عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے
یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں
” اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے “۔
”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔
بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ وہ بھی صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ حقیقت میں ایسے لوگ عقلمند نہیں بلکہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں
اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے
اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے
کہ
ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے
یہ وطن پاکستان اللہ سُبحانُہُ و تعالیٰ کا عطا کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
میرے وطن پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر بھی
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے
بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے
میرے وطن پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
میرے وطن پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز (Pre-stressed Post-tensioning Re-inforced Concrete Beams) کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے 54 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں بھی کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی
آیئے آج یہ عہد کریں کہ
ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تن من دھن کی بازی لگا دیں گے
اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39
وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی
(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)
سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11
إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
( اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے
بے شک اگر ہم اللہ کی دی گئی اس عظیم نعمت کے بارے میں مثبت سوچیں تو دل سے بے ساختہ نکلتا ہے
“اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاءوگے”
جس پاکستان کی ہم برائیاں کرتے نہیں تھکتے یہ بھی تو سوچیں کہ اس میں جو مسائل ہیں وہ پیدا کس نے کیے ہیں؟ پاکستان نے؟
اللہ ہم سب کو نیک توفیق دے آمین!!
پاکستان کے پیارے لوگوں پاکستان سے پیار کرو
اپنے وطن کی خوش حالی پر تم بھی سوچ بچار کرو
نوٹ : بے شک مندرجہ بالا شعر حکومت کی جانب سے آبادی میں کمی کے سلسلہ میں جاری کیا گیا تھا. لیکن دیکھا جائے تو یہ شعر بہت وسیع مفہوم کا حامل ہے.
عبدالرؤف صاحب
یہ شعر اور کئی دوسرے سلوگن غلط استعمال کئے گئے تھے
بہترین تحریر بہت سے دلوں کی آواز اور بہت سے لوگوں کے لیے سرزنش – میں نے روسی ، اٹالین ، جرمن ، برٹش اور دیگراقوام کو اپنے ملک ( یا آبائی ملک جس سے اُن کے اجدادہجرت کرکے امریکہ آبسے وہ ان ممالک کے بارے میں کوئی منفی بات کرنا تو دورسننا بھی پسند نہیں کرتے – مجھے ہمیشہ اس بات سے تکلیف ہوئی جب کسی کو پاکستان پر خود کو الگ کرکے بڑے غلط اور حقارت آمیز لہجے میں تنقید کرتے پایا – ہم صرف اس ملک کے لیے اتنا تو کرسکتے ہیں اس کے بارے میں مثبت نہیں سوچ سکتے تو منفی بھی نہ سوچیں-
محمد زبیر مرزا صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ