Yearly Archives: 2014

عورت اور مرد

عورت صرف ایک قسم کی ہوتی ہے
قسم ۔ مظلوم
مرد دو قسم کے ہوتے ہیں
پہلی قسم ظالم ۔ وہ عورت پر ظلم کرتا ہے
دوسری قسم مظلوم ۔ وہ اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے

عورت کبھی غلطی نہیں کرتی ۔ اگر عورت سے غلطی ہو تو وہ مرد کے کہے پر چلنے سے ہوتی ہے
مرد غلطی کرتا ہے ۔ اور اس کا ذمہ دار وہ خود ہوتا ہے

عورت کا کام مرد کے گھر کو چلانا ہے ۔ وہ اپنے لئے کچھ نہیں کرتی
مرد کا کام گھرانے کی تمام ضروریات پورا کرنا ہے

عورت مرد کو حُکم مہیاء کرتی ہے
مرد حاکم ہے

عورت مرد کو زندہ رہنے میں مدد دیتی ہے
مرد عورت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا

عورت مرد کے بچے پالتی ہے
مرد اپنے بچے پالتا ہے

عورت عقل اور سلیقہ رکھتی ہے
مرد عقل استعمال نہیں کرتا

عورت ہر چیز عمدہ اور ارزاں خریدتی ہے
مرد اچھا سودا کرنے سے قاصر ہے

عورت کی عزت مرد پر فرض ہے
مرد اپنی عزت خود خراب کرتا ہے
مرد کو عورت (جب چاہے جہاں چاہے جس کے سامنے چاہے) ڈانٹ سکتی ہے
عورت کی تضحیک مرد کیلئے شرمناک ہے

درج بالا خیالات سے اتفاق یا اختلاف کرنا ہر قاری کا حق ہے ۔ البتہ قارئین سے تحمل کی توقع ہے

آخری سطر کے پہلے حصہ کی چوری کو اُمید ہے ایم ڈی نور صاحب اپنی دریا دلی سے کام لیتے ہوئے معاف فرمائیں گے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خاموشی ہزار نعمت

کبھی کبھی اپنے احساسات کا اظہار کرنے سے خاموش رہنا بہتر ہوتا ہے
کیونکہ
یہ احساس بہت تکلیف دہ ہوتا ہے
کہ
دوسرے آپ کو سُن تو رہے ہیں مگر سمجھ نہیں رہے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Obama and Mandela’s Legacies

عمارتوں کے شہر میں

پہلے خود غرضی یا خود تعریفی ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم اور اللہ ہی کی دی ہوئی توفیق سے آج اس بلاگ پر یہ میری 2001 ویں تحریر ہے ۔ جب میں نے یہ بلاگ شروع کیا تو مجھے اُمید نہیں تھی کہ میں 100 تحاریر ہی لکھ پاؤں گا ۔ اللہ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے

ہاں جناب ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے کرم سے بندہ بشر اپنے اعلان کے مطابق رواں ماہ کی 23 تاریخ کو دبئی پہنچ گیا تھا ۔ میرے لئے دبئی نئی تو نہیں رہی کہ جب سے چھوٹا بیٹا یہاں آیا ہے (2008ء) یہ ہمارا پانچواں پھیرا ہے اور غیر ترقی یافتہ دبئی 1975ء میں دیکھا تھا ۔ لیکن رسم ہے جو کسی زمانہ میں میرا محبوب مشغلہ تھا کہ کچھ عکس بندی کی جائے ۔ سو پیشِ خدمت ہیں چند عکس جن میں سے پہلے 9 مرسی دبئی (Dubai Marina) میں 22 منزلوں کی اُونچائی سے حاصل کئے گئے ہیں اور بعد والے 3 مرسی دبئی میں سمندر کے کنارے بنچ پر بیٹھے حاصل کئے گئے ۔ یہ سب عکس میرے موبائل فون نوکیا ای 5 کے مرہونِ منت ہیں ۔ میں نے اپنے موبائل فون سے وڈیو بھی بنائیں ہیں لیکن وڈیو 7 سے 22 ایم بی تک ہیں جب کہ 2 ایم بی سے بڑی وڈیو میرے بلاگ پر اَپ لوڈ نہیں کی جا سکتی

عکس ۔ 1 ۔ میری بائیں جانب شارع الشیخ زید پر گاڑیاں دوڑ رہی ہیں
25012014254R

عکس ۔ 2 ۔ میں عکس ۔ 1 کا کلوز اَپ ہے
25012014255R

عکس ۔ 3 ۔ میرے سامنے سمندر کا نظارہ
25012014256R

عکس ۔ 4 ۔ عکس ۔ 3 کا کلوز اَپ
25012014257R

عکس ۔ 5 ۔میرے داہنی جانب سمندر کا نظارہ
25012014258R

عکس ۔ 6 ۔ عکس ۔ 5 کا کلوز اَپ
25012014259R

عکس ۔ 7 ۔ میرے مزید داہنی جانب سمندر کا نظارہ
25012014260R

عکس ۔ 8 ۔ عکس ۔ 7 کا کچھ کلوز اَپ
26012014266R

عکس ۔ 9 ۔ سمندر کے کنارے بنچ پر بیٹھے ہوئے سمندر اور عمارات کا نظارہ
26012014267R

عکس ۔ 10 ۔ مارینا مول کے سامنے سمندر کے کنارے بنچ پر بیٹھے ہوئے سمندر اور عمارات کا نظارہ
26012014268R

عکس ۔ 11 ۔ عکس ۔ 10 کا کلوز اَپ
26012014269R

زبان زدِ عام ؟ اور حقیقت ؟

وطنِ عزیز پاکستان میں میڈیا (ٹی وی چینلز ۔ اخبارات ۔ رسائل) ریٹنگ کی اندھی دوڑ میں حقائق پر پردہ ڈال کر ناظرین یا قارئین کو من گھڑت مفروضوں پر لگائے ہوئے ہیں ۔ ان کی مَن پسند خبر یا رپورٹ مل جائے تو درجنوں بار دکھائی جاتی ہے اور مذاکروں میں بھی اس کا بار بار ذکر ہوتا ہے ۔ ایسے مذاکرات کیلئے ڈھونڈ ڈھونڈ کر جانبدار لوگ لائے جاتے ہیں جو حقائق کو مسخ کرنے کی پوری کوشش کرتے ہیں ۔ اشتہار ہوں ۔ اپنے ترتیب دیئے پروگرام یا کالم ہوں ۔ مذاکرے ہوں حتٰی کہ خبریں ہوں ننگ دھڑنگ یا لہراتی عورت کو دکھانا تعلیم و ترقی کی علامت بنا دیا گیا ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ذرائع ابلاغ کا کام فحاشی پھیلانا ہے ۔ میڈیا پرچار کرتا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے عورت کیلئے پردہ ایک قید ہے اور پاکستانیوں کی اکثریت اسے رَد کر چکی ہے اور صرف چند جاہل پردے کے حق میں ہیں

پاکستان کا میڈیا جسے کسی ادارے کی بھی چھوٹی سے چھوٹی رپورٹ مل جاتی ہے وہ بڑے طمطراق سے نشر کی جاتی ہے چاہے وہ مستند بھی نہ ہو یا وہ ادارہ ہی غیرمعروف ہو ۔ مگر یہ میڈیا امریکا سے تعلق رکھنے والے پِیئُو تحقیقی مرکز (Pew Research Center) جس کی رپورٹس کو عمومی طور پر دنیابھر میں اہمیت دی جاتی ہے کی ایک اُس حالیہ رپورٹ کو پی گیا جس میں پردے کا ذکر ہے ۔ نہ ٹی وی چینلز ، نہ اخبار ، نہ کسی رسالے نے اس کا ذکر کیا کیونکہ یہ سروے رپورٹ ان کے جھوٹ کو پول کھول رہی ہے

پِیئُو تحقیقی مرکز کی اس سروے رپورٹ جو 7 مسلم ممالک (پاکستان، مصر، سعودی عرب، ترکی، عراق، لبنان اور تیونس) میں پردے کے سلسلہ میں ہے کے خلاصہ کا عکس ملاحظہ ہو
FT_styleofdress1314

اس سروے نے ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کی اسلام اور اسلامی شعائر سے محبت کو ثابت کر دیا ہے

سورت 24 النّور آیت 31
اور اے نبی ۔ مومن عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہو جائے اور وہ اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رہیں ۔ وہ اپنے بناؤ سنگھار کو ظاہر نہ کریں سوائے شوہر یا باپ یا شوہروں کے باپ اپنے بیٹے یا شوہروں کے بیٹے یا اپنے بھائی یا بھتیجے یا بھانجے کے یا اپنی میل جول کی عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے ۔ اور نہ اپنے پاؤں زمین پر مارتی ہوئی چلا کریں کہ ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حُکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں ۔ اے مومنو ۔ تم سب کے سب اللہ سے توبہ کرو ۔ توقع ہے کہ فلاح پاؤ گے

سورت 33 الْأَحْزَاب آیت 59
اے نبی ۔ اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور اہلِ ایمان کی عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی چادریں اپنے اوپر لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور نہ ستائی جائیں ۔ اور اللہ غفور و رحیم ہے

نوسَر بازوں سے ہوشیار رہیئے

جمعہ 17 جنوری 2014ء کو جب میں اسلام آباد میں تھا تو میرے ساتھ ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا ۔ سوچا کہ اسے عام کر دیا جائے تاکہ سادہ لوح جوان کہیں نقصان نہ اُٹھا لیں ۔ سہ پہر کے وقت مجھے بتایا گیا کہ باہر کوئی شخص آیا ہے ۔ میں گھر کے دروازہ سے نکل کر گیٹ کی طرف روانہ ہوا ۔ وہ شخص مجھے دیکھ کر بے تکلفی سے گیٹ کھول کر میری طرف چل پڑا ۔ میں نے قریب پہنچ کر سلام کیا تو بولا
اجنبی ”آپ نے پہچانا نہیں ؟“۔
میں ”نہیں“
اجنبی ”آپ کہاں سے ریٹائر ہوئے تھے ؟“
میں ”کیوں تمہارا تعلق واہ سے ہے ؟“
اجنبی ”میں کریم داد کا بیٹا ہوں“

اجنبی نے بال کالے اور داڑھی مہندی رنگ کی ہوئی تھی اور اُس کی عمر ساٹھ سال یا زیادہ تھی ۔ پاکستان آرڈننس فیکٹری میں ایک ڈرائیور کریم داد تھا ۔ اُس کا بیٹا اتنی زیادہ عمر کا نہیں ہو سکتا تھا ۔ لیکن اصل بات یہ تھی کہ کیا یہ اُسی کریم داد کی بات کر رہا ہے ؟ اگر ہے بھی تو میرا اُس سے کیا تعلق ؟ مجھے پی او ایف چھوڑے ہوئے بھی 19 سال سے زیادہ ہو چکے ہیں ۔ خیر ۔ میں نے نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا
”کیسے آئے ہیں ؟“
اجنبی نے مزید قریب ہو کر مدھم آواز میں رازداری کے انداز میں کہا ”بیٹی کے ہاں بچہ ہونے والا ہے جو آپریشن سے ہو گا ۔ ہسپتال میں پیسے جمع کرانے ہیں ۔ بھائی گاؤں چلا گیا ہے ۔ کل صبح آ جائے کا ۔ میری وقتی ضرورت ہے کل صبح واپس کر دوں گا“

نہ جان نہ پہچان ۔ میں تیرا مہمان ۔ میرے پاس رقم ہو تو میں بغیر کسی واسطے کے مدد کرنے کا عادی ہوں لیکن میرے پاس اُس وقت فالتو رقم نہ تھی
میں نے کہا ”میرے پاس اس وقت پیسے نہیں ہیں“
اجنبی بڑے قربت کے انداز میں بولا ”گھر سے پتہ کر لیں ۔ اتنے زیادہ نہیں ہیں نکل ہی آئیں گے ۔ میں صبح سویرے واپس کر دوں گا“
میں ” میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔ گھر سے کیا مطلب ؟ میں گھر میں شامل نہیں ؟“

اسکے بعد میں واپس آ گیا ۔ وہ واپس چلا گیا ۔ اُس کے چہرے پر مجھ سے بات کرنے سے قبل اور ناکام واپس جاتے ہوئے کسی قسم کی پریشانی یا فکر کے تاءثرات نہیں تھے

پھر نہ کہنا خبر نہ ہوئی

سُنیئے جنابِ والا
کیا کہتا ہے بلاگ والا
پہلے اسے پڑھیئے غور سے
پھر بات کیجئے کسی اور سے

میں پچھلی بار (جون تا اگست 2012ء) دبئی گیا تو شکائت موصول ہوئی تھی کہ ”خبر نہ ہوئی“۔
چنانچہ تمام محترمات قاریات اور محترمان قارئین مطلع رہیئے کہ
اِن شاء اللہ بندہ بشر کل یعنی 23 جنوری 2014ء اسلام آباد سے روانہ ہو کر دبئی پہنچ جائے گا
اور اِن شاء اللہ 22 اپریل 2014ء کو واپس” آنّے والی تھاں“ یعنی اسلام آباد پہنچ جائے گا
اللہ کریم وقت خیریت سے گذراے

اپنے بلاگ پر تحاریر اور دوسروں کے بلاگوں پر تنقید اِن شاء اللہ جاری رہے گی

لکھ دیا ہے تاکہ سند رہے اور بوقتِ ضرورت کام آئے