یوں دی ہمیں آزادی کہ دنیا ہوئی حیران ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہر سمت مسلمانوں پہ چھائی تھی تباہی ۔ ۔ ۔ ملک اپنا تھا اور غیروں کے ہاتھوں میں تھی شاہی
ایسے میں اُٹھا دین محمد کا سپاہی ۔ ۔ ۔ اور نعرہ تکبیر سے دی تو نے گواہی
اسلام کا جھنڈا لئے آیا سر میدان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
دیکھا تھا جو اقبال نے اِک خواب سہانا ۔ ۔ ۔ اس خواب کو اِک روز حقیقت ہے بنانا
یہ سوچا جو تو نے تو ہنسا تجھ پہ زمانہ ۔ ۔ ۔ ہر چال سے چاہا تجھے دشمن نے ہرانا
مارا وہ تو نے داؤ کہ دشمن بھی گئے مان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
لڑنے کا دشمنوں سے عجب ڈھنگ نکالا ۔ ۔ ۔ نہ توپ نہ بندوق نہ تلوار نہ پھالا
سچائی کے انمول اصولوں کو سنبھالا ۔ ۔ ۔ پنہاں تیرے پیغام میں جادو تھا نرالا
ایمان والے چل پڑے سن کر تیرا فرمان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
پنجاب سے بنگال سے جوان چل پڑے ۔ ۔ ۔ سندھی بلوچی سرحدی پٹھان چل پڑے
گھر بار چھوڑ بے سرو سامان چل پڑے ۔ ۔ ۔ ساتھ اپنے مہاجر لئے قرآن چل پڑے
اور قائد مِلت بھی چلے ہونے کو قربان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
نقشہ بدل کے رکھ دیا اس مُلک کا تو نے ۔ ۔ ۔ سایہ تھا محمد کا تیرے سر پہ
دنیا سے کہا تو نے کوئی ہم سے نہ اُلجھے ۔ ۔ ۔ لکھا ہے اس زمیں پہ شہیدوں نے لہو سے
آزاد ہیں آزاد رہیں گے یہ مسلمان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان
ہے آج تک ہمیں وہ قیامت کی گھڑی یاد ۔ ۔ ۔ میت پہ تیری چیخ کے ہم نے جو کی فریاد
بولی یہ تیری روح نہ سمجھو اسے بیداد ۔ ۔ ۔ اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
گر وقت پڑے ملک پہ ہو جائیے قربان ۔ ۔ ۔ اے قائد اعظم تیرا احسان ہے احسان