ہمیں ساتویں اور آٹھویں جماعت میں محاورے پڑھائے گئے تھے تو میں یہ سمجھا تھا کہ جنگ میں یا آپس میں دُشمنی ہو تو کوئی سامنے سے حملہ کرنے کی بجائے پیچھے سے آ کر حملہ کر دے تو اُسے کہتے ہوں گے ”پِیٹھ میں چھُرا گھونپنا“۔
بی ایس سی انجنیئرنگ پاس کر لینے کے بعد 1962ء میں ملازمت شروع کی تو سمجھ میں آیا کہ دُشمن نہیں بلکہ یہ فعل دوست یا دوست کے بھیس میں دُشمن کرتا ہے ۔ اپنے ساتھ بِیتے کئی ایسے واقعات میں سے 4 بطور نمونہ نذرِ قلم کر رہا ہوں
کیا منافقت اس سے کسی فرق چیز کا نام ہے ؟
1 ۔ دسمبر 1962ء سے اپریل 1963ء تک 5 ماہ میں گورنمنٹ پالی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ راولپنڈی میں سینیئر لیکچرر تھا ۔ ایک دن میں صبح سویرے پرنسپل صاحب کے دفتر کے پاس سے گذر کر اپنے دفتر کی طرف جا رہا تھا کہ ایک سینیئر لیکچرر مسٹر ”م“سامنے سے آتے ہوئے ملے جنہوں نے گارڈن کالج میں گیارہویں جماعت میں ہمیں فزکس پڑھائی تھی ۔ پوچھنے لگے ”آپ پرنسپل صاحب کو مل کر آ رہے ہیں ؟“ میں نے ”نہیں“ کہا اور اپنے ڈیپارٹمنٹ کی طرف چلا گیا ۔ پندرہ بیس منٹ بعد ایک دوسرے سینیئر لیکچرر جو میرے دوست تھے میرے پاس آئے اور پوچھا ”آج صبح دیر ہو گئی تھی کیا ؟“ میرے ”نہیں“ کہنے پر بولے ”مجھے پرنسپل صاحب سے کام تھا تو صبح پہنچتے ہی اُن کے دفتر میں چلا گیا تھا ۔ بعد میں وہاں مسٹر ”م“ نے آ کر پوچھا کہ کیا بھوپال صاحب آج چھٹی پر ہیں ؟ میں نے سارا انسٹیٹیوٹ دیکھ لیا مگر نہیں ملے“۔
2 ۔ میں نے مئی 1963ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) میں بطور اسسٹنٹ ورکس منیجر ملازمت اختیار کر لی ۔ پہلے 6 ماہ ہمیں مختلف فیکٹریوں میں مشینوں اور ان کے کام کے مطالعہ کیلئے بھیجا گیا تھا ۔ میں پہلے ماہ سمال آرمز گروپ میں تھا ۔ میرے ساتھ بھرتی ہونے والے 9 میں سے ایک مسٹر ”خ“ جو میری دوستی کا دم بھرتے تھے ایک قریبی فیکٹری میں تھے ۔ اُن کا ٹیلیفون آیا ”جلدی آؤ تم سے کوئی ضروری بات کرنا ہے“۔ میں نے کہا ”چھٹی کے بعد ملوں گا“۔ بولے ”میں نے چائے منگوائی ہے اور چائے کے ساتھ کھانے کیلئے باہر سے کچھ منگوایا ہے ۔ اتنی بے مروّتی تو نہ کرو“۔ میں اپنے ورکس منیجر کے دفتر گیا ۔ وہ نہیں تھے تو میں دوسرے مجھ سے سینیئر اسسٹنٹ ورکس منیجر کو بتا کر چلا گیا ۔ وہاں پہنچا تو تو مجھے بٹھایا ساتھ ہی چائے آ گئی مگر مسٹر ”خ“ مجھے یہ کہہ کر دوسرے دفتر میں چلا گیا ”تم چائے پینا شروع کرو میں ضروری ٹیلیفون کر کے آتا ہوں“۔ میں نے چائے نہیں پی اور اُس کا 10 منٹ انتظار کرنے کے بعد واپس آ گیا ۔ میں 20 منٹ میں واپس پہنچ گیا ۔ واپس آنے پر سیدھا ورکس منیجر کے پاس گیا ۔ اُنہوں نے پوچھا ”تم کہاں تھے ؟“ میرے بتانے پر بولے ”اس دنیا میں کئی ایسے ہیں جنہیں میری شکل پسند نہیں ۔ اسی طرح ایسے بھی ہوں گے جنہیں تمہاری شکل پسند نہیں ۔ ہر آدمی کو دوست مت سمجھو“۔ میں حیران ہو کر اُن کی طرف دیکھنے لگا تو اپنی گھڑی دیکھ کر بولے ”10 منٹ قبل مسٹر ”خ“ کا ٹیلیفون آیا تھا کہ مجھے اجمل سے ضروری کام ہے میں آدھے گھنٹے سے اُسے ڈھونڈ رہا ہوں لیکن وہ مل نہیں رہا ۔ کیا وہ چھٹی پر ہے ؟“
3 ایک انجنیئر مسٹر ”ب“ صاحب نے پی او ایف میں ملازمت شروع کی ۔ اُنہیں 2 سال بعد اسسٹنٹ منیجر بنایا جانا تھا لیکن 3 سال سے زیادہ گذرنے کے بعد بھی نہ بنایا گیا تھا ۔ اُس نے مجھ سے مدد کی درخواست کی ۔ میری محنت اور کارکردگی کی وجہ سے ٹیکنیکل چیف مجھ سے خوش تھے ۔ کام بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے میرے لئے ایک اسسٹنٹ کی منظوری ہو چکی تھی ۔ میں نے ایک اچھا موقع دیکھ کر اُن سے بات کی جس کے نتیجے میں پرانی تاریخ یعنی 2 سال کے بعد سے مسٹر ”ب“ کی ترقی ہو گئی اور اُسے ہماری فیکٹری میں تعینات کر دیا گیا ۔ مسٹر ”ب“ میری دوستی کا دم بھرنے لگے
پھر 1973ء میں ہماری فیکٹری سے چوری ہوئی تو مسٹر ”ب“ کو گھر سے اُٹھا کر کسی تفتیشی مرکز میں رکھ دیا گیا ۔ میں نے اپنے اور بیوی بچوں کے مستقبل حتٰی کہ اپنی جان کی بازی لگا کر قانونی چارہ جوئی اور دیگر اقدامات کئے اور اللہ کے فضل سے اُنہیں 5 دن بعد رہا کر دیا گیا ۔ میں اُن کے گھر ملنے گیا تو مسٹر ”ب“ نے کہا ”میں آپ کا احسان زندگی بھر نہیں بھول سکتا ۔ جو آپ نے میرے لئے کیا ۔ آپ کی جگہ میں ہوتا تو نہیں کر سکتا تھا“۔
اس کے بعد ذاتی مفاد کی خاطر مسٹر ”ب“ میرے خلاف من گھڑت کہانیاں بڑے باس تک پہنچاتے رہے جس کے نتیجے میں بڑے باس نے جو پہلے ہی غلط احکام نہ ماننے کی وجہ سے مجھ سے ناراض رہتے تھے کئی سال میری ترقی روکے رکھی جو اُن کی ریٹائرمنٹ کے بعد مجھے ملی
4 ۔ پی او ایف میں ہر آفیسر کی سالانہ خُفیہ رپورٹ کی ابتداء اُس کا سیئنر آفیسر کرتا تھا ۔ اس فارم میں پہلا صفحہ وہ آفیسر خود پُر کرتا تھا جس کے متعلق رپورٹ ہوتی تھی ۔ میں پچھلے 8 سال سے جرمنوں کے ساتھ کام کر رہا تھا اُن کی جرمن سمجھنا اور بولنا پڑتی تھی ۔ کئی ڈرائینگز بھی جرمن زبان میں ہوتی تھیں ۔ رپورٹ میں ایک خانہ تھا کہ کون کونسی زبان جانتے ہو ۔ میں نے لکھا کہ جرمن صرف بول لیتا ہوں ۔ میرے سینیئر افسر مسٹر” گ“ نے مجھے بُلا کر کہا ”دو لفظ جرمن کے بول لیتے ہو تو یہاں لکھ دیا ہے ۔ اسے کاٹو“۔ میں نے کاٹ دیا ۔ دوسرے دن ایک مسٹر ”ع“ جو پی او ایف میں بھرتی ہونے سے لے کر منیجر ہونے تک میرے ماتحت رہے تھے میرے پاس آئے ۔
میرے پوچھنے پر بتایا کہ ”باس مسٹر ” گ“ نے بُلایا تھا”۔
میں نے وجہ پوچھی تو بولے ”کہہ رہے تھے کہ رپورٹ فارم پر لکھو کہ تم جرمن بولنا ۔ لکھنا اور پڑھنا جانتے ہو ۔ میں نے لکھ دیا“۔
میں نے کہا ”آپ تو جرمن کا ایک حرف بولنا بھی نہیں جانتے اور آپ نے لکھ دیا“۔
بولے ”باس نے کہا تھا سو میں نے لکھ دیا ۔ مجھے کیا فرق پڑتا ہے“۔
جرمن جاننے کی بناء پر مسٹر ”الف“ کو جرمنی میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور ٹیکنیکل اتاشی مقرر کر دیا گیا جبکہ اس اسامی کیلئے میرے نام کی 3 سال قبل منظور دی گئی تھی جب مجھ سے سینیئر افسر کو تعینات کیا گیا تھا
محترم اجمل صاحب
اپنے قیمتی تجربات شیئر کرنے کے لئے بہت بہت شکریہ ۔ ۔ ۔ کافی سبق ملتا ہے ہمیں آپ سے ۔۔
اللہ ہم سب کی ایسے منافقوں اور حاسدوں سے حفاظت فرمائے ۔ آمین
بہت اچها لگتا ہے کہ آپ اپنے تجربات سب کے سامنے رکھ دیتے ہیں
ہم انسانوں کی فطرت ہے کہ جو کهرا ہو اسے ایسی منافقت والی باتوں سے دکھ ضرور ہوتا ہے چاہے لاکھ دل بڑا کرنے کی کوشش کریں
نور محمد صاحب و ثروت عبدالجبّار صاحبہ
حوصلہ افرائی کیلئے مشکور ہوں