زندگی کے ہر معاملے میں اپنی (یا اپنے) شریکِ حیات کو اعتماد میں لیجئے
اچھی زندگی کیلئے باہمی مشاورت لازمی ہے
زندگی کی گاڑی دونوں نے مل کر چلانا ہے
اسلئے کوئی بھی اہم فیصلہ تنہاء کرنا ناکامی کا سبب بن سکتا ہے
(لیکن زن مرید نہ بنیئے)
زندگی کے ہر معاملے میں اپنی (یا اپنے) شریکِ حیات کو اعتماد میں لیجئے
اچھی زندگی کیلئے باہمی مشاورت لازمی ہے
زندگی کی گاڑی دونوں نے مل کر چلانا ہے
اسلئے کوئی بھی اہم فیصلہ تنہاء کرنا ناکامی کا سبب بن سکتا ہے
(لیکن زن مرید نہ بنیئے)
Pingback: چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ شریکِ حیات « Jazba Radio
ایک لطیفہ یاد آگیا ہے، پیشِ خد مت ہے :
ایک دوست اپنے دوسرے دوست سے کامیاب شادی کا راز پوچھ رہا تھا۔ دوست نے کہا ” بھائی سیدھا سا فارمولا ہے کہ ہم نے اپنے اپنے فیصلے کے اختیارات بانٹ رکھے ہیں”
” اچھا ” پہلے دوست نے پوچھا ” وہ کیسے “؟
“بات یہ ہے کہ بڑے اور اہم فیصلے میں کرتا ہوں اور چھوٹے موٹے فیصلے میری بیوی کرتی ہے”
” واہ ۔ کچھ وضاحت تو کردو ” پہلا دوست ملتجی ہوا۔
” دیکھو یار ۔ چھوٹے موٹے فیصلے ۔ مثلا” گاڑی کونسی خریدنی ہے، بچے کونسے سکول میں داخل کروانے ہیں، گھر کا رنگ روغن ، فرنیچر، کب اور کیسا ہونا چاہیے، میری تنخواہ کہاں کہاںخرچ ہونی چاہیے، مجھے برتن پہلے دھونے چاہیں یا کپڑے وغیرہ وغیرہ یہ سارے چھوٹے فیصلے میری بیوی کرتی ہے ۔ اور میں بالکل اعتراض نہیںکرتا”
“اوکے۔ اور بڑے فیصلے کونسے ہیں جو تم کرتے ہو؟” پہلے دوست نے پھر استفسار کیا
“بڑے فیصلے مثلا ، امریکہ کو عراق پر حملہ کرنا چاہیے یا نہیں، عالمی منڈی میں ڈالر کا ریٹ کیا ہوگا، شاہد آفریدی ٹیم میں ہوگا یا نہیں، ملک کے اگلا حکمران کون ہوگا۔ ان سارے امور پر میری رائے چلتی ہے۔۔۔ اور ایک مزے کی بات بتاؤں ۔۔۔ ؟”
“میری بیوی نے ان معاملات پر کبھی اعتراض نہیں کیا”
عبدالرؤف صاحب
یہ تو کہانیاں ہیں ۔ حقیقت کسی کہانی پر مُنطبق نہیں ہوتی ۔ عملی صورت یہ ہے کہ ”یہ سودا نقد و نقدی ہے ۔ اس ہاتھ سے دے اُس ہاتھ سے لے“۔
السلام و علیکم
بالکل ٹھیک کہا آپ نے … شریک زندگی زندگی کے ہر معاملے میں ایک دوسرے کے شریک ہوتے ہیں اور اعتماد اور توازن اس رشتے کی خوبصورتی ہے
اسلام وعلیکم افتخار بھائ صاحب شریک حیات واقعی ایک دوسرے کے معاملے میں شریک ہوتے ہیں تو جو اکیلی عورت رہ جاے خاوند کی وفات کے بعد وہ کس سے مشورہ کرے ہمارے معاشرہ اس ضمن میں کیوں اعتراضات ہوتے ہیں ؟
Pingback: راقم الحروف پر جملہ معترضہ | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I
شمیم صاحبہ ۔ السلام علیکم
میرے ضیال کے مطابق خاوند کی وفات کے بات اُس کی اپنی اولاد اُس کے قریب ترین ہوتی ہے اور اگر اولاد بالغ و سمجھدار نہ ہو تو باپ اگر باب بھی بقیدِ حیات نہ ہو تو ماں اور اُس کے بعد سگے بھائی جہنہیں اس سے کسی قسم کا لالچ نہ ہو ۔ یہ سب کچھ نہ ہونے کی صورت مین اللہ کے بعد اپنی عقل اور اُس تجربہ کی بنیاد پر فیصلہ کرے جو خاوند کے ساتھ رہتے ہوئے اُس نے حاصل کیا تھا
Pingback: راقم الحروف پر جملہ معترضہ « Jazba Radio
افتخار بھائ صاحب اسلام وعلیکم بہت مشکور ہوں کہ اپ نےجو مشورہ دیاوہ بلکل ٹھیک ہے ۔ اللہ کرے کہ جلد آکر آپ سے ملوں ۔خیر اندیش بہن شمیم