منگل بتایخ 28 اپریل قریبی مارکیٹ المعروف ”اللہ والی مارکیٹ“ تنّور (مقامی زبان میں تندور)گیا تو تنّور بلکہ پوری مارکیٹ بند ۔ پھر اپنے لئے دوائی لینے ایف 8 مرکز المعروف ”ایوب مارکیٹ“ گیا ۔ سب دکانیں بند ۔ سوچا بلیو ایریا میں دوائیوں کی دکانیں بڑی (شاہین اور ڈی واٹسن) ہیں وہاں سے لاتا ہوں ۔ وہاں پہنچا سب دکانیں بند ۔ منہ لٹکائے واپس ہوا ۔ راستہ میں سیٹَورَس کے پاس سے گذرا ۔ وہ بھی بند اور داخلے کے راستہ پر ایک بینر لگا تھا ”دُکانیں 8 بجے بند کرنا ۔ نامنظور“۔
پچھلے چند سالوں سے دیکھ رہا ہوں کہ سیاسی جماعتیں ہوں یا غیر سیاسی ادارے یا گروہ سب نے ایک ہی وطیرہ اختیار کر رکھا ہے ”سٹرائیک (strike)“ جسے اُردو میں ہڑتال کہتے ہیں لیکن آجکل انگریزی پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو سب ”سٹرائیک“ ہی کہتے ہیں ۔ سٹرائک (strike) کے معنی ڈکشنری کے مطابق ہیں ”مارنا ۔ پیٹنا ۔ ٹھونکنا“۔ اور حقیقت یہی ہے کہ ہمارے ہاں سٹرائیک اسی معنی میں استعمال ہو رہا ہے ۔ کل کی سٹرائیک شاید تعلیمیافہ لوگوں کی تھی ورنہ سٹرائیک ایک سیاسی جماعت کرے یا کرائے یا کوئی گروہ کرے یا کوئی خاندان ۔ توڑ پھوڑ کرنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے ۔ کوئی نہیں سوچتا کہ جس کار کے شیشے توڑے گئے اُس کے مالک کے پاس شاید کار مرمت کرانے کیلئے بھی پیسے نہ ہوں ۔ کوئی بھی تکلیف پہنچے جس کا سبب چاہے کوئی بھی ہو سڑکیں بند کرنا اور بے قصور لوگوں کی املاک کو نقصان پہنچاناہمارا مشغلہ بن چکا ہے ۔ محسوس ایسا ہوتا ہے کہ اصل مقصد دوسروں کو نقصان پہچانا ہی ہے ۔ ہر کوئی ایک نیا ریکارڈ بنانے میں لگا ہے ۔ اس سے ملک و قوم کو ہونے والے نقصان کی کسی کو پرواہ نہیں ۔ ایک ریکارڈ 7 ماہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے باسیوں کی زندگیاں اجیرن کرنے کا ریکارڈ بھی بن چکا ہے ۔ آج سے شاید 85 سال قبل علامہ صاحب نے کہا تھا
وائے ناکامی ۔ متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
یہ شعر صحیح معنوں میں ہم پر منطبق ہوتا ہے ۔ منگل کی ہڑتال بجلی کی بچت کی حکومتی کوشش کے خلاف تھی ۔ دکانداروں کا یہ بہانہ بالکل غلط ہے کہ افسروں کو 5 بجے چھٹی ہوتی ہے ۔ اسلام آباد کی سڑکیں ٹوٹی پھوٹی ہیں اسلئے افسران شام 7 بجے گھر پہنچتے ہیں تو وہ شاپنگ کب کریں ؟ جی 9 المعروف کراچی کمپنی میں شاپنگ کرنے والوں میں عورتوں کی نسبت مرد زیادہ ہوتے ہیں لیکن وہاں دکانیں مغر ب کے وقت بند ہو جاتی ہیں ۔ بلیو ایریا۔ ایف 6 ۔ ایف 7 اور ایف 10 میں شاپنگ کرنے والوں میں 90 فیصد سے زائد عورتیں ہوتی ہیں
ان دنوں شام 7 بجے سے 11 بجے تک بہت زیادہ بجلی استعمال ہوتی ہے ۔ آجکل ایک ایک دکان پر درجنوں قمقمے 100 سے 500 واٹ کے لگے ہوتے ہیں ۔ کئی دکانوں میں ایئر کنڈیشنر بھی لگے ہوتے ہیں ۔ اگر دکانیں جلدی بند ہو جائیں تو لوگوں کے گھروں کو زیادہ بجلی مہیاء کی جا سکتی ہے ۔ وزیر پانی و بجلی کے مطابق اگر دکانیں شام 8 بجے بند ہو جائیں تو لوڈ شیڈنگ میں 2 گھنٹے کی کمی آ سکتی ہے ۔ میرے علم میں ایسا ملک نہیں جہاں دکانیں شام 7 بجے کے بعد کھلی رہتی ہوں ۔ یورپ ۔ امریکہ ہو یا بھارت ۔ جرمنی اور انگلینڈ میں میں دکانیں شام ساڑھے 6 بجے بند ہو جاتی ہیں ۔ بھارت میں بھی دکانیں ساحے 7 بجے تک بند ہو جاتیں ہیں۔
راولپنڈی اور اسلام آباد میں 1970ء تک سب دکانیں شام 8 بجے تک بند ہو جاتی تھیں ۔ میرا خیال ہے لاہور کراچی میں بھی ایسا ہی تھا ۔ پھر ناجانے کس قسم کی ترقی قوم نے کی کہ لوگ رات کو جاگنے اور دن کو سونے لگے ۔ دوسری طرف یہ حال ہے کہ کبھی غلطی سے دوپہر 12 بجے سے قبل کسی کے گھر چلے جائیں تو سوئے ہوئے ہوتے ہیں یا کرم نوازی کریں تو آنکھیں ملتے ہوئے سونے کے لباس میں دروازہ کھولتے ہیں ۔ سکول میں ایک محاورہ پڑھا تھا ”اُونٹ رے اُونٹ تیری کون سی کل سیدھی“ تو مطلب سمجھ میں نہیں آیا تھا ۔ جو سمجھ آ گیا ہے
جمہوریت کے ثمرات ہیں جی، کیونکہ جمہوریت میں یہی ایک ہی موثر طریقہ ہے اپنی بات منوانے کا، یعنی تعداد جسکی جتنی زیادہ اُسی کی لاٹھی اور اُسی کی بھینس ۔۔۔
پاکستان میں نہ ہی بجلی کی پیداوار کی کمی کا مسئلہ ہے اور نہ ہی پیداواری زرائع کی کمی ہے ، بلکہ بجلی کے درست انداز میں سپلائی کا نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔۔۔
دوکانیں اور شاپنگ سنٹرز یہاں دبئی میں تو صبح کُھل جاتی ہیں، اور رات 10 بجے سے لیکر 12 تک درمیان مختلف اوقات میں بند ہوتے ہیں۔۔۔
دوکانیں بند کرانا مسئلہ کا درست حل نہیں ہے، بلکہ بجلی کی پیدارار اور سپلائی کو درست کرنا مسئلہ کا صحیح اور موثر حل ہے۔۔۔
کیونکہ بیماری کا علاج کیا جانا چاہیئے ناکہ مریض کو ہی ماردیا جائے تاکہ نہ رہے کا بانس نہ بجے گی بانسری ۔۔۔
خیر جہاں ڈیم کا بننا قومی سے زیادہ سیاسی مسئلہ ہو وہاں بجلی اور پانی کے مسائل تو ہونگے ہی ناں۔۔۔
خیر مُحبِ وطن کہلائے جانے کا حق ضبط ہونے سے بہت خاموش رہنا بہتر ہے۔۔۔
اِس لیئے مزید کچھ کہنے کے بجائے اب خاموش ہوہی جاتا ہوں۔۔۔
افتخار صاحب۔
میں نے آپ سے ذکر نہیں کیا شائد۔
جب آپ سے ملاقات کا پروگرام بنا، تو عبدالرؤف صاحب سے وعدہ کیا کہ ان کو بھی بلاؤں گا۔
اب یاد نہیں کہ کس وجہ سے میں ان کو بلا نہ سکا، یا پھر وہ آنہ سکے۔
جب آپ سے مل کر واپس آیا تو عبدالرؤف صاحب بہت آزردہ ہوئے، کہ میں آپ سے اکیلے ہی مل آیا ھوں۔
یہ صاحب آپ کے سچے اور اصلی والے فین ہیں۔
جزاک اللہ کاشف صاحب۔
سٹرائیک کا بالکل ٹھیک استعمال بیان کیا ہے آپ نے
میں لمبی چوڑی بحث میں پڑے بغیر یہ کہنا چاہوں گی کہ میرے والد کچھ عرصہ پہلے تھائی لینڈ ایک ٹریننگ کے سلسلے میں گئے تھے تو بتاتے ہیں کہ وہاں تمام شاپنگ سینٹرز شام 7 بجے بند ہو جاتے ہیں ۔۔۔ وجہ یہ کہ 7 بجے کے بعد ان کا فیملی ٹائم ہوتا ہے ۔۔۔ اور یہاں رات 12 بجے کے بعد جو انسان گھر واپس آئے گا تو فیملی کے لیے اس کے پاس کیا وقت ہوگا؟
ہمارا طرز ذندگی اتنا تبدیل ہو گیا کہ اب شاید سدھرنا ممکن نہ ہو مگر کوشش کرنے میں کوئی ہرج بھی نہیں ۔۔۔۔ ہم جن اقوام کی نقالی کرتے ہیں ان سے کام صبح جلدی شروع کرنا بھی سیکھ لیں تو ہمارا ہی بھلا ہوگا۔