اَج ہینجوں دِل وچ میرےآیا ایہہ خیال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (آج یونہی دِل میں میرے آیا یہ خیال)
میں لکھ دیواں اپنے ماضی داکُج حال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (میں لکھ دوں اپنے ماضی کا کچھ حال)
ہُن تے مینوں کوئی آکھے دماغی بیمار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اب تو مجھے کوئی کہے دماغی بیمار)
موُرکھ کوئی کہندا ۔ کوئی تعصب پال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بیوقوف کوئی بُلاوے ۔ کوئی متعصب)
گل پرانی نئیں اِک زمانہ جیئا وی سی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بات پرانی نہیں ایک زمانہ ایسا بھی تھا)
اَیس نکمّے نُوں مَن دے سی سمجھدار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اِس نکمے کو مانتے تھے سمجھدار)
عوام دِتا سی بابائے مشین گن دا خطاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (عوام نے دیا تھا بابائے مشین گب کا خطاب)
ساتھی افسر بُلاندے سی محترم اُستاذ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ساتھی افسر مخاطب کرتے تھے ۔ محترم اُستاذ)
(یہ بند میں نے اُن دنوں کی اُردو میں لکھا ہے جب اس زبان کو اُردو کا نام دیا گیا تھا یعنی آج سے 2 صدیاں قبل ۔ موجودہ اُردو خطوط وحدانی میں لکھ دی ہے ۔ دیگر میں شاعر نہیں ۔ التماس ہے کہ قارئین شاعری کے اصولوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کے مطلب اور نیچے دیئے حقائق پر غور فرمائیں ۔ مشکور ہوں گا)
میں نے یکم مئی 1963ء کو پولی ٹیکنک انسٹیٹوٹ راولپنڈی میں سِنیئر لیکچرر کی کُرسی چھوڑ کر پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) کی ملازمت کم معاوضہ پر اسلئے اختیار کی کہ عملی کام سیکھ کر درست انجنیئر بنوں پھر اپنے عِلم اور تجربہ کو انجنیئرنگ کے طالب عِلموں تک پہنچاؤں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے مُلک میں انتظامی ڈھانچے کے بادشاہ سب سادے گریجوئیٹ ہیں جنہیں ٹیکنیکل اہلِ وطن کا پنپنا نہیں بھاتا (خیال رہے کہ وہ انجیئر ۔ ڈاکٹر ۔ ایم ایس سی فزکس یا کیمسٹری ۔ ایم کام ۔ ایم اے اکنامکس سب کو نالائق سمجھتے ہیں جس کی وجہ ان کا تعصب ہے)۔ خیر ۔ یہ انکشاف تو بہت بعد میں ہوا ۔ اسلئے پہلے بات میری یا ادارہ پی او ایف کی مُشکلات اور اُن کے حل کیلئے میری محنت کی
میں اس سلسلے میں قبل ازیں 2 واقعات ”گھر کی مُرغی“ اور ”کرے کوئی بھرے کوئی“ عنوانات کے تحت لکھ چُکا ہوں ۔ آج کچھ اور
مشین گن کی ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کیلئے پلاننگ کرنے کے سلسلہ میں اواخر 1966ء میں مجھے جرمنی اُس فرم میں بھیج دیا گیا جس سے معاہدہ ہو چکا تھا ۔ معاہدہ پاکستان میں ہوا تھا جس میں مشین گن کے متعلق ٹیکنیکل تفصیلات مہیاء نہیں تھیں ۔ صرف مشین گن کا ماڈل ایم جی ون اے تھری (MG1A3) درج تھا ۔ میں نے اُس وقت جواز مہیاء کرتے ہوئے معاہدے میں کچھ نئی شقیں ڈلوا دیں تھیں جن میں سے ایک شق تھی کہ اگلے 20 سال میں اس ماڈل میں جو بھی تبدیلی یا بہتری لائی جائے گی دونوں فریق اس کی معلومات ایک دوسرے کو دینے کے پا بند ہوں گے
جرمنی میں ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے کیلئے میں اپنے طور پر فیکٹری میں چلا جاتا ۔ یہاں ایک واقعہ تفننِ طبع کی خاطر ۔ جرمن لوگ کہتے ہیں ”Wasser ist fuer washung (پانی دھونے کیلئے ہوتا ہے)“ اور بیئر پیتے ہیں ۔ وہاں رواج تھا کہ تعارفی ملاقات میں بیئر پیش کی جاتی تھی (بیئر پانی سے سستی تھی) ۔ ورکشاپ میں مشین لگی تھی جس میں سکے ڈال کر کوکا کولا اور سیوَن اَپ نکالے جا سکتے تھے ۔ میں کبھی کوکا کولا کی 2 بوتلیں نکال کر ورکشاپ کے فورمین کے دفتر میں چلا جاتا اور یہ میری رُم ہے کہہ کر فورمین کو پیش کر دیتا اور کسی دوسرے کو سیون اپ پیش کرتے ہوئے کہتا کہ یہ میری جِن ہے ( یہ نام میں نے نویں جماعت میں ناول ٹیژر آئی لینڈ میں پڑھے تھے) ۔ یہ اخراجات میں اپنی جیب سے قومی خدمت کیلئے کرتا تھا ۔ اللہ سُحانُہُ و تعالیٰ نے مجھے کامیابی دی اور جرمن انجیئروں میں ہر دل عزیز بنا دیا ۔ چنانچہ میں ذاتی سطح پر وہ ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا جو مجھے سرکاری طور پر نہیں مِل سکتی تھیں
پہلی چیز جو میں دیکھی ۔ ایم جی وَن اے تھری میں ایک انرشیا بولٹ تھی جس کے ایک طرف پِن (Pin) اور دوسری طرف سلِیو (Sleeve) تھی جبکہ وہاں جو ایم جی جوڑی جارہی تھی اس کے دونوں طرف سلِیوز تھیں ۔ میں نے حسبِ معمول دو بوتلیں سیون اپ کی نکالیں اور فورمین کے کمرے میں جا بیٹھا ۔ تھوڑی دیر بعد فورمین فارغ ہو کر آیا اور آتے ہی کہا ”از راہ مہربانی بتایئے کہ میں آپ کیلئے کیا کر سکتا ہوں ؟ (Was Ich fuer zie can tuen bitte)“ یہ جرمنوں کی عادت ہے وہ بڑی میٹھی زبان بولتے ہیں ۔ میں نے بوتل پیش کرتے ہوئے حقیقت بتائی ۔ وہ کہنے لگا ”یہ ایم جی تھری بن رہی ہے“۔ میں نے استفسار کیا کہ یہ تبدیلی کیوں کی گئی تو اُس نے بتایا ”میں جنگِ عظیم دوم میں نیوی میں تھا اور برما کے محاذ پر لڑائی میں حصہ لیا تھا ۔ میں جانتا ہوں کہ اگر جنگ کے دوران گنر جلدی میں انرشیا بولٹ اُلٹی ڈال دے تو مشین گن فائر نہیں کرے گی“۔
اس فور مین سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا ۔ میری دلچسپی اور گہری نظر دیکھ کر وہ ایک دن 15 منٹ کی ٹی بریک کے دوران جب سب دُور بیٹھ کر چائے پینے میں مشغول تھے مجھے ورکشاپ میں لے جا کر مشین گن کی ہاؤسنگ دکھاتے ہوئے پوچھا ”یہاں کچھ دیکھ رہے ہو ؟“ میں نے غور کیا تو سوراخ جس میں سے کارتوس چلنے کے بعد خالی کھوکھے باہر نکلتے ہیں اُس کی شکل اور سائز ایم جی ون اے تھری سے مختلف لگا ۔ میں نے اُسے بتایا تو وہ بہت خوش ہوا اور دفتر کی طرف چل پڑا ۔ راستہ میں بولا ”آج میں آپ کو کچھ پلاؤں گا ۔ کیا پئیں گے جوس یا کافی ؟“ میرے کہنے پر اُس نے کافی منگائی (میں جانتا تھا کہ جوس کافی مہنگا ہے)۔ کہنے لگا ”یہ بھی ایم جی تھری کی ہاؤسنگ ہے ۔ ایم جی ون اے تھری میں کبھی کبھار کارتُوس چلنے کے بعد کھوکھا باہر نکلتے ہوئے اس سورخ میں پھنس جاتا ۔ جس سے مشین گن چلنا بند ہو جاتی تھی اور حادثہ کا بھی خدشہ تھا ۔ اسلئے فوج کی شکایت پر اس کے ڈیزائین میں ہماری کمپنی نے تبدیلی کی“۔
میں نے اپنے دفتر میں جا کر جرمن انجنیئر سے بات کی ۔ وہ مجھے اپنے باس پلاننگ انجیئر کے پاس لے گیا ۔ پلاننگ انجنیئر نے کہا ”یہ معاملہ میرے بس سے باہر ہے ۔ آپ کا نقطہ نظر میری سمجھ میں آ گیا ہے ۔ میں ٹیکنیکل چیف سے بات کروں گا“۔ اور وہ اُٹھ کر غالباً ٹیکنیکل چیف کے پاس چلا گیا ۔ اگلے روز اُس نے بتایا ”میں نے بات کی ہے ۔ بہتر ہو گاکہ آپ ٹیکنیکل چیف کو خود ٹیکنیکل معلومات اور معاہدے کی شقّات کے حوالے سے بات کریں ۔ میں نے کہا ”چیک کریں ۔ اگر ٹیکنیکل چیف فارغ ہوئے تو ابھی چلتے ہیں“۔ میں نے اپنے (پاکستانی) باس کو کہا تو اُنہوں نے کہا ”مجھے سمجھا دو ۔ میں ٹیکنیکل چیف کے پاس جاؤں گا ۔ تمہارا اُن کے پاس جانا درست نہیں ۔ وہ چیف ہے“۔ خیر میں نے اپنے باس کو سب کچھ واضح کیا ۔ وہ جرمن پلاننگ انجنیئر کے پاس گئے مگر واپس آ کر کہا ”میں نے سوچا ہے کہ تم ہی چلے جاؤ“۔ چند منٹ بعد پلاننگ انجنیئر آیا اور ہم دونو چل پڑے ۔ پیچھے سے ایک جرمن انجنیئر نے آ کر میرے کان میں کہا ”چیف نے آپ کو بُلایا تھا ۔ آپ نے اپنے باس کو کیوں بھیج دیا ؟ میرے باس نے اُنہیں کہہ دیا کہ آپ کے جانے کی ضرورت نہیں مسٹر اجمل جائے گا“۔ (خیال رہے یہ رویّہ ہمارے ملک میں عام پایا جاتا ہے جو میرے خیال کے مطابق ہماری بدقسمتی ہے)
میری بات چیف نے غور سے سُنی اور میرے نقطہ نظر کو سراہتے ہوئے کہا ”میں ایک دو دن میں بتاؤں کا“۔ واپسی پر پلاننگ انجنیئر نے مجھے بتایاکہ معاملہ معاہدے کا ہونے کی وجہ سے صرف ادارے کا بورڈ ہی اس کا فیصلہ کر سکتا ہے ۔ دو تین دن بعد جرمن انجنیئر نے آ کر کہا ”مسٹر اجمل ۔ چلیئے ۔ میٹنگ ہو رہی ہے جس میں آپ کو بلایا ہے“۔ راستہ میں بولا ” آپ کو صبح بلایا گیا تھا مگر آپ کی بجائے آپ کے باس چلے گئے ۔ وہاں وہ اپنا مؤقف ہی واضح نہ کر سکے تو ٹیکنیکل چیف نے مجھے کہا کہ آپ کو بلا لاؤں“۔ میں کمرے میں داخل ہو کر کرسی پر بیٹھا تو چیف نے مجھے بولنے کا اشارہ دیا ۔ میں چیف کی طرف منہ کر کے بولنے لگا تو چیف نے ڈائریکٹر سیلز اور چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف اشارہ کر کے کہا” آپ انہیں نہیں پہچانتے ؟“
میں بات سمجھ گیا اور چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھ کر بات شروع کی ۔ وہ اعتراضات کرتے رہے اور میں دلائل دیتا رہا“۔ آخر ٹیکنیکل چیف جو ابھی تک صرف مُسکرا رہے تھے چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھ کر بولے” میرا خیال ہے کہ اس نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا جو میرے مطابق درست ہے“۔ اس پر چیف فار کمرشل افیئرز نے ڈائریکٹر سیلز سے اُس کا نظریہ دریافت کیا تو وہ چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ” آپ کو شاید یاد ہو گا کہ جب پاکستان میں معاہدہ کے مسؤدے پر بحث ہونے لگی تھی تو ممبر پی ایف بورڈ فار انڈسٹریل اینڈ کمرشل ریلیشنز نے مسٹر اجمل کو بُلا لیا تھا اور اسی کی بحث اور مہیاء کردہ جواز کے نتیجہ میں معاہدے میں چند نئی شقیں ڈالی گئی تھیں ۔ آج جس شق کے تحت انہوں نے بات کی ۔ یہ ان میں سب سے اہم شق ہے “۔
چیف فار کمرشل افیئرز کچھ دیر سوچ میں پڑے رہے پھر بولے ”آپ درست کہتے ہیں“۔ اس میٹنگ کے دوران وہ نہائت سنجیدہ رہے لیکن اب وقفہ کے بعد مسکرا کر میرے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ” اب آپ نے ہمیں بھی اپنی کی ہوئی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا ہے“۔ میں نے خوشی کا اظہار اور شکریہ کے ساتھ ہاں میں ہاں ملائی
مندرجہ بالا تبدیلیوں اور میرے ڈیزائین کردہ سوراخ (Polygon profile bore) والی نالی (barrel) کے ساتھ میں نے مشین گن کا نام ایم جی ون اے تھری (MG1A3) کی بجائے ایم جی ون اے تھری پی (MG1A3P) رکھ دیا جو آج تک رائج ہے ۔ اس کے بعد ایم جی ون اے تھری پی اور ایم جی تھری میں صرف یہ فرق رہ گیا کہ ایم جی تھری میں ڈِس اِنٹریگیٹِنگ بَیلٹ (disintegrating belt) استعمال ہوتی ہے جسے بھرنے کیلئے خاص مشین درکار ہوتی ہے ۔ اس کے استعمال شُدہ لنکس کو اکٹھا کرنا اور بھرنے کیلئے فیکٹری پہنچانا مُشکل ہوتا ہے خاص کر میدانِ جنگ سے تو انہیں واپس لانا ممکن نہیں ہوتا ۔ جبکہ ایم جی ون اے تھری پی میں لِنکڈ بَیٹ (linked belt) استعمال ہوتی ہے جس میں 50 کارتوسوں کا ایک لِنک ہوتا ہے ۔ ایسے 5 لِنکس کو جوڑ کر 250 کارتوسوں کی بَیلٹس بنا لی جاتی ہیں ۔ اس میں مشین کے علاوہ ہاتھ سے بھی کارتوس بھرے جا سکتے ہیں صرف بھرنے کی رفتار کم ہوتی ہے ۔ اِن لِنکس کو استعمال کے دوران بالخصوص میدانِ جنگ میں ہاتھ سے جوڑ کر بَیلٹ کی لمبائی بڑھائی جا سکتی ہے اور استعمال شدہ بَلٹس میدان جنگ میں بھری جا سکتی ہیں اور خالی بَیلٹس میدانِ جنگ سے واپس لائی جا سکتی ہیں ۔ انہی حقائق کی بنا پر ایم جی تھری کا ڈیزائن اپنایا نہیں گیا تھا
میں اُس اللہ الرّحمنٰ الرّحیم اور قادر و کریم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ چاروں طرف مخالفتیں ہونے کے باوجود میری نا اہلیوں اور خطاؤں سے درگذر کرتے ہوئے اُس باری تعالیٰ نے ہمیشہ میرا سر بلند رکھا
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو ۔ میری کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے
بہت اعلیٰ۔۔۔۔۔ آپ اس سوال کے لیے بہت کوالیفائیڈ شخص ہیں جو کافی دنوں سے میرے ذہن میں کلبلا رہا تھا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کے پاس موجود اسٹینڈرڈ انفینٹری ویپن 4 دہائیاں پرانے ہیں اور متروک ہوتے جارہے ہیں ۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے ہتھیاروں کو کافی ترقی دے دی ہے ۔ خود جرمنی نے جی تھری رائفل کے ڈیزائن میں نا صرف بنیادی تبدیلی کی بلکہ جی تھری کو ایک مخصوص رول دے کر مارکیٹ میں HK -416 , HK -417 اور دیگر ہتھیار لے آئے ہیں۔ امریکہ نے مختلف ہتھیاروں کے ساتھ ACR (ایڈاپٹوکامبیٹ رائفل ) لیکر آگئے ہیں جو کہ بہت آسانی کے ساتھ اسالٹ رائفل سے اسنائپر رائفل بن جاتی ہے وزن میں کم اور دھچکا بھی بہت کم ہے۔ سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ مختلف کیلیبر کی گولیاں استعمال کرسکتی ہے۔ خود انڈیا نے اپنی نئی رائفل MCIWS ( ملٹی کیلیبر انڈیویجول ویپن سسٹم ) متعارف کرادی ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان کے پاس آپ جیسے انجینئیرز اور ٹیکنیشن ہیں اور ہتھیار سازی کے میدان میں ضروری مہارت رکھتا ہے تو کیا وجہ ہے کہ آج تک ملک میں بنائی ہوئی جی تھری رائفل میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں نہیں لا سکا۔۔
جوّاد احمد خان صاحب
آپ ماشاء اللہ آپ کافی علم رکھتے ہیں
اوّل میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ میں اپنی نالائقی کے اذکار کر رہا تھا ۔ اسلحہ کی صلاحیت اور اقسام کا نہیں ۔ رائفل جی تھری جو پاکستان میں اوّل روز تیار ہوئی اُس کے یہ رول تھے ۔ سنگل شاٹ ۔ برسٹ ۔ آٹومیٹِک ۔ اس کا بٹ ہاتھ سے ہی اُتار کر رِیٹرَیکٹیبل بٹ لگا کر اسے اسالٹ رائفل میں تبدیل کیا جا سکتا تھا ۔ اسی طرح اوّل روز سے جو مشین گن ایم جی ون اے تھری پی بنائی گئی اس کے رول تھے ۔ لائٹ یا اسالٹ ۔ ہَیوی ۔ کواَیکسِیئل وِد ٹینک گن ۔ اَینٹی ایئر کرافٹ اور ایئر کرفٹ گن ۔ یہ تبدیلیاں بغیر کسی تردد کے ہو سکتی تھیں
اب آپ کے سوالات کے جواب
پاکستان کی اِنفینٹری درست اسلحہ سے لیس ہے ۔ ان کے پاس مندرجہ بالا کے ساتھ ساتھ ایم پی فائیو ۔ راکٹ لانچر ۔ مارٹر اور مزائل بیٹریاں وغیرہ ہیں اور ان میں سے کوئی اسلحہ متروک نہیں ہوا ۔
خیال رہے کہ ہماری افواج جب بھی کوئی کمی محسوس کریں یا کسی چیز کی تجدید چاہیں تو اس کی اطلاع وزارت کی معرفت پی او ایف کو دی جاتی ہے اس پر فوری کام شروع ہو جاتا ہے ۔ پی او ایف خود بھی تجدید کا سوچی رہتی ہے
ایک بات ذہن میں رہے کہ امریکہ کی ضروریات اور ہمارے مُلک کی ضروریات میں بہت فرق ہے ۔ جس مُلک کے فوجی ایئر کنڈیشنڈ ٹینک میں بیٹھ کر محاذِ جنگ پر جاتے ہوں اُن فوجیوں کی ضروریات سے نہیں کیا جا سکتا جو گھینٹوں 50 درجے سیلسیئس میں تپتی ریت پر کھُلے بندوں اور اسی ماحول میں ٹینکوں میں بیٹھ کر لڑتے ہوں یا سیاچین کے یخ بستہ پہاڑوں پر شب خُون مارتے ہوں یا کشتیوں کے بغیر اسلحہ سے لیس دریا پار کر کے بغیر سستائے لڑتے ہوں
ترقی یافتہ ممالک کے پاس مُسلم ممالک سے لُوٹی ہوئی دولت بہت ہے ۔ چوروں کے کپڑے لاٹھیوں کے گز ۔ پھر اُنہوں نے اپنی شان بھی کمزوروں کو دکھانا ہوتی ہے ۔ امریکہ کے عراق ۔ افغانستان اور لبیا پر حلموں کی وجہ اس کے سوا کیا تھی ؟ مسلم سے پُشتِینی عناد اور اُن کی معدنیاتی دولت کو لُوٹنا ۔
جرمنی کی آمدن کا بڑا ذریعہ اسلحہ اور ایکسپلوسِوز کی سپلائی ہے سو وہ نت نئی چیزیں متعارف کرانے میں لگے رہتے ہیں
چی تھری اور ایم پی فائیو وغیرہ ہَیکلر اینڈ کوخ بناتا ہے اور مشین گن جس کا بنیادی نام ایم جی 42 ہے رھائِین مِیٹال بناتا ہے ۔ پی ایف نے اپنی پالیسی کے تحت دونوں سے الگ الگ معاہدے کئے ۔ ان دونوں معاہدوں کے وقت امریکہ نے بہت دباؤ ڈالا تھا کی نہ کئے جائین اور اسلحہ مُفت دینے کی پیشکش کی تھی ۔ اُس وقت کی حکومت اور فوج کے نے امریکہ کی اجارہ داری ماننے سے انکار کیا ۔ اس وجی سے کتاب ” فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ لکھی گئی تھی ۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے کہا تھا ” وی نِیڈ فرینڈز ۔ ناٹ ماسٹرز“