اخبار کہتا ہے کہ شاہین میزائل کی مار کا ہوائی راستہ 2750 کلو میٹر ہے
انٹرنیٹ مندرجہ ذیل ہوائی راستے بتاتا ہے
ملتان سے آسام ۔ 2149 کلو میٹر
اسلام آباد سے ڈھاکہ ۔ 2014 کلو میٹر
اسلام آباد سے کلکتہ ۔ 1942 کلو میٹر
گوادر سے یوروشلم ۔ 2746 کلو میٹر
حیدرآباد سے کیرالا ۔ 1819 کلو میٹر
یہی تو وہ جنون ہے جس نے ہماری ترقی کی راہ روک رکھی ہے، عوام بچاری ننگی، بھوکی اور جاہل ہے اور اُنکے حُکمران ہیں کہ بیرونی قرض لِےلِے کر میزائیلوں کے انبار لگا رہے ہیں۔
عوام مُلک سے باہر اپنی روزی روٹی کے لیئے دھکے کھانے پر مجبور ہے اور حُکمران بیرونِ ممالک ذاتی اثاثے جات کا ڈھیر لگانے میں مصروف بہ عمل۔
سچ ہے پاکستان اسلام کے نام پر بھیک مانگ کر حاصل کیا گیا تھا، لیکن آج پاکستان میں اسلامی نظام کہیں بھی نافظ نہیں ہے۔
نوٹ: سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے
عبدالرؤف صاحب
سچ ہمیشہ نہیں اکثر کڑوا ہوتا ہے
آپ ماشاء اللہ مسلمان ہے اور کئی بار قرآن شریف پڑھا ہو گا اور اس میں مندرجہ ذیل آیات بھی پڑھی ہوں گی
سورت 8 الانفال آیت 60 ۔ تم ان کے مقابلے کے لئے اپنی طاقت بھر قوت کی تیاری کرو اور گھوڑوں کے تیار رکھنے کی کہ اس سے تم اللہ کے دشمنوں کو خوف زدہ رکھ سکو )۔
سورت 13 الرعد آیت 11 ۔ ۔ اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے
سورت 53 النّجم آیت 39 ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی
اسلام ُ علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
حُضور، سچ کے بارے میں”ہمیشہ” کو “اکثر” سے تبدیل کرلیا۔تصحیح کے لیئے شُکریہ۔
پہلی آیت اُس دور کی ہے جبکہ مُسلمان ایمان اور ریاست دونوں میں مستحکم ہوچکے تھے، ہم پر بھی اُسی وقت یہ لاگو ہونگی جب ہم ایمان اور ریاست دونوں میں مستحکم ہونگے۔ ورنہ معاشی خودکشی کے مترادف ہے۔ ایسی نمائشی بمبوں اور میزائیلوں کو تیاری – کیونکہ انہیں کبھی چلناتو ہے نہیں ، انکل سام نے جو چلالیئے سُو چلالیئے، اسکے بعد اور کسی میں نہ ہمت ہے انہیں چلانے کی اور نہ ہی کوئی انہیں چلانے دے گا۔ویسے بھی جب یہ ہم اپنے دشمن ملک پر پھینکے گے۔وہ اس کے بدلے میں ہم پر پھول نہیں برسائیں گے، بلکہ وہ بھی تو ہم پر بم ہی برسائیں گے۔نتیجہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے بموں کی وجہ سے بہت سی معصوم جانیں ختم ہوجائیں گی، جوکہ اسلام کے منافی ہے، اور ساتھ ساتھ ملک بھی برباد ہوجائے گا (جاپان کی مثال-وہ جاپان تھا جو پھر سے ترقی کرگیا، ہم میں اتنا دم نہیں ہے-یہ مایوسی نہیں بلکہ حقیقت پسندی ہے-اور حقیقت پسند ہونا ترقی و کامیابی کی لیئے نہایت ضروری ہے۔)
دوسری آیت تو میرےنظریہ کے حق میں ہے، تعبیر اپنی اپنی ہے
تیسری آیت انفرادی معاملہ کی ہے، جبکہ ہم تو اجتماعی مسئلہ پر گفتگو کررہے ہیں۔
عبدالرؤف صاحب
میں مزید بحث نہیں کرنا چاہتا کیونکہ آپ کے استدلال کے مطابق تو ہمیں قرآن شریف کے احکامات لاگو کرنے کیلئے اُس وقت تک انتظار کرنا پڑے گا جب تک مُسلمان ایمان اور ریاست دونوں میں مستحکم نہ ہو جائیں
As you wish sir.
بس آخری بات کہ جیسے ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے، ویسے ہی قرآن کی مختلف آیات کے اطلاق کا بھی اپنا موقع و محل ہے،اکثر مفسرین نے آیت کی شانِ نُزول میں یہ بات واضح کی ہوئی ہوتی ہے، اور اِس اہم نکتہ کو نظرانداز کرنے کے سبب ہی تو اُمتِ مُسلمہ میں خوارج، تکفیری اور معتزلہ فرقوں کا وجود عمل میں آیا تھا، روافض اور قادیانی بھی اکثر و بیشتر یہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں، یعنی کہیں کی مٹی کہیں کا روڑا، بھان متی نے کُنبہ جوڑا۔(نوٹ: میں کوئی صاحبِ علم نہیں ہوں، ناہی میرا ایسا کوئی دعویٰ ہے، بس یہ میری ذاتی رائے ہے، اتفاق یا اخِتلاف کا سب کو مکمل اختیار ہے۔)
وسلام۔
اس اہم معلومات کے لئے شکریہ… اللہ ہماری سرزمین کی حفاظت کرنے والوں کو سربلندی دے آمین!! …. اوپر کی گفتگو پڑه کر میرے ذہن میں ایک سوال آیا کہ اگر قرآن کی آیات ایک مخصوص زمانے کے لئے ہی ہیں تو پهر اللہ نے تدبر کرنے کی بار بار تلقین کیوں کی؟ قصہ کہانی سمجه کر پڑهنے کو کہتا.
سیما آفتاب صاحبہ
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے انسان کو سوچ یا ندازِ فکر کی آزادی عطا کی ہے ۔ یہی اندازِ فکر یا سوچ انسان کا لائحہءِ عمل بناتی ہے اور جنت یا جہنم کی طرف لیجاتی ہے
جی بالکل بے شک ۔۔۔ اللہ ہماری سوچ کوجنت میں لے جانے کا ذریعہ بنائے آمین!!