امریکی خفیہ دستاویزات پر مشتمل کتاب ”پاکستان میں امریکہ کا کردار“ (The American Roll in Pakistan) کے صفحہ 61 اور 62 کے مطابق امریکہ میں پہلے پاکستانی سفیر کی حیثیت سے اسناد تقرری پیش کرنے کے بعد اپنی درخواست میں اصفہانی صاحب نے لکھا ’’ہنگامی حالت میں پاکستان ایسے اڈے کے طور پر کام آسکتا ہے جہاں سے فوجی و ہوائی کارروائی کی جاسکتی ہے‘‘۔ ظاہر ہے یہ کارروائی اس سوویت یونین کےخلاف ہوتی جو ایٹمی دھماکے کے بعد عالمی سامراج کی آنکھ میں زیادہ کھٹکنے لگا تھا۔ 1949ء میں امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی رپورٹ میں ہے’’پاکستان کے لاہور اور کراچی کے علاقے، وسطی روس کےخلاف کارروائی کیلئے کام آسکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ کے تیل کے دفاع یا حملے میں بھی کام آسکتے ہیں‘‘۔ یہ یاد رہے کہ روس کے ایٹمی دھماکے اور چین میں کمیونزم آجانے سے امریکہ پاکستان کی جانب متوجہ ہوا چنانچہ امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری مَیگھی (Meghee) دسمبر 1949ء میں پاکستان آئے اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو امریکی صدر ٹرومین کا خط اور امریکی دورے کی دعوت دی لیکن دلچسپ امر یہ ہے کہ اس موقع پر انہوں نے اہم ملاقات وزیر خزانہ غلام محمد سے کی جنہوں نے میگھی کو تجویز دی ’’ایسا انتظام ہونا چاہیئے کہ امریکی انٹیلی جنس کا پاکستانی انٹیلی جنس سے رابطہ ہو اور ساتھ ہی ساتھ ان (غلام محمد) کے ساتھ براہ راست رابطہ ہو‘‘ (صفحہ 106)۔
دسمبر 1949ء میں پاک فوج کے قابل افسران جنرل افتخار اور جنرل شیر خان ہوائی حادثے کا شکار ہوگئے ۔ باقی کسر پنڈی سازش کیس نے پوری کر دی۔ ایوب خان ابتداء ہی سے امریکہ کا نظرِ انتخاب تھے۔ وہ قیام پاکستان کے وقت لیفٹیننٹ کرنل تھے اور صرف 3 سال بعد میجر جنرل بن گئے۔ وہ کمانڈر انچیف سرڈیگلس گریسی (General Douglas David Gracey) کے ساتھ نائب کمانڈر انچیف تھے
زمامِ اقتدار اس وقت کُلی طور پر امریکی تنخواہ داروں کے ہاتھ آئی جب 16اکتوبر 1951ء کو لیاقت علی خان قتل کردیئے گئے۔ خواجہ ناظم الدین گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزیراعظم، ان کی جگہ وزیر خزانہ غلام محمد گورنر جنرل، اسکندر مرزا ڈیفنس سیکرٹری اور ایوب خان کمانڈر انچیف اور یوں امریکی کورم پورا ہوگیا۔
دوسری طرف امریکہ نے خطے میں روسی خطرے سے نمٹنے کے لئے دیگر اہم ممالک پر بھی توجہ مرکوز کر رکھی تھی، یہاں تک کہ جب اگست 1953ء میں ایران میں ڈاکٹر مصدق نے برطانیہ کے ساتھ تیل کے مسئلے پر تعلقات خراب کرلئے تو امریکہ نے ایران سے بھاگے ہوئے رضا شاہ پہلوی کو روم سے لاکر تخت پر بٹھادیا اور پھر روس کے خلاف ترکی، ایران اور پاکستان کو ایک معاہدے میں نتھی کردیا، جسے بغداد پیکٹ کہا گیا۔ ہمارا دوست امریکہ کتنا ہی دغاباز کیوں نہ ہو لیکن ہم سے معاملات طے کرتے وقت اس نے منافقت کا کبھی سہارا نہیں لیا وہ صاف کہتا ہے ’’امریکہ کو چاہئے کہ امریکی دوستی کے عوض پاکستان کی موجودہ حکومت کی مدد کرے اور یہ کوشش بھی کرے کہ اس حکومت کے بعد ایسی حکومت برسراقتدار نہ آجائے جس پر کمیونسٹوں کا قبضہ ہو۔ ہمارا ہدف امریکی دوست نواز حکومت ہونا چاہیئے‘‘۔ (فروری 1954ء میں نیشنل کونسل کا فیصلہ، بحوالہ پاکستان میں امریکہ کا کردار صفحہ 326)
امریکہ دغاباز نہیں بلکہ مطلب پرست ہے، اور مطلب پرست لوگ اپنی مطلب براری کے لیئے ذلیل سے ذلیل درجہ تک بھی اترجاتے ہیں۔منافقت تو نہایت معمولی شئے ہے۔
خیر، میں تو چونکہ پاکستانی ہوں، اورشومئی قسمت کہ مذہب پرست بھی ہوں، اس لیئے میرا تو یہی نعرہ ہے کہ:
جو امریکہ کا یار ہے — غدار ہے غدار
اور یہ بات میں امریکہ میں بیٹھ کر بھی کہوں گا،چاہے، اگر کبھی امریکہ کی اتنی کرم فرمائی ہوئی کہ وہ مجھے اپنی شہریت بمعہ ایک گوری میم کے دے دے۔(جملہ معترضہ )
ویسے امریکہ کچھ کہے یا نہ کہے، ہمیں صاف نظر آتا ہےکہ “امریکہ کا ہدف ہمیشہ سے یہی ہے کہ پاکستان میں امریکی دوست نواز حکومت ہونا چاہیئے، بس!”،یہ اور بات ہے کہ پہلے کا وِلن سُرخ ریچھ تھا اور ابھی کا سبزہلالی جھنڈا
Pingback: آج کے دِن ؟ ؟ ؟ | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I