میرے 2 بیٹے اور ایک بیٹی ہے
مجھے طعنہ دیا جاتا ہے
”اپنے بچے مُلک سے باہر بھیج دیئے ہیں اور دوسروں کو نصیحت کرتا ہے“۔
ایک دو ایسے بھی ہیں جنہوں نے مجھے منافق کہا
”اپنے بچے مُلک سے باہر بھیج دیئے ہیں اور دوسروں کو نصیحت کرتا ہے“۔
ایک دو ایسے بھی ہیں جنہوں نے مجھے منافق کہا
میں نے کسی کو ملک سے باہر جانے سے منع نہیں کیا ۔ صرف محبِ وطن بننے کی تلقین کرتا ہوں جو ملک سے باہر رہ کر بھی ہو سکتا ہے
سوال یہ ہے کہ ”کیا روزی کمانے کیلئے مُلک سے باہر جانے والا آدمی محبِ وطن نہیں رہتا ؟“
دوسری بات کہ ہمارے ہاں اُوپر سے لے کر نیچے تک الزامات لگانے کو شاید اعلیٰ تعلیمی اور عقلی معیار سمجھا جانے لگا ہے ۔ اب تو کچھ ایسا احساس بیدار کیا گیا ہے کہ حُب الوطنی کا ثبوت دوسرے پر الزامات لگانا ہے
کبھی کسی نے کوشش نہیں کی کہ الزام لگانے سے پہلے کچھ حقائق معلوم کر لے
۔سیانے کہتے ہیں کہ دوسرے کو بُرا کہنے سے قبل سوچو کیونکہ ہو سکتا ہے دوسرا عملی طور پر آپ سے بہتر ہو
میرے بڑے بیٹے زکریا نے ایف ایس سی (ہائرسیکنڈری) کے امتحان میں میرٹ سکالرشپ حاصل کیا پھر انجنیئرنگ یونیورسٹی لاہور میں چاروں سال اوّل رہا ۔ قائد اعظم سکالرشپ اوّل آنے والے کو ملتا ہے ۔ یہ سکالرشپ صوبہ سندھ کے رہائشی کو دیا گیا جو کسی امتحان میں اوّل نہیں آیاتھا البتہ اُس کے میٹرک کے امتحان میں زکریا سے زیادہ نمبر تھے ۔ (بینظیر بھٹو کا دورِ حکومت 19 اکتوبر 1993ء تا 5 نومبر 1996ء)
اُس نے ایک سال تک سکالرشپ سے فائدہ حاصل نہ کیا ۔ زکریا نے اُس کو ٹیلیفون کیا۔ وہ زکریا کے ساتھ بہت بُری طرح پیش آیا اور یہاں تک کہا ”میں شکالرشپ سے مستفید ہوں یا اسے ضائع کر دوں ۔ میری مرضی ۔ تُم کون ہوتے ہو ۔ تُم نے مجھے ٹیلیفون کرنے کی جُراءت کیسے کی“۔ اور پھر وہ سکالرشپ ضائع ہو گیا
ایس اینڈ ٹی سکالرشپ آیا تو زکریا کے آجر (employer) نے اس پر سفارش لکھ کر واپس کرنے کی بجائے فارم ہی غائب کر دیا ۔ رابطہ کرنے پر کہا کہ ”ہم خود ایک سال کے اندر پی ایچ ڈی انجنیئرنگ کیلئے امریکہ بھیجیں گے ۔ امریکہ کی معیاری یونیورسٹی میں داخلہ لے لو ۔ جو خرچہ ہو گا ہم دے دیں گے“۔ زکریا نے داخلہ لے لیا جس پر 34000 روپے خرچ ہوئے جو ضائع گئے کیونکہ 3 سال تک نہ بھیجا گیا جبکہ ایرے غیرے بھیجے جاتے رہے ۔ زکریا نے کہا کہ ”مجھے آپ فارغ کر دیں ۔ میں مزید ملازمت نہیں کرنا چاہتا“ تو فٹا فٹ سکالرشپ پر ایم ایس انجنیئرنگ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کر دیا ۔ میں نے سربراہ ادارہ (کراچی کے رہائشی) سے رابطہ کیا جس نے میرے بہنوئی (جو اُن دنوں ممبر پی او ایف بورڈ تھے) کی وساطت سے میری منّت سماجت کی تھی کہ زکریا کو اس ادارے میں ملازمت کا مشورہ دو ں اور وہ اُسے ایک سال کے اندر پی ایچ ڈی انجنیئرنگ کیلئے بھیجیں گے ۔ اُس نے بتایا کہ ”کچھ رولز آڑے آ گئے ہیں ۔ زکریا کے ایم ایس کر کے آنے کے ایک سال بعد اُسے پی ایچ ڈی کیلئے بھیج دیں گے“۔
دوبارہ داخلے کیلئے درخواستیں بھیجیں ۔ محکمہ نے پہلے والا 34000 روپیہ نہ دیا ۔ دوسری بار کے اخراجات اور 3 ماہ کا تعلیمی خرچہ دے کر ستمبر 1997ء میں امریکہ بھیج دیا اور کہا کہ ہر 3 ماہ بعد خرچہ بھیج دیا جائے گا لیکن اس کے بعد ایک پیسہ بھی نہ بھیجا ۔ زکریا دسمبر 1997ء سے جون 1998ء تک بار بار ای میلز بھیجتا رہا مگر کوئی جواب نہ دیا گیا ۔ زکریا مالی اور ذہنی پریشانیوں میں مبتلاء رہا اور تنگ آ کر جون 1998ء میں مستعفی ہو گیا ۔ اُس وقت تک وہ عارضی ملازمت پر تھا ۔ اس کے 2 سال 3 ماہ بعد یعنی ستمبر 2000ء میں حادثاتی طور پر مجھے معلوم ہوا کہ محکمہ نے جولائی 2000ء میں زکریا کے خلاف راولپنڈی کی عدالت میں دعویٰ دائر کیا ہوا تھا جبکہ ادارے کو معلوم تھا کہ ہم اسلام آباد میں رہتے ہیں ۔ بیلف کو شاید پیسے کھلا کر اس کے سمن ہم تک نہ پہنچنے دیئے گئے تھے ۔ میں اگلی پیشی پر عدالت پہنچ گیا ۔ دعوے کی نقل ملنے پر معلوم ہوا کہ زکریا سے دیئے گئے پیسے واپس مانگنے کے علاوہ 50 لاکھ ڈالر ہرجانہ مانگا گیا ہے ۔ راولپنڈی کچہری ہمارے گھر (اسلام آباد) سے 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے اور راستہ میں ٹریفک بہت ہوتا ہے اسلئے کچہری کے چکروں سے بچنے کیلئے میں نے لکھ کر دے دیا کہ ”وصول کی ہوئی رقم ہم واپس کرنے کو تیار ہیں مگر جرمانہ بے بنیاد ہے“ ۔ اس کے بعد میں ہر ماہ تاریخ پر حاضر ہوتا رہا لیکن ادارے والوں کی طرف سے اوّل کوئی حاضر نہ ہوتا اور حاضری لازمی ہو جانے پر کوئی انٹ شنٹ درخواست جمع کرا دی جاتی ۔ ڈھائی تین سال بعد جج تبدیل ہو جاتا تو پھر پہلے والی گردان دہرائی جاتی ۔ آخر 2010ء میں جج نے فیصلہ کر دیا کہ ”صرف لیا ہوا پیسہ واپس کیا جائے“۔ جو ہم نے بڑی مشکل سے 4 ماہانہ اقساط میں ادا کیا
جو آدمی مقروض ہو گیا ہو اور اس کے پاس واپسی کے ٹکٹ کے پیسے بھی نہ ہوں اور باپ بھی ریٹائر ہو چکا ہو وہ اس کے سوا کیا کر سکتا ہے کہ جہاں ہے وہاں اگر اُسے روزی کمانے کا جائز ذریعہ مل رہا ہو تو اس سے مستفید ہو
میرے چھوٹے بیٹے فوزی نے آئی بی اے کراچی سے صبح کے کورس میں ایم بی اے کیا ۔ اسلام آباد میں بغیر سفارش مناسب ملازمت ممکن نہ ہوئی تو اُس نے معمولی ملازمت شروع کی ۔ میں نے اعتراض کیا تو بولا ”ابو جی ۔ کچھ ملے گا ہی ۔ اگر فارغ رہا تو بے کار ہو جاؤں گا“۔
پھر ایک بہتر ملازمت ملی تو چند ماہ بعد پرویز مشرف کی حکومت آ گئی ۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ہر صوبے سے ایک آدمی تھا ۔ حکومت نے سب لوگ تبدیل کر کے صرف کراچی والے رکھ لئے ۔ کراچی والوں کو اسلام آباد شاید پسند نہ آیا ۔ ملازمین کو فارغ کر دیا اور دفتر بند کر دیا
اس کے بعد فوزی نے برطانیہ سے ایم ایس سی فناس پاس کیا ۔ اسلام آباد میں ایک غیرملکی ادارے میں اسامی نکلی ۔ ٹیسٹ انٹرویو ہوئے ۔ میرٹ کے لحاظ سے فوزی اول رہا ۔ سینیئر وائس پریزیڈنٹ جس کے ماتحت کام کرنا تھا اُس نے منظوری دے دی لیکن پریزیڈنٹ صاحب کراچی کے تھے ۔ اُنہوں نے کراچی سے تعلق رکھنے والے کو رکھ لیا
کچھ ماہ بعد ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی ۔ 3 سال بعد ترقی بھی ہوئی ۔ اس کے بعد وہی کہ اگلی ترقی کیلئے سفارش نہ تھی ۔ پھر دبئی میں ملازمت مل گئی اور 2008ء سے دبئی میں ہے
بیٹی نے کلِنیکل سائیکالوجی میں ایم ایس سی کیا ۔ پھر پوسٹ ماسٹرز ڈپلومہ کیا ۔ نفسیاتی مریضوں کا علاج کرنا چاہا تو معلوم ہوا معالج مریض کو ڈرا کر رقم اکٹھی کرتا ہے اور مریض کی تسلّی بھی ایسے معالج سے ہوتی ہے ۔ سو یہ کام چھوڑ دیا ۔ کمپیوٹر کی ماہر تھی ۔ گھر سے ہی مختلف کمپنیوں کا ایڈمنسٹریشن کا کام شروع کیا ۔ ہوتے ہوتے غیر ملکی کمپنیوں تک پہنچی اور دفتر میں جانا شروع کیا ۔ مالی بے ضابطگی دیکھ کر کمپنی چھوڑی ۔ دوسری میں کام ملا پھر تیسری ۔ ہر جگہ مالی بے ضابطگی معمول کی بات تھی جس کے باعث زندگی مُشکل میں رہی ۔ جب کمپنی میں کام کم ہو جاتا پہلے میری بیٹی اور اس جیسوں کو فارغ کیا جاتا ۔ جو اپنی جیبیں بھرتے اور صاحب لوگوں کو خوش رکھتے وہ ٹِکے رہتے
آخری کمپنی میں بیٹی پرفارمینس آڈیٹر تھی ۔ آڈٹ کرنے پر بھاری مالی بے ضابطگی پائی گئی جس کی رپورٹ دے دی گئی ۔ کچھ ماہ بعد بیٹی کی تنخواہ بہت کم کر دی گئی کہ کام کم ہو گیا ہے چنانچہ بیٹٰی نے ملازمت چھوڑ دی اور اکتوبر 2012ء میں بھائی کے پاس دبئی چلی گئی
میرے ذہن میں بھی یہ بات تھی۔ عین ممکن ہے کہ میں نے کبھی آپ کے بیرون ملکی سازشی نظریات پر آپ کو طعنہ بھی دیا ہو۔
یہ تو حقیقت ہے کہ بیرونِ ملک رہ کر ایک تو محب الوطنی میں فرق آ جاتا ہے اور دوسرے ملک کی سٹیزنشپ ملنے کے بعد مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ اس ملک کا وفادار ہو گا ناں کہ اپنے ملک کا۔ بیرون ملک رہ کر آدمی اپنوں سے کٹ جاتا ہے اور کچھ عرصے بعد جو چھوٹا موٹا تعلق واسطہ ہوتا ہے وہ بھی ختم ہونے لگتا ہے۔
آپ نے ہمیشہ اپنی ہمت اور جرات کی مثالیں دے کر ثابت کیا ہے کہ اپنے ملک میں رہ کر بھی آدمی معاشرتی ناانصافیوں سے لڑکر آدمی زندہ رہ سکتا ہے مگر آپ کی اولاد ہماری طرح بزدل نکلی جو پاکستانی معاشرے کی ناانصافیوں کا مقابلہ نہ کر سکی اور باہر چلی گئی۔ ہم بھی واہ فیکٹری میں چار سال بناں کسی پوسٹ کے ایک دوست کے دفتر میں دن گزار کر باہر چلے گئے مگر آج سوچتے ہیں کہ اگر پاکستان میں بھی رہتے تو وقت گزر ہی جانا تھا۔ آج ہماری اولاد پاکستان سے بالکل لاتعلق ہو چکی ہے اور ان کی اولاد کو تو پتہ بھی نہیں ہو گا کہ پاکستان نام کے ملک میں ان کے دور کے رشتہ دار بھی رہتے ہیں۔
کاشف صاحب
آپ کا خیال درست ہے لیکن میری عادت ہے کہ میری ذات پر کوئی تہمت لگائے تو میں اس کا بُرا نہیں مناتا اور متعلقہ شخص کے ساتھ بُرا سلوک بھی نہیں کرتا
افضل صاحب
میں نے تعلق توڑنے والوں کی بات نہیں کی ۔ اس کیلئے دساور جانا ضروری نہیں ہوتا ۔ لوگ ایک مُلک بلکہ ایک شہر میں رہتے ہوئے بھی اجنبی بن جاتے ہیں ۔ ہر آدمی اپنے ماحول کے مطابق بات کرتا ہے ۔ اللہ کی کرم نوازی ہے کہ ہمارے ایسے رشتہ دار بھی ہیں جنہیں ملے یا دیکھے دہائیاں گذر گئی ہیں لیکن رابطے نہیں ٹوٹے ۔ میرے بیٹے مع اپنے بیوی بچوں کے پاکستان آتے رہتے ہیں اور ہم بھی اُنہیں ملنے جاتے ہیں ۔ مسئلہ صرف امریکہ کا ہے جنہیں میرے پی او ایف میں کام کرنے کی وجہ سے بہت تکلیف ہے ۔اور 2001ء کے بعد سے ویزہ نہیں دیتے ۔ رہے میرے بچوں کے بچے تو جب تک ہفتہ میں ایک بار سکائپ پر دادا دادی دیکھ کر گپ نہ لگائیں جب سکائ نہ تھا تو ٹیلیفون پر باتیں کرتے تھے ۔ ملازمت کی بات یہ ہے کہ ہم لاہور میں رہائش رکھتے تو اور بات تھی اسلام آباد کے حالات سے آپ واقف نہیں ہیں
یہ تو انتہائی تلخ حقیقت بلکہ سر اٹھاتی پریشانی کی بات ہے۔
بات پھر وہیں حکومت کی نا اہلی کی طرف جاتی ہے، جس کا رونا روز رویا جاتا ہے۔
رہی محب الوطنی کی بات، تو میرے خٰیال میں جہاں آپکو راحت و آرام و سکون میسر ہو تو وہی بندے کا وطن بن جاتا ہے۔
ورنہ بلا وجہ اس بت کو پوجنے کی کوئی تُک نہیں۔
خانہ بدوش بھی تو موسمی حالات اور ضروریات کو مدنظر رکھ کر ہی نقل مکانیاں کرتے ہیں۔ کیا انکو بھی وطن سے بیزاری کا طعنہ دیا جائے گا۔
یا ایک غرض کیلئے ہجرت کرنے والوں کو بھی مطعون کیا جائے گا کیا؟
منصور مکرم صاحب
آپ کا خیال بھی درست ہے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ آدمی جہاں پیدا ہو اور بچپن گذارے اُس جگہ کو بھولنا آسان نہیں ہوتا ۔ گو وقتی طور پر آدمی ضروریاتِ زندگی کے تحت بھول جاتا ہے لیکن جب اُسے فراغت ہوتی ہے وہ اپنی جائے پیدائش کو یاد کرتا ہے ۔ پرانی بات ہے عید کا دن تھا ہمارے گھر کے ٹیلیفون کی گھنٹی بجی ۔ میں نے اُٹھایا تو پہلا فقرہ تھا ”السلام علیکم پلیز ۔ ٹیلیفون بند نہ کیجئے گا ۔ میں لاہور میں پیدا ہوا تھا پاکستان چھوڑے عرصہ دراز گذر گیا ۔ میرا اب لاہور یا پاکستان میں کوئی نہیں ہے ۔ میں اپنے وطن میں کسی سے بات کر کے اپنے وطن کی باتیں سننا چاہتا ہوں ۔ میں نے کئی نمبر ٹرائی کئے نہ ملے ۔ آخر آپ کا نمبر مل گیا ۔ پلیز میرے ساتھ باتیں کرتے رہیئے ۔ مجھے لاہور اور پاکستان کی باتیں سنایئے“۔
True, such happenings do make one feel disgusted with our own people and do make us get out and leave Pakistan Every body has a similar story. Unfortunately the things have only worsened over time in Pakistan. I agree with you Ajmal Bhai on most things you say but I am glad I did not work in Pakistan. Yes my children do not have as much connection as I do but I have tried to inculcate Hubb-pakistan and Islam in them
Pingback: میری ذات | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I