ایک چیز جسے چھوڑنے کیلئے بہت کم لوگ رازی ہوتے ہیں دوسروں پر حکمرانی کی خواہش ہے
آدمی کھانا پینا کم کر سکتا ہے ۔ مہنگے کپڑے پہننا چھوڑ سکتا ہے ۔ دولت کی کمی برداشت کر سکتا ہے
لیکن
اگر اُسے دوسروں کا سردار بنا دیا جائے تو اُس کا رویّہ حریفانہ ۔ دفاعی اور آرزو مندانہ ہو جائے گا
یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” 6 year boy becomes MS Office professional“
کہیں پڑھا یا پھر سُپنا تھا کہ جب اورنگزیب نے اپنے باپ شاہجہاں کو آگرہ کے قلعے میں قید کیا تھا تو اُس دور میں شاہجاں نے اپنی بیکاری اور بوریت دور کرنے کے واسطے اورنگزیب سے چند طالبعلموں کی فراہمی کی درخواست کی تھی تاکہ اُنھیں پڑھا کر اپنا وقت گُذار سکتے، لیکن اورنگزیب نے یہ کہہ کر درخواست در کردی تھی:
“بادشاہت نہیں رہی لیکن پھر بھی بادشاہت کرنے کا شوق موجود ہے”۔ (حوالہ یاد نہیں آرہا اور نہ ہی گوگل کرنے پر ملا )
عبدالرؤف صاحب
آپ اتنی دور چلے گئے ۔ میں نے نہ بادشاہت کے تخت پر بیٹھنا ہے نہ مجھے اُترنے کا ڈر ہے ۔ میں نے تو دیکھا ہے کہ جو لوگ ملازم ہوتے ہیں وہ 60 سال یعنی ریٹئرمنٹ کی عمر ہونے کے بعد بھی چاپلوسیاں کر کرا کے کنٹریکٹ پر ملازم ہو جاتے ہیں ۔ چوہدراہٹ کی کرسی ہے ہی بڑی پُرکشش
سر جی آپ کی بات نہیں کی تھی، بس آپ کی تحریر پڑھ کر جو پہلا خیال آیا تھا وہی لکھا دیا تھا، اگر کوئی بات بُری لگی ہو تو معذرت قبول کیجیئے۔
عبدالرؤف صاحب
آئیندہ کیلئے یاد رکھیئے کہ میں کسی کی بات کا بُرا نہیں مناتا ۔ میں ماضی میں رہنا پسند نہیں کرتا ۔ اسی لئے حال کی بات کی تھی جو میں نے خود دیکھا ہے ۔ ہاں البتہ ماضی سے سبق لینے کی کوشش کرتا ہوں ۔ ماضی کی تاریخ جو ہمیں میسّر ہے اسے میں مستند نہیں سمجھتا کیونکہ انگریز قابضوں نے تمام مسلمان عالِم ۔ محقق اور ہُنرمند ہلاک کر دیئے تھے ۔ جامعات (یونیورسٹیاں) اور لائبریریاں تباہ کر دی تھیں ۔ میرے بزرگوں کے خون کے صرف اسلئے پیاسے تھے کہ وہ انگریز افسروں کی بلا وجہ کی گالیاں برداشت نہیں کرتے تھے ۔ اورنگ زیب کے بارے میں مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ایک شخص جو سرکاری خزانے سے ایک پیسہ بھی اپنے اوپر خرچ نہیں کرتا تھا اور ٹوپیاں سی کر گذارہ کرتا تھا جس کی بیوی سارا کام اپنے ہاتھوں سے کرتی تھی اُسے دوسری طرف ظالم کیوں دکھایا گیا ہے ؟
یہی فطرتِ انسانی ہے جو ودیعت کی گئی ہے
تاریخ پر میری گرفت زیادہ اچھی نہیں ہے لیکن اورنگ زیب کے ظالم ہونے کے بارے میں کیا یہ دلیل کافی نہیں ہے کہ اُس نے اپنے باپ اور بھائیوں قید و قتل کیا محض بادشاہت کے حُصول کے لیئے؟ باقی تو اُسکی ذاتی زندگی کے افعال تھے،جتنا چاہتا سرکاری مال استعمال کرتا اُسے کس نے روکنا تھا؟
اختیار چیز ہی ایسی ہے ۔۔۔
عبدالرؤف صاحب
گستاخی معاف ۔ آپ جیسے باعِلم آدمی سے مجھے اس اظہارِ خیال کی توقع نہیں تھی ۔ مجھے یاد ہے آپ نے کہا تھا کہ ”ہم مسلمان ہین وطن پرست نہیں“۔
اگر ہو سکے تو تھوڑا وقت نکال کر اُن کتابوں اور مضامین کی طرف توجہ دیجئے جو اب بھارت میں بسنے والے ہندو ہی لکھ رہے ہیں ۔ البتہ یہ تو آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ جن بھائیوں کے قتل کی آپ بات کر رہے ہیں وہ کون تھے اور اُنہیں کہاں قتل کیا گیا ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ شاہجہاں کی کتنی بیویاں تھیں اور اُس نے اپنا ولی عہد کسے بنایا تھا ؟ ایک وضاحت میں ہی کر دیتا ہوں کہ شاہجہاں کو قید خانے میں نہیں رکھا گیا تھا بلکہ محل کے اندر نظر بند کیا گیا تھا
شعر عرض ہے کہ:
ابتداء یہ کہ میں اور دعویٰ علم کا — انتہاء یہ کہ بہت پچھتایا اُس دعویٰ پہ (اوزان غلط ہوسکتے ہیں، اور شاعر بھی نامعلوم ہے۔)
سر جی اگر ذرا وضاحت فرمادیتے کہ یہ بات کب جھٹلائی کہ ” ”ہم مسلمان ہیں وطن پرست نہیں“؟ تو آسانی ہوجاتی اِس خاکسار کے لیئے۔
اور جب میں خود ہی اعتراف کررہا ہوں کہ تاریخ پر میری گرفت کمزور ہے تو آپ بھی برائے مہربانی یہ مان لیں اور مُشکل سوالات سے اجتناب کریں
کیونکہ میرےخیال سے تو تاریخ سے شغف رکھنے اور تاریخ پر گرفت رکھنے میں کافی فرق ہے، اور میں تاریخ سے شغف رکھتا ہوں، گرفت نہیں۔
آپ کی یاداشت ماشاء اللہ بہت اچھی ہے، لیکن میری یاداشت بھی کچھ خاص نہیں ، بحرحال بچپن میں پڑھی گئی باتوں میں سے جو یاد ہے اُسکا خلاصہ درج ذیل ہے :
مجھے تو داراشکوہ اور مُراد نامی دو بھائیوں کے نام یاد آرہے ہیں۔اِن میں سے دارا بڑا بھائی تھا، عیاش اور بےدین تھا لیکن بعد میں شاید صوفی ہوگیا تھا، باپ نے اُسی کو ولی عہد مقرر کیا تھا، مگراورنگزیب نے باپ سے اختلاف کرتے ہوئے دارا کے علاقہ (نام یاد نہیں) پر حملہ کردیا، مرکز کی فوج دارا کے پاس تھی، اور مُراد بھی دارا کا حامی تھا اور کسی دوسری جانب سے اورنگزیب کی فوج پر حملہ آور ہوا تھا، لیکن پسپا ہو کر اور اپنی جان بچانے کی خاطر اورنگزیب کے ساتھ مِل گیا تھا، اورنگزیب مرکز میں موجود اپنے سیاسی حامیوں اور سازشیوں کی بدولت دارا کو جنگ میں ہرا کر گرفتار کرواسکا تھا، گرفتاری کے بعد دارا کو اُسکے بڑے بیٹے سمیت مرکز (دلی) روآنہ کیا گیاتھا، اور راستے میں ذلت کے ساتھ شہر شہر پھیِرایا گیاتھا، اور چپکے سے لیکن اُسکے بیٹے کی موجودگی میں ہی قتل کردیا گیاتھا۔
نوٹ: کچھ اہم باتیں شائد ذہن سے اُتر گئی ہوں، گوگل یا ویکی کا سہارا لے سکتا تھا، لیکن میرے خیال سے یہ بہت غیر اہم موضوع ہے، اس لیئے وقت برباد کرنا فضول ہی ہوگا۔اور آپ کی اصل پوسٹ سے بھی موضوع کافی دُور چلاگیا ہے، باقی آپ کی مرضی
وضاحت : میرے آخری تبصرہ میں اِس سطر :
“آپ کی یاداشت ماشاء اللہ بہت اچھی ہے، لیکن میری یاداشت بھی کچھ خاص نہیں ، ”
کو یوں پڑھا جائے :
“آپ کی یاداشت تو ماشاء اللہ بہت اچھی ہے، لیکن میری یاداشت کچھ اتنی خاص نہیں ، “
عبدالرؤف صاحب
میری تحریر ” اتنا تو میں بُرا نہیں“ پر آپ نے لکھا تھا ”بحیثیت مسلمان یہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن تمام انسانیت کےلیئے سرچشمہ ہدایت ہے، لیکن قرآن میں تو وطن پرستی یا قوم پرستی کہیں نہیں سیکھائی گئی ہے“۔
دیگر آپ فرماتے ہیں کہ میں آپ سے مُشکل سوال نہ پوچھوں ۔ اور جس سوال کو مُشکل قرار دیا ہے اُس کا درست جواب بھی لکھ دیا ہے ۔ جناب یہی میں نے بھی سکول میں تاریخ کی کتاب میں پڑھا تھا ۔ میں نے دسویں جماعت 1953ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پاس کی تھی ۔ اُس وقت کے ہمارے اساتذہ صرف کتابیں نہیں پڑھاتے تھے بلکہ طلباء کی راہنمائی بھی کرتے تھے ۔ ہمارے تاریخ کے استاذ ایم اے ہسٹری اور ایم اے پولٹیکل سائنس تھے ۔ اُنہوں نے ہمیں کہا تھا ”یہ پڑھ لیں امتحان کیلئے لیکن حقیقت یہ ہے اس میں حقائق کو مسخ کیا گیا ۔ اکبر نے دین کا تیہ پانچا کیا تو اُسے بہترین بادشاہ کہا گیا ہے ۔ ابو مظفر محی الدین محمد اورنگ زیب پکا مسلمان تھا تو اُس کی جھوٹی کہانیاں بنا کر اُسے ظالم کہا گیا“۔
اب آپ کی ذہانت ۔ اگر میں کوئی سند دینے والا ادارہ ہوتا تو آپ کو بہترین ذہانت کی سند دیتا ۔ آپ کو ایسی باتیں کرنے کا مزا آتا ہے کیا ؟ یا کہ میرا امتحان مقصود ہے