چند برس قبل میں شام کو جس طرف سیر کے لئے جاتا تھا وہاں نئی آبادی زیر تعمیر تھی۔ اکثر پلاٹ خالی پڑے تھے اور چند گھر تعمیر کے عمل سے گزر رہے تھے۔ وہاں نہ ٹریفک تھی، نہ گرد و غبار اور نہ شور، چنانچہ میں سیر کے لئے اسے بہترین علاقہ سمجھتا تھا۔ چند گھر جو زیر تعمیر تھے ان سب کے اپنے اپنے چوکیدار تھے جو شام کو گھروں کے سامنے اینٹوں کا چولہا بنا کر سالن پکانے میں مصروف ہوتے اور ساتھ ہی ساتھ ٹرانسسٹر کے گانوں سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔ ایک زیر تعمیر گھر کے سامنے مجھے ایک بوڑھا اور سنجیدہ سا چوکیدار نظر آتا جو کبھی چارپائی پر لیٹا آسمان سے باتیں کررہا ہوتا، کبھی نماز پڑھ رہا ہوتا اور کبھی اینٹوں کے چولہے پر سالن یا چائے بنانے میں مصروف ہوتا۔کچھ عرصے تک مسلسل سیر کرنے کی وجہ سے میں ان تمام چوکیداروں اور زیر تعمیر گھروں میں رہائش پذیر مزدوروں کے چہروں اور شام کی مصروفیات سے واقف ہوگیا
مجھے اس علاقے میں سیر کرتے ہوئے ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ایک روز اس بوڑھے چوکیدار کی خالی چارپائی دیکھ کر مجھے تھوڑی سی تشویش ہوئی۔میں کوئی دو فرلانگ آگے گیا ہوں گا کہ وہ مجھے آتا دکھائی دیا۔ اس کے ساتھ ایک نوجوان تھا جس کے ہاتھ میں شاپر تھا۔ جب وہ قریب آئے تو میرے لئے اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ وہ نوجوان بوڑھے چوکیدار کا بیٹا ہے اور شاپر میں کھانے کا سامان ہے۔ اس روز شاید بیٹے کی خاطر مدارات کے لئے چوکیدار کھانا بازار سے خرید لایا تھا اور اس نے اپنا چولہا گرم نہیں کیا تھا۔ بیٹا باپ کے ساتھ نہایت مؤدب انداز سے چل رہا تھا اور مارے ادب کے باپ سے ایک دو قدم پیچھے رہتا تھا۔ عام لوگوں کے برعکس دونوں باپ بیٹا خاموشی سے چلتے آرہے تھے۔ میں جب سیر کا کوٹہ مکمل کرکے لوٹا تو دیکھا کہ وہ بوڑھا چوکیدار ننگی چارپائی پر لیٹا ہوا ہے اور اس کا بیٹا اس کی ٹانگیں دبا رہا ہے
کچھ عرصہ سیر کے دوران مشاہدے کے عمل سے گزرتے ہوئے مجھے اندازہ ہوگیا کہ بوڑھے چوکیدار کا بیٹا کہیں مزدوری کرتا ہے، وہ ہفتے میں ایک دو بار چکر لگاجاتا ہے لیکن ہر اتوار وہ اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ آتا ہے اور باپ کے ساتھ چند گھنٹے گزارتا ہے۔ میں ہر اتوار دیکھتا کہ بوڑھا چوکیدار چارپائی پر لیٹا ہوا ہے اس کا بیٹا ساتھ بیٹھاہوا ہے یا باپ کو دبا رہا ہے۔ پوتا کھیل رہا ہے یا دادا جان سے باتیں کررہا ہے اور بہو اینٹوں کے چولہے پر رکھی ہانڈی میں کچھ پکا رہی ہے یا پھر توے پر روٹیاں پکانے میں مصروف ہے۔ یہ ان کا مستقل معمول تھا۔ میں نے کئی بار بوڑھے چوکیدار کو مارکیٹ کی طرف جاتے یا آتے دیکھا اور ہر بار غور سے مشاہدہ کیا کہ اس کا بیٹا نہایت مودب تھا اور اپنے باپ کے برابر کبھی نہیں چلتا تھا بلکہ ہمیشہ باپ سے چند قدم پیچھے رہتا تھا
میرے ایک عزیز بیمار ہوئے تو ڈاکٹر نے انہیں سیکینگ اور ٹیسٹوں کے لئے کہا۔ وہ لاہور میں نہر کنارے ایک کلینک میں گئے اور شام کو مجھے رسیدیں دیں کہ وہاں سے رزلٹ منگوادوں۔میں جب اس کلینک میں داخل ہوا تو استقبالئے میں اس بوڑھے چوکیدار کو دیکھا۔ اس کا بیٹا اس کے کندھے دبا رہا تھا میں نے ان سے خیر خیریت پوچھی۔ پتہ چلا بیٹا باپ کو کسی مخصوص ٹیسٹ کے لئے لایا ہے جو صرف چند کلینکوں میں ہوتا ہے۔ جھجکتے جھجکتے میں نے پوچھا کہ کوئی خدمت؟ جواب میں شکریہ اور دعا
اب منظر بدلتا ہے
کچھ عرصہ قبل میں ایک ارب پتی شخص کے پاس بیٹھا تھا کہ اچانک اس کے نور چشم نے زور سے کمرے کا دروازہ کھولا اور بے مروت انداز سے کہا ”ڈیڈ، آپ کی مہنگی کار تھوڑی سی لگ گئی ہے۔ کل اس کی مرمت کروا لیجئے گا“۔ باپ نے کہا ”بیٹے اپنی گاڑی لے جاتے“۔ جواب ملا ”دوستوں کا اصرار تھا آج مہنگی کار پر ریس لگانی ہے“۔ یہ کہہ کر اس نے زور سے دروازہ بند کیا اور چلا گیا۔ ارب پتی سیٹھ نے شرمندگی پر پردہ ڈالتے ہوئے فقط یہ کہا ”آج کل کی نوجوان نسل بڑی بدتمیز ہے“۔
ایک روز مجھے ایک دیرینہ آشنا رئیس شخص کی وفات کی خبر ملی جو لاہور کے ایک مہنگے اور پوش علاقے میں رہتے تھے۔ ان کی اہلیہ کا انتقال ہوچکا تھا اور وہ اپنے گھر میں چند ملازمین کے ساتھ مقیم تھے۔ دو ہی بیٹے تھے جو بیرون وطن رہائش پذیر تھے۔ میں جب ان کے گھر پہنچا تو ان کے چند عزیز و اقارب کرسیوں پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ اتنے میں ان کا پرانا ملازم آیا تو میں نے ایک طرف لے جاکر اس سے پوچھا کہ ”مرحوم کے صاحبزادگان کو بیماری اور موت کی خبر دی تھی یا نہیں؟“ اس نے سوگوار لہجے میں بتایا ”جب صاحب اچانک شدید بیمار ہوئے تو میں نے فون کرکے دونوں صاحبزادوں کو اطلاع دے دی تھی اور دونوں نے کہا تھا کہ وہ جلدی آنے کی کوشش کریں گے۔ صاحب دو دن بیمار رہے، دونوں بیٹے فون کرکے خیریت پوچھتے رہے۔ آج رات ان کو انتقال کی خبر بھی دے دی تھی اور وہ کہہ رہے تھے کو جونہی جہاز میں سیٹیں ملتی ہیں وہ پہنچ جائیں گے۔ تھوڑی دیرقبل فون آیا ہے کہ فی الحال جہاز میں جگہ نہیں مل رہی اس لئے انتظار نہ کریں اور ابا جان کو دفنا دیں“۔
میں جب انہیں سپرد خاک کرکے لوٹا تو دوہرے صدمے میں مبتلا تھا۔ ذہن خیالات کی آماجگاہ بنا ہوا تھا اور بار بار یہی سوال ذہن میں ابھرتا تھا کہ وہ بوڑھا چوکیدار غربت کے باوجود خوش قسمت انسان ہے جس کی اولاد سعادت مند ہے یا وہ دولت مند جن کی اولاد والدین کی پرواہ کرتی ہے نہ احترام…؟؟
تحریر ۔ ڈاکٹر صفدر محمود
اللہ ہدایت دے بس ۔۔۔ اور کیا کہہ سکتے ہیں
دونُوں ہی بیک وقت خوش قسمت اور بد قسمت ہیں، کیونکہ جہاں ایک کو اولاد کا سُکھ حاصل ہے تو وہاں دولت کا فقدان ہے، جبکہ دُوسرے کو دُولت تو حاصل ہے لیکن اولاد کا احترام مفقود
عبدالرؤف صاحب
گستاخی معاف ۔ دولت انسان کو سکھ نہیں دے سکتی ۔ البتہ کئی دولتمند بھی ایسے ہوتے ہیں جو جو اپنی اولاد کی خدمت پاتے ہیں کیونکہ رزقِ حلال کماتے ہیں اور اولاد کی تربیت درست خطوط پر کرتے ہیں ۔ میں عملی مشاہدے کی بات کر رہا ہون کتابی نہیں
سر جی، آسان سا کُلیہ ہے کہ اگر دُولت پاس ہو تو اولاد کا سُکھ قسمت میں نہیں بھی ہو تو بھی تو دُوسروں کی خدمت خریدی جاسکتی ہے،ناں، جبکہ بصورت دیگر تقریبا ناممکن ہے، ورنہ بوڑھا چوکیدار ضعیفی میں بھی محنت مزدوری کرنے پر کیوں مجبور ہوتا؟ اور اپنے بیٹے کے ساتھ آرام سے کیوں نہیں رہ رہا ہوتا؟ بحرحال یہ قسمت کے کھیل ہیں اور میرے خیال سے اِن پر مباحث کرنا بیکار کام ہے۔
وسلام۔
عبدالرؤف صاحب
میں پھر اختلاف کی جراءت کر رہا ہوں ۔ خلوص ۔ خدمت اور محبت خریدے نہیں جا سکتے ۔ چوکیدار کی محنت مزدوری والی بات سمجھنا ذرا مشکل ہے ۔ کام کرنے والا آدمی ناکارہ نہیں رہ سکتا