محبت سب سے کرو
مگر
اعتماد چند پر
عثمان رضی اللہ عنہ
محبت سب سے کرو
مگر
اعتماد چند پر
عثمان رضی اللہ عنہ
جو شخص اپنے خلوص کی قسم کھائے
اس پر اعتماد نہ کرو
عمر رضی اللہ عنہ
میں بچوں کے ساتھ عید کرنے کی غرض سے گذشتہ کل یعنی 29 جون بوقت دوپہر دبئی پہنچ گیا تھا
جو لوگ خود غرض ہوتے ہیں
وہ کبھی اچھے دوست نہیں ہوتے
ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ
سوچ آدمی کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا سکتی ہے
اور
پستی کی گہرائیوں میں بھی پہنچا سکتی ہے
سوچ
درست ہو تو دُشمن بھی دوست بن سکتا ہے
اور
بیمار ہو تو اچھی چیز بھی بُری لگتی ہے
سوچ ایسی نازک چیز ہے جس کے بیمار ہو جانے کا بہت زیادہ خدشہ ہوتا ہے
جاہ و جلال کی طلبِ نہیں ۔ مجھ کو صرف اتنا کمال دے
رمضان سے ہُوں میں مُستفید ۔ ایسی سوچ و استقلال دے
میرے ذہن میں تیری فکر ہو ۔ میری سانس میں تیرا ذکر ہو
مجھے مال و زر کی ہوس نہیں ۔ مجھے بس رزق حلال دے
میرا ہر قدم تیری راہ میں ہو ۔ میرا ہر عمل تیری رضا میں ہو
تیرا خوف میری نجات ہو ۔ سبھی خوف دل سے نکال دے
اپنی راہ پہ مجھے یوں ڈال دے کہ زمانہ میری مثال دے
تیری رحمتوں کا نزول ہو ۔ میرے دل کو ہردم سکون ملے
تیری بارگاہ میں اے خدا ۔ میری روز و شب ہے یہی دعا
تو رحیم ہے تو کریم ہے ۔ مجھے مُشکلوں سے نکال دے
سب مُسلم بزرگوں بہنوں بھائیوں بھتیجیوں بھتیجوں بھانجیوں بھانجوں پوتيوں پوتوں نواسيوں نواسوں کو اور جو اپنے آپ کو اِن میں شامل نہیں سمجھتے اُنہیں بھی رمضان کريم مبارک
اللہ الرحمٰن الرحيم آپ سب کو اور مجھے بھی اپنی خوشنودی کے مطابق رمضان المبارک کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے
روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ اللہ کے احکام پر مکمل عمل کا نام ہے ۔ اللہ ہمیں دوسروں کی بجائے اپنے احتساب کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں حِلم ۔ برداشت اور صبر کی عادت سے نوازے
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم
سورت 2 ۔ البقرہ ۔ آيات 183 تا 185
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسے فرض کیا گیا تھا تم سے اگلوں پر تاکہ تم پرہیزگار ہو جاؤ
چند روز ہیں گنتی کے پھر جو کوئی تم میں سے بیمار ہو یا مسافر تو اس پر ان کی گنتی ہے اور دِنوں سے اور جن کو طاقت ہے روزہ کی ان کے ذمہ بدلا ہے ایک فقیر کا کھانا پھر جو کوئی خوشی سے کرے نیکی تو اچھا ہے اس کے واسطے اور روزہ رکھو تو بہتر ہے تمہارے لئے اگر تم سمجھ رکھتے ہو
مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن راہ پانے کی اور حق کو باطل سے جدا کرنے کی سو جو کوئی پائے تم میں سے اس مہینہ کو تو ضرور روزے رکھے اسکے اور جو کوئی ہو بیمار یا مسافر تو اس کو گنتی پوری کرنی چاہیے اور دِنوں سے اللہ چاہتا ہے تم پر آسانی اور نہیں چاہتا تم پر دشواری اور اس واسطے کہ تم پوری کرو گنتی اور تاکہ بڑائی کرو اللہ کی اس بات پر کہ تم کو ہدایت کی اور تاکہ تم احسان مانو
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے رمضان کی فضيلت سورت ۔ 97 ۔ القدر ميں بيان فرمائی ہے
بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے
اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے
شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے
اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حُکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اُترتے ہیں
یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے
کچھ دن قبل میں نے لفظ ”چائنا کٹنگ“ پہلی بار سُنا ۔ میں اِسے چینی کے برتنوں کا کوئی ڈیزائن ہی سمجھتا اگر یہ قبضہ مافیا کے حوالے سے نہ کہا گیا ہوتا ۔ اپنے گرد و پیش لوگوں سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کی تو سب کو بے خبر پایا ۔ ویب کی جستجو کے بعد ایک تحریر دو حصوں میں ملی (1) حصہ اوّل اور (2) حصہ دوم ۔ چنانچہ اس کا ترجمہ حاضر ہے کیونکہ کراچی کی یہ اصطلاح باقی وطنِ عزیز میں شاید ہی کسی کے عِلم میں ہو
لفظ ”چائنا کٹنگ“ انسان کی تاریخ میں پہلی بار ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین ٖصاحب نے استعمال کیا تھا ۔ یہ ظہور کراچی کے رہائشیوں کیلئے کوئی عجوبہ نہیں ہے لیکن بقایا پاکستان میں رہنے والوں کیلئے یہ پریشانی کا سبب بنتا ہے ۔ میں اختصار کے ساتھ آپ کو بتاتا ہوں کہ چائنا کٹنگ کیا ہوتی ہے اور یہ کس طرح کی جاتی ہے ۔ وضاحت کو آسان بنانے کی خاطر میں اپنی دوست کے ساتھ پیش آیا حقیقی واقعہ بیان کرتا ہوں جو شاید پہلا آدمی ہے جس نے اس کے خلاف آواز اُٹھائی ۔ لاحق خطرات کے پیشِ نظر متذکرہ دوست کا نام اور جگہ وغیرہ کے نام تبدیل کر دیئے ہیں
یہ 2004ء کا عام دن تھا صدیقی صاحب صبح 6 بجے اُٹھے اور ورزش کرنے اپنے گھر قریب ہی ایک پارک میں گئے ۔ باہر نکلتے ہی اُنہوں نے دیکھا کہ کئی ٹرک اور بھاری تعمیراتی مشینری پارک میں داخل ہو رہے ہیں ۔ پارک جس ہاؤسنگ سوسائٹی کی ملکیت تھا صدیقی صاحب اُس کے جنرل سکریٹری تھے ۔ وہ حیران ہوئے کہ سوسائٹی کے پارک میں یہ کام ہو رہا ہے اور اُنہیں اتنے بڑے تعمیراتی پروگرام کی خبر ہی نہیں ۔ اُنہیں ایک لڑکا نظر آیا جو مجوزہ کام کی ھدایات دے رہا تھا ۔ صدیقی صاحب اُس لڑکے سے معلومات حاصل کرنے کیلئے آگے بڑھے
صدیقی ۔ السلام علیکم ۔ میں پوچھ سکتا ہوں کہ یہ کیا ہو رہا ہے ؟
لڑکا ۔ آپ کون ہیں ؟
صدیقی ۔ میرا نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے ۔ میں اس عمارت میں رہتا ہوں اور اس سوسائٹی کا جنرل سیکریٹری ہوں
لڑکا ۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے کہ یہاں ایک عمارت تعمیر ہو رہی ہے ؟
صدیقی ۔ ہاں میں دیکھ رہا ہوں لیکن آپ یہ عمارت سوسائئی کی زمین پر بنا رہے ہیں جو کہ یونین کونسل میں رجسٹر ہے
اس لڑکے نے صدیقی صاحب کو گھورا اور پھر اپنے موبائل فون پر کسی سے بات کرنے لگا ۔ بات ختم کرنے کے بعد بولا ”صدیقی صاحب ۔ میں اس بارے میں نہیں جانتا ۔ آپ طارق بھائی سے ملیں ۔ وہ آپ کے سوال کا مناسب جواب دیں گے“۔
(طارق بھائی ایک پولٹیکل پارٹی کا جوائنٹ یونٹ انچارج اور جانا پہچانا آدمی ہے)
اُسی دن صدیقی صاحب نے سوسائٹی کا اجلاس بُلایا جس میں متذکرہ غیرقانونی تعمیر کا مسئلہ اُٹھایا ۔ سوسائٹی کے دوسرے اراکین نے صدیقی صاحب کی تائید کی اور طارق بھائی سے ملنے کیلئے ایک تین رُکنی کمیٹی صدیقی صاحب کی سربراہی میں بنائی ۔ یہ کمیٹی متذکرہ پولٹیکل پارٹی کے مقامی یونٹ آفس میں طارق بھائی سے ملنے گئی ۔ لوکل یونٹ آفس میونسپل پارک میں بنا ہوا تھا جو پہلے بچوں کے کھیلنے کا میدان ہوا کرتا تھا ۔ جو لڑکا ایک دن قبل سوسائٹی کے پارک پر عمارت تعمیر کی ھدایات دے رہا وہ اسلحہ اُٹھائے یونٹ آفس کی حفاظت کر رہا تھا
لڑکا ۔ ہیلو صدیقی صاحب ۔ آپ یہاں طارق بھائی سے ملنے آئے ہیں ؟
صدیقی ۔ جی ہاں ۔ آپ نے ہی مشورہ دیا تھا
لڑکا ۔اس وقت وہ یہاں نہیں ہیں ۔ یہاں کبھی کبھی بیٹھتے ہیں ۔ زیادہ تر وہ پارٹی کے ہیڈ آفس میں ہوتے ہیں
صدیقی ۔ پھر ہم اُنہیں کس طرح مل سکتے ہیں ؟
لڑکا ۔ میں ٹیلیفون کر کے پوچھتا ہوں کہ آج کس وقت یہاں آئیں گے
بات کرنے کے بعد اُس لڑکے نے کہا کہ طارق بھائی ادھر ہی آ رہے ہیں چنانچہ صدیقی صاحب بھی طارق بھائی سے ملنے والوں کی قطار میں کھڑے ہو گئے ۔ آدھے گھنٹہ کے بعد طارق بھائی 3 اسلحہ بردار گارڈوں کے ساتھ آئے اور ملنے والوں کو باری باری دفتر میں بلایا جانے لگا ۔ صدیقی صاحب کی باری ایک گھنٹہ بعد آئی
صدیقی ۔ السلام علیکم ۔ میرا نام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہے اور میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کا جنرل سیکریٹری ہوں
طارق بھائی ۔ ہاں ہاں مجھے معلوم ہے ۔ اُس نے مجھے بتا دیا ہے
صدیقی ۔ تو پھر اُس نے ہمارا مسئلہ بھی بتا دیا ہو گا
طارق بھائی ۔ ہاں بتا دیا ہے ۔ کیا آپ نے اس معاملہ میں کسی اور سے بھی بات کی ہے یعنی کوئی اور پارٹی ممبر ۔ میڈیا وغیرہ
صدیقی ۔ نہیں ۔ دراصل مجھے آپ سے ملنے کا کہا گیا تھا اسلئے ہم سیدھے آپ ہی کے پاس آئے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ آپ ہماری مدد کریں گے
اس کے بعد طارق بھائی نے صدیقی صاحب سے کچھ سوالات صدیقی صاحب کی بیک گراؤنڈ کے بارے میں پوچھے اور یقین کر لیا کہ صدیقی صاحب اور ساتھی عام آدمی ہیں ۔ نہ ان کے کوئی سیاسی روابط ہیں اور نہ ہی اعلٰی افسروں سے کوئی شناسائی ہے پھر بولے
طارق بھائی ۔ آپ ہماری کمیونٹی میں سے ہیں اسلئے آپ کو کمیونٹی کے مسائل کا علم ہونا چاہیئے ۔ آپ شہر کی موجودہ حالت جانتے ہیں ؟ لوگوں کیلئے بہت زیادہ رہائشی عمارات کی ضرورت ہے چنانچہ ہم کام کر رہے ہیں تاکہ عوام کو چھت میسّر ہو سکے ۔ کیا اس میں کوئی خرابی ہے ؟
صدیقی ۔ میں آپ کے نظریہ اور عوام کیلئے کام کی قدر کرتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ جہاں یہ تعمیر کر رہے ہیں وہ زمین آپ کی نہیں ہے اور یہ غیرقانونی ہے
طارق بھائی (غُصے میں) ۔ سارا شہر ہمارا ہے صدیقی صاحب ۔ کو ئی ہمیں روکنے کی جراءت نہیں کر سکتا ۔ ہم جو چاہتے ہیں کرتے ہیں ۔ اسے دھمکی نہ سمجھیں ۔ ہم دھمکیاں نہیں دیا کرتے ۔ ہم عمل میں یقین رکھتے ہیں ۔ ہم یہ عمارت بنائیں گے ۔ اب جائیں مجھے اہم کام کرنے ہیں ۔ اور پولیس کے پاس جانے کی کوشش نہ کرنا ۔ وہ کوئی مدد نہیں کریں گے ۔ تھانیدار نے ابھی میرے ساتھ چائے پی ہے ۔ جائیں اور دوبارہ ادھر کا رُخ نہ کریں
یہ صورتِ حال صدیقی صاحب کیلئے حیران کُن تھی ۔ وہ ایسی بد اخلاقی کی توقع نہیں رکھتے تھے ۔ وہ پریشان تھے جبکہ اُن کے ساتھی ڈر گئے تھے ۔ ساتھیوں نے تجویز کیا کہ معاملہ کو یہیں چھوڑ دیا جائے اور جو وہ چاہتے ہیں اُنہیں کرنے دیا جائے ۔ لیکن صدیقی صاحب نے سوچا کہ وہ غلط آدمی سے ملے ہیں ۔ اُنہیں پارٹی کے ہیڈ آفس جانا چاہیئے ۔ چنانچہ مدد اور انصاف کے حصول کیلئے پارٹی کے ہیڈ آفس کو چل دیئے
اس کے بعد کیا ہوا ؟ یہ راوی نے نہیں لکھا