Yearly Archives: 2014

اُردو قومی زبان کیسے بنی ۔ بہتان اور حقیقت

آج 21 مارچ ہے ۔ 66 سال قبل آج کے دن ایک واقعہ ہوا تھا جسے درست بیان کرنے کی بجائے نامعلوم کس مقصد کیلئے قوم کو خود تراشیدہ کہانیاں سنائی جاتی رہی ہیں اور اب تک سنائی جاتی ہیں ۔ جن صاحب نے سب سے پہلے خود تراشیدہ کہانی کو کتابی صورت میں پیش کیا وہ عطا ربانی صاحب (میاں رضا ربانی کے والد) تھے ۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا

” قائداعظم نے مارچ 1948ء میں اپنے دورۂ مشرقی پاکستان کے دوران مشرقی بازو کی قیادت کو اعتماد میں لئے بغیر ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا جو محض 2 فیصد آبادی کی زبان تھی اور وہاں ہنگامہ ہوگیا جس میں 3 طلباء مارے گئے“۔

عطا ربانی صاحب نے جو لکھا وہ حقیقت کے منافی ہے۔ وہ ڈھاکہ کے اس جلسے میں بطور اے ڈی سی قائداعظم کے ساتھ نہیں تھے۔ وہ سات ماہ قائداعظم کے ساتھ رہے اور 19 مارچ 1948ء کو واپس ایئرفورس میں چلے گئے تھے جبکہ قائداعظم نے ڈھاکہ کے جلسہ سے 21 مارچ 1948ء کو خطاب کیا۔ مزید یہ کہ اس جلسہ میں کوئی ہنگامہ نہیں ہوا تھا

قائداعظم کی اس جلسہ میں تقریر کا پس منظر اور پیش منظر منیر احمد منیر صاحب نے اپنی کتاب ’’ قائداعظم، اعتراضات اور حقائق‘‘ میں بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔ قائداعظم نے ڈھاکہ میں جو اعلان کیا وہ پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کا اکثریتی فیصلہ تھا۔ 25 فروری 1948ء کو کراچی میں دستور ساز اسمبلی میں مشرقی پاکستان سے کانگریس کے ہندو رُکن دھرنیدر ناتھ دتہ نے بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ قائداعظم نے اسمبلی کے سپیکر کے طور پر اس مطالبے کو رد کرنے کی بجائے اس پر بحث کرائی۔ کانگریسی رُکن اسمبلی نے کہا ”ریاست کے 6 کروڑ 80 لاکھ باشندوں میں سے 4 کروڑ 40 لاکھ باشندے بنگالی بولتے ہیں اس لئے قومی زبان بنگالی ہوگی“۔ ایک اور کانگریسی رُکن پریم ہری ورما نے اس مطالبے کی حمایت کی ۔ لیکن مشرقی پاکستان کے بنگالی ارکان مولوی تمیز الدین اور خواجہ ناظم الدین نے اس مطالبے کی مخالفت کی۔ لیاقت علی خان نے وضاحت کی کہ ہم انگریزی کی جگہ اُردو کو لانا چاہتے ہیں اس کا مطلب بنگالی کو ختم کرنا نہیں۔ کافی بحث کے بعد متذکرہ مطالبہ مسترد کردیا گیا ۔ یہ مطالبہ مسترد کرنے والوں میں بنگالی ارکان حسین شہید سہروردی ۔ نور الامین ۔ اے کے فضل الحق ۔ ڈاکٹر ایم اے مالک اور مولوی ابراہیم خان بھی شامل تھے ۔ چنانچہ اُردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ قائداعظم کا نہیں دستور ساز اسمبلی کا فیصلہ تھا

قائداعظم نے 21 مارچ 1948ء کی تقریر میں یہ بھی کہا تھا آپ اپنے صوبے کی زبان بنگالی کو بنانا چاہتے ہیں تو یہ آپ کے نمائندوں کا کام ہے ۔ بعدازاں صوبائی حکومت نے اُردو کے ساتھ بنگالی کو بھی قومی زبان قرار دینے کا مطالبہ کیا تو یہ مطالبہ تسلیم کر لیا گیا لیکن تاخیر سے کیا گیا اور اس تاخیر کا پاکستان کے دشمنوں نے خوب فائدہ اٹھایا

بنگالی عوام قائداعظم سے ناراض ہوتے تو 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں جنرل ایو ب خان کے مقابلے میں قائداعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت نہ کرتے ۔ محترمہ فاطمہ جناح ڈھاکہ میں جیت گئی تھیں جہاں اِن کے چیف پولنگ ایجنٹ شیخ مجیب الرحمان تھے“۔

میری کہانی 7 ۔ سمجھ کی بات

آجکل جب کبھی رات کو سونے کیلئے بستر پر لیٹے ہوئے اپنے ماضی پر نظر پڑتی ہے تو ایک بات پر میں تعجب کئے بغیر نہیں رہتا کیونکہ اس کا سبب میری سمجھ میں نہیں آتا ۔ چنانچہ میں مندرجہ ذیل شعر بار بار پڑھتا ہوں اور اشک باری کرتا ہوں کہ اس کے سوا اور کر بھی کیا سکتا ہوں

سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو
میری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے فقط میرے اللہ کا
مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

میں ایک عام دنیا دار آدمی ہوں ۔ زندگی کا بیشتر حصہ ناشتہ ۔ دو وقت کا کھانا اور چند جوڑے کپڑے ہی میری متاعِ کُل رہی ۔ دولت کی ہوس تو نہ تھی البتہ دولت کی ضرورت ہمیشہ رہی ۔ لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ بچپن سے لے کر آج تک مجھ پر اتنا اعتبار کیوں کیا جاتا رہا ۔ پہلے کا تو کچھ یاد نہیں سکول میں آٹھویں جماعت (1950ء) سے انجنیئرنگ کالج تک اور پھر ملازمت کے دوران بھی اگر پیسے رکھنے کیلئے کسی کو خزانچی بنانا ہوتا تو ساتھی میرے گرد ہو جاتے اور انکار کے باوجود مجبور کر دیتے ۔ کہیں ذاتی طور پر یا کالج کی طرف سے دورے پر جاتے تو کچھ لڑکے اکٹھے ہو کر اپنے اپنے پیسے مجھے دے دیتے اور کہتے ہم اکٹھے ہی ہر جگہ جائیں گے ۔ خرچ تم کرتے جانا

سکول کالج اور جوانی میں بھی میں صنفِ مخالف کے ساتھ بہت روکھا بولا کرتا تھا ۔ گیارہویں اور بارہویں جماعت میں آزاد خیال لڑکیوں کے سوا (جو اُس زمانہ میں بہت کم تھیں) کسی لڑکی کو کسی لڑکے سے کوئی کام ہوتا تو مجھے قاصد بنا دیتی

اُستاد کوئی تفتیش کر رہے ہوتے تو آخر میں مجھے بُلا کر پوچھتے کہ درست بات کیا ہے ؟ انجنیئرنگ کالج میں ہوسٹل سپرنٹنڈنٹ صاحب جو مکینیکل انجنیئرنگ کے سربراہ بھی تھے اور بعد میں وائس چانسلر بنے خود آڈٹ کرنے کی بجائے خُفیہ طور پر مجھ سے کرواتے اور جو میں کرتا اُس پر دستخط کر دیتے

ذاتی معاملات میں بھی کئی اصحاب مجھ سے مشورہ طلب کرتے ۔ میں عام طور پر یہی کہتا کہ ”یہ آپ کا ذاتی یا خانگی معاملہ ہے ۔ اس پر میں کیا رائے دے سکتا ہوں ۔ آپ اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں“۔ لیکن وہ مصر رہتے اور ذاتی یا خانگی تفصیلات بیان کر دیتے
میں اُس وقت سوچا کرتا کہ میں اتنا اچھا آدمی نہیں ہوں پھر یہ صاحب مجھ پر اتنا بھروسہ کیوں کر رہے ہیں ۔ کبھی میں اتنا ڈر جاتا کہ میرے مشورے کے نتیجہ میں ان کا کوئی نقصان ہو گیا تو میں اپنے آپ کو کبھی معاف نہ کر سکوں گا

بلاشُبہ اللہ بے نیاز ہے ۔ ایک دانہ بونے سے جو پودا اُگتا ہے اُسے بہت سی پھلیاں پڑتی ہیں اور ہر پھلی میں کئی کئی دانے ہوتے ہیں
اگر اللہ ہماری محنت کا برابر صلہ دینا شروع کرے تو ہمارا کیا بنے ؟

آپ کتنے پانی میں ہیں ؟

”حکمران خراب ہیں“۔ ”زمانہ خراب ہے“۔
یہ فقرے عام سننے میں آتے ہیں
حُکمرانوں کو راہِ راست پر لانے کیلئے پہلا قدم لازم ہے کہ حکومت یا کسی دوسرے پر الزام لگانے والا اپنا جائزہ لے کہ
میں کیا ہوں ؟
میری اس معاشرے میں کیا ذمہ داریاں ہیں ؟
کیا میں وہ ذمہ داریاں نباہ رہا ہوں ؟

تخلیے میں تھوڑا سا اپنا امتحان تو لیجئے

کیا میرے دل میں خدمتِ خلق کا جذبہ ہے ؟
کیا میں کوئی فلاحی کام کرتا ہوں ؟
کیا میرا پڑوسی مجھ سے خوش ہے ؟
کیا میں اپنے بچوں کی شادی اور دیگر خوشی کے مواقع پر یتیموں اور مسکینوں کو یاد رکھتا ہوں ؟
کیا مجھے حرام اور حلال کی سوجھ بوجھ ہے ؟
کیا میں حرام سے بچتا اور حلال کیلئے محنت کرتا ہوں ؟
کیا میں ادھار لے کر وقت پر لوٹاتا ہوں ؟
کیا میں دوسروں کو اسی کام کی تلقین کرتا ہوں جس پر میں خود عمل پیرا ہوتا ہوں ؟

اگر سب سوالوں کا جواب ”ہاں“ میں ملتا ہے تو آپ کی اصلاح کی کوشش ناکام نہیں ہو گی
استقلال کے ساتھ عملی کوشش جاری رکھیئے
بصورتِ دیگر انسان بننے کیلئے کوشش کیجئے قبل اس کے کہ درستگی کا وقت ختم ہو جائے
اللہ مجھے سیدھی راہ پر چلائے

میری کہانی 6 ۔ مسلمان کیسے بنا ؟

مجھے کچھ یاد نہیں میں نے کب اور کیوں نماز پڑھنا شروع کی ۔ بس اتنا یاد ہے کہ میں پاکستان بننے سے پہلے ہی سے مسجد میں نماز پڑھنے جایا کرتا تھا ۔ مقصد کہنے کا یہ ہے کہ بچپن ہی میں کسی طرح میرے دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ نماز پڑھے بغیر گذارا نہیں ۔ 1954ء میں 2 واقعات نے مجھے جھنجوڑ دیا
1۔ ہمارے پروفیسر نے بائبل سے کچھ پڑھا جو ہمارے عقیدہ سے مطابقت نہیں رکھتا تھا ۔ اس پر پوری جماعت میں سے صرف ایک لڑکا اُٹھا اور اُس نے قرآن شریف سے متعلقہ آیت کا ترجمہ انگریزی میں دہرا کر بتایا کہ حقیقت یہ ہے ۔ اُس کی پروفیسر سے بحث چل پڑی ۔ میرے سمیت باقی تمام لڑکے مبہوت دیکھتے رہے ۔ وہ لڑکا اپنا مؤقف واضح کرتا رہا اور ہار نہ مانی
2 ۔ دوسرا واقعہ راولپنڈی کی جامعہ مسجد میں پیش آیا تو میں نے گھر پر نماز پڑھنا شروع کر دیا اور جمعہ کی نماز شہر کی بڑی مسجد کی بجائے محلہ کی مسجد میں پڑھنا شروع کی (مسجد جانا کیوں بند کر دیا ؟ اس کی تفصیل بعد میں)۔

اُس وقت تک تو میں مسلمان اسلئے تھا کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہوا تھا ۔ کہتے ہیں کُبڑے کو لات کاری آ گئی ۔ سو میں نے بھی اُس واقعہ کے دن سے دِین کا عِلم حاصل کرنے کی ٹھانی تاکہ مسلمان بن سکوں ۔ سب سے پہلی رکاوٹ سامنے آئی کہ جہاں دِین کی کتاب خریدنے جاتا تو مسلک پوچھا جاتا ۔ میں صرف اِتنا جانتا تھا کہ مسلمان ہوں اسلئے واپس چلا آتا
علامہ اقبال کے یہ 2 شعر جو سکول اور کالج کے زمانہ میں میری کاپی کے سرِ ورق پر میں نے ہمیشہ لکھے اور روزانہ انہیں پڑھتا تھا
تُندیءِ بادِ مُخالِف سے نہ گبھرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تُجھے اُونچا اُڑانے کے لئے

پَرے ہے چرخِ نِیلی فام سے منزل مُسلماں کی
ستارے جس کی گردِ راہ ہوں وہ کارواں تُو ہے

انجنیئرنگ کالج میں داخلہ ملنے پر والد صاحب نے تاج کمپنی کا چھاپا ہوا قرآن شریف تحفہ دیا ۔ اس میں اُردو ترجمہ عبدالقادر صاحب کا تھا جو لفظی ترجمہ تھا اور پرانی اُردو میں تھا ۔ بہر کیف روزانہ پڑھنے اور سمجھنے میں لگا رہا

انجنیئرنگ کالج ہوسٹل کے ایک بڑے کمرہ میں ہم 3 لڑکے رہتے تھے ۔ چند ہفتے گذرے تھے ۔ میں فجر کی نماز کے بعد بیٹھا تلاوت کر رہا تھا ۔ دروازہ کھُلا تھا ۔ پانچ سات سینِئر جماعتوں کے لڑکے دروازے کے باہر کھڑے ہو گئے ۔ میں نے دیکھا تو ایک نے مدھم آواز میں کہا ”ہم آپ کا ایک منٹ لے سکتے ہیں“۔ میں اُٹھ کر گیا سب نے سلام کے بعد مصافحہ کیا
اُن میں سے ایک بولے “ آپ پانچوں وقت باقاعدگی سے نماز پڑھتے ہیں ۔ پہلے ہم سمجھے کہ آپ مرزائی ہیں یا کسی ایسے مسلک کے ہیں جو مسجد نہیں جاتے ۔ چند دن میں ہی ثابت ہو گیا کہ آپ اُن میں سے نہیں ہیں ۔ مسجد سے اذان کی آواز بھی آپ کے کمرے تک آتی ہے پھر آپ مسجد کیوں نہیں آتے ؟“
میں نے مختصر وجہ بتائی تو جواب ملا ”سامنے ہوسٹل کا ایک کمرہ ہے جسے ہم نے مسجد کا نام دے رکھا ہے اور اس مسجد میں کوئی مولوی نہیں ہے ۔ ہم میں سے ہی کوئی امامت کرا دیتا ہے ۔ آپ یہ تو جانتے ہوں گے کہ باجماعت نماز کا کتنا اَجر ہے ۔ چلیئے آپ امامت کیا کیجئے اور ہم آپ کے پیچھے نماز پڑھا کریں گے“۔
میں اپنے آپ کو امامت کرنے کا اہل تو نہیں سمجھتا تھا ۔ بہرکیف میں نے ہوسٹل کی اس مسجد میں نماز پڑھنا شروع کر دی اور پھر جمعہ کی نماز کیلئے اُنہی لڑکوں کی رہنمائی میں مسجد بلال پارک جانا شروع کر دیا جہاں سائنس کے اعلٰی تعلیم یافتہ حضرات سے ملاقات ہوتی رہی جو اسلام کی روح سے واقف محسوس ہوئے ۔ ان حضرات کی صحبت نے مجھے اسلام کو سمجھنے میں مدد دی
کسی نے سچ کہا ہے کہ عطّار کی دکان پر بیٹھنے سے لباس میں خوشبو رَچ جاتی ہے اور کوئلے کی دکان پر بیٹھنے سے کپڑے کالے ہو جاتے ہیں
ہوسٹل کے قریب ہی کوئی سالک صاحب رہتے تھے جنہوں نے مُغلیہ حکمرانوں کے زمانہ کی بنی غیر آباد عمارت میں ایک عالِم دِین کو تفسیر پڑھانے کیلئے مقرر کیا ہوا تھا ۔1957ء کے شروع میں متذکرہ بالا لڑکوں میں سے چند کے ساتھ میں نے مغٖرب سے عشاء تک تفسیر پڑھنا شروع کر دی جو صرف 3 ماہ پڑھ سکا پھر امتحان قریب آ گئے اور امتحان کے بعد ہمیں وہاں سے ایک کلو میٹر دُور والے ہوسٹل میں بھیج دیا گیا

میں سیکنڈ ایئر میں تھا تو میری خواہش پر ایک سینئر لڑکے نے اپنے کسی عزیز کے ذریعے جماعت اسلامی کی لائبریری سے چھوٹی چھوٹی کتابیں میرے پڑھنے کیلئے لانا شروع کیں جن میں یہ نام مجھے یاد ہیں ۔ پردہ ۔ اسلام کا نظامِ حیات ۔ سود ۔ معاشیاتِ اسلام ۔ اسلام اور جاہلیت ۔ الجہاد فی الاسلام ۔ جنہیں پڑھ کر میں اسلام میں سماجی زندگی سے متعارف ہوا ۔ پھر اُس نے مجھے مودودی صاحب کی لکھی ایک کتاب ”تفہیمات“ لا کر دی جو قرآن شریف کا آسان اُردو ترجمہ تھا ۔ اسے پڑھ کر مجھے قرآن شریف کو سمجھنے میں کافی مدد ملی
میں نے 1970ء کی دہائی کے شروع سالوں میں ایک اللہ کے بندے (چوہدری عبدالحمید صاحب ۔ الله جنت الفردوس میں جگہ دے) کی وساطت سے تفہیم القرآن (مکمل 6 اجلاد) حاصل کی اور مطالعہ شروع کیا

ایک فوجی آمر (ضیاء الحق) کے زمانہ میں دین اسلام کے متعلق بہت سی مُستند کُتب کے اُردو تراجم سرکاری سطح پر کروا کے شائع کئے گئے جن میں فقہ اربعہ مذاہب جامعہ الازہر مصر کے پروفیسران کی تالیف ۔ صحیح بخاری ۔ صحیح مسلم ۔ سیرت النبی ۔ دائرہ معارف الاسلامیہ (24ضخیم اجلاد) اور دیگر کئی شامل ہیں ۔ یہ سب کُتب بہت کم معاوضہ کے عوض مہیاء کی گئیں ۔ درست عِلم عام ہوا اور مجھے دین کو اچھی طرح سمجھنے کا موقعہ ملا
اسی دور میں سرکاری سطح پر قائد اعظم اور تحریکِ پاکستان کے متعلق بہت سی کُتب شائع ہوئیں ۔ اللہ نے کرم فرمائی کی اور اخیر 1995ء تک ان سب دینی اور قومی کُتب نے میری لائبریری کو چمکا دیا

مسجد جانا کیوں چھوڑا ؟
میں باقی نمازیں گھر کے قریب ایک چھوٹی مسجد میں اور جمعہ کی نماز راولپنڈی کی ایک بڑی مسجد میں پڑھنے جایا کرتا تھا ۔ وہاں میرے ساتھ آٹھویں سے بارہویں کے ہمجماعت چار لڑکے بھی جایا کرتے تھے ۔ ایک جمعہ کے چند دن بعد تہوار المعروف شبِ براءت تھا ۔ امام مسجد جو راولپنڈی کے بہت بڑے مولوی مانے جاتے تھے نے واعظ کے دوران کہا ”پکاؤ حلوے خود بھی کھاؤ اور دوسروں کو بھی کھلاؤ ۔ جو کہے بدعت ہے وہ کافر ہے چاہے یہ ہو یا یہ ہو“۔ ہاتھ سے ایک طرف اہلِ حدیث کی مسجد کی طرف اشارہ کیا اور دوسری طرف دیوبند مکتبِ فکر کی مسجد کی طرف ۔ میں 2 باتیں جانتا تھا ۔ ایک کہ کسی کلمہ گو کو کافر کہنا درست نہیں اور 2 کہ کچھ پکا کر بانٹنا اچھا فعل ہے لیکن اسےکسی خاص دن سے منسلک کرنا درست نہیں ۔ میرے ساتھیوں نے امام مسجد سے اس کی تفصیل معلوم کرنے کا سوچا ۔ جب امام مسجد نماز کے بعد اپنے حجرے میں چلے گئے تو ہم پانچوں بھی وہاں پہنچے اور سلام کے بعد مؤدبانہ بیٹھ گئے ۔ جب مولوی صاحب نے ہماری طرف دیکھا تو ہم میں سے ایک نے (جو دین کا علم زیادہ رکھتا تھا) وضاحت کی درخواست کی ۔ مولوی صاحب نے چہرا دوسری طرف کر لیا ۔ تھوڑی دیر بعد اُنہوں نے چہرا ہماری طرف کیا تو ہمارے ساتھی نے کہا ”ہمیں بات سمجھ میں نہیں آئی ۔ آپ از راہِ کرم وضاحت کر دیں“۔ مولوی صاحب نے پھر چہرہ دوسری طرف پھیر لیا ۔ تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا ۔ تو ہم وہاں سے اُٹھ کر مسجد سے باہر آ گئے اور فیصلہ کیا کہ اب اُس مسجد اور اُن مولوی صاحب کے پیچھے نماز نہیں پڑیں گے ۔ یہ واقعہ ہے 1954ء کا ہے ۔ مجھے مولویوں سے بَیر ہو گیا اور میں نے مسجد جانا چھوڑ دیا لیکن نماز پابندی سے پڑھتا رہا