میں 4 اگست کو ایک قومی نغمے کو انٹرنیٹ پر تلاش کر رہا تھا ۔ وہ نغمہ تو نہ ملا البتہ میری تصویر کے ساتھ اللہ کا مندرجہ ذیل فرمان جو میرے بلاگ کی زینت ہے نظر آیا
۔ سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ
مجھے تجسس ہوا کہ دیکھوں یہ کس نے نقل کیا ہے چنانچہ دیئے ہوئے حوالہ کو کھولا تو وہ پلس گوگل کام کا ایک صفحہ تھا ۔ میں نے آج تک پلس گوگل کام پر کچھ نہیں لکھا اور نہ ہی اس سے قبل کبھی کھول کر دیکھا تھا ۔ اس صفحہ پر مندرجہ عبارت لکھی تھی جسے 5051 لوگ پڑھ چکے تھے اور جس کا تعاقب کرنے والے 200 تھے
Iftikhar ajmal Bhopal commented on a post on Blogger.
Shared publicly – 13 Nov 2013
اللہ کا فرمان اٹل ہے ۔ سورت 53 النّجم آیت 39۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی ۔
(اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی)
سورت 13 الرعد آیت 11۔ إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ
(اللہ تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے)
برائی کے خلاف جد و جہد انسان کا فرض ہے جس سے عصرِ حاضر کا انسان غافل ہو چکا ہے ۔کوئی خود غلط کام نہیں بھی کرتا لیکن وہ دوسرے کو غلط کام سے روکنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ گویا انسان مصلحتی بن چکا ہے جو کی اسلام کی نفی ہے ۔
محترم اگر جھاڑو دیا جائے تو غلیظ جگہوں سے کچھ گندگی کم ہو جاتی ہے لیکن صاف جگہوں پر اس میں سے کچھ گندگی پہنچ جاتی ہے ۔ اسلئے جھاڑو نہیں پھیرنا چاہیئے ۔ معاشرے کے ہر تکنیکی گروہ میں اچھے لوگ ہیں اور بُرے بھی ۔ چنانچہ وکلاء کو استثنٰی حاصل نہیں ہے ۔
دوسری بات کہ جج صاحبان کے جن اقارب کی بات آپ کر رہے ہیں وہ آپ ہی کے تکنیکی گروہ (وکلاء) سے تعلق رکھتے ہیں ۔ کیا وکلاء کی بار کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں کہ جج صاحبان کے ان اقارب وکلاء کو کسی نظم کا پابند کر سکیں ؟ اگر نہیں تو پہلے اپنی بار کے قواعد و ضوابط درست کروایئے پھر جہاد کا عَلَم بلند کیجئے ۔ جس کا اپنا گھر ہی درست نہ ہو وہ دوسروں کو کیا درست کرے گا ۔
پوری تحریر پڑھنے کے بعد یہ تاءثر اُبھر سکتا ہے کہ جیسے جج صاحبان کے اقارب آپ کا رزق کم کرنے کیلئے کوشاں ہیں جو باعثِ خلش ہے ۔ بلاشبہ پرہیز گار سب جج نہیں اور سب وکلاء بھی کچھ جج صاحبان سے پیچھے نہیں ۔ میں وکیل نہیں ہوں لیکن وکلاء کے بہت قریب رہا ہوں اور بات چند سال کی نہیں یہ قُرب چالیس سال سے زائد پر محیط ہے جس میں وکلاء کی تین جنریشنز سے واسطہ پڑا ۔ میرا تجربہ بتاتا ہے کہ اگر وکلاء بد اخلاقی چھوڑ دیں تو کوئی جج کم ہی کسی بد اخلاقی کی جراءت کرے گا
http://www.theajmals.com
مندرجہ بالا تحریر میرا تبصرہ ہے جو میں نے لاء سوسائٹی پاکستان کی ایک پوسٹ پر کیا تھا ۔ مجھے اس پر اعتراض نہیں صرف ”حیرت“ ہے کہ یہ کس نے پلس گوگل پر نقل کیا
میری یادداشت کے مطابق بلاگسپاٹ پر ایک گوگل پلس کے ذریعے تبصروں کا آپشن بھی ہوتا ہے۔ شاید یہ وہی کہانی ہے۔