عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری اپنے اپنے حامیوں کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر براجمان ہیں ۔ دونوں وزیر اعظم نواز شریف اور انکی کابینہ سے استعفے طلب کر رہے ہیں تاہم حکومت ڈاکٹر طاہر القادری کی نسبت عمران خان کے بارے میں زیادہ تشویش رکھتی ہے کیونکہ عمران خان اپنے مطالبات پورے نہ ہونے کی صورت میں پارلیمینٹ ہاؤس میں گھسنے کی دھمکی بھی دے رہے ہیں ۔جو لوگ عمران خان کے آزادی مارچ کو سفینہ غم دھاندلی سمجھ رہے تھے انہیں عمران خان کے بدلتے ہوئے لب ولہجے میں نواز شریف کے خلاف ذاتی غصہ غلبہ پاتا ہوا نظر آ رہا ہے
کیا عمران خان کے اس غصے کی وجہ صرف 2013ء کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی ہے ؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے ہمیں ماضی میں جھانکنا ہو گا۔ آج میں کچھ ایسے واقعات کا ذکر کروں گا جو مجھے خود عمران خان نے بتائے یا جن کا میں عینی شاہد ہوں
ایک دفعہ عمران خان نے مجھے 1987ء کا ایک واقعہ سنایا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب عمران خان پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے۔ اکتوبر 1987ء میں ویسٹ انڈیز کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی۔ ایک دن قذافی اسٹیڈیم لاہور میں دونوں ٹیموں کے درمیان ایک وارم اپ میچ تھا ۔ صبح جب دونوں ٹیمیں اسٹیڈیم میں پہنچیں تو کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری شاہد رفیع نے عمران خان کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نواز شریف آج پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرینگے
یہ سن کر عمران خان حیران رہ گئے کیونکہ کرکٹ ٹیم کے کپتان تو وہ تھے اور نواز شریف کی کرکٹ ٹیم میں اچانک شمولیت کے بارے میں انہیں کچھ پتہ نہ تھا۔ عمران خان نے یہ سمجھا کہ نوازشریف صرف ایک نمائشی کپتان کا کردار ادا کریں گے اور صرف پویلین میں بیٹھ کر میچ دیکھیں گے لیکن کچھ ہی دیر میں وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ویسٹ انڈیز کرکٹ ٹیم کے کپتان ویوین رچرڈز اور نواز شریف گراؤنڈ کے اندر داخل ہو کر ٹاس کر رہے ہیں ۔ نواز شریف نے ٹاس جیت لیا اور بیٹنگ کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کا خیال تھا کہ نواز شریف پویلین میں آکر انہیں کہیں گے کہ اب باقی میچ آپ سنبھالیں اور اوپننگ کیلئے اپنے بلے بازوں کو گرائونڈ میں بھیجیں ۔ نواز شریف پویلین میں آئے اور مدثر نذر سے کہا کہ آپ نے اوپننگ کرنی ہے ۔ پوری ٹیم یہ جاننا چاہتی تھی کہ مدثر نذر کے ساتھ دوسرا اوپننگ بلے باز کون ہوگا لیکن نواز شریف نے خاموشی کے ساتھ خود ہی پیڈ باندھنے شروع کر دیئے
مدثر نذر نے بیٹنگ پیڈز کے ساتھ ساتھ تھائی پیڈ، سینے کو بچانے کیلئے چیسٹ پیڈ، آرم گارڈ اور ہینڈ گلوز کے ساتھ ساتھ اپنا سر بچانے کیلئے ہیلمٹ بھی پہن رکھی تھی کیونکہ اسے دنیا کے تیز ترین اور سب سے خطرناک فاسٹ باؤلروں کا مقابلہ کرنا تھا جنہیں کالی آندھی کہا جاتا تھا۔ عمران خان نے دیکھا کہ مدثر نذر کے مقابلے پر نواز شریف نے صرف بیٹنگ پیڈز اور ہینڈ گلوز پہنے اور سر پر دھوپ سے بچاؤ والا سفید ہیٹ سجایا ہوا تھا ۔ نواز شریف نے مسکراتے ہوئے مدثر نذر سے کہا کہ ’’چلیں جی ‘‘۔ مدثر نذر نے اثبات میں سر ہلایا اور دونوں بلے باز گراؤنڈ میں داخل ہوگئے ۔ عمران خان نے پریشان لہجے میں کرکٹ بورڈ کے حکام سے کہا کہ ایک عدد ایمبولینس کا بندوبست کرلو ۔ گراؤنڈ میں پہنچ کر مدثر نذر کی بجائے نواز شریف نے پہلی گیند کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ویسٹ انڈیز کے ساڑھے چھ فٹ لمبے فاسٹ باؤلر کی پہلی گیند نواز شریف کے بلے سے دور تھی اور وکٹ کیپر کے پاس چلی گئی۔ دوسری گیند پر نواز شریف کلین بولڈ ہو گئے۔ عمران خان بتاتے ہیں کہ نواز شریف کوئی گیند کھیلے بغیر واپس پویلین میں آئے تو ان کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی ۔ عمران خان کو ایسا لگا کہ نواز شریف محض اس لئے خوش ہیں کہ انہوں نے ایک دن کیلئے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کپتانی پر قبضہ کر لیا ہے لیکن وہ نواز شریف کی بہادری کے قائل بھی ہو گئے
بعد کے سالوں میں نواز شریف نے شوکت خانم میموریل ہاسپیٹل کی تعمیر میں عمران خان کی کافی مدد کی لیکن دونوں کے درمیان فاصلے کم نہ ہو سکے۔ 2007ء میں نواز شریف، عمران خان، قاضی حسین احمد، محمود خان اچکزئی اور کچھ دیگر رہنماؤں نے فیصلہ کیا کہ پرویز مشرف کی حکومت کی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ آصف علی زرداری نے دسمبر 2007ء میں نواز شریف کو انتخابات میں حصہ لینے کیلئے آمادہ کر لیا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نے عمران خان سے کہا کہ وہ بھی انتخابات میں ضرور حصہ لیں لیکن عمران بار بار مجھے کہتے تھے کہ نواز شریف نے ہمیں زبان دی ہے وہ انتخابات کا بائیکاٹ کرے گا ۔ لیکن جب مسلم لیگ (ن) نے انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کر دیا تو عمران خان نے اپنا سر پکڑ لیا
2009ء میں نواز شریف اور عمران خان نے مل کر معزول ججوں کی بحالی کیلئے لانگ مارچ کا فیصلہ کیا۔ عمران خان کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے تھے لہٰذا وہ زیر زمین چلے گئے اور طے پایا کہ جب نواز شریف کا قافلہ راولپنڈی پہنچے گا تو عمران خان منظر عام پر آ جائیں گے ۔ نوازشریف کا قافلہ گوجرانوالہ تک پہنچا تو زرداری حکومت نے ججوں کی بحالی کا مطالبہ تسلیم کر لیا اور نواز شریف نے لانگ مارچ ختم کر دیا۔ عمران خان کہتے ہیں کہ نواز شریف نے ان سے مشورہ کئے بغیر لانگ مارچ ختم کیا اور ایک دفعہ پھر اپنے ناقابل اعتبار ہونے کا ثبوت دیا
2013ء کی انتخابی مہم ختم ہونے میں دو دن باقی تھے ۔ میں نے اسلام آباد میں نواز شریف کا انٹرویو کیا جو اسی شام جیو ٹی وی پر نشر ہونا تھا ۔ اس انٹرویو میں نواز شریف نے عمران خان کے بارے میں بڑی سخت زبان استعمال کی تھی ۔ اسی شام عمران خان لاہور میں ایک حادثے میں زخمی ہو گئے۔ نواز شریف صاحب نے مجھے کہا کہ ان کا انٹرویو نشر نہ کیا جائے کیونکہ اس میں عمران خان کے خلاف سخت زبان استعمال کی گئی تھی انکے زخمی ہونے کے بعد یہ زبان مناسب نہیں ہے ۔ نواز شریف نے اس شام اپنا جلسہ ملتوی بھی کر دیا اور عمران خان کیلئے صحت کی دعا کی
انتخابات سے اگلے روز نواز شریف نے ہاسپیٹل جاکر عمران خان کی عیادت کی
مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ (ن) اور آفتاب شیر پاؤ کے ساتھ مل کر خیبر پختونخوا میں حکومت بنانا چاہتے تھے لیکن نواز شریف نے ان سے معذرت کرلی اور پی ٹی آئی کو صوبے میں حکومت بنانے دی
ان سب اقدامات کے باوجود عمران خان اور نواز شریف میں فاصلے کم نہیں ہوئے
عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کیا تو خیال تھا کہ وہ انتخابی اصلاحات کے ذریعہ آئندہ دھاندلی کا راستہ روکنا چاہتے ہیں لیکن اب تو وہ طاہر القادری کے ساتھ مل کر نواز شریف سے استعفٰے مانگ رہے ہیں ۔حکومت کے کچھ وزراء کو اس پورے کھیل کے پیچھے کچھ مغربی طاقتوں کا ہاتھ نظر آتا ہے جو نواز شریف حکومت کی چین کےساتھ بڑھتی ہوئی قربت سے خائف ہیں ۔ ان وزراء کا دعویٰ ہے کہ حکومت کو اس کھیل میں شامل کچھ غیر سیاسی عناصر، صحافیوں، ٹی وی چینل مالکان اور بعض کاروباری شخصیات کے بارے میں ثبوت مل چکے ہیں تاہم ابھی تک کوئی ادارہ اس میں ملوث نظر نہیں آتا
عمران خان ہر قیمت پر نواز شریف کو کلین بولڈ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ بھول رہے ہیں کہ یہ کرکٹ گراؤنڈ نہیں بلکہ سیاست کا میدان ہے ۔ اس میدان میں نواز شریف کا تجربہ عمران خان سے زیادہ ہے اور اگر عمران خان نے کسی امپائر کی ملی بھگت سے نواز شریف کو حکومت سے نکال بھی دیا تو نواز شریف سیاسی مظلوم بن جائیں گے اور عمران خان کو کچھ نہیں ملے گا ۔ عمران خان مڈٹرم انتخابات کے راستے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں ۔ اقتدار میں آکر وہ طالبان سے مذاکرات پر زور دیں گے ۔ آپ خود ہی فیصلہ کر لیں کہ عمران خان اقتدار میں آ سکیں گے یا نہیں ؟
تحریر ۔ حامد میر