سائنس اور سائنس کی بنیاد پر ترتیب شُدا ٹیکنالوجی کی مدد سے جدید معاشرے نے بڑی مادی ترقی کی ہے لیکن سائنسی معلومات سے ہی پتہ چلتا ہے کہ اس کامیابی کے حصول انسانی سے معاشرے کا مُستقبل خطرے میں ہے ۔ زمینی ماحول کی ترتیبِ نَو کرتے ہوئے جدید معاشرہ اس کے طفیل زمین پر بسنے والوں کی زندگی پر مرتب ہونے والے اثرات کو مدِ نظر رکھنے میں ناکام رہا ہے ۔ مفروضے اور رویّئے جو صدیوں سے انسانی ضروریات پوری کرتے آ رہے ہیں مناسب نہیں رہیں گے ۔ جن صلاحیتوں نے جدید معاشرے کی موجودہ تمدن حاصل کرنے میں مدد کی ہے وہ اس سے پیدا ہونے والے خدشات و خطرات کا مداوا کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کی بڑھتی ہوئی پیش رفت نے انسان کو دنیا کو زیادہ تیز رفتار سے نئے راستے پر لگانے کے قابل بنا دیا ہے لیکن پیش رفت کے فوائد اور خطرات کو سمجھنے کے سلسلہ میں خاطر خواہ نشو و نما نہیں ہوئی
فطرت کو قابو کرنے کی کوشش میں فطری دنیا کے ساتھ رعائت باہمی کو خیر باد کہہ دیا گیا اور جدید تمدن نے فطرت کے ساتھ قدیم بندھن توڑ ڈالا ۔ انسان صدیوں فطرت کی مناسب حدود میں رہ کر فطرت کی کرم فرمائی سے مستفید ہوا ۔ فطرت کی تال اختیار کرتا اور سختیاں برداشت کرتا رہا ۔ ابھی تک فطری دنیا سے نتھی ہونے کے باعث جدید انسانیت ایک ایجاد کردہ ماحول میں رہتی ہے جو بظاہر تیزی سے ترقی کر رہا ہے بنسبت انسانوں کے جو حیاتی استداد رکھتے ہیں ۔ انجام یہ کہ انسان کا جسم و دماغ ۔ قیاس اور طرزِ عمل تناؤ میں آ چکے ہیں
گو انسان نے مصنوعی ماحول تخلیق کر لیا ہے جسے تمدن (Civilization) کہا جاتا ہے لیکن اس کی بقاء فطری نظام میں نظر آتی ہے بجائے اس کے تخلیق کردہ نظام کے ۔ انسان کیلئے اس فطری اور مصنوعی دو نسلے ماحول میں رہنا ایک بہت بڑا چیلنج ہے
یہ پیشگوئی کرنا نہائت مُشکل ہے کہ انسان اس انسانی ایجاد کی حیاتی اور نفسیاتی تبدیلی کو اپنانے میں کتنا عرصہ لے گا اور کس حد تک اپنائے گا
فطرت کی اُن قوّتوں کو جنہیں انسان اپنے آپ کو استوار کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا ۔جو لوگ پالیسی ترتیب دیتے ہیں اُنہیں سمجھنا چاہیئے اگر انسان فطرت سنساری قسم کی بنیادی حرکیات کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے گا تو اس کا ہارنا لازم ہے ۔ فطری نظام اور روِش ٹھیک ٹھیک سمجھتے ہوئے فطرت کے اشتراک سے انسان نظام کو چلا سکتا ہے ۔ فرانسس بیکن (Francis Bacon) کا دعوٰی ہے کہ”فطرت پر قابو حاصل کرنے سے قبل فطرت کی تابعداری ضروری ہے
عوامی پالیسی کے انتظامی اصولوں کی مضبوط حدود کے بغیر انسانی حاضر دماغی اُسے اپنی موت کی طرف لے جا سکتی ہے ۔ حدود ہر قسم کی زندگی پر صادق آتی ہیں اور بالآخر انسانی نشو و نما کی سمت کو محدود کر دیتی ہے ۔ عوام اور پالیسی بنانے والوں کو اس اصول پر آگے بڑھنا چاہیئے کہ مفید نظام میں آزاد نشو و نما اور بے لگام کشادگی ایسی بند گلی میں پہنچا دے گی جس سے واپسی ممکن نہیں ہو گی اور نتیجہ تباہی پر منتج ہو گا ۔ جدید سوسائٹی کے رجحان کے خطرناک ہونے کا کافی خدشہ موجود ہے جو اس گُتھی ہوئی حکمت عملی کے ممکنہ نتائج حکم عملی کی مربوط تحقیق و تفتیش کی طرف مائل کرتا ہے
اگر ہم اپنے متناسب خطرات ۔ امکانات اور مفید ممکنات کو پوری طرح سمجھ لیں پھر شاید ہم اپنی مجموعی کوششوں کو یقین کے ساتھ قابلِ تائید اور بہتر مستقبل کی طرف گامزن کر سکیں
تحقیقی مقالہ از سمیع سعید
اُردو ترجمہ اور تلخیص ۔ افتخار اجمل بھوپال
Pingback: ترقی پذیر سائنس اور زوال پذیرانسانیت « Jazba Radio
مضمون نو یس سے سو فیصد اتفاق ہے۔
انسان فطر ت سے لڑ نے پر کمر بستہ ہے اور اس کا انجام خود اسی کے حق میں زہرقاتل ہے۔
اللہ در خت اگا رہا ہے ۔۔۔انسا ن اسے کاٹ کر انڈ سٹری کھڑی کر رہا ہے۔
اللہ نے سمندر پھیلا یا ہم نے اس کے آگے روک لگا کے سی ویو اپارٹمنٹس اور کمر شل بلڈ نگز کا مینار لگایا۔
دوسری جانب اس بات پر بھی مجھے اکثر حیرت ہوتی ہے کہ سا ئنس اور ٹیکنا لوجی نے ہلاک کر نے کے لئے تیز رفتار ، نت نئے اور ماڈرن طر یقے تو کھو ج نکالے ۔۔۔
مگر کینسر ، شوگر، الزاہیمر جیسی موذی بیماریوں کا علاج ڈ ھونڈ نکالنے میں کل بھی ناکام تھی ، آج بھی ہے ۔
میرے دادا کا انتقال کینسر سے ہوا کہ لا علاج مر ض تھا اور اب تین نسلیں جوان ہوگئیں ، یہ مر ض آج بھی لاعلاج ہی ٹھہرا۔
میر ی والدہ شوگر کے باعث بینا ئی، گر دے ، جگر ، اپنی ایک ٹانگ اور آخر میں زندگی کھو بیٹھیں ۔
میری نانی کی طر ح شوگر ان کی موت کا سبب بنی ۔
میرے والد صا حب الزا ہمیر اور ڈیمینشیا جیسی نئی بیماری کا تکلیف دہ عر صہ گزار کر ایک دن خاموشی سے چلے گئے ۔۔۔
کب دنیا مجھے نوید سنائے گی کہ تمہارے پیارے جن بیماریوں کا شکار ہوئے اور تم سے بچھڑ گئے ۔۔۔
جد ید سا ئنس نے ان سب کا علاج ڈ ھونڈ نکالا ہے۔
مگر سا ئنس تو ڈرون ٹیکنا لوجی اور لیزر گنز ایجاد کر نے میں مصروف ہے۔۔۔کیوں ؟
اس سلسلے میں میری مندرجہ ذیل تحریر بھی دیکھیئے بہت
https://theajmals.com/blog/2013/05/16
بہتر کون
ترقی پذیر سائنس اور زوال پذیرانسانیت ۔۔۔۔۔ عنوان ہی سب کچھ کہہ دیتا ہے ۔۔۔ اور میں بھی بینائی صاحبہ کی بات سے بالکل متفق ہوں ۔۔۔ اور آپ کی تحریر (لنک پر) بھی بہت خوب ہے
سیماء آفتاب صاحبہ
اللہ آپ کا بھلا کرے. آپ نے تو میری ہر تحریر کی تعریف کرنے کی قسم کھائی ہوئی ہے. آج میں آپ کو ایک بد دعا دیتا ہوں “اللہ آپ کو جلد بچے دے اور پانچ چھ سال میں تین ہو جائیں. پھر آپ کسی کو نہلا رہی ہوں کسی کو کھلا رہی ہوں کسی کے کپڑے بدل رہی ہوں. آپ کو میرا بلاگ پڑھنے کا بھی وقت نہ ملے اور میں خوش ہو رہا ہوں
السلام و علیکم ۔۔۔۔۔ آپ کے اس تبصرے پر میرا بس ہنس ہنس کے برا حال ہو گیا ہے
سیما آفتاب صاحبہ
میں نے پہلے آپ کو دعائیں دیں ۔ میں آپ کی طرح نہیں ہوں کہ ہر بار تعریف ہی کرتی جاتی ہیں ۔ اسلئے میں نے سوچا کہ اب بد دعا دی جائے ۔ اور آپ ہنس رہی ہیں ۔ اب میں کیا کروں ؟
میں بھی پہلے آپ کی بات پر نہیں ہنسی ناں تو حساب برابر
Nice , buhat achay se byan kia he