والد صاحب مارچ 1930ء میں مصر گئے تھے ۔ چند سال بعد دادا جان جو اُن دنوں حیدرآباد دکن میں تھے نے تقاضا کیا کہ ”مجھ سے اب کاروبار نہیں سنبھالا جاتا اسلئے واپس آ جاؤ“ ۔ سو والد صاحب مصر میں کام سمیٹ کر واپس آ گئے اور جنوبی ہندوستان میں دادا جان کا کاروبار سنبھال لیا جس میں فوج کو ضروریاتِ زندگی کی سپلائی کا کام بھی شامل تھا ۔ برطانیہ سے نیا کرنل کوارٹر ماسٹر تعینات ہوا ۔ اُس نے دادا جان کو ”بلڈی انڈین“ کہہ کر مخاطب کیا تو دادا جان نے اُسے منہ پر تھپڑ رسید کر دیا ۔ وہ وائسرائے ہند کا رشتہ دار تھا ۔ اُسی دن دہلی روانہ ہوا اور دادا جان کی کمپنی کو بلیک لسٹ کروا دیا ۔ اُنہی دنوں والد صاحب کو فلسطین میں کاروبار مل گیا اور وہ سب کو اپنے گھر جموں میں چھوڑ کر فلسطین چلے گئے ۔ وہ کبھی والدہ صاحبہ کو ساتھ لیجاتے کبھی ہندوستان چھوڑ جاتے تھے ۔ 1946ء میں آئے اور والدہ صاحبہ اور میرے چھوٹے بھائی کو ساتھ فلسطین لے گئے ۔ فلسطین میں 1947ء میں اللہ نے مجھے ایک اور بھائی عطا کیا
فلسطین میں یورپ سے آئے یہودیوں (صیہونیوں) نے فلسطین کے باسی مسلمانوں پر حملے اور اُن کی املاک پر قبضہ شروع کر دیا ۔ مسلمانوں کا یہودیوں کے محلے جانا یا اس کے قریب سے گذرنا موت کو آواز دینا بن چکا تھا
اگست 1947ء تک ہمارے علاقے یعنی ریاست جموں کشمیر میں کوئی گڑبڑ نہ تھی اور سب کو کامل یقین تھا کہ جموں کشمیر پوری ریاست پاکستان کا حصہ بنے گی ۔ جغرافیائی لحاظ سے بھی یہ ریاست پاکستان کا حصہ ہی بنتی تھی ۔ اگست 1947ء کے آخر میں معلوم ہوا کہ مسلم اکثریتی ضلع گورداس پور کو تقسیم کر کے بھارت کو کٹھوعہ کے راستے جموں کشمیر کا راستہ دے دیا گیا ہے ۔ ستمبر 1947ء میں بھارت سے آئی ہوئی ہندو مہاسبھا ۔ راشٹریہ سیوک سنگ اور اکالی دَل کے مسلحہ دستوں نے بھارتی فوج کی پُشت پناہی سے صوبہ جموں کے دیہات میں مسمانوں کی مار دھاڑ اور املاک کو آگ لگانا شروع کر دی ۔ ہوتے ہوتے بات شہر جموں تک پہنچی ۔یہ خبریں جب فلسطین پہنچیں تو میرے والدین پریشان ہوئے اور واپسی کا سوچنے لگے ۔ جموں سے اپنی ہجرت کا حال تو میں لکھ چکا ہوں ۔ دیکھئے پیراگراف 26 تا 31 ۔
اکتوبر شروع ہو چکا تھا ۔ والد صاحب کچھ فیصلہ نہ کر پا رہے تھے کہ بمبئی کے راستے جموں جائیں یا پاکستان ۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ پاکستان کوئی ہوائی جہاز نہیں جا رہا اور بمبئی جائیں تو بھارت سے کسی مسلمان کو ریاست جموں کشمیر میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ۔ پریشانی میں اُنہیں کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وسط نومبر 1947ء میں سیالکوٹ سے ایک قریبی عزیز کا تار اُنہیں موصول ہوا جس میں لکھا تھا ”بڑے پہنچ گئے ہیں بچے نہیں پہنچے“۔