Yearly Archives: 2014

چند اچھی یادیں

اچھی یادیں اسلئے لکھا ہے کہ سُہانی رات ہوتی ہے اور آنے والا نہیں آتا

میں کم ظرف ہوں گا اگر سب سے پہلے ” نورین تبسم صاحبہ “ کا شکریہ ادا نہ کروں جو بزور گھسیٹ گھساٹ کے مجھے میرے اُس ماضی میں لے گئیں جسے میں اپنی نوجوانی کا دور کہہ سکتا ہوں اور جس سے کچھ اچھی یادیں وابسطہ ہیں ۔ میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں یکم مئی 1963ء کو ملازمت شروع کی ۔ یکم مئی 1963ء سے 31 دسمبر 1963ء تک مطالعاتی دوررہ تھا جس میں مجھے پورے ادارے میں گھمایا گیا یعنی انجنیئرنگ فیکٹری انجنیئرنگ فیکٹری (جو فیرس گروپ ۔ نان فیرس گروپ ۔ فیرس فاؤنڈری ۔ نان فیرس فاؤنڈری ۔ سمال آرمز ایمیونیشن ۔ وُڈ ورکنگ ۔ سروسز وغیرہ پر مشتمل تھی) ۔ ان کے علاوہ ایکسپلوسِوز فیکٹری ۔ فِلِنگ فیکٹری ۔ ٹول روم ۔ سروسز ڈرائنگ آفس اور پروڈکشن ڈرائنگ اینڈ ڈیزائین آفس میں بھی ایک ہفتہ سے 4 ہفتے تک رکھا گیا ۔ جنوری 1964ء میں مجھے ویپنز فیکٹری میں تعینات کر دیا گیا جو اُن دنوں فیرس گروپ کا حصہ تھی اور جہاں رائفل جی تھری کی ڈویلوپمنٹ ابتدائی مراحل میں تھی اور مجھے اس میں آدھی رات کا تیل جلانا تھا (to burn mid-night oil) ۔ رائفل جی تھری کی ڈویلوپمنٹ کے بعد پروڈکشن شروع ہوئی ہی تھی کہ وسط 1966ء میں میرے ذمہ مشین گن کی پلاننگ کر کے ہیڈ کوارٹر میں بھیج دیا گیا ۔ اوائل 1968ء میں مشین گن کی ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کیلئے واپس ویپنز فیکٹری بھیج دیا گیا جہاں میں 18 مئی 1976ءکو ملک سے باہر بھیجے جانے تک رہا ۔ اتفاق کی بات سمجھ لیجئے کہ میرے 53 سال کی عمر میں 3 اگست 1992ء کو ریٹائر ہونے تک پاکستان آرڈننس فیکٹریز کی جن شاخوں میں کام کیا(گستاخی معاف) وہاں میرا واسطہ زیادہ تر خود غرض یا منافق لوگوں سے پڑا

میں 2 بڑے افسران کے اچھا ہونے کا ذکر پہلے کر چکا ہوں لیکن اُن میں سے ایک کے ماتحت 2 ماہ اور دوسرے کے ماتحت 6 ماہ کام کرنے کا موقع دیا گیا ۔ میرے ساتھ کام کرنے والے میرے ہم عصر ۔ میرے براہِ راست اُوپر اور میرے براہِ راست ماتحت افسران میں سے صرف 3 ایسے تھے جو محنتی ہونے کے ساتھ ساتھ ادارے یا ملک کیلئے مخلص تھے

ہوا یوں کہ نورین تبسم صاحبہ نے میری توجہ اپنی ایک تحریر کی طرف کرائی جس میں یعقوب صاحب کا ذکر تھا جنہیں نورین تبسم صاحبہ نے میرا ہمجماعت اور دوست لکھا تھا ۔ محمد یعقوب خان صاحب اور میں آٹھویں سے بارہویں جماعت تک ایک ہی جماعت اور ایک ہی سیکشن میں رہے ۔ نویں جماعت میں ہم ایک ہی بنچ پر بیٹھتے تھے ۔ کالج کے بعد پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں آنے پر محمد یعقوب خان صاحب سے میری ملاقات اُن کے والد کی وساطت سے ہوئی جو اُن دنوں ویپنز فیکٹری میں فورمین تھے ۔ اُس دن سے 18 مئی 1976ء تک ان سے ملاقات رہی ۔ میں 1983ء میں واپس آیا تو اُن کے والد ریٹائر ہو چکے تھے اور باوجود چند بار کوشش کے مجھے محمد یعقوب خان صاحب کا کچھ پتہ نہ چلا

لامحالہ مجھے محمد یعقوب خان صاحب کے والد محمد یار خان صاحب یاد آئے جن کے ساتھ میرا واسطہ پہلی بار مئی 1963ء میں ویپنز فیکٹری میں تربیتی 4 ہفتوں کے دوران پڑا ۔ وہ ویپنز فیکٹری کے سب سے سینئر فورمین تھے اور پوری پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں کام کے ماہر مانے جاتے تھے ۔ ایک دن میرے پاس آئے اور کہا ” اجمل صاحب ۔ آپ کی بہن ڈاکٹر صاحبہ ولیہ ہیں ۔ خاندانی اثر آپ پر بھی ہو گا ۔ ہمارا ایک مسئلہ ہے ۔ اس میں ہماری مدد کیجئے“۔ میں نے ہنستے ہوئے کہا ”خان صاحب ۔ میری بڑی بہن کو آپ نے ولیہ کیسے بنا دیا ؟“ بولے ” میری بیٹی بیمار ہوئی ۔ بہت علاج کرایا ۔ سپشیلسٹ ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا ۔ ہم نا اُمید ہو گئے تھے کہ کسی نے کہا ڈاکٹر فوزیہ قدیر سے علاج کروائیں ۔ ہم نے علاج کروایا اور بیٹی ٹھیک ہو گئی ۔ میں تو اُنہیں ولیہ مانتا ہوں ۔ آپ ہماری مدد کریں“۔ میں نے بہت سمجھایا کہ ”میں تو یہاں آپ سے سیکھنے آیا ہوں ۔ جو مسئلہ آپ حل نہیں کر سکے بھلا میں کیسے حل کر سکتا ہوں ؟“ مگر وہ نہ مانے ۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن میں اُن کے ساتھ ورکشاپ میں گیا ۔ ایک پرزہ تھا جس کی 30 فیصد کے قریب پروڈکشن ضائع ہو رہی تھی ۔ میں نے پرزے اور مشین کا مطالعہ کیا اور کچھ مشورہ دیا ۔ اللہ کا کرنا کہ وہ پرزہ ٹھیک بننے لگا ۔
سورت 3 آل عمران آیت 26 ۔

قُلِ اللّٰہُمَّ مٰلِکَ الۡمُلۡکِ تُؤۡتِی الۡمُلۡکَ مَنۡ تَشَآءُ وَ تَنۡزِعُ الۡمُلۡکَ مِمَّنۡ تَشَآءُ ۫ وَ تُعِزُّ مَنۡ تَشَآءُ وَ تُذِلُّ مَنۡ تَشَآءُ ؕ بِیَدِکَ الۡخَیۡرُ ؕ اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ۔ ۔ ۔ اور کہیے کہ اے خدا (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخش دے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے اور جس کو چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلیل کرے ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی ہاتھ ہے (اور) بیشک تو ہرچیز پر قادر ہے

دو دن بعد محمد یار خان صاحب ایک اور پرزے کا مسئلہ لائے ۔ اتفاق سے اللہ نے وہ بھی میرے ہاتھوں درست کرا دیا ۔ پھر محمد یار خان صاحب میرے پاس آئے اور بولے ” آپ یعقوب کو جانتے ہوں گے ۔ میرا بیٹا ہے ۔ ایکسپلوسوز فیکٹری میں ہوتا ہے“۔ محمد یار خان صاحب مجھے اپنا اُستاد ماننے لگے ۔ جب کسی ٹیکنیکل مسئلہ میں پھنس جاتے تو میرے پاس پہنچ جاتے
جب مجھے معلوم ہوا کہ نورین تبسم صاحبہ کی شادی کے بعد سے رہائش واہ چھاؤنی میں ہے تو میں نے اُن کے خاوند اور سسر صاحبان کا پوچھا ۔ معلوم ہوا کہ وہ محمد عبدالعلیم صدیقی صاحب کی بہو ہیں ۔ جب میں نے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت شروع کی تو صدیقی صاحب اسسٹنٹ فورمین تھے بعد میں فورمین ہو گئے تھے ۔ جب جنوری 1964ء میں مجھے ویپنز فیکٹری میں تعینات کیا گیا تو انہیں میرے ماتحت لگا دیا گیا کیونکہ ورکس منیجر صاحب کو ان کا سچ اچھا نہیں لگتا تھا
میرے پاس آئے اور دروازے کے پاس سے ہی بولے ”صاحب ۔ آ سکتا ہوں“۔
میں نے ہاتھ سے آ کر کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا
پھر وہیں سے بولے ”صاحب ۔ میرا تبادلہ آپ کے پاس کر دیا گیا ہے ۔ اب آپ جہاں چاہیں بھیج دیں“۔
میں نے ڈرائنگ سے نظریں اُٹھا کر اُن کی طرف دیکھا تو پریشان نظر آئے ۔ میں نے کہا ”اِدھر آیئے اور تشریف رکھیئے“۔
بولے ”آپ بڑے افسر ہیں ۔ میں آپ کے برابر کیسے بیٹھ سکتا ہوں“۔
میں نے کہا ”دیکھیئے ۔ بطور انسان ہم سب برابر ہیں لیکن آپ مجھ سے بہتر ہیں ۔ آپ کام جانتے ہیں اور میں کام سیکھ رہا ہوں ۔ اب آ کر بیٹھ جایئے“۔
صدیقی صاحب بیٹھ گئے تو میں نے کہا ”آج کے بعد آپ نے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر نہیں کہنا ”صاحب ۔ میں اندر آ سکتا ہوں ؟“
وقت گذرتا گیا اور صدیقی صاحب میرے قریب ہوتے گئے ۔ کبھی کبھار کوئی خاص تکنیکی مشورہ لینا ہوتا یا دل بوجھل ہوتا تو میرے پاس آ جاتے اور ہنستے ہوئے کمرے سے نکلتے

محمد یار خان اور محمد عبدالعلیم صدیقی صاحبان کا ذکر ہوا تو مجھے ان کے ساتھی عصمت اللہ صاحب یاد آئے جو اسسٹنٹ فورمین تھے اور جب اوائل 1968ء میں دوبارہ ویپنز فیکٹری پہنچا تو فورمین ہو چکے تھے ۔ عصمت اللہ صاحب سے بڑے صاحب کسی وجہ سے ناراض ہو گئے اور اُنہیں میرے ماتحت بھیج دیا . دو سال قبل عصمت اللہ صاحب نے مجھے کہا تھا ”دو جماعت پڑھ کر آ جاتے ہیں ۔ پروڈکشن کا کام سیکھنے کیلئے ہاتھ کالے کرنا ہوتے ہیں اور کئی سال محنت کرناپڑتی ہے“۔
میں اَن سُنی کر کے جو کام اُن سے کہنا تھا کہہ کے آ گیا تھا ۔
چند ہفتے میرے ساتھ کام کرنے کے بعد مجھے کہنے لگے ” صاحب ۔ آپ کس کالج سے پڑھ کے آئے ہیں ؟“
میں نے مسکرا کر کہا ”جاہل ہوں ۔ اسلئے کہہ رہے ہیں ؟“
بولے ” نہیں صاحب ۔ یہ سارے جو افسر لوگ ہیں ۔ آپ ان میں سے نہیں ہیں ۔ اس کی وجہ تو کوئی ہونا چاہیئے“۔
میں نے کہا ” عصمت اللہ صاحب ۔ وہ بادشاہ لوگ ہیں ۔ میں اُن کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہوں“۔
کہنےلگے ” ایک بات بتائیں کہ محمد یار خان صاحب آپ کو اُستاد کیوں مانتے ہیں ؟“
میں کہا ”یہ اُن کی ذرہ نوازی ہے ۔ ویسے تو میں اُن کے بیٹے کے برابر ہوں“۔
بولے ”وہ الگ بات ہے ۔ چلیں چھوڑیں“ ۔
عصمت اللہ صاحب سچ گو اور اپنے کام کے ماہر تھے ۔ کام کے بارے میں بلاوجہ کا اعتراض برداشت نہیں کرتے تھے ۔ 1973ء میں ایک افسوسناک واقعہ کے بعد ریٹائرمنٹ لے کر کراچی چلے گئے ۔ جب بھی وہاں سے آتے مجھے ضرور ملتے

کچھ لطیفے زمانہ حال کے

بیوی واپس گھر میں داخل ہوتے ہی خاوند سے ”کار کے کاربُوریٹر میں پانی ہے”
خاوند ”کیا کہہ رہی ہو ۔ تمہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کاربُوریٹر ہوتا کیا ہے“۔
بیوی ”مجھ پر یقین کیوں نہیں کرتے ۔ میں کہہ رہی ہوں کاربُوریٹر میں پانی ہے“
خاوند ”میں خود دیکھتا ہوں ۔ کہاں ہے کار ؟“
بیوی ” پانی کے تالاب میں“

اُستاد ” زین ۔ پانی کا کیمیائی کُلیہ کیا ہے ؟“
زین ” ایچ آئی جے کے ایل ایم این او (H I J K L M N O)“۔
اُستاد ” یہ کیا بول رہے ہو ؟“
زین ” کل آپ ہی نے تو بتایا تھا ۔ ایچ ٹُو او (H2 O)“

اُستاد ایک 9 سالہ طالب علم سے ” ایسی ایک اہم چیز کا نام بتاؤ جو آج ہمارے پاس ہے لیکن 10 سال قبل نہیں تھی “
طالب علم ” میں “۔

اُستاد ایک چھوٹے سے لڑکے سے ” شہزاد ۔ تمارے کپڑے ہمیشہ میلے کیوں ہوتے ہیں ؟“
شہزاد ” کیونکہ میں آپ کی نسبت زمین کے بہت قریب ہوں“۔

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” “Afghanistan war not in our interests”, president Karzai “

میری کہانی 8 ۔ ذائقہ

میں ذائقہ گھی کی بات نہیں کر رہا اور نہ اُس ذائقہ کی جو ٹی وی کے اشتہاروں میں بہت بتایا جاتا ہے لیکن ہوتا نہیں ہے
بات ہے اُس ذائقہ کی جو آدمی کوئی چیز کھا کے از خود محسوس کرتا ہے ۔ جیسے برفی کا ذائقہ ۔ بیگن کا ذائقہ ۔ سیب کا ذائقہ وغیرہ وغیرہ ۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ذائقہ زبان بتاتی ہے اور میں بھی کم از کم ساڑھے 3 سال قبل تک یہی سمجھتا تھا ۔ مگر معلوم یہ ہوا کہ زبان تو صرف پیغام رسانی کا کام کرتی ہے جس طرح ٹیلیفون ۔ ٹیلیفون کیا جانے کہ بولنے والے نے کیا کہا اور سُننے والے نے کیا سمجھا ۔ وہ تو صرف ادھر سے پکڑتا ہے اور اُدھر پہنچا دیتا ہے ۔ اصل کام تو دماغ کرتا ہے جو آنے والے پیغام کا تجزیہ ایک ثانیئے (second) کی بھی کسر (fraction) میں کر کے بتاتا ہے کہ ذائقہ کیسا ہے اور اگر پہلے بھی وہ چیز چکھی ہو تو یہ بھی بتا دیتا ہے کہ فلاں چیز کا ذائقہ ہے ۔ دماغ یہ تجزیہ دو سگنل وصول ہونے پر کرتا ہے ایک زبان سے اور دوسرا سونگنے سے ۔ ساڑھے تین سال قبل میری سونگنے کی حس ختم ہو گئی تھی ۔ تب سے نہ خُوشبُو کا پتہ چلتا ہے نہ بد بُو یا کسی اور بُو کا

اگر دماغ کا متعلقہ حصہ کسی صدمے یا حادثے کے نتیجہ میں کام کرنا چھوڑ دے تو پھر انسان کو کدو کی ترکاری اور بیگن کی ترکاری میں کوئی فرق ذائقہ کے لحاظ سے پتہ نہیں چلتا

تو جناب ۔ بندے بشر پر اس حقیقت کا انکشاف اُس وقت ہو گیا جب اللہ کی عطا کردہ اس نعمت سے محروم ہو گیا ۔ جناب ۔ 28 ستمبر 2010ء کے حادثہ کے بعد جب میں بظاہر تندرست ہو گیا تو میں نے محسوس کیا کہ مجھے میٹھا ۔ نمکین اور مرچ والا کے سوا کسی کھانے میں کوئی فرق ذائقہ کے لحاظ سے محسوس نہیں ہوتا یہاں تک کہ ناشپاتی اور سیب کا ذائقہ بھی ایک جیسا ہی لگتا ہے ۔ بندے نے ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا تو اُس نے بتایا کہ حادثہ میں میرے سر کو جو شدید چوٹ لگی تھی اُس کے نتیجہ میں دماغ کا وہ حصہ درست کام نہیں کر رہا جو اس حِس کو کنٹرول کرتا ہے اور اسی وجہ سے ذائقہ کا بھی کچھ پتہ نہیں چلتا

انسان بڑا ناشکرا ہے ۔ بغیر کسی معاوضہ اور محنت کے اللہ کی انسان کو عطا کردہ نعمتوں میں سے کوئی چھِن جاتی ہے تو پھر انسان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ کتنی بڑی نعمت سے محروم ہو گیا ہے

اللہ مجھے اور سب کو توفیق دے کہ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ پسند کا حصول

کسی چیز یا کسی انسان کی اچھائی کیلئے شکرگذار اور قدر دان ہونا
انسان کی اپنی زندگی میں ایسی اور چیزوں کو کھینچ لاتا ہے
جو اُس کیلئے اہم ہوں یا جن کی وہ قدر کرتا ہو

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Angel Face and The Open Prison

بے نظیر ۔ بے مثال

اُس نے سُنانا شروع کیا تو میرا جسم جیسے سُن ہوتا گیا اور اُس کی آواز نے میرے دماغ کو مکمل طور پر قابو کر لیا ۔ جب تک وہ بولتا رہا میری آنکھوں سے موصلہ دار بارش جاری رہی ۔ میں کچھ نہیں کہہ سکتا کہ یہ آنسو اپنی حالت پر پشیمانی کے تھے یا اپنے گناہوں کی باری تعالٰی سے معافی کی عاجزانہ درخواست یا کچھ اور

قارئین شاید جانتے ہوں کہ سعودی عرب کا قانون یا رسم ہے کہ وقف جائیداد پر اسے وقف کرنے والے کا نام لکھا جاتا ہے ۔ لیکن ان حقائق سے بہت کم قاری واقف ہوں گے کہ
مدینہ منورہ کے ایک بنک میں عثمان ابن عفّان (رضی اللہ عنہ) کے نام کا کرنٹ اکاؤنٹ ہے
مدینہ منورہ کی میونسپلٹی میں عثمان ابن عفّان (رضی اللہ عنہ) کے نام کا جائیداد کا رجسٹر ہے اور اُن کے نام پراپرٹی ٹیکس ۔ بجلی ۔ پانی ۔ وغیرہ کے بل جاری ہوتے ہیں اور ادا بھی کئے جاتے ہیں
عثمان ابن عفّان (رضی اللہ عنہ) کے نام پر ایک عالی شان ہوٹل زیرِ تعمیر ہے

سوال یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ یہ کیسے ہوا یا ہو رہا ہے ؟ عثمان ابن عفّان رضی اللہ تو ساڑھے تیرہ سو سے زائد قبل (656ء میں) وفات پا گئے تھے

اکثر قارئین کنویں کا واقعہ تو سُن یا پڑھ چکے ہوں گے بہرحال میں مختصر طور پر دوہرا دیتا ہوں
جب رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے یثرب (مدینہ منورہ) پہنچے وہاں ایک ہی کنواں تھا جو ایک یہودی کی ملکیت تھا ۔ وہ یہودی پانی مسلمانوں کو بہت مہنگا فروخت کرتا تھا
رسول اللہ سیّدنا محمد ﷺ کی خدمت میں یہ بات پہنچائی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا ”کون ہے جو یہ کنواں خرید کر وقف کر دے گا ۔ اللہ اُسے جنت میں ایک چشمے سے نوازے گا“۔
عثمان ابن عفّان رضی اللہ نے اُس یہودی کے پاس جا کر کنواں خریدنے کیلئے منہ مانگی قیمت کی پیشکش کی ۔ وہ یہودی کسی صورت کنواں بیچنے پر راضی نہ ہوا تو کہا ”چلو آدھا کنواں بیچ دو یعنی ایک دن پانی تمہارا اور ایک دن میرا“۔
یہودی 4000 سکہ رائج الوقت کے عوض آدھا کنواں دینے پر راضی ہو گیا ۔ عثمان رضی اللہ نے ادائیگی کر کے اپنے دن کا پانی سب کیلئے بغیر معاوضہ کر دیا ۔ ہوا یہ کہ سب لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے دن کنویں سے پانی لینے لگے اور یہودی کے دن کوئی پانی نہ لیتا ۔ تنگ آ کر یہودی نے باقی کنواں بیچنے کا عندیہ دیا تو عثمان رضی اللہ عنہ نے مزید 4000 سکہ رائج الوقت کے عوض باقی آدھا کنواں بھی خرید لیا اور پھر روزانہ سب کو بغیر معاوضہ پانی ملنے لگا

اس کے بعد ایک یہودی نے عثمان رضی اللہ سے کہا ”میں تمہیں دو گنا رقم دیتا ہوں کنواں مجھے بیچ دو“۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا ”میرے پاس اس سے زیادہ کی پیشکش ہے“۔
یہودی نے کہا ”میں تمہیں تین گنا رقم دیتا ہوں “۔
عثمان رضی اللہ عنہ نے پھر کہا ”میرے پاس اس سے زیادہ کی پیشکش ہے“۔
یہودی نے کہا ”میں تمہیں چار گنا رقم دیتا ہوں “۔
عثمان رضی اللہ عنہ کا جواب پھر وہی تھا
یہودی نے پانچ گنا کہا
عثمان رضی اللہ عنہ کا جواب پھر وہی تھا
آخر یہودی نے کہا ”تمہارے پاس کتنی پیشکش ہے ؟“
تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا ”دس گنا کی“۔
یہودی بولا ”وہ کون ہے جو تمہیں دس گنا دینے کو تیار ہے ؟“
تو عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا ”میرا اللہ“۔

اس کنویں کے پانی سے لوگ پانی لیتے رہے اور ملحقہ زمین سیراب ہوتی رہی ۔ وقت گذرتا گیا ۔ اُس زمین پر کھجور کا ایک بڑا باغ بن گیا ۔ آخر خلافتِ عثمانیہ (1299ء تا 1922ء) کے زمانہ میں کنویں اور باغ کی دیکھ بال شہر کی میونسپلٹی کے حوالے کر دی گئی

انحراف کیلئے معذرت ۔ ایک اہم بات ہے کہ بنیادی قوانین کی ترویج دنیا میں پہلی بار عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہءِ خلافت میں شروع ہوئی اور خلافتِ عثمانیہ کے دوران مکمل ہوئی ۔ خلافتِ عثمانیہ کے زمانہ میں خلافت کے آئین اور بنیادی قوانین کو تحریری شکل میں نافذ کیا گیا

خیر ۔ آج تک عثمان رضی اللہ کی وقف کردہ املاک کا نظام مدینہ منورہ کی میونسپلٹی چلا رہی ہے ۔ اس باغ کی آمدن سے اتنی رقم جمع ہو گئی ہے کہ زمین کا ایک ٹکڑا خرید کر اس پر ایک عالی شان رہائشی ہوٹل بنایا جا رہا ہے جس کا نام عثمان ابن عفّان ہے

سُبحان اللہ ۔ آخرت میں تو دس گنا کا وعدہ ہے ہی اس دنیا میں بھی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے عثمان رضی اللہ عنہ کو کتنی عزت بخشی ہے ۔

ہے پوری دنیا میں اس کی کوئی نظیر یا مثال ؟
ایک ہم ہیں کہ اس فانی دنیا کے چھوٹے چھوٹے لالچوں میں گھرے ہیں
اللہ الرّحمٰن الرّحیم مجھے اپنے پیاروں کی راہ پر گامزن کرے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خود اعتمادی

خود اعتمادی اس سے نہیں آتی
کہ
جب آدمی کے پاس تمام سوالات کے جوابات موجود ہوں
بلکہ
اس سے آتی ہے
کہ
آدمی تمام سوالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہو

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” The War in New Phase“

سیاسی بصیرت کی ایک مثال

آج 23 مارچ ہے ۔ 74 سال قبل آج کی تاریخ ایک قرارداد لاہور کے اُس میدان میں پیش کی گئی تھی جہاں اب مینارِ پاکستان کھڑا ہے ۔ یہ قراداد پاکستان قائم ہونے کی طرف پہلا قدم ثابت ہوئی ۔ اُس زمانہ کے سیاستدانوں کی کامیا بی کا سبب کیا تھا ۔ اس سلسلے میں ایک کتاب
’’آزادی کی کہانی۔ میری زبانی‘‘ سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں ۔ یہ کتاب تحریک پاکستان کے عظیم رہنما سردار عبدالرب نشتر کی سوانح ہے جسے آغاز مسعود حسین نے تالیف کیا تھااور شاید 56۔1955ء میں شائع ہوئی

سردار عبدالرب نشتر قائد اعظم کے قریبی اور معتمد ساتھیوں میں سے تھے۔ وہ ماؤنٹ بیٹن کی عبوری کابینہ میں مسلم لیگ کے وزیر تھے اور بعدازاں قیام پاکستان کے بعد مرکزی کابینہ کے رکن اور پنجاب کے گورنر بھی رہے۔ اعلیٰ پائے کے مقرر، مخلص لیڈر اور صاف ستھرے انسان تھے۔ اسی لئے قائد اعظم انہیں پسند کرتے تھے۔ ان چند اقتباسات ہی کا مطالعہ ایک ذی شعور انسان کو سردار صاحب مر حوم کی بصیرت ، دور رس نگاہ اور دردمندی کی داد دینے پر مجبور کر دیتا ہے اور محسوس ہوتا جیسے موجودہ سیاستدان اور حکمران سردار صاحب کی قدآور شخصیت کے سامنے طفلان مکتب ہیں یا شاید طفلان مکتب بھی نہیں ۔ سردار صاحب نے جن خطرات کا اظہار 54/1953ء میں کیا تھا وہ بعد ازاں کس طرح صحیح اور سچ ثابت ہوئے اور ہماری کوتاہیوں نے کیا گل کھلائے

کتاب کے صفحہ نمبر 182 پرسردار صاحب فرماتے ہیں ”پاکستان میں ایک اور مرض قیام پاکستان کے بعد سے نمایاں ہوگیا ہے وہ تعصب کا مرض ہے۔ میں نے محسوس کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف صوبوں کے درمیان گہرے تعصبات موجود ہیں حالانکہ تعصب خالصتاً ہندو مزاج ہے۔ پاکستان ایک ملت ہے اور ایک ملت میں لسانی یا مذہبی تعصبات نہیں ہوتے۔ مشرقی پاکستان میں محرومی کااحساس بڑھ رہا ہے۔ انہیں شکایت ہے کہ بنگلہ زبان کو پاکستان کی واحد قومی زبان کیوں نہیں بنایا گیا لیکن ان کا یہ اعتراض غلط فہمی کا نتیجہ ہے۔ قائد اعظم نے اردو کو پاکستان کی قومی زبان اس لئے بنایا ہے کہ یہ دونوں بازوں کے درمیان رابطے کی اوربول چال کی زبان ہے۔ قائد اعظم نے نہ بنگلہ زبان کے استعمال اور لکھنے پڑھنے کو ممنوع قرار دیا ہے نہ اس کی حیثیت کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے قیام پاکستان کے لئے عظیم قربانیاں دی ہیں اور انہیں شکایت ہے کہ مغربی پاکستان ان کا معاشی استحصال کررہا ہے۔ مغربی پاکستان کے رہنمائوں کو ان سے فراخدلانہ سلوک کرنا چاہئے اور ان کی شکایتوں کا ازالہ کرنا چاہئے ، ان کے دلوں اور ذہنوں سے یہ احساس ختم کردینا چاہئے اگر مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان کے رہنما مل کر مشرقی پاکستان کے لوگوں کے ذہنوں سے ہر قسم کی مایوسیوں کو دور نہیں کرسکے تو ایک دن یہ خلیج طبعی اور جغرافیہ کی خلیج بن جائے گی۔ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم دونوں صوبوں کے درمیان محبتوں کے مضبوط پل تعمیر کریں تاکہ کوئی دشمن ہم دونوں کو جدا نہ کرسکے“۔

(یاد رہے کہ بنگالی مشرقی پاکستان کی سرکاری زبان جبکہ اردو کو پاکستان کی سرکاری زبان قرار دیا گیا تھا۔ یہ فیصلہ دستورساز اسمبلی کا تھا جسے بنگالی اراکین کی حمایت حاصل تھی۔ قائد اعظم دستور ساز اسمبلی کے فیصلے کی نمائندگی کرتے رہے اور حمایت کرتے رہے)

بدقسمتی سے سردار عبدالرب نشتر کی دردمندانہ تجاویز ، اندیشوں اور گزارشات پر عمل نہ کیا گیا اور پھر 1971ء میں پاکستان ٹوٹ گیا

سردار صاحب مرحوم مزید فرماتے ہیں”مغربی پاکستان کے چھوٹے صوبوں یعنی سرحد بلوچستان میں بھی معاشی ناہمواریوں کی شکایتیں پائی جاتی ہیں۔ ان صوبوں کے رہنمائوں کو پنجاب سے شکایت ہے کہ یہاں کی افسر شاہی چھوٹے صوبوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کرنے کو تیار نہیں۔ اس صوبے (پنجاب) کا مزاج جاگیردارانہ ہے۔ مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کے رہنماؤں کو آپس میں مل بیٹھ کر ایک متحدہ معاشی و سیاسی پروگرام بنانا چاہیئے تاکہ وہ ایک طرف جاگیرداروں اور افسر شاہی کے ملاپ کو کمزور کرسکیں تو دوسری طرف عوام کے اتحاد کو مضبوط بنائیں‘‘۔

جو نقشہ سردار صاحب نے ساٹھ برس قبل کھینچا تھا وہ صورتحال تقریباً آج بھی اسی طرح موجود ہے اور ہم مسلسل زوال اور انتشار کی راہ پر چل رہے ہیں۔ یوں تو سردار صاحب نے قومی زندگی کے سبھی شعبوں پر اظہار خیال کیا ہے جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہے لیکن آخر میں میں آپ کو اس کہانی کا فقط ایک کردار اور ایک منظر دکھا رہا ہوں جو نہایت دردناک اور عبرت ناک ہے۔ اس منظر میں بیان کئے گئے سردار صاحب کے خدشات کس طرح حقیقت بنے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائد اعظم کے ساتھی حالات کو سمجھنے ، بھانپنے اور مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت بدرجہ اتم رکھتے تھے کیونکہ وہ سیاستدان تھے، سیاسی جدوجہد نے ان کی سیاسی تربیت کی تھی، ان کے دل اقتدار اور دولت کی ہوس سے پاک تھے۔ یاد رکھئے کہ صرف وہ نگاہ دور رس ا ور دور بین ہوتی ہے جو ہر قسم کی ہوس سے پاک ہو، جس کے پیچھے روشن دماغ ہو اور خلوص نیت ہو

سردار صاحب مرحوم فرماتے ہیں کہ ”پاکستان بننے کے بعد پاکستان کی فوج پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے ا ن کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مغربی ممالک کے ساتھ دوستی اور خیر سگالی کے جذبات کو فروغ دیا ہے لیکن اپنی آزادی اور خود مختاری کی قیمت پر نہیں۔ پاکستان کی فوج کو بھی چاہیئے کہ وہ پاکستان کی سیاسی صورتحال کے پیش نظر اور یہ جانتے ہوئے کہ ان کے پڑوس میں بھارت ، افغانستان اور روس ہیں جن کے تعلقات روز اول ہی سے خراب ہیں۔ پاکستان کی فوج کو سیاست میں ملوث نہیں ہونا چاہئے ……. مجھے شبہ ہے کہ پاکستان کی بری فوج کے سربراہ ایوب خان سیاست میں دلچسپی لے رہے ہیں اور انہوں نے کئی جگہوں پر کہا ہے کہ پاکستان میں سویلین حکومت نہیں چلا سکتے۔ ایوب خان کی یہ سوچ نادانی پر مبنی ہے ، اسے معلوم نہیں کہ وہ آج جو کچھ بھی ہے محض پاکستان کی بدولت ہے۔ پاکستان عوام نے اپنے خون سے حاصل کیا ہے……. میرا خیال ہے کہ اگر پاکستان کی فوج نے کبھی بھی سیاست میں آنے کی کوشش کی تو اسی دن سے پاکستان کی فوج اور ملک کا زوال شروع ہوجائے گا۔ ملک کے پیچیدہ معاملات فوجی افسر نہیں چلا سکتے۔ ان کی تربیت زندگی کی شاہراہ پر نہیں ہوتی، وہ ایک مخصوص ماحول میں سویلین سے دور اپنی ذہنی اور جسمانی تربیت حاصل کرتے ہیں …….جس دن فوج سیاست میں داخل ہوگئی، بھارت اس سے فائدہ اٹھائے گا، فوج عوام کی نظروں میں بدنام ہوجائے گی، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ پاکستان کے ٹوٹنے کا عمل شروع ہوجائے گا……. میں تو اس تصوّر ہی سے ڈر جاتا ہوں کہ پاکستان کی فوج سیاست میں ملوث ہو………. فوج کا کام جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور سیاستدانوں کا کام نظریاتی و تہذیبی سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے ………. اگر کسی ایک نے دونوں کام اپنے ذمے لے لئے تو پھر وہ دونوں کام انجام نہیں دے سکے گا “۔

سردار صاحب نے پنجاب کے جاگیرداروں اور نوکر شاہی کے بارے میں جن خیالات کا اظہار کیا تھا وہ ساٹھ برس گزرنے کے بعد بھی جوں کے توں موجود ہیں۔ انہوں نے چھوٹے صوبوں کے احساس محرومی پر تشویش کا اظہار کیا تھا لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس پر توجہ نہیں دی یہ احساس محرومی آج بلوچستان میں استحکام پاکستان کے لئے ایک خطرہ بن چکا ہے۔ سردار صاحب نے فوجی جرنیلوں کے جن عزائم پر اضطراب اور خوف کا اظہار کیا تھا وہ 1958ء میں حقیقت بن گئے اور ایوب خان نے اقتدار پر قبضہ کرکے نہ ہی صرف فوجی مداخلتوں کا دروازہ کھول دیا بلکہ پاکستان کے ٹوٹنے کی بھی بنیاد رکھ دی ۔ آج تقریباً وہی صورتحال ہے جو سردار صاحب کی چشم تصور نے ساٹھ برس قبل دیکھی تھی اسے کہتے ہیں سیاسی بصیرت