of Pakistan
1985: The Commanders Cross of the Order of Merit with Star from Germany
1989: Hilal-e-Pakistan from Government of Pakistan
1991: Damien-Dutton Award from USA
1991: Osterreischische Albert Schweitzer Gasellschaft from Austria
2002: Ramon Magsaysay Award from Government of Philippines
2003: The Jinnah Award from the Jinnah Society Pakistan
2003: In The Name of Allah Award by Idara Wiqar-e-Adab Pakistan
2004: Honorary Degree of Doctor of Science (D.Sc.) from Aga Khan University
2004: Life-time Achievement Award from the Rotary Club of Karachi
2005: Marion Doenhoff-Prize, Germany
2006: Life-time Achievement Award from the President of Pakistan
2006: Woman of the Year 2006 Award by CityFM89
2006: Certificate of Appreciation from the Ministry of Health
2009: Nesvita Women of Strength Awards by TVONE
2009: Life-time Achievement Khidmat Award by Al-Fikar International.
11th March, 2010 – Shield presented by Dr. Saghir Ahmed, Minister Health, Government of Sindh for completion of 50 years of Selfless and Meritorius Service for the Patients of Leprosy.
12th March, 2010 – Shield presented by Staff & Students of Happy Home School in appreciation of 50 years of meritorius services for the Eradication of Leprosy in Pakistan.
12th March, 2010 – Shield presented by Dawood Capital Management Limited on winning the LADIESFUND Woman of the Year Award.
2nd February, 2011 – Lifetime Achievement Award 2011 presented by the International Schools Educational Olympiad, orgaised by Karachi High School.
12th February, 2011 – LADIESFUND woman of the Year Award.
23rd March, 2011 – “Nishan-i-Quaid-i-Azam” Award presented by the President of Pakistan.