شعر ہے
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم اُن کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
لیکن جناب ہوا یوں کہ دبئی سے ہماری روانگی سے ایک دِن قبل ہمیں جب وہ ملنے آئے تو
کبھی دل میں اُن کو آفریں کہتے
کبھی اپنے آپ پہ پشیماں ہوتے
اپنے شہر یا گاؤں سے کسی دوسری جگہ جائیں تو اُمید ہوتی ہے کہ وہاں کوئی جاننے والا رابطہ کرے گا ۔ کاشف علی صاحب سے ملاقات پچھلی دفعہ ہو گئی تھی ۔ اُن کا پیغام ملا کہ وہ عید سے پہلے پاکستان چلے جائیں گے اور ستمبر میں واپسی ہو گی ۔ کوشش کریں گے کہ جانے سے قبل ملاقات کریں ۔ کام مشکل تھا ۔ خیر جب عیدالفطر گذر گئی اور مزید کوئی پیغام نہ آیا تو عبدالرؤف صاحب کا ای میل کا پتہ تلاش کر کے رابطہ کیا ۔ جواب ملا کہ وہ وٹس ایپ پر مجھ سے رابطے کی سرتوڑ کوشش کرتے رہے تھے ۔ ہم ٹھہرے پَینڈُو (دیہاتی) رَومِنگ نہیں لی تھی اور سِم بھی نکال کر نئے موبائل فون (وَن پلَس وَن) جو بیٹے زکریا نے بھیجا ہے میں لگا دی تھی ۔ پھر پیغام کیسے ملتا ۔ خیر اُنہوں نے اتوار کو دفتری اوقات کے بعد ملنے کا وعدہ کیا
ہم لوگ 11 جولائی کو الروضہ (دی گرینز) سے مثلث قریۃ الجمیرا (جمیرا وِلیج ٹرائی اینگل) منتقل ہو گئے تھے ۔ عبدالرؤف صاحب کیلئے بھی یہ علاقہ نیا تھا سو بہت گھوم گھما کر پہنچے ۔ مجھے ساتھ لیا اور کسی ریستوراں کی تلاش میں نکلے جہاں ٹی وِد سِمپَیتھی یعنی چائے مع کھانے کی چیز کے پیش کی
میں سجھتا تھا کہ بلوچ ہیں ڈیرہ بُگٹی یا چاغی کی پہاڑیوں کے باسی ہوں گے ۔ اُن کے جو تبصرے میرے بلاگ پر ہوتے تھے اُن سے سمجھا تھا کہ مضبوط جسم اور تنا ہوا چہرہ رکھتے ہوں گے ۔ صورتِ حال بالکل ہی اُلٹ نکلی ۔ وہ نکلے کراچی نارتھ ناظم آباد کے باشندے لیکن الطاف حسین کی خوشبو بھی اُن کے قریب سے نہ گذری تھی ۔ داڑھی جو کبھی نہ مُونڈھی تھی خوبصورت لگ رہی تھی ۔ بات بھی انکساری سے کرتے ۔ میں پشیماں نہ ہوتا تو کیا کرتا ؟
چائے وغیرہ کے بعد مجھے واپس چھوڑا ۔ دوبارہ دبئی آنے پر ملنے کا وعدہ لیا اور خود اسلام آباد آنے پر ملنے کا وعدہ کر کے چلے گئے
کہتے ہیں ہر لمحہ اور ہر ملاقات کچھ سکھانے کیلئے ہے بشرطیکہ کوئی سیکھنا چاہے ۔ عبدالرؤف صاحب بھی مجھے بہت کچھ سکھا گئے
ا ۔ پنجابی میں کہتے ہیں ۔ راہ پیئا جانے تے واہ پیئا جانے
2 ۔ ہیں کواکب کچھ ۔ نظر آتے ہیں کچھ اور
3 ۔ بھولپن میں ایک بات ایسی کہہ گئے کہ میرا مرید ہونے کو جی چاہا ۔ میں نے داڑھی کی بات کی تو لجاجت سے بولے ”والد صاحب نے مجبور کیا تھا کہ داڑھی رکھ لو سو شروع ہی سے رکھ لی ۔ خیر ۔ اللہ کی مہربانی سے اس نے میرے کردار پر عمل دِکھایا ہے“۔ اللہ تعالٰی نے مسلمان عورتوں کو پورا جسم چھُپانے والا لباس پہننے کا حُکم دیا ہے تاکہ وہ پہچانی جا سکیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ مردوں کو بھی اپنے متعلق یہی سوچنا چاہیئے
السلام علیکم
توقع مزاج گرامی بخیر شدہ باشد
آپ نے الحمد للهِ کئی ممالک کا سیر کیا
الله کا احسان و کرم
میں بھی سیر کرنا چاہتا ہوں مگر مجبوری یہ ہے کہ
(۱)میں غریب ہوں
(۲)شیاطین نے از ہر سو گھیر لیا ہے
قرآن پر کام کرنا چاہتا ہوں
ترجمہ غلط ڈھنگ سے کیا گیا ہے مترجم کو نہ تو عربی زبان پر عبور حاصل ہے اور نہ تو ترجمہ کے فن سے واقف ہے اور مترجم کے ترجمہ سے پتہ چلتا ہے کہ خود اس (مترجم) کو قرآن فھمی بھی نہیں
قرآن روحانی کتاب ہے
اگر آپ کی مدد مرے ساتھ ہوجائے تو یہ کام آسان ہوجائے
جواب کا منتظر
برادر شما
محمد فاروق گیاوی
Phone: 917766097884
بہت خوبصورت بات کہہ گئے آپ کے میزبان
جناب آپ أسماء الحسنى تغرے کا شوق رکھتے ہیں ایسا آپ کے اس بلاگ سے محسوس ہوتا ہے
ذرا ایک نظر درج ذیل پر کریں تو نوازش ہوگی
http://urdudaan.blogspot.com/2015/07/blog-post.html
بے محل بات کیلئے معذرت
اسلام و علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
محترم اجمل صاحب، اُمید ہے کہ واپسی کا سفر اچھا گُذرا ہوگا اور خیریت سے گھر پُہنچ گئے ہونگے۔
آپ کے بلاگ پڑھ پڑھ کر آپ سے ملنے کی خواہش اور اشتیاق بہت شدید تھا، گذشتہ سال قسمت میں نہیں لکھا تھا، اس بار بھی میں تقریبا ناامید ہوچکا تھا، لیکن چونکہ اس سال اللہ نے لکھا ہوا تھا سُو ہماری مُلاقات ہوگئی، الحمد اللہ،اور جس شفقت سے آپ ملِے تو دل ہی دل میں وقت کی کمیابی کا افسوس ہونے لگا، لیکن امید ہے کہ آئیندہ جب بھی ملاقات ہوئی تب بھی آپ ہمارے ساتھ ایسی ہی شفقت کا معاملہ رکھیں گے۔انشاء اللہ۔
جناب کی تحاریر سے جتنا آپکے مزاج کے بارے میں اندازہ لگایا تھا، مُلاقات ہونے پر بھی تقریبا ویسے ہی پایا،اور آپکی تحاریر کی رُوشنی میں یہ تو اندازہ ہوگیا تھا کہ دبئی کے احوال لکھے وقت آپ اپنے بلاگ پر ہماری اُس مختصر سی مُلاقات کا تذکرہ بھی ضرور کریں گے۔لیکن آپ نے تو فراخ دلی کی انتہاء کرتے ہوئے ذکرِ خیر سے بھرا پورا ایک مضمون ہی لکھ ڈالا۔جزاک اللہ خیر۔
حالانکہ کچھ تو میری کم گوئی کی عادت اور کچھ وقت کی قلت کے سبب زیادہ گفتگو ممکن نہ تھی،لیکن پھر بھی اصل کمال تو آپ کا ہے کہ آپ نے اپنے سے آدھی عُمر والے ایک جاہل و نوآموز شخص سےبھی ایک انتہائی مختصر مُلاقات میں بھی کچھ سیکھنے کی سعی و دعویٰ کرکےاُس شخص کی لاعلمی میں ہی اُسے اُستادی کے درجہ پر فائز کردیا۔اِسے کہتے ہیں گوڈری میں لعل تلاش کرنایا پھر ہیرے کی پہچان جوہری ہی جانتا ہے وغیرہ۔ (یہاں ہیرا میری ذات نہیں بلکہ وہ بات ہے جسکو آپ نے مُجھ سے سیکھنے کے قابل جانا۔)
ع : عمل کی میرے اساس کیا ہے، بجز ندامت کے پاس کیا ہے — یہ سب کرم ہے رب میرے کہ بات اب تک بنی ہوئی ہے (اصل شعر تھوڑا مختلف ہے۔)
چند وضاحتیں:
1. بے شک بلوچستان کا لوکل رہائشی ہوں، خضدار میری جائے پیدائش ہے، عطاء اللہ مینگل کا لڑکا اختر مینگل ہمارے قبیلے کا سردار ہے۔ لیکن ہماری بہتر تعلیم و تربیت کی خاطر والدین نے میری عُمر جب 7 سال کی تب کراچی ہجرت فرمالی تھی، ہماری خاندانی زمینیں آج بھی خضدار ہمارے رشتہ داروں کی نگرانی میں موجود ہیں۔
2. چونکہ میرے خدوخال ننھیال پر گئے ہیں اس لیئے آپ کومُجھ میں ایک روائیتی “بلوچ”نظر نہیں آیا،ویسے بھی میں “بلوچ” نہیں بلکہ “براہوئی” قوم سے ہوں اور میری ننھیال کا تعلق پٹنہ بہار سے ہے، جوکہ پاکستان کے قیام کے بعد ہجرت کرکے کراچی آئے تھے۔
3. الطاف بھائی ہی کیا موقوف ، اختر مینگل سمیت کسی بھی سیاسی / مذہبی لیڈر یا جماعت سے کوئی تعلق نہیں رکھتا ہوں اور ناہی کبھی رکھا ہے۔(الحمد اللہ)۔
4.یہ جملہ”اللہ کی مہربانی سے اس نے میرے کردار پر عمل دِکھایا ہے۔” میرا نہیں ہے (برائے مہربانی تصحیح فرمالیں۔)
5. تصویریں کھینچنے / کھنچانے کا کوئی خاص شوق نہیں رکھتا ہوں، اسی لیئے آپ سے ایسی کوئی فرمائش بھی نہیں کی۔
فی امان اللہ، بکی بورڈ خود ،عبدالرؤف۔
عبدالرؤف صاحب ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
جناب میں اپنی غلطی تسلیم کرتا ہوں ۔ متذکرہ فقرہ آپ نے نہیں میں نے ہی بنایا ۔ اس کی بنیاد داڑھی کا ذکر کرنے ہوئے آپ کے کچھ الفاظ سے جو میرے ذہن سے نکل گئے تھے ۔ مجھے شہر سے غرض ہے نہ ذات سے ۔ میں آدمی کے چلن کا دیوانہ ہوں ۔ فی امان اللہ
Pingback: راقم الحروف پر جملہ معترضہ | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I