چھاؤنی اور عزت مآب

عاطف بٹ صاحب کا ایک زاویہءِ تحریر نظر سے گذرا تو ماضی میرے ذہن کے پردہ پر گھومنے لگا ۔ میں نے سوچا وقتی اظہارِ خیال کر دیا جائے پھر تحریر کا مطالعہ کیا جائے (پڑھ تو میں چکا تھا) اور اپنا تجربہ لکھا جائے ۔ تبصرہ مندرجہ ذیل تھا

محترم ۔ ابھی میں نے طائرانہ نظر ڈالی ہے ۔ دو موٹی سی باتوں بارے اپنا تجربہ بیان کرنا چاہتا ہوں ۔ گستاخی ہونے کی صورت میں پیشگی معافی کی طلب کے بعد عرض ہے کہ ہمارے ہاں 90 فیصد لوگ مُنصف ہو یا مُدعی ۔ وکیل ہو یا مؤکل ۔ اَن پڑھ ہو یا پڑھا لکھا ۔ حاکم ہو یا ماتحت ۔ بغیر داڑھی ہو یا داڑھی والا ”جس کی لاٹھی اُس کی بھینس“ پر عمل کرتے ہیں ۔ باقی 10 فیصد جو صراط المستقیم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں اُن کی تواضع نامعقول خطابات سے ہی نہیں بلکہ تشدد سے بھی کی جاتی ہے ۔ ہمارے مُلک میں نظام انصاف اُس وقت تک درست نہیں ہو سکتا جب تک وکلاء کی اکثریت درست نہیں ہوتی اور عوام کی اکثریت قانون پر عمل کرنا شروع نہیں کرتی حالت یہ ہے کہ سچ پر چلنے والا جج ہو یا وکیل ۔ افسر ہو یا ماتحت اُس کیلئے دو وقت کی باعزت روٹی کمانا دوبھر کر دیا جاتا ہے ۔ یہی حال سرکاری محکموں کا ہے جس میں سوِل سرونٹ اور فوجی دونوں شامل ہیں ۔ غیر سرکاری محکموں میں سب سے زیادہ قصور وار ذرائع ابلاغ اور وہ عوام ہیں جو اپنا حق لینے کی کوشش نہیں کرتے یا اپنا حق چند سکوں یا وقتی ضرورت کے تحت بیچ دیتے ہیں ۔ وجہ صرف اللہ پر بھروسہ نہ ہونا یا اللہ کی بجائے فانی انسان کو اَن داتا سمجھ لینا ہے ۔ اور ہاں اگر کسی محلے میں کوئی صراط المستقیم پر چلنے والا رہتا ہو تو محلے دار اُس کا جینا دوبھر کر دیتے ہیں ۔ کوئی امام مسجد ہو تو نمازی اور محلے دار مل کے اُسے ہٹانے پر تُل جاتے ہیں
باقی اِن شاء اللہ مطالعہ کے بعد۔

زندگی انہی پتھریلی ناہموار راہوں پر گذری تھی اسلئے فیصلہ مُشکل ہو گیا کہ کیا لکھوں اور کیا نہ لکھوں ۔ کچھ بن نہ پڑی تو سوچا کہ صرف ایک آدھ واقعہ مختصر بیان کیا جائے ۔ یہ بھی طویل ہو کر تبصرے کی حدود سے بہت دُور نکل گیا تو اسے اپنے بلاگ پر ثبت کرنے کا سوچا

عاطف بٹ صاحب نے درست کہا کہ ایک جج کیلئے شناخت ضروری ہے تو فوجی افسر کیلئے بھی ضروری ہونا چاہیئے ۔ عزت مآب والی بات بارے عرض ہے کہ میں نے ججوں کے ساتھ وکلاء کا جارحانہ انداز بھی دیکھا ہوا ہے اور ایسا نہیں ہے کہ ججوں پر سوال نہیں اُٹھایا جا سکتا ۔ ججوں کے خلاف وکیل تحریری درخواستیں بھی دیتے ہیں خواہ وہ بے بنیاد ہوں
درست کہ آئین کے مطابق قرآن و سُنّت کے خلاف کوئی قانون سازی نہیں ہو سکتی ۔ آئین میں بہت کچھ اچھا لکھا ہوا ہے لیکن اس آئین پر کتنے شہری ہیں جو عمل کرنا چاہتے ہیں ۔ اور یہ اراکینِ اسمبلی کو عام شہری ہی تو چُنتے ہیں ۔ کیا ووٹ دیتے وقت کوئی سوچتا ہے کہ جسے ووٹ دے رہے ہیں وہ اسلام یا کم از مُلک کے قوانین پر کتنا کاربند رہتا ہے ؟ اگر نہیں تو وہ اسمبلی میں جا کر اسلام کے مطابق قوانین کیسے بنوائے گا یا آئین و قانون کا کیا احترام کرے گا ؟
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے خلیفہءِ راشد کی مثال اس زمانے میں دینا مناسب نہیں ۔ ذرا سوچیئے کہ اُن سے سوال کرنے والے کا اپنا کردار کیسا تھا ۔ پھر اُن کے زمانہ میں یہودی بھی اپنے قضیئے کا فیصلہ امیرالمؤمنین سے کرواتا تھا اور فیصلہ پر یقین کرتا تھا ۔ آج کا مسلمان بھی کسی دیانتدار اور سچے آدمی سے اپنا فیصلہ نہیں کروانا چاہتا کہ دیانتدار شخص اُس کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ حق پر فیصلہ دے گا

اب بات چھاؤنی کی جسے آجکل سب کینٹ کہتے ہیں ۔ ہمارے مُلک میں چھاؤنیاں 2 قسم کی ہیں ۔ ایک باڑ اور بیریئر والی جیسے بنوں اور واہ اور دوسری کھُلی جیسے لاہور ۔ راولپنڈی اور چکلالہ ۔ البتہ ان کھُلی چھاؤنیوں کے اندر باڑ اور بیریئر والے جزیرے موجود ہیں ۔ مجھے ان سے بحث نہیں ۔ مسئلہ کچھ اور ہے اور وہ ہے انفرادی ۔ اس کو سمجھنے کیلئے میں واہ کی مثال دیتا ہوں کہ اس کے ساتھ میرا قریبی تعلق ہے

میری عمر 75 سال سے تجاوز کر چکی ہے ۔ سرکار سے چھُٹکارہ 53 سال کی عمر میں حاصل کر لیا تھا جس کے بعد 5 سال غیر سرکاری ملازمت کی ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹری کی ملازمت 4 اگست 1992ء کو چھوڑ دی تھی اور 10 اگست 1994ء کو اسلام آباد مُنتقِل ہوا مگر مجھے دسمبر 2009ء تک ہر سال واہ میں کار کے داخلے کیلئے ٹوکن مُفت ملتا رہا ۔ میں نے طِبّی وجہ سے آٹومیٹک گیئر والی کار خریدی جو بیٹی کے نام پر لینا پڑی کہ ریٹائرڈ ہونے کی وجہ سے میرا این ٹی این نمبر نہ تھا (یہ مصیبت شوکت عزیز صاحب ڈال گئے) ۔ 2010ء میں ٹوکن کیلئے درخواست دی تو نہ دیا گیا کہ کار میرے نام پر نہیں ۔ نتیجہ کہ بیریئر پر قطار میں لگیں بتائیں کیوں آئے ہیں کس سے ملنا ہے کیوں ملنا ہے ۔ پھر اجازت مل جائے تو اپنا قومی شناختی کارڈ جمع کرائیں ۔ چِٹ کٹوائیں اور اندر جائیں ۔ واپسی پر چِٹ دے کر شناختی کارڈ واپس لیں ۔ واہ چھاؤنی کے 4 راستے ہیں (ٹیکسلا ۔ جنگ باہتر ۔ حسن ابدال اور ہری پور کی طرف) لیکن آپ جس راستہ سے اندر جائیں اُسی سے باہر نکلنا ہو گا
مجھے 1987ء میں گریڈ 20 ملا تھا ۔ سیکیورٹی کے کوئی بریگیڈیئر صاحب آتے ہیں تو وہ اتنی رعائت دے دیتے ہیں کہ گریڈ 20 میں ریٹائر ہونے والے اپنا پی او ایف سے ملا ہوا شناختی کارڈ دکھا کر واہ چھاؤنی کے رہائشی علاقہ میں جا سکتے ہیں ۔ کوئی اور برگیڈیئر صاحب آتے ہیں تو یہ رعائت بھی ختم کر دیتے ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ گریڈ 17 سے 20 تک کے افسران محبِ وطن پاکستانی ہوتے ہیں اور مُلک کے دفاع کیلئے سیکرٹ اور ٹاپ سیکرٹ کام اُن کے سپرد ہوتے رہتے ہیں ۔ بریگیڈیئر بھی گریڈ 20 کے برابر ہوتا ہے

عملی صورتِ حال یہ ہے کہ افواجِ پاکستان کے افسران کو واہ چھاؤنی میں داخل ہونے سے کوئی نہیں روکتا چاہے اُن کا پی او ایف سے کوئی تعلق نہ رہا ہو ۔ مزید یہ کہ واہ چھاؤنی میں بہت سے غیر متعلقہ لوگ رہتے ہیں ۔ ان رہائشیوں کی گاڑی اگر اُن کے نام پر ہو تو سالانہ فیس ادا کر کے داخلے کا ٹوکن مل جاتا ہے جبکہ واہ چھاؤنی میں رہنے والے پی او ایف ملازم کی گاڑی اگر اُس کے نام پر نہ ہو تو داخلے کا ٹوکن نہیں مل سکتا ۔ باہر سے روزانہ آنے والی بسوں اور ویگنوں کو فیس لے کر داخلے کے ٹوکن دے دیئے جاتے ہیں ۔ ان بسوں اور ویگنوں میں آنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا کہ کون ہو یا کیوں آئے ہو ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی واہ کا رہائشی جس نے کبھی پی او ایف کی ملازمت نہیں کی واہ چھاؤنی سے باہر کے رہائشی کسی دوست یا رشتہ دار کو اپنے خاندان کا فرد لکھ کر گاڑی کا ٹوکن بنوا دیتا ہے اور وہ بلا روک ٹوک واہ چھاؤنی جاتا ہے

اب بات مُنصِفوں اور اِنصاف کی ۔ میرا آدھی صدی پر محیط تجربہ بتاتا ہے کہ مُنصفوں کی اکثریت درست کام کرنا چاہتی ہے مگر وکیل اُن کی راہ میں حائل رہتے ہیں اور کبھی کبھی حکمران بھی ۔ چنانچہ دیوانی مقدمے 20 سال تک لٹکائے جاتے ہیں ۔ قانون کچھ ایسا ہے کہ جج حقیقت جانتا ہو تب بھی اپنی مرضی سے فیصلہ نہیں کر سکتا ۔ اُسے فیصلہ وکلاء کی پیش کردہ دستاویزات اور گواہوں کے بیانات کے مطابق کرنا ہوتا ہے

میرے ذہن میں اس وقت اپنے خاندان کے 5 ایسے مقدمات ہیں جن میں ہمارے پاس اپنی سچائی کا مکمل ثبوت موجود تھا اور ہم پر دعوٰی کرنے والے یعنی مدعی یا پھر جس پر ہم نے دعوٰی دائر کیا تھا یعنی مدعاعلیہ کے پاس سوائے جھوٹ کے کچھ نہ تھا ۔ ان مقدمات میں والد صاحب یا میں یا ہم دونوں 6 سے 16 سال تک کچہری کے ماہانہ چکر لگاتے رہے تھے ۔ مقدمات میں جج صاحبان کو حقیقت کا ادراک ہو گیا تھا اور بالآخر فیصلے بھی ہمارے حق میں ہوئے لیکن بہت تاخیر کے ساتھ جس کے نتیجہ میں فیصلہ کا فائدہ بہت کم رہ گیا تھا

ایک واقعہ جس میں بمصداق پنجابی محاورہ ”حکومت کے داماد“ ملوّث تھے ۔ 1973ء یا 1974ء میں کچھ لوگوں نے ہماری شہری زمین پر قبضہ کر کے اس پر چار دیواری تعمیر کرادی ۔ والد صاحب نے قانون سے مدد مانگی ۔ جج نے ناظر مقرر کر دیا جس نے درست رپورٹ جج کو دے دی ۔ مگر قبضہ کرنے والے پی پی پی کے کھڑپینچ تھے ۔ اُس جج سے مقدمہ لے لیا گیا اور کسی دوسرے جج کو نہ دیا گیا ۔ اسی اثناء میں جیالے جج لیٹرل اَینٹری (lateral entry) کے ذریعہ بھرتی کئے گئے اور اُن میں سے کسی نے بغیر ہمیں بُلائے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیا ۔ والد صاحب کو عِلم ہوا تو اپیل دائر کی ۔ سیشن جج صاحب نے ناظر مقرر کیا جس نے آ کر بتایا کہ وہاں تو 2 کوٹھیوں کی ایک ایک منزل تیار ہو چکی ہے ۔ محکمہ مال سے معلوم ہوا کہ اُس زمین کا بیشتر حصہ والد صاحب کے جعلی مختارنامہ کے تحت بیچا جا چکا ہے ۔ ایک پی پی پی کے کھڑپینچ والد صاحب کے پاس آتے رہتے تھے ۔ والد صاحب نے اُس سے ذکر کیا تو صلح نامہ ہوا ۔ 10 لاکھ کی زمین کی قیمت 3 لاکھ دینا منظور کی ۔ وہ بھی پچاس پچاس ہزار کی 3 قسطیں 3 سالوں میں وصول ہوئیں اور بس

میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں کہ جب تک ہم عوام ٹھیک نہیں ہوں گے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہونے کا اور نہ اللہ نے فرشتے بھیج کر اس مُلک کو درست کرنا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی فیصلہ دے چکا ہے ۔ سورت 13 الرعد آیت 11 ۔

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

۔ (ترجمہ) اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

This entry was posted in آپ بيتی, روز و شب, طور طريقہ, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

14 thoughts on “چھاؤنی اور عزت مآب

  1. عبدالرؤف

    سُنتے ہیں کہ پاکستان بننے سے پہلے ایک جذباتی نعرہ ہوا کرتا تھا ” پاکستان کا مطلب کیا — لا الہ الا اللہ” لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ عملا یہاں پر سوائے اللہ کے باقی سبھی معبود ہیں اور جس کی جتنی بساط ہے وہ اُتنا ہی بڑا خُدا بنا بیٹھا ہے :roll:
    اور یہ عوام بچاری کیا کرے گی سُدھر کر ؟ اچھا ہے ناں سبھی ایک ساتھ باجماعت جہنم کے گڑھے میں جا کر گرجائیں کیونکہ یہاں تو عوام کو اپنی رُوزی رُوٹی کے لالے پڑے ہیں اور انقلاب لانے کے لیئے خُدا نے فرشتے نازل نہیں کرنے ہیں، کیوں نہ کسی عامل بنگالی بابا کو یہ کنٹرکٹ دے دیا جائے کہ بھائی تم ہی اپنے مُوکلوں کے ذریعہ اِس قوم و مُلک کے حالات سُدھار دو، لیکن نہیں شائد وہ بھی اِنکار کردے کیونکہ جب قوم کی حالت سُدھر جائے گی تو خُود اُس بابا کا کاروبار کیسے چلے گا ؟؟؟ :mrgreen:

  2. سیما آفتاب

    “میں تو صرف ایک بات جانتا ہوں کہ جب تک ہم عوام ٹھیک نہیں ہوں گے کچھ بھی ٹھیک نہیں ہونے کا اور نہ اللہ نے فرشتے بھیج کر اس مُلک کو درست کرنا ہے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی فیصلہ دے چکا ہے ۔ سورت 13 الرعد آیت 11 ۔

    إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
    ۔ (ترجمہ) اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے ”

    صد فی صد متفق ۔۔۔۔ ہم خود ہی ٹھیک نہیں ہونا چاہتے اور چاہتے ہیں ہمارے آس پاس سب خودبخود آئیڈیل میں ڈھل جائے ۔۔۔۔ اس طرح نہ کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    عبدالرؤف صاحب
    لڑکپن میں کسی نے سنایا تھا کہ دو پوستی ایک درخت کے نیچے لیٹے تھے کہ ایک شخص وہاں سے گذرا ۔ ایک پوستی راہگذر سے بولا ”بھائی ۔ میرے سینے پر ایک بیر پڑا ہے ۔ میرے منہ میں ڈال دو ۔ یہ میرا ساتھی اتنا سُست ہے آدھے گھنٹہ سے کہہ رہا ہوں مگر میرے منہ میں نہیں ڈالا“۔۔ دوسرا بولا ”راہگذر بھائی ۔ اس کی نہ پوچھو ۔ ایک گھنٹہ کتا میرا منہ چاٹتا رہا ۔ میں نے اسے کئی بار کہا کہ کتے کو ہٹا دو مگر اس نے نہیں ہٹایا تھا“۔

  4. عبدالروف

    کہانی کا کلائمکس کہاں ہے ؟ یعنی راہگزر نے بیر اٹھا کر خود کها لیا کہ نہیں ؟

  5. Bushra khan

    محترمی

    سلام مسنون

    سیاسی معملات میں میری نالج محدود ہے. میڈیا، رسائل، حالات کا رخ و تبصرہ نگاروں کی رائے کو دیکھتے ہوئے جتنی سمجھ اتنی بات کہونگی..

    آپ نے دو باتیں خاص کر بہت سہی لکھی ہیں. ایک یہ کہ “کیا ووٹ دیتے وقت کوئ سوچتا ہے کہ جسے ووٹ دے رہے ہیں وہ اسلام یاکم از کم ملک کے قوانین پر کتنا کار بند رہتا ہے؟”

    اور دوسری یہ کہ ” آج کا مسلمان بھی کسی دیانت دار اور سچّے آدمی سے اپنا فیصلہ نہیں کروانا چاہتا کہ دیانت دار شخص اس کی خواہش کے مطابق نہیں بلکہ حق پر فیصلہ دے گا “.

    میری سوچ و رائے یہ ہےکہ جیسا نظام حکومت ہوگا اسی نہج پر خوانین بنینگے اور عوام کی ذہنی و فکری سوچ اور صلاحیتیں انہیں سانچوں میں ڈھلین گی. حکومت میں اگر صالح اور نیک لوگ آئینگے تو وہ خیر کے، نیکی کے، بھلائ اور اچھائ کے کام کرے گی تو عوام بھی دھیرے دھیرے انھین اچھایوں اور خوبیوں کو اپنائگی. پھر پورا معاشرہ کم و بیش نیک ہو گا. دو چار چھے فیصد کے سوا.

    ایسا کہیں بھی نہیں ھوتا کہ حکمران اور قانون تو نیکی پر قائم ہو اور عوام ہیں کہ… چور، ڈکیت، قاتل، گدھوں اور کتوں کا گوشت کھلانے والے، خائن، جواری، اسمگلر، رشوت خور، ٹارگٹ کلّر، منی لانڈرر، بھتّہ خور، جھوٹی گواہی دینے والے، جعلی ادویات بنانے والے رشوتیں دے کر مریضوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے، عریانیت و بےحیائی کے اڈّے چلانے والے اور ملاوٹ کرنے والوں کی بھرمار اور لائن لگی ہوئی ہو.

    ایک ایک مقدمہ برسوں چلتا رہے انصاف پھر بھی نہ ملے. سینکڑوں ملزم برسوں سے جیلوں میں بند ہیں جن کے جرایم کی کوئی فائیل موجود نہی کہ اس نے جرم کیا کیا ہے.؟ سینکڑوں بے گناہ، وڑیرہ شاہوں کی قید و بند سے رہائی پاکر جھوٹی گواہیوں میں پا بندِ سلاسل ہیں ان غریبوں و مسکینوں کا کوئی پرسان حال نہیں. حال ہی میں دسیوں ایسے مجرموں کی پھانسیاں عدالت نے رد کیں جن پر کوئی جرم ثابت نہیں. جن کی سکت نہ رہی ہو اپیل کرنے کی ان میں سے کتنے اپنے نا کردہ گناہ میں پھانسی کے پھندوں میں جھول گئے ہوں اور بقیہ جیلوں میں سڑ رہے ہوں. یہ ان حاکموں کیلیے کوئی بات نہیں جو عوام کی جان ومال کی زمہ داری لے کے ہزاروں وعدے کرکے اقتدار میں آتے ہیں اور پھر عوام پر ظلم و ناانصافی سے لا پرواہ ہو جاتے ہیں. یہ سب کیا ہے.؟ یہ انسانیت کے ناطے ناحق اور سراسر ظلم ہے. یہ ظلم حکمرانوں کو دکھائی نہیں دیتا. پھر بھی حکمرانی سے چمٹے رہنے کی زِد اپنا Mandate کھو دینے کے برابر ہے.

    اسی لیئے نظام صالح ہوگا تو انصاف برابر سے ملے گا. کسی پر ناحق ظلم و ستم نہ ہو گا…. تب ہی کسی صحافی کو حضرت عمر بن خطاب یا خلیفہ راشد کی مثال پیش کرنے کی حاجت نہ ہو گی. کیونکہ صالح نظام اپنی برکتیں بکھیر رہا ہوگا.

    اسلام کا نام جپنے والے اسلام کے نام پر نمائشی کام کرنے والے مسلم حکمرانوں کو چاہیئے کہ صِدقِ دل وصِدق نیت سے اپنے ان صحابہ کی مثالی طرزِ حکمرانی کی تقلید کریں. اور جو تقلید نہیں کر رہا ہوتا ہے اپنی کوتاہیوں یا کسی بھی وجہ سے تو اسے بار بار ٹوکنا و بتانا چاہیئے. اور ٹوکتے رہنا بہت بڑی نیکی ہے اللہ اور اس کے پیارے (Nabi (saw کی نگاہ میں. یہ Amar bil maroof wa nahi anil munkar ek fariza hai. اس فریضہ کو انجام دینے کے لیئے وقت و نا وقت کی کوئی قید نہیں. جب حالات انتہائی ناساز گار ہوں تو یہی فریضہ فرضِ عین قرار پاتا ہے.

    کوئی بھول چوک ہوی ہو تو معافی چاہتی ھوں.

    بشرٰی خان

  6. Bushra khan

    Respected

    Moallim Iftikhar Ajmal sahab

    Thank you for your lovely comment and appreciation.

    Bushra khan

  7. Bushra khan

    محترمی و مکرّمی

    جناب افتخار اجمل صاحب

    سلام مسنون

    آپ سے ایک مودبانہ درخواست ہے. وہ یہ کہ آپ دوسروں کو تو کھری کھری سنادیتے ہیں. پر میرے معاملے میں شاید کچھ ریایت کر جاتے ہیں. تو اصلاح کیسے ہوگی.؟

    بشرٰی خان

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    بشرٰی خان صاحبہ
    ایک طرف آپ نے میری تعریفیں کر کر کے میرا مزاج بگاڑ دیا ہے یعنی ”ہم چُناں دیگرے نیست“ بن گیا ہوں ۔ اور دوسری طرف یہ لکھ دیا ہے ۔ آپ کو نہ پوٹھوہاری آتی ہے نہ پنجابی ورنہ میں نے وہ لکھنا تھا جو راولپنڈی ۔ اسلام آباد کی عورتیں ایسی صورتِ حال میں کہتی ہیں

  9. Bushra khan

    جی محترمی

    یہ آپ کی عالیِ ظرفیِ ہے اپنی تعریف سننا پسند نہیں فرماتے.

    آپ نے سہی فرمایا “پوٹھوداری و پنجابی” مجھے نہیں آتی.

    “پوٹھوداری” پہلی بار سن رہی ہوں. یہ جو آپ نے لکھا ہے
    ” ہم چناں دیگرے نیست ” یہ فارسی ہوگی.! یہ بھی نہیں آتی.

    جیسی آپ کی اِکچھا.

    ‘Ikcha’ is a hindi word which means Wish, Pleasure, Willingness

    وسّلام

    بشرٰی خان

  10. افتخار اجمل بھوپال Post author

    بشرٰی خان صاحبہ
    آپ کو پشتو بھی نہیں آتی ہو گی حالانکہ آپ خان یعنی پشتون ہیں ۔ اب بغیر پنجابی لکھ گذارہ نہیں
    ۔ واٹر واٹر کردا مویوں بچہ ۔ انگریجیاں گھر گالے
    جے کر جاندی پانی منگدا ۔ بھر بھر دیندی پیالے
    جب انگریزوں کی ہندوستان پر حکومت تھی تو ایک لڑکا انگریزی سکول میں پڑھ کر گھر آیا ہوا تھا کہ بیمار پڑ گیا ۔ جب حالت خراب ہو گئی تو پانی مانگتا رہا ۔ ماں بے چاری انگریزی نہیں جانتی تھی ۔ وہ مر گیا تو کسی نے بتایا کہ پانی مانگتا تھا تو کہنے لگی ۔ پانی پانی کہتا تو مر گیا بیٹا اگر میں جانتی کہ پانی مانگ رہا ہے تو پیالے بھر بھر کے دیتی
    :)

  11. Bushra khan

    جی

    مِحترمی !

    مجھے انگریزی اردو اور تھوڑی بہت عربی آتی ہے. خان کے ناتے سے علاودین خلجی کی باقیات سے ہیں. جس مقام پر ان کا پڑاو تھا وہی ہمارا گاوں ہے. گاوں میں ان کی قبروں کے کافی نشانات ہیں. کچھ مساجد چھوٹی چھوٹی سی 25-30 مُصلّیوں کے گنجائیش کی آج بھی آباد ہیں. یہ اللہٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ ان کی آمد سے ہم کلمہ گو ہیں ورنہ تو آپ جانتے ہیں کہ کیا ہوئے ہوتے.

    “واٹر واٹر کردا مویوں بچہ”

    پنجابی یا پوٹھوہاری جس میں بھی لکھا ہے آپ نے، الفاظ بہت interesting اور appealing لگے ترتیب بھی اچھی لگی.

    افسوس ہوا سن کر جس کا بھی بچّہ رہا ہو نا سمجھی میں مارا گیا.

    بشرٰی خان

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.