کرنل عبدامجید کے بھائی جموں میں ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ تھے ۔ نومبر 1947ء کے وسط میں وہ چھاؤنی آئے اور بتایا کہ” شیخ محمد عبداللہ کو وزیراعظم بنا دیا گیا ہے اور اُمید ہے کہ امن ہو جائے گا ۔ جموں کے تمام مسلمانوں کے مکان لوٹے جاچکے ہیں اور تمام علاقہ ویران پڑا ہے” ۔ واپس جا کر انہوں نے کچھ دالیں چاول اور آٹا وغیرہ بھی بھجوا دیا ۔ چار ہفتہ بعد ایک جیپ آئی اور ہمارے خاندان کے 6 بچوں یعنی میں ۔ میری 2 بہنیں ۔ 2 کزنز اور پھوپھی کو جموں شہر میں کرنل ریٹائرڈ پیر محمد کے گھر لے گئی ۔ وہاں قیام کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ 6 نومبر کو مسلمانوں کے قافلے کے قتل عام کے بعد خون سے بھری ہوئی بسیں چھاؤنی کے قریب والی نہر میں دھوئی گئی تھیں ۔ اسی وجہ سے ہم نے نہر میں خون اور خون کے لوتھڑے دیکھے تھے ۔ مسلمانوں کے قتل کا منصوبہ انتہائی خفیہ رکھا گیا تھا اور نیشنل کانفرنس کے مسلمانوں کے عِلم میں بھی وقوعہ کے بعد آیا ۔ وہاں کچھ دن قیام کے بعد ہمیں دوسرے لاوارث اور زخمی عورتوں اور بچوں کے ساتھ مدراسی فوجیوں کی حفاظت میں 18دسمبر 1947ء کو سیالکوٹ پاکستان بھیج دیا گیا ۔
میں لکھ چکا ہوں کہ میرے والدین فلسطین میں تھے اور ہم دادا ۔ دادی اور پھوپھی کے پاس تھے ۔ میرے دادا ۔ دادی اور پھوپھی بھِیڑ بھاڑ سے گبھرانے والے لوگ تھے اِس لئے انہوں نے پہلے 2 دن کے قافلوں میں روانہ ہونے کی کوشش نہ کی ۔ جو عزیز و اقارب پہلے 2 دن کے قافلوں میں روانہ ہوئے ان میں سے ایک بھی زندہ نہ بچا
ہمارے بغیر ڈھائی ماہ میں ہمارے بزرگوں کی جو ذہنی کیفیت ہوئی اُس کا اندازہ اِس سے لگائیے کہ جب ہماری بس سیالکوٹ چھاؤنی آ کر کھڑی ہوئی تو میری بہنوں اور اپنے بچوں کے نام لے کر میری چچی میری بہن سے پوچھتی ہیں “بیٹی تم نے ان کو تو نہیں دیکھا” ۔ میری بہن نے کہا “چچی جان میں ہی ہوں آپ کی بھتیجی اور باقی سب بھی میرے ساتھ ہیں”۔ لیکن چچی نے پھر وہی سوال دہرایا ۔ ہم جلدی سے بس سے اتر کر چچی اور پھوپھی سے لپٹ گئے ۔ پہلے تو وہ دونوں حیران ہوکر بولیں ” آپ لوگ کون ہیں ؟ ” پھر ایک ایک کا سر پکڑ کر کچھ دیر چہرے دیکھنے کے بعد اُن کی آنکھوں سے آبشاریں پھوٹ پڑیں ۔
پاکستان پہنچ کر ہمیں معلوم ہوا کہ ہمارے دادا کا جوان بھتیجا جموں میں گھر کی چھت پر بھارتی فوجی کی گولی سے شہید ہوا ۔ باقی عزیز و اقارب 6 نومبر کے قافلہ میں گئے تھے اور آج تک اُن کی کوئی خبر نہیں ۔ جب ہمارے بزرگ ابھی پولیس لائینز جموں میں تھے تو چند مسلمان جو 6 نومبر کے قافلہ میں گئے تھے وہ چھپتے چھپاتے کسی طرح 7 نومبر کو فجر کے وقت پولیس لائینز پہنچے اور قتل عام کا حال بتایا ۔ یہ خبر جلد ہی سب تک پہنچ گئی اور ہزاروں لوگ جو بسوں میں سوار ہو چکے تھے نیچے اتر آئے ۔ وہاں مسلم کانفرنس کے ایک لیڈر کیپٹن ریٹائرڈ نصیرالدین موجود تھے انہوں نے وہاں کھڑے سرکاری اہلکاروں کو مخاطب کر کے بلند آواز میں کہا “پولیس لائینز کی چھت پر مشین گنیں فِٹ ہیں اور آپ کے فوجی بھی مستعد کھڑے ہیں انہیں حُکم دیں کہ فائر کھول دیں اور ہم سب کو یہیں پر ہلاک کر دیں ہمیں بسوں میں بٹھا کے جنگلوں میں لے جا کر قتل کرنے سے بہتر ہے کہ ہمیں یہیں قتل کر دیا جائے اس طرح آپ کو زحمت بھی نہیں ہو گی اور آپ کا پٹرول بھی بچےگا ” ۔ چنانچہ 7 اور 8 نومبر کو کوئی قافلہ نہ گیا ۔ اسی دوران شیخ عبداللہ جو نیشنل کانفرنس کا صدر تھا کو جیل سے نکال کر وزیراعظم بنا دیا گیا ۔ اس نے نابھہ اور پٹیالہ کے فوجیوں کو شہروں سے ہٹا کر ان کی جگہ مدراسی فوجیوں کو لگایا جو مسلمان کے قتل کو ہم وطن کا قتل سمجھتے تھے ۔ میرے دادا ۔ دادی ۔ پھوپھی اور خاندان کے باقی بچے ہوئے تین لوگ 9 نومبر 1947ء کے قافلہ میں سیالکوٹ چھاؤنی کے پاس پاکستان کی سرحد تک پہنچے ۔ بسوں سے اتر کر پیدل سرحد پار کی اور ضروری کاروائی کے بعد وہ وہاں سے سیالکوٹ شہر چلے گئے ۔