Monthly Archives: September 2014

گوہرِ نایاب مِلتا ہے مٹی کے گھروندوں میں

Gold Medalist جی سی یونیورسٹی کے پانچویں کے تقسیمِ اسناد میں ایم بی اے میں اوّل آ کر سونے کا تمغہ حاصل کرنے والا عرفان حسن ایک مستری کا بیٹا ہے اور اس کی ماں لوگوں کے کپڑے سی کر اپنے بیٹے کی فیسیں پوری کرتی رہی

.

.

.
سونے کا تمغہ ملنے کے بعد عرفان ماں باپ کے پاؤں چوم کر اپنی والہانہ محبت اور عقیدت کا اظہار کیا۔ ننکانہ کے رہائشی عرفان حسن نے کہا کہ اسے اپنے ماں باپ پر فخر ہے
Dunya News – Gold Medalist kisses parents… by dunyanews

نہ مانیئے لیکن غور ضرور کیجئے

٭ عراق پر قبضے کے بعد 2003 میں امریکی صدر بش نے جہادی اسلام کے مقابلے میں لبرل اسلام کو فروغ دینے کیلئے مسلم ورلڈ آوٹ ریچ (Muslim World Outreach) پروگرام شروع کیا ۔ اس کیلئے ایک اعشاریہ تین ارب ڈالر مختص کئے ۔ اس پروگرام کے تحت جن ممالک پر خصوصی توجہ دینی تھی ان میں پاکستان سرفہرست تھا۔ 2003 میں یہ پروگرام شروع ہوا اور 2004 میں علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری نے اچانک اور پراسرار طور پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے کر عملی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کی حالانکہ 1989 میں سیاست کے آغاز کے بعد وہ پہلی مرتبہ قومی اسمبلی میں پہنچے تھے ۔ مسلم ورلڈ آوٹ ریچ پروگرام کے تحت امریکہ نے نئے تعلیمی ادارے اور مدرسے کھولنے تھے اور ڈاکٹر قادری کے مخالف کہتے ہیں کہ اگلے تین سالوں میں منہاج القرآن کے تحت پنجاب میں سینکڑوں تعلیمی ادارے قائم کئے گئے جبکہ وہ خود کینیڈا میں مقیم ہوگئے

٭ برطانیہ میں مقیم متنازعہ مذہبی عقائد کے حامل اور خانہ کعبہ کو گالیاں دینے والے فتنہ بردار یونس الگوہر (خانہ کعبہ اور پاکستانی سیاسی رہنمائوں کے بارے میں ان کے خرافات کی ویڈیو یوٹیوب پر دیکھی جاسکتی ہے) کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری اورعمران خان کی حمایت کے اعلان اور پی ٹی آئی کے دھرنے میں ان کے پیروکاروں اور بینرز کی موجودگی حیران کن اور پریشان کن ہے ۔

٭ کچھ عرصہ قبل عمران خان اور طاہرالقادری کو ایک ساتھ ڈیووس میں منعقدہ ورلڈ اکنامک فورم میں ایک ساتھ بلانے اور پھر دھرنوں کی منصوبہ بندی کے لئے لندن میں ان کی خفیہ ملاقات کرانے (جس کو خان صاحب نے اپنی کور کمیٹی سے بھی چھپا کے رکھا) سے بھی پتہ چلتا ہے کہ دال میں کچھ کالا کالا ضرور ہے

٭ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کے کم وبیش تمام ارکان اور رہنمائوں نے متعلقہ فورمز پر دھرنوں اور استعفوں کی مخالفت کی اور صرف اور صرف شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین کی طرف سے ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مل جانے پر اصرار سے بھی پتہ چلتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے ۔ واضح رہے کہ امریکیوں نے پاکستان اور افغانستان میں جو صوفی کانفرنس منعقد کرنا تھی افغانستان میں اس کا انتظام رنگین دادفر سپانتا جبکہ پاکستان میں اسےشاہ محمود قریشی نے کرنا تھا ۔ ہیلری کلنٹن سے شاہ محمودقریشی کی قربت اور امریکی ا سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں اپنے بیٹے کو تربیت دلوانے کے عمل کو پیش نظر رکھا جائے تو کڑیاں مزید مل جاتی ہیں

٭ امریکہ نے پہلی بار پاکستان میں لبرل اور صوفی اسلام کو فروغ دینے کے عمل کا آغاز جنرل پرویز مشرف کی سرکردگی میں کیا تھا ۔ تب سے اب تک صوفی کانگریس کے سرپرست چوہدری شجاعت حسین ہیں ۔ اب یہ عجیب تقسیم نظر آتی ہے کہ ڈاکٹر قادری صاحب کے ایک طرف یہی چوہدری شجاعت حسین دوسری طرف پرویز مشرف کے وکیل قصوری نظر آتے ہیں ۔ اسی طرح عمران خان کو بھی جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے پرویز مشرف کے سابق ساتھیوں کے نرغے میں دے دیا گیا ہے ۔ پرویز مشرف کے دور کے ریٹائرڈ افسران کو بھی بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ دونوں کیمپوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ کورٹ مارشل ہونے والے گنڈا پور یا پھر ائرمارشل (ر) شاہد لطیف جیسے طاہرالقادری کے ساتھ لگا دئیے گئے ہیں جبکہ بریگیڈئر (ر) اعجاز شاہ اور بریگیڈئر (ر) اسلم گھمن جیسے لوگ عمران خان کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف کے وزیر خاص شیخ رشید احمد کو عمران خان صاحب اپنا ملازم رکھنے پر بھی راضی نہ تھے لیکن آج نہ صرف وہ ان کے مشیر خاص بن گئے ہیں بلکہ تحریک انصاف کاا سٹیج پی ٹی آئی کے رہنمائوں کی بجائے ان کو میّسر رہتا ہے

٭ اس وقت اسلام آباد میں درجنوں کی تعداد میں برطانیہ ۔ کینیڈا اور امریکہ سے آئے ہوئے خواتین و حضرات مقیم ہیں ۔ ان میں سے بعض تو کبھی کبھار دھرنوں کے کنٹینروں پر نظر آجاتے ہیں لیکن اکثریت ان میں ایسی ہے جو مختلف گیسٹ ہائوسز یا ہوٹلوں میں پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے رہنمائوں کے ساتھ خلوتوں میں سرگوشیاں کرتی نظر آتی ہے

٭ وہ لبرل اور سیکولر اینکرز اور دانشور جو پچھلے سالوں میں عمران خان کو طالبان خان کہتے تھے اور جن کی شامیں عموماً مغربی سفارتخانوں میں مشروب مغرب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزرتی ہیں اس وقت نہ صرف عمران خان کے حق میں بھرپور مہم چلا رہے ہیں بلکہ مدرسے اور منبر سے اٹھنے والے علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری کو مسیحا کے طور پر پیش کررہے ہیں ۔ یہ لوگ جماعت اسلامی ۔ جے یو آئی ۔ جے یو پی اور اسی طرح کی دیگر جماعتوں کے تو اس بنیاد پر مخالف تھے اور ہیں کہ وہ سیاست میں اسلام کا نام کیوں لیتے ہیں لیکن اپنی ذات اور سیاست کے لئے بھرپور طریقے سے اسلام کے نام کو استعمال کرنے والے طاہرالقادری ان کے پیارے بن گئے ہیں جبکہ گزشتہ سات سالوں میں اپنی سیاست کو طالبان کی حمایت اور ڈرون حملوں کی مخالفت کی بنیاد پر چمکانے والے عمران خان ان کو اچھے نظرآتے ہیں ۔ عمران خان کی طرف سے ڈرون حملوں کی مخالفت اور طالبان کی حمایت اچانک اور مکمل طور پر ترک کردینے اور لبرل اینکرز اور دانشوروں کی طرف سے اچانک ان کے حامی بن جانے کے بعد شاید اس بات کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیئے کہ ڈوریں مغرب سے ہل رہی ہیں ۔

٭ ہم جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم ایک لمبے عرصے تک عمران خان کی نشانہ نمبر ون تھی ۔ انہوں نے اپنی جماعت کی خاتون لیڈر کے قتل کاالزام الطاف حسین پر لگایا۔ ان کے خلاف وہ برطانیہ کی عدالتوں تک بھی گئے ۔ سوال یہ ہے کہ ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کی صلح اس وقت پر کس نے اور کیوں کرائی ۔ دوسری طرف میاں نوازشریف قادری صاحب کے دشمن نمبر ون ہیں لیکن جب وہ لاہور میں جہاز سے اتر رہے تھے تو انہوں نے پورے پاکستان میں صرف اور صرف میاں نوازشریف کے چہیتے گورنر پنجاب چوہدری سرور کو اپنے اعتماد کا مستحق سمجھا (اگرچہ گورنر چوہدری سرور اس طرح کی سازش میں شمولیت کے حوالے سے بڑی پرجوش تردید کرچکے ہیں)۔ اب چوہدری سرور میں اس کے سوا اور کیا خوبی ہے کہ وہ برطانوی سیٹیزن ہیں اور وہاں کی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہیں۔ نہ صرف منصوبہ بندی لندن میں ہوئی تھی بلکہ اب تنازعے کو ختم کرنے کے لئے چوہدری سرور اسلام آباد آنے کی بجائے الطاف حسین کے پاس لندن جاپہنچے ہیں

ماخذ ۔ جرگہ

بابائے مشین گن

اَج ہینجوں دِل وچ میرےآیا ایہہ خیال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (آج یونہی دِل میں میرے آیا یہ خیال)
میں لکھ دیواں اپنے ماضی داکُج حال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (میں لکھ دوں اپنے ماضی کا کچھ حال)
ہُن تے مینوں کوئی آکھے دماغی بیمار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اب تو مجھے کوئی کہے دماغی بیمار)
موُرکھ کوئی کہندا ۔ کوئی تعصب پال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بیوقوف کوئی بُلاوے ۔ کوئی متعصب)
گل پرانی نئیں اِک زمانہ جیئا وی سی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (بات پرانی نہیں ایک زمانہ ایسا بھی تھا)
اَیس نکمّے نُوں مَن دے سی سمجھدار ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (اِس نکمے کو مانتے تھے سمجھدار)
عوام دِتا سی بابائے مشین گن دا خطاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (عوام نے دیا تھا بابائے مشین گب کا خطاب)
ساتھی افسر بُلاندے سی محترم اُستاذ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ (ساتھی افسر مخاطب کرتے تھے ۔ محترم اُستاذ)

(یہ بند میں نے اُن دنوں کی اُردو میں لکھا ہے جب اس زبان کو اُردو کا نام دیا گیا تھا یعنی آج سے 2 صدیاں قبل ۔ موجودہ اُردو خطوط وحدانی میں لکھ دی ہے ۔ دیگر میں شاعر نہیں ۔ التماس ہے کہ قارئین شاعری کے اصولوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس کے مطلب اور نیچے دیئے حقائق پر غور فرمائیں ۔ مشکور ہوں گا)

میں نے یکم مئی 1963ء کو پولی ٹیکنک انسٹیٹوٹ راولپنڈی میں سِنیئر لیکچرر کی کُرسی چھوڑ کر پاکستان آرڈننس فیکٹریز (پی او ایف) کی ملازمت کم معاوضہ پر اسلئے اختیار کی کہ عملی کام سیکھ کر درست انجنیئر بنوں پھر اپنے عِلم اور تجربہ کو انجنیئرنگ کے طالب عِلموں تک پہنچاؤں ۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمارے مُلک میں انتظامی ڈھانچے کے بادشاہ سب سادے گریجوئیٹ ہیں جنہیں ٹیکنیکل اہلِ وطن کا پنپنا نہیں بھاتا (خیال رہے کہ وہ انجیئر ۔ ڈاکٹر ۔ ایم ایس سی فزکس یا کیمسٹری ۔ ایم کام ۔ ایم اے اکنامکس سب کو نالائق سمجھتے ہیں جس کی وجہ ان کا تعصب ہے)۔ خیر ۔ یہ انکشاف تو بہت بعد میں ہوا ۔ اسلئے پہلے بات میری یا ادارہ پی او ایف کی مُشکلات اور اُن کے حل کیلئے میری محنت کی

میں اس سلسلے میں قبل ازیں 2 واقعات ”گھر کی مُرغی“ اور ”کرے کوئی بھرے کوئی“ عنوانات کے تحت لکھ چُکا ہوں ۔ آج کچھ اور

مشین گن کی ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کیلئے پلاننگ کرنے کے سلسلہ میں اواخر 1966ء میں مجھے جرمنی اُس فرم میں بھیج دیا گیا جس سے معاہدہ ہو چکا تھا ۔ معاہدہ پاکستان میں ہوا تھا جس میں مشین گن کے متعلق ٹیکنیکل تفصیلات مہیاء نہیں تھیں ۔ صرف مشین گن کا ماڈل ایم جی ون اے تھری (MG1A3) درج تھا ۔ میں نے اُس وقت جواز مہیاء کرتے ہوئے معاہدے میں کچھ نئی شقیں ڈلوا دیں تھیں جن میں سے ایک شق تھی کہ اگلے 20 سال میں اس ماڈل میں جو بھی تبدیلی یا بہتری لائی جائے گی دونوں فریق اس کی معلومات ایک دوسرے کو دینے کے پا بند ہوں گے

جرمنی میں ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے کیلئے میں اپنے طور پر فیکٹری میں چلا جاتا ۔ یہاں ایک واقعہ تفننِ طبع کی خاطر ۔ جرمن لوگ کہتے ہیں ”Wasser ist fuer washung (پانی دھونے کیلئے ہوتا ہے)“ اور بیئر پیتے ہیں ۔ وہاں رواج تھا کہ تعارفی ملاقات میں بیئر پیش کی جاتی تھی (بیئر پانی سے سستی تھی) ۔ ورکشاپ میں مشین لگی تھی جس میں سکے ڈال کر کوکا کولا اور سیوَن اَپ نکالے جا سکتے تھے ۔ میں کبھی کوکا کولا کی 2 بوتلیں نکال کر ورکشاپ کے فورمین کے دفتر میں چلا جاتا اور یہ میری رُم ہے کہہ کر فورمین کو پیش کر دیتا اور کسی دوسرے کو سیون اپ پیش کرتے ہوئے کہتا کہ یہ میری جِن ہے ( یہ نام میں نے نویں جماعت میں ناول ٹیژر آئی لینڈ میں پڑھے تھے) ۔ یہ اخراجات میں اپنی جیب سے قومی خدمت کیلئے کرتا تھا ۔ اللہ سُحانُہُ و تعالیٰ نے مجھے کامیابی دی اور جرمن انجیئروں میں ہر دل عزیز بنا دیا ۔ چنانچہ میں ذاتی سطح پر وہ ٹیکنیکل معلومات حاصل کرنے میں کامیاب ہوا جو مجھے سرکاری طور پر نہیں مِل سکتی تھیں

پہلی چیز جو میں دیکھی ۔ ایم جی وَن اے تھری میں ایک انرشیا بولٹ تھی جس کے ایک طرف پِن (Pin) اور دوسری طرف سلِیو (Sleeve) تھی جبکہ وہاں جو ایم جی جوڑی جارہی تھی اس کے دونوں طرف سلِیوز تھیں ۔ میں نے حسبِ معمول دو بوتلیں سیون اپ کی نکالیں اور فورمین کے کمرے میں جا بیٹھا ۔ تھوڑی دیر بعد فورمین فارغ ہو کر آیا اور آتے ہی کہا ”از راہ مہربانی بتایئے کہ میں آپ کیلئے کیا کر سکتا ہوں ؟ (Was Ich fuer zie can tuen bitte)“ یہ جرمنوں کی عادت ہے وہ بڑی میٹھی زبان بولتے ہیں ۔ میں نے بوتل پیش کرتے ہوئے حقیقت بتائی ۔ وہ کہنے لگا ”یہ ایم جی تھری بن رہی ہے“۔ میں نے استفسار کیا کہ یہ تبدیلی کیوں کی گئی تو اُس نے بتایا ”میں جنگِ عظیم دوم میں نیوی میں تھا اور برما کے محاذ پر لڑائی میں حصہ لیا تھا ۔ میں جانتا ہوں کہ اگر جنگ کے دوران گنر جلدی میں انرشیا بولٹ اُلٹی ڈال دے تو مشین گن فائر نہیں کرے گی“۔

اس فور مین سے تبادلہ خیال ہوتا رہتا تھا ۔ میری دلچسپی اور گہری نظر دیکھ کر وہ ایک دن 15 منٹ کی ٹی بریک کے دوران جب سب دُور بیٹھ کر چائے پینے میں مشغول تھے مجھے ورکشاپ میں لے جا کر مشین گن کی ہاؤسنگ دکھاتے ہوئے پوچھا ”یہاں کچھ دیکھ رہے ہو ؟“ میں نے غور کیا تو سوراخ جس میں سے کارتوس چلنے کے بعد خالی کھوکھے باہر نکلتے ہیں اُس کی شکل اور سائز ایم جی ون اے تھری سے مختلف لگا ۔ میں نے اُسے بتایا تو وہ بہت خوش ہوا اور دفتر کی طرف چل پڑا ۔ راستہ میں بولا ”آج میں آپ کو کچھ پلاؤں گا ۔ کیا پئیں گے جوس یا کافی ؟“ میرے کہنے پر اُس نے کافی منگائی (میں جانتا تھا کہ جوس کافی مہنگا ہے)۔ کہنے لگا ”یہ بھی ایم جی تھری کی ہاؤسنگ ہے ۔ ایم جی ون اے تھری میں کبھی کبھار کارتُوس چلنے کے بعد کھوکھا باہر نکلتے ہوئے اس سورخ میں پھنس جاتا ۔ جس سے مشین گن چلنا بند ہو جاتی تھی اور حادثہ کا بھی خدشہ تھا ۔ اسلئے فوج کی شکایت پر اس کے ڈیزائین میں ہماری کمپنی نے تبدیلی کی“۔

میں نے اپنے دفتر میں جا کر جرمن انجنیئر سے بات کی ۔ وہ مجھے اپنے باس پلاننگ انجیئر کے پاس لے گیا ۔ پلاننگ انجنیئر نے کہا ”یہ معاملہ میرے بس سے باہر ہے ۔ آپ کا نقطہ نظر میری سمجھ میں آ گیا ہے ۔ میں ٹیکنیکل چیف سے بات کروں گا“۔ اور وہ اُٹھ کر غالباً ٹیکنیکل چیف کے پاس چلا گیا ۔ اگلے روز اُس نے بتایا ”میں نے بات کی ہے ۔ بہتر ہو گاکہ آپ ٹیکنیکل چیف کو خود ٹیکنیکل معلومات اور معاہدے کی شقّات کے حوالے سے بات کریں ۔ میں نے کہا ”چیک کریں ۔ اگر ٹیکنیکل چیف فارغ ہوئے تو ابھی چلتے ہیں“۔ میں نے اپنے (پاکستانی) باس کو کہا تو اُنہوں نے کہا ”مجھے سمجھا دو ۔ میں ٹیکنیکل چیف کے پاس جاؤں گا ۔ تمہارا اُن کے پاس جانا درست نہیں ۔ وہ چیف ہے“۔ خیر میں نے اپنے باس کو سب کچھ واضح کیا ۔ وہ جرمن پلاننگ انجنیئر کے پاس گئے مگر واپس آ کر کہا ”میں نے سوچا ہے کہ تم ہی چلے جاؤ“۔ چند منٹ بعد پلاننگ انجنیئر آیا اور ہم دونو چل پڑے ۔ پیچھے سے ایک جرمن انجنیئر نے آ کر میرے کان میں کہا ”چیف نے آپ کو بُلایا تھا ۔ آپ نے اپنے باس کو کیوں بھیج دیا ؟ میرے باس نے اُنہیں کہہ دیا کہ آپ کے جانے کی ضرورت نہیں مسٹر اجمل جائے گا“۔ (خیال رہے یہ رویّہ ہمارے ملک میں عام پایا جاتا ہے جو میرے خیال کے مطابق ہماری بدقسمتی ہے)

میری بات چیف نے غور سے سُنی اور میرے نقطہ نظر کو سراہتے ہوئے کہا ”میں ایک دو دن میں بتاؤں کا“۔ واپسی پر پلاننگ انجنیئر نے مجھے بتایاکہ معاملہ معاہدے کا ہونے کی وجہ سے صرف ادارے کا بورڈ ہی اس کا فیصلہ کر سکتا ہے ۔ دو تین دن بعد جرمن انجنیئر نے آ کر کہا ”مسٹر اجمل ۔ چلیئے ۔ میٹنگ ہو رہی ہے جس میں آپ کو بلایا ہے“۔ راستہ میں بولا ” آپ کو صبح بلایا گیا تھا مگر آپ کی بجائے آپ کے باس چلے گئے ۔ وہاں وہ اپنا مؤقف ہی واضح نہ کر سکے تو ٹیکنیکل چیف نے مجھے کہا کہ آپ کو بلا لاؤں“۔ میں کمرے میں داخل ہو کر کرسی پر بیٹھا تو چیف نے مجھے بولنے کا اشارہ دیا ۔ میں چیف کی طرف منہ کر کے بولنے لگا تو چیف نے ڈائریکٹر سیلز اور چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف اشارہ کر کے کہا” آپ انہیں نہیں پہچانتے ؟“

میں بات سمجھ گیا اور چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھ کر بات شروع کی ۔ وہ اعتراضات کرتے رہے اور میں دلائل دیتا رہا“۔ آخر ٹیکنیکل چیف جو ابھی تک صرف مُسکرا رہے تھے چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھ کر بولے” میرا خیال ہے کہ اس نے اپنا نقطہ نظر واضح کر دیا جو میرے مطابق درست ہے“۔ اس پر چیف فار کمرشل افیئرز نے ڈائریکٹر سیلز سے اُس کا نظریہ دریافت کیا تو وہ چیف فار کمرشل افیئرز کی طرف دیکھتے ہوئے بولا ” آپ کو شاید یاد ہو گا کہ جب پاکستان میں معاہدہ کے مسؤدے پر بحث ہونے لگی تھی تو ممبر پی ایف بورڈ فار انڈسٹریل اینڈ کمرشل ریلیشنز نے مسٹر اجمل کو بُلا لیا تھا اور اسی کی بحث اور مہیاء کردہ جواز کے نتیجہ میں معاہدے میں چند نئی شقیں ڈالی گئی تھیں ۔ آج جس شق کے تحت انہوں نے بات کی ۔ یہ ان میں سب سے اہم شق ہے “۔

چیف فار کمرشل افیئرز کچھ دیر سوچ میں پڑے رہے پھر بولے ”آپ درست کہتے ہیں“۔ اس میٹنگ کے دوران وہ نہائت سنجیدہ رہے لیکن اب وقفہ کے بعد مسکرا کر میرے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے بولے ” اب آپ نے ہمیں بھی اپنی کی ہوئی تبدیلیوں سے آگاہ کرنا ہے“۔ میں نے خوشی کا اظہار اور شکریہ کے ساتھ ہاں میں ہاں ملائی

یہی چیف ٹیکنیکل اور ڈائریکٹر سیلز اور چیف فار کمرشل افیئرز 1968ء میں میری ایجاد کے نتیجے میں مجھے جرمنی لے جانے کیلئے ایک چھوٹے پرائیویٹ ہوائی جہاز پر پاکستان پہنچ گئے تھے

مندرجہ بالا تبدیلیوں اور میرے ڈیزائین کردہ سوراخ (Polygon profile bore) والی نالی (barrel) کے ساتھ میں نے مشین گن کا نام ایم جی ون اے تھری (MG1A3) کی بجائے ایم جی ون اے تھری پی (MG1A3P) رکھ دیا جو آج تک رائج ہے ۔ اس کے بعد ایم جی ون اے تھری پی اور ایم جی تھری میں صرف یہ فرق رہ گیا کہ ایم جی تھری میں ڈِس اِنٹریگیٹِنگ بَیلٹ (disintegrating belt) استعمال ہوتی ہے جسے بھرنے کیلئے خاص مشین درکار ہوتی ہے ۔ اس کے استعمال شُدہ لنکس کو اکٹھا کرنا اور بھرنے کیلئے فیکٹری پہنچانا مُشکل ہوتا ہے خاص کر میدانِ جنگ سے تو انہیں واپس لانا ممکن نہیں ہوتا ۔ جبکہ ایم جی ون اے تھری پی میں لِنکڈ بَیٹ (linked belt) استعمال ہوتی ہے جس میں 50 کارتوسوں کا ایک لِنک ہوتا ہے ۔ ایسے 5 لِنکس کو جوڑ کر 250 کارتوسوں کی بَیلٹس بنا لی جاتی ہیں ۔ اس میں مشین کے علاوہ ہاتھ سے بھی کارتوس بھرے جا سکتے ہیں صرف بھرنے کی رفتار کم ہوتی ہے ۔ اِن لِنکس کو استعمال کے دوران بالخصوص میدانِ جنگ میں ہاتھ سے جوڑ کر بَیلٹ کی لمبائی بڑھائی جا سکتی ہے اور استعمال شدہ بَلٹس میدان جنگ میں بھری جا سکتی ہیں اور خالی بَیلٹس میدانِ جنگ سے واپس لائی جا سکتی ہیں ۔ انہی حقائق کی بنا پر ایم جی تھری کا ڈیزائن اپنایا نہیں گیا تھا

میں اُس اللہ الرّحمنٰ الرّحیم اور قادر و کریم کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ چاروں طرف مخالفتیں ہونے کے باوجود میری نا اہلیوں اور خطاؤں سے درگذر کرتے ہوئے اُس باری تعالیٰ نے ہمیشہ میرا سر بلند رکھا
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو ۔ میری کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ کرم ہے میرے اللہ کا ۔ مجھ میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ سوچ

بولنے کی رفتار کم رکھیئے لیکن سوچنے کی تیز

اپنا علم دوسروں میں بانٹیئے ۔ اس سے آدمی ہمیشہ زندہ رہتا ہے

سوچیئے کہ آپ اس پر عمل کرتے ہیں ؟

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Drone Strikes Declared Illegal By European Union “

دودھ کی تیاری

نیچے دی گئ وڈیو میں این ڈی ٹی وی والے بتاتے ہیں کہ بھارت میں اضافی طلب کو پورا کرنے کیلئے دودھ کیسے تیار کرتے ہیں
یہ طریقے تو غیر ملک میں زیرِ استعمال ہیں ۔ ہمیں اپنی فکر کرنا چاہیئے کہ ہمارے ہاں کیا ہو رہا ہے

ایک حقیقت تو عیاں ہے کہ میرے بہت سے ہموطن ایوری ڈے پاؤڈر کو خالص دودھ سمجھ کر استعمال کرتے ہیں ۔ میں اَن پڑھ لوگوں کی بات نہیں کر رہا بلکہ اچھے خاصے پڑھے لکھوں کی بات کر رہا ہوں ۔ ایک صاحب ایم ایس سی انجیئرنگ ہیں
میں نے اُن سے کہا کہ ”مجھے اس پاؤدر کے بغیر چائے دے دیجئے“۔
بولے ”کیوں ؟ آپ دودھ نہیں لیتے ؟“
میں کہا ”جناب میں دودھ پیتا ہوں مگر یہ دودھ نہیں ہے“۔
فرمایا ”اس پر تو خالص دودھ لکھا ہے“۔

دراصل ایوری ڈے کی ڈبیہ پر ”خاص دودھ“ لکھا ہوتا ہے ۔ ہمارے ہاں جو دودھ ڈبوں میں مختلف ناموں سے بِک رہا ہے اور میرے ہموطن ڈھڑا دھڑ استعمال کر رہے ہیں کبھی ڈبہ کو بغیر ہلائے دودھ نکال لیجئے پھر ڈبہ کو پھاڑ کر ڈبہ میں دیکھیئے کہ نیچے کیا بیٹھا ہوا ہے ؟
جو دودھ دکانوں پر بکتا ہے اُس میں بھی کہیں دودھ ہے کہیں ملاوٹ والا ہے اور کہیں خاص قسم کا دودھ ہے کیونکہ فنکار ہمارے ہاں بھی کم نہیں

چھوٹی چھوٹی باتیں ۔ خواب

سوتے ہوئے یا جاگتے میں بھی خواب دیکھنا جُرم نہیں ہے
لیکن
اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے خواب پورے ہوں تو زیادہ مت سویئے
خاص کر جاگتے ہوئے مت سویئے

یہاں کلک کر کے پڑھیئے ” Good Time For savages “