نیچے نقل کردہ مضمون پڑھتے ہوئے میری آنکھوں سے برسات شروع ہو گئی اور جیسے کلیجہ اُچھل کر حلق میں پھنس گیا ۔ بہت کم عمری میں دیکھے مناظر اور سُنی آوازیں ذہن میں اس طرح سے چل پڑیں جیسے میں اُسی (1947ء کے) دِل دہلا دینے والے دور میں دوبارہ پہنچ گیا ہوں جب 3 ماہ ہر لمحہ موت سر پر مڈلاتی رہتی تھی ۔ جب کھانے کو کچھ یا پانی مل جائے تو اللہ کا لاکھ شکر بجا لاتے کہ نامعلوم پھر کب ملے یا نہ ہی ملے ۔ اسی لئے فلسطین والوں کیلئے میرا دل تڑپتا ہے ۔ 10 سال کی عمر ہوتے ہی اچانک ایسے ہولناک ماحول میں گھِر جانے کے بعد میری کیفیت صرف وہی سمجھ سکتا ہے جو ایسے ماحول میں گھِرا ہو
کاش 1947ء کے بعد پیدا ہونے والے میرے ہموطن اس مُلک پاکستان کی قدر کو پہچانیں اور سوچیں کہ جو مُلک اُن کے برزگوں نے تو اپنی جان و مال اور بیٹیوں کی عزتوں کی قربانی دے کر اس مُلک کو بنایا تھا ۔ اب اس کی نگہداشت اور ترقی اُن کے ذمہ ہے
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
یہ 1977ء کی بات ہے۔ سرہند شریف میں حضرت مجدد الف ثانی کے عرس کی تقریبات اختتام پذیر ہوئیں تو اگلے روز قریباً 100 پاکستانی زائرین پر مشتمل وفد سر ہند سے قریباً 20 کلومیٹر پر واقع ایک قصبہ براس کی طرف روانہ ہوا جہاں ایک روایت کے مطابق بعض انبیائے کرام مدفون ہیں۔ زائرین کے لئے دو بسیں مخصوص کی گئی تھیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میری نشست پاکستانی وفد کے قائد مسٹر جسٹس (ریٹائرڈ) صدیق چودھری کے ساتھ تھی۔ بس اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی تو جسٹس صاحب (جو اب فوت ہوچکے ہیں) نے اپنے خالص دیہاتی لہجے میں گفتگو کا آغاز کیا۔ میرے لئے ان کی یہ گفتگو حقیقتوں کا عرفان تھی۔ جسٹس صاحب قیام پاکستان کے بعد مغویہ عورتوں کے لئے قائم شدہ کمیشن کے رکن تھے اور اس عرصے میں انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے فرائض انجام دیئے تھے۔
وہ بتا رہے تھے ”اس وقت تم سڑک کے دونوں جانب جو ہرے بھرے کھیت دیکھ رہے ہو ۔ 1947ء میں یہاں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے سروں کی سرخ فصلیں کاٹی گئی تھیں۔ تم نے عورت کے کئی روپ دیکھے ہوں گے مگر اس کی بےچارگی اور مظلومیت کا رخ شاید اس طرح نہ دیکھا ہو جس طرح میں نے دیکھا ہے۔ جب مجھے پتہ چلتا کہ کسی گائوں میں مسلمان عورتیں درندوں کے قبضے میں ہیں تو میں پولیس کے چند سپاہیوں کے ساتھ خون کے پیاسے افرا د کے درمیان میں سے گزر کر ان تک پہنچتا مگر کئی بار یوں ہوا کہ مغویہ ہمیں دیکھ کر ہمارے ساتھ چلنے کی بجائے اس وحشی کے پہلو میں جا کھڑی ہوتی جس نے اس کے والدین کو قتل کردیا تھا اور اسے اٹھا کر اپنے گھر ڈال لیا تھا لیکن جب ہم اسے یقین دلاتے کہ اب وہ مکمل طور پر محفوظ ہے اور اسے اس غنڈے سے ڈرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تو وہ ہمارے ساتھ چلنے پر رضا مند ہوتی اور پھر مغویہ عورتوں کے کیمپ میں پہنچ کر وہ اپنے بچے کچھے کسی عزیز کے گلے لگ کر ہچکیاں لے لے کر روتی“۔
جسٹس صاحب نے بتایا ”میری آنکھوں نے وہ خوں آشام مناظر دیکھے ہیں کہ ایک وقت میں انسانیت سے میرا اعتماد اٹھ گیا تھا۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران میری ملاقات ان بچیوں سے بھی ہوئی جو پورے پورے گاؤں کی ملکیت تھیں۔ میں نے کیمپوں میں دھنسی ہوئی آنکھوں اور پھولے ہوئے پیٹ دیکھے ہیں۔ یہ اس وقت ہم جس علاقے سے گزر رہےہیں۔ یہاں مسلمان عورتوں کے برہنہ جلوس گزرتے رہے ہیں۔ مگر میں تمہیں ایک واقعہ ضرور سنائوں گا“۔ جسٹس صاحب نے کہا ”مجھے اطلاع ملی کہ ایک سیّد زادی کو ایک بھنگی نے اپنے گھر میں ڈالا ہوا ہے۔ میں پولیس کے سپاہیوں کے ساتھ اس گائوں میں پہنچا اور دروازہ توڑ کر گھر داخل ہوا تو میں نے دیکھا صحن میں ایک بچی کھانا پکا رہی تھی اور ایک طرف جائے نماز بچھی تھی ۔ اتنے میں ایک دوسرے کمرے سے ایک ادھیڑ عمر کا کالا بھجنگ شخص نکلا اور ہمارے سامنے آکر کھڑا ہوگیا۔ یہ وہی بھنگی تھا جس کے متعلق اطلاع ملی تھی کہ اس نے ایک سید زادی کو اغوا کر کے گھر میں ڈال رکھا ہے۔ اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک زور دار مکا اس کے منہ پر رسید کیا جس سے وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اس کے منہ سے خون جاری ہوگیا تھا۔ وہ تھوڑی دیر بعد اٹھا اور اپنی قمیض کے دامن سے اپنا منہ پونچھتے ہوئے اس نے کھانا پکاتی ہوئی لڑکی کی طرف اشارہ کر کے نجیف سی آواز میں پوچھا ۔ تم اسے لینے آئے ہو؟ اور پھر جواب کا انتظار کئے بغیر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔ وہ سیدھا لڑکی کی طرف گیا اور کہا ۔ بیٹی میرے پاس تمہیں الوداع کہنے کے لئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس پوٹلی میں بس ایک دوپٹہ ہے۔ اور پھر دوپٹہ اس کے سر پر اوڑاتے ہوئے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور پھر وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا“۔
براس قصبہ ایک ٹیلے پر واقع تھا۔ زائرین بسوں میں سے اترے اور قدرے بلندی پر واقع اس چار دیواری میں داخل ہوگئے ۔ زائرین نے یہاں قرآن مجید کی تلاوت کی اور دعا مانگی۔ دعا سے فراغت کے بعد بسوں کی طرف واپس جانے کے لئے ڈھلان سے اترتے ہوئے اچانک ایک دبلا پتلا سا ہندو ہمارے وفد کے قائد جسٹس صدیق چودھری کے پاس آیا اور ان کے کان میں کچھ کہا اور پھر زائرین کے آگے آگے چلنے لگا۔ جسٹس صاحب نے ہمیں بتایا کہ ”یہ ہندہ انہیں بتا کر گیا ہے کہ سکھوں نے اس گائوں میں بہت وسیع پیمانے پر مسلمانوں کا خون بہایا تھا۔ انہوں نے سینکڑوں مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی تھی، بے شمار مسلمان عورتوں کو انہوں نے اپنے گھر میں قید کر لیا تھا جو آج بھی انہی گھروں میں بند ہیں اور ان کے بچوں کی مائیں ہیں، نیز یہ کہ سینکڑوں مسلمان لڑکیوں نے اپنی عزت بچانے کے لئے کنوؤں میں چھلانگیں لگا دی تھیں اور یہ کنوئیں ان کی لاشوں سے پٹ گئے تھے۔ ان میں سے تین کنوئیں اس کے علم میں ہیں اور وہ ان کی نشاندہی کرنا چاہتا ہے“۔
یہ خبر آگ کی طرح زائرین میں پھیل گئی اور وہ تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے اس شخص کے پیچھے چلنے لگے۔ تھوڑی دیر بعد وہ ایک ہموار جگہ پر رک گیا جہاں خودرو پھول لہلہا رہے تھے۔ ان پھولوں کے نیچے کنواں تھا جو بند ہو چکا تھا یہاں سے کچھ فاصلے پر ایک اور کنواں تھا جو مسلمان لڑکیوں کی لاشوں سے بھرا ہوا تھا اور اب اسے بھی بند کیا جا چکا تھا۔ یہاں بھی فاتحہ خوانی کی گئی۔ تیسرا کنواں بہت سارے گھروں کے درمیان واقع تھا اور یہ اپنی شکل میں موجود تھا۔ اسے بند نہیں کیا گیا تھا لیکن لاشوں کے پٹ جانے کی وجہ سے چونکہ اس کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا تھا، لہٰذا اب اس میں کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا تھا۔ یہاں تک پہنچتے پہنچتے ضبط کے سبھی بندھن ٹوٹ چکے تھے۔ غم کی شدت سے زائرین کے کلیجے شق تھے اور آنکھیں ساون کی طرح برس رہی تھیں۔ خود مجھے یوں لگا میں 1977ء کی بجائے 1947ء میں سانس لے رہا ہوں۔
یہاں وفد میں شامل ایک باریش بزرگ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور پھر جوں جوں ان کی ہچکیوں بھری آواز بلند ہوتی گئی۔ زائرین کی آہ بکا میں شدت آتی گئی اور پھر روتے روتے گلے رندھ گئے۔ بھائی تیس برس بعد اپنی بہنوں کی خبر لینے آئے تھے اور پل بھر کے بعد انہوں نے پھر جدا ہو جانا تھا۔ اردگرد کے مکانوں سے بہت سی ہندو اور سکھ عورتیں بھی ذرا فاصلے پر کھڑے ہو کر دلخراش منظر دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے اپنے بہتے آنسو خشک کرنے کے لئے اپنے پلو آنکھوں پر رکھ لئے تھے اور ان میں سے ایک عوررت کو میں نے دیکھاکہ اس کے چہرے پر شدید کرب تھا اور ایک ایک زائر کو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد بے اختیار ہو کر اس نے ایک چیخ ماری اور پھر بھاگ کر نظروں سے اوجھل ہوگئی۔ مجھے لگا یہ عورت ان میں سےایک ہے جن کے پیٹ پھولے ہوئے ہیں اور آنکھیں تارے لگی ہوئی ہیں۔
دعا سے فراغت کے بعد سندھ یونیورسٹی کے ایک نوجوان نے مجھ سے کہا ”یہاں آنے سے پہلے میں اکھنڈ بھارت کا قائل تھا۔ میری گزارش ہے کہ آپ واپس جائیں تو یہ تجویز پیش کریں کہ جو لوگ اپنے دلوں میں پاکستان کے حوالے سے کچھ شکوک و شبہات رکھتے ہیں انہیں یہاں لا کر یہ کنوئیں دکھائے جائیں۔ یہ خونچکاں منظر نئی نسل کے ان افراد کو خصوصاً دکھائے جائیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان تاریخی عوامل کے بغیر بنا تھا۔ 1947ء کے بعد جنم لینے والی نسل کے افراد یہ کنویں دیکھ کر جان جائیں گے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنے دارالامان پاکستان کے لئے کتنی قربانیاں دی تھیں اور وہ یہ بھی جان جائیں گے کہ اگر اس ملک پر آنچ آتی ہے تو تلواریں ایک بار پھر ہوا میں لہرائیں گی اور بہنوں کی چیخ و پکار اندھے کنوؤں میں دم توڑ دے گی“۔ اس نوجوان نے مزید کہا ”یہ کنویں ان بدنیت دانشوروں کو بھی دکھائیں جو پاکستانی قوم کے لئے یہ کنویں دوبارہ کھودنا چاہتے ہیں“۔
آہ ۔ ۔ ۔ ۔
کاش کہ آج کی پاک قوم ان قربانیوں کو سمجھ سکے ۔ ۔ ۔