وقت اور سمجھ ایک ساتھ خوش نصیب لوگوں کو میسّر ہوتے ہیں
اکثر وقت پر آدمی کو سمجھ نہیں ہوتی
اور
جب سمجھ آتی ہے تو وقت گذر چکا ہوتا ہے
Monthly Archives: March 2015
جذبہءِ انسانی خدمت
رُدھ کیتھرِینا مارتھا پفاؤ (Ruth Katharina Martha Pfau) 9 ستمبر 1929ء کو جرمنی (Deusheland) کے شہر لائپزِگ (Leipzig) میں پیدا ہوئی 10 سے 18 سال کی عمر میں دوسری جنگِ عظیم کی ہولناکیاں دیکھتی رہی ۔ جرمنی پر اتحادی فوجیوں (برطانیہ ۔ امریکہ ۔ روس وغیرہ) نے اتنے بم برسائے تھے کہ سارا ملک جرمنی ملبے کا ڈھیر بن گیا تھا اور لاکھوں شہری ہلاک ہو گئے تھے ۔ ایسے میں لائپزگ میں بھی ملبہ کے سوا کچھ نہ رہا تھا ۔ جنگ ختم ہونے کے بعد بندر بانٹ ہوئی اور جرمنی کو مشرقی اور مغربی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا ۔ 1948ء میں رُدھ کیتھرِینا چھُپ کر مشرقی سے مغربی جرمنی پہنچ گئی جہاں مائنس (Mainz) اور ماربُرگ (Marburg) کی یونیورسٹیوں میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی ۔ اس کے بعد اُس نے کیتھولک ادارہ دُخترانِ قلبِ مریم (Daughters of the Heart of Mary) میں شمیولیت اختیار کی جس نے رُدھ کیتھرِینا کو بھارت میں ایک تبلیغی مرکز بھیجا لیکن ویزہ سے متعلق کسی مسئلہ کی بناء پر 8 مارچ 1960ء کو اُسے کراچی میں رُکنا پڑ گیا جہاں اُسے جزام ( کوڑھ ۔ leprosy) کے بارے میں ہونے والا کام دکھایا گیا ۔ کراچی میں میکلیوڈ (اب آئی آئی چندریگر ) روڈ پر قائم جزام کے مریضوں کی کالونی (عُرفِ عام میں کوڑھی احاطہ) کے دورہ نے رُدھ کیتھرِینا کو بہت افسردہ کیا اور اس نے وہاں کام کرنے والے رضاکاروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ارادہ کر لیا اور پاکستان کی ہی ہو کر رہ گئیں
1961ء میں رُدھ کیتھرِینا جزام کے علاج کے سلسلے میں بھارت کے جنوبی شہر ویلور سے تربیت حاصل کر کے آئی ۔ ڈاکٹر رُدھ کیتھرِینا مارتھا پفاؤ کے تعاون میں ایک پاکستانی ماہر امراضِ جلد ڈاکٹر زرینہ فضل بھائی نے 1965ء میں جزام کے علاج کیلئے ضمنی (paramedical) کارکنوں کی تربیت شروع کی ۔ 1971ء میں ڈاکٹر رُدھ کیتھرِینا نے صوبائی حکومتوں کے تعاون سے جزام کے علاج کا دائرہءِ کار بلوچستان ۔ سندھ ۔ خیبر پختونخوا ۔ آزاد جموں کشمیر اور شمالی علاقہ جات تک بڑھا دیا ۔ 1979ء میں وفاقی حکومت نے اُسے جزام کے سلسلہ میں وزارتِ صحت و سماجی بہبود کا مشیر مقرر کر دیا ۔ 1996ء تک اللہ کے فضل سے پاکستان میں جزام کے مرض پر مکمل قابو پا لیا گیا ۔ 2006ء میں ڈاکٹر رُدھ کیتھرِینا مارتھا پفاؤ سب کام ماری ایڈلیڈ لیپروسی سینٹر (Marie Adelaide Leprocy Center) کے چیف ایگزکٹِو کے حوالے کر کے اس کام سے علیحدہ ہو گئیں
ڈاکٹر رُدھ کیتھرِینا مارتھا پفاؤ نے پاکستان اور افغانستان میں اپنے کام کے متعلق جرمن زبان مین 4 کتابیں لکھیں جن میں سے ایک شمع روشن کرو (To Light a Candle) کا 1987ء میں انگریزی ترجمہ ہوا ۔ ڈاکٹر رُدھ کیتھرِینا مارتھا پفاؤ پہلی بار 1984ء میں افغانستان گئیں تھیں ۔ 8 مارچ 2010 کو ان کے پاکستان میں 50 سال مکمل ہوئے ۔ انہیں مندرجہ ذیل انعامات سے نوازا جا چکا ہے
1968: The Order of the Cross from Germany.
1969: Sitara-e-Quaid-e-Azam from Government of Pakistan
1979: Hilal-e-Imtiaz from Government of Pakistan
1985: The Commanders Cross of the Order of Merit with Star from Germany
1989: Hilal-e-Pakistan from Government of Pakistan
1991: Damien-Dutton Award from USA
1991: Osterreischische Albert Schweitzer Gasellschaft from Austria
2002: Ramon Magsaysay Award from Government of Philippines
2003: The Jinnah Award from the Jinnah Society Pakistan
2003: In The Name of Allah Award by Idara Wiqar-e-Adab Pakistan
2004: Honorary Degree of Doctor of Science (D.Sc.) from Aga Khan University
2004: Life-time Achievement Award from the Rotary Club of Karachi
2005: Marion Doenhoff-Prize, Germany
2006: Life-time Achievement Award from the President of Pakistan
2006: Woman of the Year 2006 Award by CityFM89
2006: Certificate of Appreciation from the Ministry of Health
2009: Nesvita Women of Strength Awards by TVONE
2009: Life-time Achievement Khidmat Award by Al-Fikar International.
11th March, 2010 – Shield presented by Dr. Saghir Ahmed, Minister Health, Government of Sindh for completion of 50 years of Selfless and Meritorius Service for the Patients of Leprosy.
12th March, 2010 – Shield presented by Staff & Students of Happy Home School in appreciation of 50 years of meritorius services for the Eradication of Leprosy in Pakistan.
12th March, 2010 – Shield presented by Dawood Capital Management Limited on winning the LADIESFUND Woman of the Year Award.
2nd February, 2011 – Lifetime Achievement Award 2011 presented by the International Schools Educational Olympiad, orgaised by Karachi High School.
12th February, 2011 – LADIESFUND woman of the Year Award.
23rd March, 2011 – “Nishan-i-Quaid-i-Azam” Award presented by the President of Pakistan.
بلاگران و بلاگرات (Ladies and gentlemen bloggers) متوجہ ہوں
السلام علیکم
کہاں یہ مرتبہ میرا کہ دعوتِ شراکت دوں
مگر مہماں فقیروں کے ہوئے ہیں بادشاہ اکثر
میں عرصہ ایک سال سے یہ خواہش دل میں لئے بیٹھا تھا کہ بلاگرات و بلاگران کی ایک مجلس کے انعقاد کا اعزاز حاصل کروں مگر مختلف وجوہات کے باعث ناکام رہا ۔ بفضلِ تعالٰی اب اِسے پورا کرنے کا سوچا ہے
اُمید ہے کہ جو محترمات و محترمان اسلام آباد یا راولپنڈی یا اِن شہروں کے قُرب و جوار میں رہتے ہیں یا اُس دن اسلام آباد یا راولپنڈی میں موجود ہوں یا دوسرے شہروں سے آنا چاہیں میری رہائش گاہ پر رونق افروز ہو کر میری حوصلہ افزائی فرمائیں گے
اِن شاء اللہ
بروز اتوار بتاریخ 19 اپریل 2015ء
بوقت 5 بجے سہ پہر
مکان نمبر 14 بی ۔ سٹریٹ نمبر 31 ۔ ایف 1/8 ۔ اسلام آباد
از راہ کرم آمد کی اطلاع جمعرات 16 اپریل تک بذریعہ تبصرہ یا ای میل یا ٹیلیفون دینے کی کوشش کیجئے گا
iftikharajmal@gmail.com
0321-5102236
رہنما
ہمارا گھر سٹریٹ نمبر 31 کے آخر میں بائیں جانب ہے ۔ آخری سے پہلے والے گیٹ کے بائیں ستون پر لگی قندیل پر B۔14 لکھا ہے اور ستون پر میرا اور میرے دونوں بیٹوں کے نام لکھے ہوئے ہیں ۔ اس کے نیچے گھنٹی کا بٹن ہے
سٹریٹ نمبر 31 اسلام آباد سروس روڈ ویسٹ ایف 8 پر واقع ٹریفک پولیس کے دفتر کے سامنے ہے ۔ ایف 8 کے ساتھ نائنتھ اوینیو (9th Avenue) کے ایک طرف فاطمہ جناح پارک (ایف 9 پارک) ہے اور دوسری طرف سروس روڈ ویسٹ ایف 8 متوازی چلتی ہے
نائنتھ اوینیو (9th Avenue) پر آتے ہوئے جناح اوینیو عبور کرتے ہی داہنی طرف ناظم الدین روڈ پر مُڑ کر فوراً بائیں جانب سروس روڈ ویسٹ ایف 8 پر مُڑ جایئے
اسلام آباد کے باسیوں کیلئے مندرجہ بالا اشارے کافی ہیں
موٹر وے سے اسلام آباد آتے ہوئے آپ سیدھے شاہراہ کشمیر (Kashmir Highway) پر پہنچیں گے
راولپنڈی صدر یا ٹیکسلا کی جانب سے آنے کیلئے جی ٹی روڈ سے شاہراہ کشمیر (Kashmir Highway) پر مُڑ جایئے پھرجی 4/9 اور جی 1/8 کے درمیان شاہراہ کشمیر سے بائیں جانب نائنتھ اوینو (9th Avenue) پر مُڑ جایئے
راولپنڈی شہر سے آنے کیلئے مری روڈ سے بائیں جانب سٹیڈیم روڈ پر مُڑ کر سیدھے نائنتھ اوینیو (9th Avenue) پر چلے جایئے
جہلم کی طرف سے آنے کیلئے اسلام آباد ایکسپریس وے پر چڑھ جایئے ۔ زیرو پوائنٹ انٹر سیکشن سے بائیں جانب شاہراہ کشمیر (Kashmir Highway) پر چلے جایئے پھر جی 1/8 اور جی 4/9 کے درمیان داہنی طرف نائنتھ اوینیو پر مُڑ جایئے
کوہ مری کی طرف سے آنے کیلئے شاہراہ کشمیر (Kashmir Highway) پر چلتے ہوئے جی 1/8 اور جی 4/9 کے درمیان داہنی طرف نائنتھ اوینیو (9th Avenue) پر مُڑ جایئے
یومِ پاکستان ۔ حقائق
بروز ہفتہ 12 صفر 1359ھ اور گریگورین جنتری کے مطابق 23 مارچ 1940ء لاہور میں بادشاہی مسجد اور شاہی قلعہ کی شمال کی طرف اُس وقت کے منٹو پارک میں جو پاکستان بننے کے بعد علامہ اقبال پارک کہلایا مسلمانانِ ہِند کے نمائندوں نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی جس کا عنوان “قراردادِ مقاصد” تھا لیکن وہ قرارداد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے قراردادِ پاکستان ثابت ہوئی ۔ مینارِ پاکستان علامہ اقبال پارک میں ہی کھڑا ہے ۔ مینار پاکستان بطور یادگار قراردادِ پاکستان تعمیر کیا گیا تھا ۔ عوام نے اسے یادگارِ پاکستان کہنا شروع کر دیا جو کہ مناسب نہ تھا ۔ چنانچہ اسے مینارِ پاکستان کا نام دے دیا گیا
مندرجہ بالا واقعہ ثابت کرتا ہے کہ اتحاد و یکجہتی کامیابی کا پیش خیمہ ہوتی ہے جو 50 سال سے زائد ہمارے ملک سے غائب رہنے کے بعد اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانی سے مارچ 2015ء میں کافی حد تک بحال ہوئی ہے ۔ اللہ قادر و کریم کے حضور میں دعا ہے کہ یہ ملی یکجہتی نہ صرف قائم رہے بلکہ مزید بڑھے اور قوم کا ہر فرد اپنے ذاتی مفاد کو بھُول کر باہمی اور قومی مفاد کیلئے جد و جہد کرے اور مستقبل کی دنیا ہماری قوم کی مثال بطور بہترین قوم کے دے ۔ آمین ۔
میرے مشاہدے کے مطابق بہت سے ہموطن نہیں جانتے کہ 23 مارچ 1940ء کو کیا ہوا تھا ۔ متعلقہ حقائق کا مختصر ذکر یہاں ضروری سمجھتا ہوں
آل اِنڈیا مسلم لیگ نے اپنا سالانہ اجتماع منٹو پارک لاہور میں 22 تا 24 مارچ 1940ء کو منعقد کیا ۔ پہلے دن قائد اعظم محمد علی جناح نے خطاب کرتے ہوئے کہا “ہندوستان کا مسئلہ راہ و رسم کا مقامی معاملہ نہیں بلکہ صاف صاف ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے اور اس کے ساتھ اسی طرز سے سلوک کرنا لازم ہے ۔ مسلمانوں اور ہندوؤں میں اختلافات اتنے بشدید اور تلخ ہیں کہ ان دونوں کو ایک مرکزی حکومت کے تحت اکٹھے کرنا بہت بڑے خطرے کا حامل ہے ۔ ہندو اور مسلمان واضح طور پر علیحدہ قومیں ہیں اسلئے ایک ہی راستہ ہے کہ انہوں اپنی علیحدہ علیحدہ ریاستیں بنانے دی جائیں ۔ کسی بھی تصریح کے مطابق مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے لوگ اپنے عقیدہ اور فہم کے مطابق جس طریقے سے ہم بہترین سمجھیں بھرپور طریقے سے روحانی ۔ ثقافتی ۔ معاشی ۔ معاشرتی اور سیاسی لحاظ سے ترقی کریں
قائد اعظم کے تصورات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اے کے فضل الحق جو اُن دنوں بنگال کے وزیرِ اعلٰی تھے نے تاریخی قرارداد مقاصد پیش کی جس کا خلاصہ یہ ہے
کوئی دستوری منصوبہ قابل عمل یا مسلمانوں کو منظور نہیں ہو گا جب تک جغرافیائی طور پر منسلک مسلم اکثریتی علاقے قائم نہیں کئے جاتے ۔ جو مسلم اکثریتی علاقے شمال مغربی اور مشرقی ہندوستان میں ہیں کو مسلم ریاستیں بنایا جائے جو ہر لحاظ سے خود مختار ہوں ۔ ان ریاستوں میں غیرمسلم اقلیت کو مناسب مؤثر تحفظات خاص طور پر مہیا کئے جائیں گے اور اسی طرح جن دوسرے علاقوں میں مسلمان اقلیت میں ہیں اُن کو تحفظات مہیا کئے جائیں
اس قراداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خان ۔ سرحد سے سردار اورنگزیب ۔ سندھ سے سر عبداللہ ہارون اور بلوچستان سے قاضی عیسٰی ۔ یونائیٹڈ پراونس [اب اُتر پردیش] سے چوہدری خلیق الزمان کے علاوہ اور بہت سے رہنماؤں نے کی ۔ اس قراداد کے مطابق مغرب میں پنجاب ۔ سندھ ۔ سرحد اور بلوچستان اور مشرق میں بنگال
اور آسام پاکستان کا حصہ بنتے ۔ یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی گئی اور اس کی تفصیلات طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی ۔ یہ قراداد 1941ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے دستور کا حصہ بنا دی گئی
مندرجہ بالا اصول کو برطانوی حکومت نے مان لیا مگر بعد میں کانگرس اور لارڈ مؤنٹ بیٹن کی ملی بھگت سے پنجاب اور بنگال کے صوبوں کو تقسیم کر دیا گیا اور آسام کی صورتِ حال بھی بدل دی گئی ۔ بگال اور پنجاب کے صوبوں کو نہ صرف ضلعی بنیاد پر تقسیم کیا گیا بلکہ پنجاب کے ایک ضلع گورداسپور کو تقسیم کر کے بھارت کو جموں کشمیر میں داخل ہونے کیلئے راستہ مہیا کیا گیا
مسلم اکثریتی علاقے ۔ اس نقشے میں جو نام لکھے ہیں یہ چوہدری رحمت علی کی تجویز تھی ۔ وہ لندن [برطانیہ] میں مقیم تھے اور مسلم لیگ کی کسی مجلس میں شریک نہیں ہوئے
مسلم لیگ کی ورکنگ کمیٹی
۔
۔
۔
شاہنواز ممدوٹ سپاسنامہ پیش کر رہے ہیں
۔
۔
چوہدری خلیق الزمان قرارداد کی تائید کر رہے ہیں
۔
۔
۔
قائدِ ملت لیاقت علی خان اور افتخار حسین خان ممدوٹ وغیرہ قائد اعظم کے ساتھ
چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پھول اور کانٹے
پھول تو ہر کوئی پسند کرتا ہے
لیکن
پھولوں کے ساتھ کانٹے بھی سمیٹنا بڑے دل والوں کا کام ہے
مسلمانوں کی تاریخ بڑی کمزور ہے
میں نے اصغر مال اور ہیلی واٹر ورکس ۔ راولپنڈی کے درمیان واقع مُسلم ہائی سکول سے 1953ء میں میٹرک پاس کیا تھا ۔ نویں دسویں میں ہمارے تاریخ جغرافیہ کے اُستاذ سبغت اللہ قریشی صاحب (جو ایم اے ہسٹری اور ایم اے پولیٹیکل سائنس تھے) کبھی کبھی کہتے ”مسلمانوں کی تاریخ بڑی کمزور ہے“۔ ایک دن ایک لڑکے نے کہا ”ماسٹر صاحب ۔ مسلمانوں کی تاریخ تو بہت اچھی ہے“۔ اُستاذ صاحب ہنس کر بولے ”نہیں ۔ میں مسلمانوں کے ماضی کی بات نہیں کر رہا ۔ جو میں کہہ رہا ہوں یہ آج تمہیں سمجھ نہیں آئے گا“۔ اپنی عملی زندگی میں مجھے بار بار احساس ہوا کہ ہمارے استاذ صاحب بالکل درست کہتے تھے
پچھلے سوا سال سے مُلک میں جلوس نکالے جا رہے ہیں ۔ دھرنے دیئے جا رہے ہیں ۔ توڑ پھوڑ کی جاتی ہے ۔ آگ لگائی جاتی ہے کہ موجودہ حکومت نے بجلی گُم کردی ہے ۔ گیس غائب کر دی ہے
اپنے بلاگ میں چند پرانی تحاریر تلاش کر رہا تھا کہ 18 جنوری 2008ء کو شائع کردہ اپنی تحریر ”مصیبتیں تنہاء نہیں آتیں“ پر میری نظر پڑی تو مجھے پھر یاد آیا کہ ہمارے استاذ صاحب بالکل درست کہتے تھے ۔ آپ بھی ملاحظہ کیجئے کہ میرے استاذ صاحب کا کیا مطلب تھا
میری 18 جنوری 2008ء کی تحریر
شائد آٹھویں جماعت میں محاورہ پڑھا تھا ۔ مصیبتیں تنہا نہیں آتیں ۔ جب سے پرویز مشرف کی اصلی جمہوریت آئی ہے اور بالخصوص پچھلے ایک سال میں اس محاورے کا مطلب سمجھ میں آ گیا ہے ۔ شائد کوئی سمجھے کہ میں بم دھماکوں یا دہشتگردوں کی بات کرنے لگا ہوں تو غلط ہے کیونکہ ہر بم دھماکے کے بعد پرویز مشرف اور اس کے اہلکار دہشتگردوں کو بے نقاب کرنے ۔ ان کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نبٹنے اور انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانے کا دعوٰی کرتے ہیں ۔ اسلئے مجھے کوئی فکر نہیں کہ شائد کبھی وہ دن آ جائے جب پرویز مشرف اور اس کے اہلکاروں کے ہاتھ عوام کی گردنیں دبا دبا کر آہنی بن جائیں اور دہشتگردوں کو بے نقاب کرنے کے قابل ہو جائیں ۔ مجھے آٹے اور گھی کی بھی فکر نہیں کیونکہ جب ٹماٹر مہنگے ہوئے تھے تو ہمارے شہنشاہ نے فرمایا تھا کہ مہنگے ہیں تو نہ کھائیں ۔
مُلا کی دوڑ تو پھر بھی مسجد تک ہوتی ہے ۔ میری دوڑ ایک ماہ سے بیڈ روم ۔ باتھ روم اور ڈائیننگ روم تک ہی رہتی ہے یا پھر بازار میں موم بتیاں ڈھونڈتا پھر رہا ہوتا ہوں اور ساتھ ساتھ گاتا جاتا ہوں
میں پورے اسلام آباد میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تُجھے
موم بتی تو کہاں ہے مجھ کو آواز دے مجھ کو آواز دے
ایک ہفتہ سے میری دوڑ عام طور پر بستر یا کرسی تک ہی رہتی ہے ۔ مجھے اپاہج نہ سمجھ لیں ۔ اللہ کے فضل سے میرے نین پرین سب فرسٹ کلاس ہیں ۔ صرف قدرتی گیس کا پریشر کم ہونے کی وجہ سے گیس ہیٹر سے جُڑ کے کرسی پر بیٹھنا پڑتا ہے ۔ چپاتی توے پر پکنے کی بجائے سوکھ جاتی ہے اسلئے دو چپاتیاں چبانے کیلئے ڈائیننگ روم کی کرسی پر دو گھنٹے بیٹھنا پڑتا ہے ۔ غروبِ آفتاب سے طلوع تک کئی بار بجلی غائب ہو جاتی ہے اسلئے بیڈ روم میں بستر پر ہی دراز رہنا پڑتا ہے ۔ پانچ چھ روز قبل ایمرجنسی لائٹ خریدنے گیا ۔ ایمرجنسی لائٹ جو تین ماہ قبل 500 روپے کی تھی وہ 1200 روپے کی ہو گئی ہے لیکن اسلام آباد میں نہیں مل رہی ۔
بجلی آتی کم اور جاتی زیادہ ہے اور ایک ہفتہ سے ایک ماڈرن سٹائل اپنایا ہے کہ ہر 15 سے 25 منٹ بعد بجلی 2 سے 10 منٹ کیلئے غائب ہو جاتی ہے ۔ یہ روزانہ کے ان 30 منٹ سے کئی گھنٹوں کے متعدد بلیک آؤٹس کے علاوہ ہے جو ایک ماہ سے جاری ہیں ۔ اس پرویزی ماڈرنائیزیشن کی بدولت پانی بھی بہت کم مل رہا ہے چنانچہ اپنے مکان کے پانی کا تین ماہ کیلئے 800 روپیہ ادا کرنے کے باوجود پچھلے دو ہفتے سے روزانہ پانی کا ٹینکر خریدنا پڑ رہا ہے ۔ اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کا مخفف ہے اِیسکو ۔ اسلام آباد کے لوگ کہتے ہیں اِیسکو یعنی کھِسکو ۔
اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کی بجلی کی چکا چوند کی مہربانی سے ہمارا ریفریجریٹر تین دن قبل خراب ہو گیا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اچھا مکینک مل گیا اور کل ٹھیک کر گیا کیونکہ اس کی بکنگ زیادہ تھی ۔ بجلی کی چکا چوند نے میرے کمپیوٹر کو بھی نہ بخشا اور ڈیفنڈر اور اینٹی وائرس سمیت کئی فائلیں اُڑ گئیں ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ مُہلک قسم کی ٹروجن ہارس کوئی چار درجن فائلوں میں گھُس گئی اور میرے لئے نہ صرف کام کرنا مشکل ہو گیا بلکہ نئی اینٹی وائرس انسٹال کرنا ہی مشکل ہو گیا ۔ اللہ کا کرم ہوا کہ ایکسٹرنل ہارد ڈسک سے اینٹی وائرس انسٹال کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔
کوئی تحریر لکھ کر شائع کرنا ہو یا تبصرہ کرنا ہو یا تبصرے کا جواب لکھنا ہو تو درمیان میں بجلی غائب ہو جاتی ہے ۔ اُس وقت جو میرا حال ہوتا ہے وہ خودکُش بم حملہ میں مرنے والے سے بھی زیادہ ہوتا ہے کیونکہ وہ تو یکدم مر کر ہر تکلیف سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور میں ہر دن کئی بار مر کے جیتا ہوں ۔ بعض اوقات جب بجلی آتی ہے تو مجھے بھول ہی جاتا ہے کہ میں کیا لکھنا چاہ رہا تھا ۔ قارئین الگ میری ریپُوٹیشن خراب کر رہے ہونگے کہ نہ ہماری دلچسپ تحاریر پر تبصرہ کرتا ہے اور نہ اپنے بلاگ پر ہمارے پُرمغز تبصروں کے جواب دیتا ہے
مطالعہءِ خود (Reading Yourself)
اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگ آپ کے متعلق کیا خیال رکھتے ہیں
تو
جب آپ لوگوں سے ملتے ہیں ۔ اُن کے چہروں کے انعکاس دیکھیئے
اور اپنا عکس اُن کی آنکھوں میں دیکھیئے
دنیا میں تمام چہرے آئینے کی طرح ہیں
صرف یہ سیکھنے کی ضرورت ہے کہ انہیں پڑھا کیسے جائے