اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا حُکم تو واضح ہے ۔ سورت البقرۃ ۔ آیت 283 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کرے اور خدا سے جو اس کو پروردگار ہے ڈرے
سورت النسآء آیت 58 ۔ اللہ تعالٰی تمہیں تاکیدی حُکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ اور جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو ۔ یقیناً وہ بہتر چیز ہے جس کی نصیحت تمہیں اللہ تعالٰی کر رہا ہے ۔ بیشک اللہ تعالٰی سنتا ہے دیکھتا ہے
نامعلوم میرے ہموطنوں میں قرض لے کر واپس نہ کرنا یا لمبی تاخیر کرنا کی عادت کیسے در آئی ؟
البتہ میرے ایسے ہموطن بھی ہیں جن کی امداد اس اُمید پر کی جائے کہ رقم شاید واپس نہ ملے اور وہ واپس کر دیتے ہیں
وسط رمضان میں کاشف صاحب کی مجبوری (پریشانی) پڑھ کر ماضی کی جو تلخ و شیریں یادیں میرے ذہن میں اُبھریں میں نے کمپیوٹر میں محفوظ کر لیں لیکن رمضان مبارک کے بھرپور جدول اور عیدالفطر کے بعد قومی موضوعات کے باعث شائع نہ کر سکا ۔ سو آج پیشِ خدمت ہے
میں نے دیکھا تھا کہ والد صاحب نے جسے بھی اُدھار دیا ۔ وہ رقم واپس نہ ملی یا پھر عرصہ دراز پر محیط اقساط میں کچھ ملی باقی نہیں ۔ غریب مقروضوں کو رہنے دیتا ہوں کہ مجبوری ہو سکتی ہے کیونکہ اللہ کا فرمان بھی ہے ۔ سورت البقرۃ ۔ آیت 280 ۔ اور اگر قرض لینے والا تنگدست ہو تو (اسے) کشائش (کے حاصل ہونے) تک مہلت (دو) اور اگر (زر قرض) بخش ہی دو تو تمہارے لئے زیادہ اچھا ہے بشرطیکہ سمجھو
چنانچہ صرف دو مالدار آدمیوں کی بات کرتا ہوں
1 ۔ ایک شخص نے 1949ء میں میرے والد صاحب کے 30000 روپے دینا تھے ۔ 20000 روپے لمبے عرصہ پر محیط چھوٹی چھوٹی اقساط میں ادا کئے پھر موصوف دنیا سے کُوچ کر گئے ۔ میرے والد صاحب بھی جولائی 1991ء میں چل بسے ۔ والد صاحب کی وفات کے ایک سال بعد مقروض صاحب کا بیٹا 10000 روپے مجھے دینے آیا ۔ میں نے صرف اتنا کہا ”محترم آج اس رقم کی کیا قیمت رہ گئی ہے ؟ پھر بھی والد صاحب کی زندگی میں ادا کر دیتے تو بہتر ہوتا“۔
خیال کیجئے کہ 1949ء میں ایک روپے کے ملتے تھے
(1) اچھی گندم کا آٹا 6 کلوگرام ۔ ۔ ۔ یا
(2) خالص دودھ8 لیٹر ۔ ۔ ۔ یا
(3) دیسی گھی ایک کلو گرام ۔ ۔ ۔ یا
(4) بکرے کا صاف کیا ہوا گوشت سوا کلوگرام ۔ ۔ ۔ یا
(5) دیسی مرغی کے انڈے 24
2 ۔ دوسرے صاحب نے 1975ء میں والد صاحب کو 250000 روپے دینا تھے ۔ اُن کے پیچھے بھاگ بھاگ کے قسطوں میں 1991ء میں والد صاحب کے فوت ہونے تک آدھی رقم وصول کی اور بقیہ آدھی رقم نہیں ملی
والد صاحب کے تجربہ کی بناء پر میں نے جب بھی کسی کو رقم دی یہ سوچ کر دی کہ واپس نہیں ملے گی ۔ دو اصحاب جن سے رقم واپس ملنے کی توقع تھی اُن میں سے ایک نے واپس نہ کی اور دوسرے نے جو میرا بہترین دوست تھا 10 سال بعد واپس کی
جسے یہ سوچ کر رقم دی تھی کہ واپس ملنا مُشکل ہے اُس نے واپس کر دی ۔ یہ واقعہ تفصیل کا تقاضہ کرتا ہے
میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا (1959ء) ۔ ایک لڑکا میرے پاس آیا اور رازداری سے بات کی کہ فلاں لڑکے کی مالی حالت بہت خراب ہے اُس کے والد بیمار ہو گئے ہیں ۔ اُسے مدد کی اشد ضرورت ہے ۔ کچھ میں نے کیا ہے ۔ کچھ آپ کر دیں ۔ اگر اس نے واپس نہ کئے تو انجنیئرنگ کے بعد ملازمت ملنے پر میں واپس کر دوں گا”۔
جس لڑکے کی مدد کرنا تھی میں اُسے جانتا تھا کیونکہ 1955ء تک میرے والد صاحب نے اُس کے والد کو اپنی دکان کے ایک کونے میں بیٹھ کر پرچون صابن بیچنے کی اجازت دی ہوئی تھی جس کا کوئی معاوضہ نہیں لیتے تھے ۔ شریف سفید پوش لوگ تھے ۔ میں نے پوچھا کہ اُسے کب تک رقم چاہیئے تو کہا ”فائنل امتحان تک کا خرچہ اُسے چاہیئے ۔ ابھی تو میں دے دوں گا ۔ آپ کے پاس اسلئے آیا ہوں کہ تین چار ماہ میں بند و بست کر لیں“۔ اُن دنوں میری مالی حالت بھی اچھی نہ تھی ۔ میرے والد صاحب 3 سال سے بیمار چلے آ رہے تھے اور اُن کا کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گیا تھا ۔ میں نے 4 ماہ تک کا وعدہ کر لیا اور بچت میں لگ گیا جو کہ انتہائی مُشکل کام تھا ۔ اللہ نے مہربانی کی اور میں نے 4 ماہ میں 1500 روپیہ اکٹھا کر کے دے دیا اور اس بات کو بالکل بھُلا دیا
انجنیئرنگ کے بعد ملازمت شروع کی اور ماہ و سال گذرتے گئے ۔ اوائل 1965ء میں مجھے ایک خط ملا جس میں 1500 روپے کا بنک ڈرافٹ تھا ۔ اور ایک خط تھا جس میں شکریہ کے ساتھ تاخیر ہو جانے کی معافی مانگی تھی ۔ تاخیر کی وجہ اُس کے والد صاحب پر چڑھا قرض پہلے اُتارنا تھی ۔ اللہ کے بندے نے اپنا پتہ نہیں لکھا تھا
خاص بات یہ ہے کہ اُسے میری راولپنڈی شہر میں جھنگی محلہ کی رہائش کا علم تھا اور 1958ء کے بعد میری اس سے ملاقات نہ ہوئی تھی ۔ ہم 1964ء میں سیٹیلائیٹ ٹاؤن منتقل ہو گئے تھے ۔ میں حیران تھا کہ اُسے میری نئی رہائشگاہ کا کیسے علم ہوا ؟ کچھ دن بعد مجھے اُس لڑکے کا خط ملا جو مجھ سے پیسے لے کر گیا تھا ۔ اس میں لکھا تھا کہ اُس نے میرا پتہ اُس سے پوچھا تھا اور اُس نے واپڈا میں اپنے کے ساتھ کام کرنے والے میرے ایک دوست سے میرا پتہ معلوم کر کے اُسے لکھا تھا
کمال کی بات تو یہ رہی کہ قرض خواہان کو واپسی یاد بھی رہی. . .ورنہ اکثر لوگ تو اسی آس میں قرض واپسی کو طول دیتے ہیں کہ شاید قرض دینے والا تنگ آکر کہے۔۔۔۔رہنے دو….یا پھر وہ خود قیاس کرلیتے ہیں کہ انہیں اتنے سے پیسوں کی کیا ضرورت ہوگی۔
بس دعا ہے کہ اللہ کبھی کسی پر ایسا وقت نہ لائے کہ سوال کی نوبت آئے