Yearly Archives: 2014

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ بناؤ سنگار Cosmetics

اس بناؤ سنگار سے زندگی کو خوبصورت بنایئے
ہونٹوں کے لئے سچ
آنکھوں کے لئے رحم
ہاتھوں کیلئے خیرات
چہرے کے لئے مسکراہٹ
دل کے لئے پیار

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Gandhi &uplift of low caste “

ایک ہر فن مولا باس

وسط 1966ء میں مجھے مشین گن پروجیکٹ دے کر ابتدائی پلاننگ کا کہا گیا جو میں نے کی اور ستمبر تک ہر قسم کی منظوری پاکستان آرڈننس فیکٹریز بورڈ (پی او ایف بورڈ) سے لے لی ۔ اکتوبر میں اچانک ایک صاحب کو میرا باس بنا دیا گیا جنہیں ویپنز پروڈکش کا کچھ علم نہ تھا بلکہ شاید ویپنز فیکٹری کا کام کبھی دیکھا بھی نہ تھا ۔ وہ اپنے آپ کو ہر فن مولا سمجھتے تھے اور باتوں سے ثابت کرنے کی کوشش بھی کرتے تھے ۔ آج کسی اور واقعہ نے اُن کی یاد دلا دی ۔ سوچا کہ قارئین کی تفننِ طبع کیلئے متذکرہ باس کے چند معرکے بیان کئے جائیں

ڈھبریاں اور کابلے
ہم نومبر 1966ء میں جرمنی گئے ۔ کوٹیشنز طلب کرنا ۔ سپلائرز سے گفت و شنید کر کے درست مشینوں کا چناؤ اور قیمتیں کم کروانا ۔ تفصیلی مطالعہ کر کے مشین کا تکنیکی اور فنانشل موازنہ کا چارٹ بنانا ۔ مشین خریدنے کے جواز پر دلائل لکھنا ۔ یہ سب میرے ذمہ تھا ۔ باس صرف دستخط کرتے پھر میں سارا کیس پاکستان پی او ایف بورڈ کو بھیج دیتا

بڑی مہنگی مہنگی مشینیں خریدنے کے کیسوں پر باس نے بلا چوں و چرا دستخط کر دیئے ۔ ایک سستے سے ایکسینٹرِک (eccentric) پریس کے کیس پر باس نے اعتراض کیا ”سب سے سستا پریس کیوں چھوڑ دیا ہے ؟“ استفسار پر معلوم ہوا کہ کرینک (crank) پریس کی بات کر رہے تھے جس کی کوٹیش شاید غلطی سے کسی کمپنی نے بھیج دی تھی ۔ میں نے کہا ” ایکسینٹرِک پریس اور کرینک پریس کے کام میں فرق ہوتا ہے“ اور فرق سمجھانے کی کوشش بھی کی ۔ اس پر باس شور مچانے لگے اور بولے ”میں پریسز کی ڈھبریاں اور کابلے جانتا ہوں (I know nuts and bolts of presses)“۔ اُسی وقت ایک جرمن انجنیئر ہمارے کمرہ میں داخل ہوا تو اُس سے بولے ”یہ تمہارے دوست مسٹر بھوپال نے ایکسینٹرِک پریس اور کرینک پریس کو فرق فرق کر دیا ہے“۔ وہ جرمن بہت چالاک آدمی تھا بولا ” میں اس کا ماہر نہیں ہوں ۔ پریس شاپ کے فورمین سے جا کر پوچھتے ہیں“۔ وہاں پہنچ کر جونہی جرمن انجیئر نے بات کی اُس نے انجنیئر کو کھری کھری سنا دیں“۔ باس صورتِ حال بھانپ کر ہم سے پہلے ہی رفو چکر ہو گئے ۔ باس شاید صرف ڈھبریاں اور کابلے ہی جانتے تھے

انگلش کیک
ہم چند جرمن انجیئروں کے ہمراہ ٹرین میں ڈوسل ڈورف سے میونخ جا رہے تھے ۔ ٹرین میں کافی منگوائی گئی تو باس بولے میں چائے پیئوں گا ۔ ساتھ کھانے کیلئے مقامی کیک منگوایا گیا تھا ۔ باس کہنے لگے ”انگلش کیک جیسا کوئی نہیں ۔ میں انگلش کیک کھاؤں گا“۔ انگلش کیک خُشک ہوتا ہے ۔ مقامی کیک پر تھوڑی کریم اور کافی زیادہ پھل کا مربہ لگا ہوا تھا ۔ جرمنوں کو معلوم نہ تھا کہ انگلش کیک کیسا ہوتا ہے سو میں اور ایک جرمن انجنیئر جا کر انگلش لے آئے ۔ باس نے انگلش کیک کھانا شروع کیا تو گلے میں پھنس گیا ۔ باس کا بُرا حال ہوا ۔ بعد میں جرمن انجیئر کہنے لگا ”بلڈی انگلش کیک“۔

روک دو ۔ Stop it
ایک دن کسی ریسٹورینٹ میں بیٹھے باس ۔ دو جرمن انجنیئر اور میں چائے پی رہے تھے ۔ باس گویا ہوئے ”میرے ماتحت ورکشاپس میں ایک میں ایک ایکسٹرُوژن پریس (Extrusion Press) تھا ۔ ایک دن میں اُس ورکشاپ میں داخل ہوا ۔ ایکسٹرُوژن پریس چل رہی تھی ۔ میں نے دیکھتے ہی کہا ” روک دو “۔ اور پریس روک دیا گیا ۔ جرمن ہکّا بکّا باس کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ باس کچھ سانس لے کر بولے ”اگر پریس نہ روکا جاتا تو حادثہ ہو جاتا“۔ جرمن ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔ وجہ ظاہر ہے ۔ یہ تو بتایا نہ تھا کہ حادثہ کیوں ہو جاتا ۔ میں جانتا تھا کہ باس نے ساری زندگی کبھی کوئی مشین یا پریس کو نہیں چلایا تھا ۔ پھر باس کو کیسے معلوم ہوا کہ حادثہ ہو جائے گا ؟
اُسی ورکشاپ میں ایک ہاٹ رولنگ مِل تھی جسے اسسٹنٹ منیجر یا اُوپر کے افسروں میں سے صرف 3 نے چلایا تھا ۔ میں نے اور میرے ایک ساتھی نے 1963ء میں تربیت کے دوران ہاٹ رولنگ مِل کو چلایا تھا جس کیلئے پی او ایف کے ٹیکنیکل چیف سے اجازت لینا پڑی تھی ۔ تیسرا وہ اسسٹنٹ منیجر تھا جو برطانیہ سے اس کی تربیت لے کر آیا تھا ۔ وہ 1964ء کے آخر میں پی ایف کو خیرباد کہہ گیا تھا ۔ ہمیں ایکسٹرُوژن پریس چلانے کی اجازت نہیں ملی تھی

ایک اہم واقعہ
ابھی ہم جرمنی میں ہی تھے کہ ایک دن دفتر میں ایک خط کی آفس کاپی مجھے دے کر کہا ”اسے فائل کر دو“۔ وہ خط چیئرمین پی او ایف بورڈ کے خط کا جواب تھا ۔ باس نے 2 دن قبل خود ہی جواب لکھ کر ٹائپ کرا کے بھیج دیا تھا ۔ ساری ڈاک میں ہی پڑھتا اور جواب لکھتا تھا لیکن چیئرمین صاحب کا خط میں نے نہیں دیکھا تھا ۔ باس سے چیئرمین صاحب کا خط مانگ کر لیا ۔ جب پڑھا تو میں پریشان ہو گیا ۔ باس نے جو جواب لکھا تھا وہ درُست جواب کا اُلٹ تھا ۔ میں نے باس کو بتایا تو مجھ پر چیخنے لگے ۔ اسی اثناء میں سفارتخانے کے ٹیکنیکل اتاشی آ گئے جو ہفتہ میں 3 دن سفارتخانہ میں اور 3 دن ہمارے ساتھ کام کرتے تھے ۔ باس نے خط اورُ جواب اُنہیں دیا ۔ اُنہوں نے خط پڑھا اور بولے ”اجمل درست کہہ رہا ہے“۔ معاملہ سیکرٹ تھا اسلئے باس نے جی پی او جا کر خط کا جواب بذریعہ رجسٹری سفارتخانہ کو بھیجا تھا کہ ڈپلومیٹک بیگ میں پاکستان چلا جائے ۔ سفارتخانہ بون میں تھا اور ہم ڈوسلڈورف میں ۔ باس بہت پریشان بار بار کہہ رہے تھے ”اب کیا کریں ؟“ میں نے کہا ”سفارتخانہ سے بیگ جا چکا ۔ وائرلیس سسٹم غیر معینہ مدت کیلئے بند ہے ۔ آپ مجھ پر چھوڑ دیں ۔ اللہ کوئی صورت نکال دے گا“۔ میں قریبی چھوٹے ڈاکخانہ میں گیا اور ایک ایروگرام لے آیا ۔ اس پر اپنے قلم سے چیئرمین کے خط کا درست اور تفصیلی جواب لکھا ۔ پہلے اُوپر ایک ممبر پی ایف بورڈ کے نام لکھا”یہ خط ملتے ہی چیئرمین صاحب کو پہنچا دیں“۔ ایروگرام کے باہر ممبر پی او ایف بورڈ کا نام اور گھر کا پتہ لکھا ۔ عہدہ وغیرہ کچھ نہ لکھا اور عام ڈاک کے ذریعہ جی پی او جا کر پوسٹ کر دیا ۔ اگر رجسٹری کرتا تو پہنچنے میں 2 سے 4 دن زیادہ لگتے اور خط ہر ایک کی نظر سے گزرتا ۔ دوسرے دن باس بار بار پوچھتے رہے پھر شور مچانے لگے تو میں نے جو کیا تھا بتا دیا ۔ باس کرسی سے اُچھل پڑے اور میرے پیچھے پڑ گئے ۔ میں خاموش رہا ۔ پاکستان واپس آ کر فیکٹری گئے تو پہلے ہی روز باس بولے ”چلو میرے ساتھ“۔ ہم چیئرمین صاحب کے دفتر جا پہنچے ۔ چیئرمین صاحب سے کہنے لگے ”اس نے کی تھی وہ حرکت“۔ چیئرمین صاحب نے کہا ”کون سی ؟“ بولے ”وہ خط“۔ چیئرمین بولے ”اس نے بہترین راستہ اختیار کیا جو ان حالات میں محفوظ بھی تھا“۔ پھر چیئرمین صاحب مجھ سے مخاطب ہو کر بولے ”جائیں جا کے اپنا کام کریں“۔

سوت کا کٹ
پاکستان آنے کے بعد 1968ء میں ایک ملنگ (Milling) مشین کی ضرورت تھی ۔ باس مجھے اپنے گورو کے پاس لے گئے جو کئی سال قبل پی او ایف چھوڑ گیا تھا ۔ چند نجی کمپنیوں سے نکالے جانے کے بعد بے روزگار تھا تو یاروں نے اُسے کنٹریکٹ پر پی او ایف میں بطور ایڈوازر بھرتی کروا لیا تھا ۔ گورو بولے ”فلاں ورکشاپ میں درجنوں ملنگ مشینیں بیکار پڑی ہیں ۔ اُن میں سے لے لیں“ ۔ میں اس ورکشاپ کو کو کئی بار دیکھ چکا تھا ۔ میں نے کہا ”وہ مشینیں بہت ہلکے کام کیلئے ہیں ۔ مطلوبہ کام نہیں کر سکتیں“۔ گورو بولے ”آپ ابھی بچے ہیں ۔ میں اپنے زمانے میں اُن مشینوں پر ایک سوت کا کٹ (cut) لگواتا رہا ہوں“ (سوت اِنچ کا آٹھواں حصہ ہوتا ہے)۔ میں نے کہا ” از راہِ کرم ساتھ جا کر مجھے ایسی مشین دکھا دیجئے“۔ دوسرے دن میں باس اور گورو اُس ورکشاپ میں گئے ۔ مستری کو بُلایا ۔ گورو نے اُسے کہا ”میٹریل اس مشین پر باندھو اور ایک سوت کا کٹ لگاؤ ۔ مستری اُچھل پڑا اور بولا ”آپ کیا کہہ رہے ہیں ۔ مشین برباد کروائیں گے ۔ اس ورکشاپ میں کسی مشین پر چوتھائی سوت بھی نہیں کاٹا جا سکتا“۔ باس اور گورو دُم دبا کر بھاگ لئے

جہادِ کشمیر
باس کئی بار مجھے کہہ چکے تھے ”تم نے کشمیر کیلئے کیا کیا ؟ میں نے کشمیر کے جہاد میں حصہ لیا“۔ میں نے 1947ء میں تیسری جماعت کا امتحان پاس کیا تھا ۔ میں سوچتا کہ باس اُن دنوں کالج میں ہوں گے ۔ ایک دن باس حسبِ معمول محفل جمائے اپنے کچھ اور معرکے بیان کر رہے تھے کہ اُن کے ایک ہم عصر نے پوچھا ”آپ بندوق چلانا جانتے ہیں ؟“ بولے ”نہیں“۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ باس نے جہاد کیسے کیا ہو گا ۔ آخر ایک دن جب باس بہت چہچہا رہے تھے مجھے دیکھ کر جہادِ کشمیر کی بات کی تو میں نے پوچھا ”آپ نے آزاد کشمیر کے کس علاقے میں جہاد کیا تھا ؟“ باس جواب گول کر کے کوئی اور قصہ سنانے لگے ۔ مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ 1947ء میں باس انجنیئرنگ کالج فرسٹ ایئر میں تھے ۔ تھوڑی دیر بعد میں نے کہا ”جہاد کی وجہ سے آپ نے پڑھائی کے ایک سال کی قربانی دی“۔ بولے ”میں واپس آیا تو امتحان ہو چکے تھے ۔ مجھے استثنٰی دے کر سیکنڈ ایئر میں بٹھا دیا تھا“۔ یہ بات ماننے والی نہ تھی لیکن باس تھے اور باس ہمیشہ درست ہوتا ہے اسلئے خاموش رہا

100 دن چور کا ۔ ۔ ۔ بالآخر ؟

آج ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین جو کہ برطانیہ کے شہری ہیں کو سکاٹ لینڈ یارڈ نے لندن میں منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار کر لیا گیا ۔ 4 کیسوں کی تحقیقات جاری تھیں ۔ ان میں عمران فاروق کا قتل اور پاکستان حکومت کے خلاف نفرت (شر) انگیز تقریر بھی شامل ہیں
خبر یہ بھی ہے کہ الطاف حسین کو آج سے قبل گرفتار کیا گیا تھا لیکن اعلان آج کیا گیا ہے

غیرمطمئن قوم

انڈا ٹوٹنے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ
اگر انڈا باہر سے لگائی گئی طاقت سے ٹوٹے تو ایک ممکنہ زندگی ضائع ہو جاتی ہے
اگر انڈا اندر سے لگائی گئی طاقت سے ٹوٹے تو ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے
یعنی صحتمند تبدیلی اندر سے جنم لیتی ہے

ہمارا یہ حال ہے کہ خود تو بدلتے نہیں ساری دنیا کو بدلنے کے نعرے لگاتے ہیں اور اسی بہانے سڑکوں اور چوراہوں پر کھڑے ہو کر جن کی بہتری کے دعوے کرتے ہیں اُنہی کیلئے زحمت کا سبب بنتے ہیں اور بعض اوقات اپنی طاقت کا غلط استعمال کرتے ہوئے املاک کو نقصان پہنچا کر عوام پر مالی بوجھ میں اضافے کا سبب بنتے ہیں

دوسری طرف ہمارا یہ حال ہے کہ کیسا بھی ماحول ہو ہم کبھی اس سے مطمئن یا خوش نہیں ہوتے یعنی روتے رہنا ہماری عادت بن چکی ہے
گیلپ انٹرنیشنل نے دنیا بھرمیں خوش رہنے والے ممالک کی فہرست جاری کی ہے ۔ 138 قوموں میں سے پہلی 10 خوش رہنے والی اقوام میں سے 9 کا تعلق لاطینی امریکا سے ہے ۔ متحدہ عرب امارات کا 15واں، کینیڈا کا 16واں، آسٹریلیا کا 18واں، دنیا میں سب سے زیادہ خوش سمجھے جانے والے امریکیوں کا 24واں اور چین کا 31 واں نمبر ہے اور پاکستان کا 117 نمبر ہے

یہ سوالات پوچھے گئے تھے کل دنیا کی بنیاد پر جتنوں نے ان سوالات کے جواب ہاں میں دیئے وہ سامنے لکھے ہیں
1 ۔ کیا کل آپ نے اپنے آپ کو آرام میں پایا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 72 فیصد
2 ۔ کیا کل آپ سے اچھا سلوک کیا گیا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 فیصد
3 ۔ کیا کل آپ نے کچھ سیکھا یا کوئی دلچسپ کام کیا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 43 فیصد
4 ۔ کیا ان چیزوں کا احساس آپ کو کل کے اکثر حصہ میں ہوا ؟ ۔ ۔ 73 فیصد
5 ۔ پُر لُطف کیا تھا ؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 72 فیصد

زندگی کی مثبت سوچ رکھنے والوں میں سرِ فہرست مندرجہ ذیل 10 ممالک ہیں
۔ ۔ نام ملک ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں کہنے والے ۔ ۔ ۔ ۔ نام ملک ۔ ۔ ۔ ۔ ہاں کہنے والے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نام ملک ۔ ۔ ہاں کہنے والے
1 ۔ پاناما ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 85 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2 ۔ پراگوئے ۔ ۔ ۔ ۔ 85 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 3 ۔ السالوے ڈور ۔ 84 فیصد
4 ۔ وینزولا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 84 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 5 ۔ ترِینِیداد و توبَیگو ۔ ۔ ۔ 83 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 6 ۔ تھائی لینڈ ۔ ۔ ۔ ۔ 83 فیصد
7 ۔ گوآٹے مالا ۔ ۔ 82 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 8 ۔ فِلِیپِینز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 82 فیصد ۔ ۔ ۔ ۔ 9 ۔ اِیکوے ڈور ۔ ۔ ۔ ۔ 81 فیصد
10 ۔ کوسٹا رِکا۔ ۔ 81 فیصد

پاکستان ۔ ۔ ۔ 36 فیصد

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خوشی

زندگی کی خوشی کا انحصار سوچ کے معیار پر ہے

دماغ اتنا بالغ نہیں ہوتا کہ اُسے اُس کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے خواب پورے ہوں تو زیادہ مت سویئے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Martin Luther King & Gandhi “

مذہب اور عصر

اسلام کی عظمت صرف یہی نہیں ہے کہ وہ اللہ کا آخری پیغام ہے بلکہ اس کی عظمت یہ بھی ہے کہ اسلام بیک وقت قدیم بھی ہے اور جدید بھی۔ اس کے قدیم ہونے کے معنی یہ ہیں کہ اس کے عقائد ازلی و ابدی ہیں ۔ اس کی عبادات کا نظام مستقل ہے اور اس کا اخلاقی بندوبست دائمی ہے

اس کے جدید ہونے کا مفہوم یہ ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے زمانے یعنی اپنے عصر سے متعلق رہتا ہے۔ اس کے مسائل و معاملات پر نگاہ رکھتا ہے ۔ اس کے چیلنجوں کا جواب دیتا ہے اور اس طرح اپنے پیروکاروں کو ایمان و یقین کی دولت سے کبھی محروم نہیں ہونے دیتا۔ اسلام دائمی طور پر زمانوں کے درمیان پُل کا کام انجام دیتا رہتا ہے۔ چنانچہ اسلام کے دائرے میں ایک زمانہ دوسرے زمانے سے متصل منسلک اور مربوط رہتا ہے اور زمانی تسلسل برقرار رہتا ہے۔ یوں اسلام کی فکری کائنات میں قدیم اور جدید کے درمیان خلیج حائل نہیں ہوتی

کہنے کو عیسائیت بھی ایک الہامی مذہب ہے لیکن عیسائیت نہ اپنے عقائد کو اصل حالت میں محفوظ رکھ سکی ۔ نہ اس کے دائرے میں عبادات کا نظام اپنی حقیقی صورت میں باقی رہا اور نہ ہی عیسائیت ایک وقت کے بعد خود کو عصر سے مربوط کر سکی ۔ نتیجہ یہ کہ عصر سے عیسائیت کا تعلق ٹوٹ کر رہ گیا۔ عیسائیت کی تاریخ میں جدید و قدیم کے درمیان خلیج حائل ہو گئی اور عیسائیت ماضی کی چیز بن کر رہ گئی۔ عیسائیت نے اپنی تاریخ کے ایک مرحلے پر اسلامی علوم سے زبردست فائدہ اٹھایا۔ امام عزالیؒ نے عیسائیت کے علم کلام پر گہرے اثرات مرتب کئے۔ ابن رُشد مغرب میں مستقل حوالہ بن کر رہ گئی

مسلم سائنسدانوں کے نظریات ڈیڑھ دو صدی تک مغرب کی جامعات میں پڑھائے جاتے رہے۔ اس صورت حال کا مفہوم یہ ہے کہ عیسائیت نے اسلامی فکر سے استفادہ کر کے خود کو عصر سے مربوط کیا۔ خود کو اس کے چیلنجوں کا جواب دینے کے قابل بنایا لیکن مغرب میں جدید علوم بالخصوص سائنس کا آغاز ہوا تو عیسائیت ان کے ساتھ صحت مند تعلق استوار کرنے میں ناکام ہو گئی۔ ابتدا میں چرچ نے جدید سائنسی نظریات کو کفر قرار دے کر مسترد کر دیا۔ کئی سائنس دانوں کو کافرانہ فکر رکھنے کے الزام میں زندہ جلا دیا گیا۔ لیکن جدید علوم کا سفر جاری رہا اور انہیں عوام میں پذیرائی حاصل ہونے لگی تو عیسائیت نے اپنا رویہ یکسر تبدیل کر لیا۔ عیسائیت نے اپنے عقائد کو سائنسی نظریات کے مطابق بنانا شروع کر دیا اور اس طرح ایک انتہا سے دوسری انتہا کی طرف نکل گئی۔ اگر چہ یہ عیسائیت کی جانب سے خود کو عصر سے مربوط کرنے کی کوشش تھی مگر یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی بلکہ اس سے عیسائیت کے وقار اور عظمت کو ناقابل تلافی
نقصان پہنچا ۔ یہاں تک کہ جدید فکر نے عیسائیت کو یکسر رد کر دیا اور عصر سے عیسائیت کا تعلق ٹوٹ کر رہ گیا

ہندو ازم دنیا کے بڑے مذاہب میں سے ایک ہے۔ اس کی تاریخ 6000 سال پرانی ہے۔ ہندوﺅں کی مقدس کتابوں ویدوں، مہابھارت اور گیتا میں الہامی شان ہے۔ ہندو ازم کے پاس ایک خدا کا تصور ہی، رسالت کا تصور ہے۔جنت، دوزخ کا تصور ہے۔ لیکن ہندو ازم کی گزشتہ ایک ہزار
سال کی تاریخ ہمارے سامنے ہے۔ ہندو ازم اس طویل مدت میں خود کو عصر سے مربوط نہیں کر سکا۔ مسلمانوں نے بھارت پر ایک ہزار سال حکومت کی اور اس عرصے میں ہندو ازم اسلامی تہذیب کے اثرات قبول کرتا رہا۔ مسلمانوں کے بعد انگریز آگئے اور 200 سال تک بھارت پر راج کرتے رہے۔ اس عرصے میں ہندوﺅں کے موثر طبقات کی کوشش یہ رہی کہ وہ جہاں تک ممکن ہو سکے خود کو مغربی تہذیب اور قانون و سیاست سے ہم آہنگ کرتے رہیں

راجہ رام موہن رائے ہندوﺅں کے سرسید تھے مگر راجہ رام موہن رائے کی تحریک سرسید کے مقابلے میں بہت زیادہ کامیاب ہوئی۔ ہندو راجہ رام موہن رائے اور ان جیسے لوگوں کی تحریکوں کے زیر اثر زیادہ سے زیادہ جدید ہوتے گئے مگر اس جدیدیت کا ہندو ازم کے بنیادی تصورات سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ہندو ازم کوئی اور چیز تھا اور جدیدیت کوئی اور شے

مسلمانوں کی تاریخ میں عصر کا سوال سب سے پہلے امام غزالیؒ کے زمانے میں اٹھا۔ اس زمانے میں یونانی علوم مسلمانوں میں تیزی کے ساتھ پھیل رہے تھے اور سوال پیدا ہو رہا تھا کہ ان علوم کا مسلمانوں کے بنیادی عقائد سے کیا تعلق ہے ؟ امام غزالیؒ نے تن تنہا اس سوال کا جواب دیا۔ اس سلسلے میں انہوں نے یہ طریقہ کار اختیار کیا کہ یونانی علوم پر انہی کے اصولوں کی روشنی میں تنقید لکھی اور ان علوم کے داخلی تضادات کو نمایاں کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی غزالیؒ نے یہ بھی دکھا دیا کہ ان علوم کا مسلمانوں کے بنیادی اصولوں سے کیا تعلق ہے ؟ غزالی کی تنقید نے مسلمانوں کو یونانی علوم کے اثرات سے محفوظ کر دیا

مسلمانوں کی تاریخ میں زمانہ یا عصر کا سوال دوسری مرتبہ اُنیسویں اور بیسویں صدی میں اہم بن کر سامنے آیا۔ برصغیر میں اقبال پہلی شخصیت تھے جو اس سوال سے نبرد آزما ہوئے۔ انہوں نے اپنی بے مثال شاعری میں اس سوال کی جزیات تک کو کھول کر بیان کر دیا اور بتا دیا کہ اسلام کا جواب اس سلسلے میں کیا ہے ؟ اقبال عصر کے چیلنج سے گھبرائے نہیں بلکہ انہوں نے چیلنج سے قوت کشِید کی اور اسے اپنے لئے قوتِ محرکہ بنا لیا۔ چنانچہ انہوں نے فرمایا

مسلماں کو مسلماں کر دیا طوفانِ مغرب نے
تلاطم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی

اقبال نے جو کام شاعری میں کیا مولانا مودودیؒ نے وہی کام نثر میں کیا۔ اس طرح کے کاموں میں شاعری پر نثر کو یہ فوقیت حاصل ہے کہ اس میں بات کو زیادہ کھول کر بیان کیا جا سکتا ہے۔ اور اسے زیادہ سے زیادہ دلائل سے آراستہ کیا جا سکتا ہے۔ اقبالؒ اور مولانا مودودیؒ کے کام کی اہمیت یہ ہے کہ ان کے کام کی روشنی میں اسلام بیسویں صدی میں اسی طرح متعلق (relevant) نظر آیا جس طرح غزالیؒ یا ان سے پہلے کے زمانے میں تھا

اس کام کی اہمیت دوسرے مذاہب کی تاریخ کی روشنی میں نمایاں ہو کر سامنے آتی ہے جنہوں نے یا تو عصر کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے یا اس کی طرف پیٹھ کر کے کھڑے ہوگئے۔ ظاہر ہے یہ دونوں مثالیں عصر کے ہاتھوں مذہب کی شکست کی مثالیں ہیں

تحریر ۔ شاہ نواز فاروقی
یہ تحریر میں نے اخبار جسارت میں پڑھی تھی لیکن وہاں سے ہٹا دی گئی ہے اور اب یہاں موجود ہے