دنیا بھر میں جموں کشمیر کے رہنے والے آج یوم شہدائے کشمیرمنارہے ہیں ۔ تاریخ کا ایک ورق پیشِ خدمت ہے
ڈوگرہ مہاراجوں کا دور جابرانہ اور ظالمانہ تھا ۔ مسلمانوں کو نہ تحریر و تقریر کی آزادی تھی نہ دِینی اور سماجی سرگرمیوں کی ۔ مگر مہاراجہ ہری سنگھ نے تو اِنتہا کر دی ۔ لاؤڈ سپیکر پر اذان اور جمعہ اور عیدین کے خطبہ پر بھی پابندی لگا دی گئی ۔ اس پر پوری ریاست میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ۔ بزرگوں نے جوان قیادت کو آگے لانے کا فیصلہ کیا ۔ اتفاق رائے کے ساتھ جموں سے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان (ہمارے خاندان سے) ۔ شیخ حمید اللہ وغیرہ اور کشمیر سے شیخ محمد عبداللہ ۔ یوسف شاہ (موجودہ میر واعظ عمر فاروق کے دادا) ۔ غلام نبی گُلکار وغیرہ کو چنا گیا
26 جون 1931ء کو سرینگر کی مسجد شاہ ہمدان میں جموں کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا جلسہ ہوا جس میں 50000 مسلمانوں نے شرکت کی ۔ جب لیڈر حضرات آپس میں مشورہ کر رہے تھے تو ایک شخص (جسے کوئی نہیں پہچانتا تھا) نے اچانک سٹیج پر چڑھ کر بڑی ولولہ انگیز تقریر شروع کر دی ۔اور آخر میں کہا ”مسلمانوں اِشتہاروں اور جلسوں سے کچھ نہیں ہوگا اُٹھو اور مہاراجہ ہری سنگھ کے محل کی اینٹ سے اینٹ بجا دو“ ۔ اُسے گرفتار کر لیا گیا ۔ اس شخص کا نام عبدالقدیر تھا وہ امروہہ کا رہنے والا تھا جو یوپی ہندوستان میں واقع ہے اور ایک انگریز سیاح کے ساتھ سرینگر آیا ہوا تھا
عبدالقدیر کے خلاف مقدمہ کی سماعت 13 جولائی 1931ء کو سرینگر سینٹرل جیل میں ہو رہی تھی ۔ مسلمانوں کو خیال ہوا کہ باہر سے آیا ہوا ہمارا مسلمان بھائی ہماری وجہ سے گرفتار ہوا ہے ۔ 7000 کے قریب مسلمان جیل کے باہر جمع ہوگئے ۔ ان کا مطالبہ تھا کہ انہیں مقدمہ کی کاروائی دیکھنے دی جائے ۔ ڈوگرہ حکمرانوں نے اس کی اجازت نہ دی جس پر تکرار ہو گئی اور ہندو آفیسر نے بغیر وارننگ دیئے پولیس کو گولی چلانے کا حکم دے دیا ۔ 22 مسلمان شہید اور بہت سے زخمی ہوئے
شہید ہونے والے ایک شخص نے یہ آخری الفاظ شیخ عبداللہ سے کہے “ہم نے اپنا کام کر دیا اب آپ اپنا کام کریں”۔
اسی شام جموں کے چوہدری غلام عباس ۔ سردار گوہر رحمان ۔ مولوی عبدالرحیم اور شیخ یعقوب علی اور کشمیر کے شیخ محمد عبداللہ اور خواجہ غلام نبی گُلکار کو گرفتار کر لیا گیا
اس کے نتیجہ میں غلامی کا طوق جھٹک دینے کے لئے جموں سے ایک زور دار تحریک اُٹھی اور جموں کشمیر کے شہروں ۔ قصبوں اور دیہات میں پھیل گئی ۔ اس تحریک کے سربراہ چوہدری غلام عباس تھے ۔ پھر 1932ء میں پہلی سیاسی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس تشکیل دی گئی ۔ شیخ محمد عبداللہ اس کے صدر اور چوہدری غلام عباس جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے ۔ یہ تحریک پورے جوش و خروش سے جاری رہی جس کے نتیجہ میں مہاراجہ ہری سنگھ جمہوری نظام قائم کرنے پر مجبور ہوا اور 1934ء میں دستور ساز اسمبلی بنا دی گئی ۔ گو یہ مکمل جمہوریت نہ تھی پھر بھی مسلمانوں کے کچھ حقوق بحال ہوئے ۔ 1934ء ۔ 1938ء ۔ 1939ء اور 1947ء میں اس اسمبلی کے پورے جموں کشمیر میں انتخابات ہوئے جن میں آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس 80 فیصد یا زائد نشستیں لے کر کامیاب ہوتی رہی
Thanks for keeping us updated Sh. Abdullah was ‘sher-e-kashmir in those days. BTW Muslim population was 85% in Kashmir if I remember correctly. I am your ‘neighbor’ also Jammu is not far from my village Kotla Arabali Khan
بھائی وھاج الدین احمد صاحب
میں 1959ء میں راوالپنڈی سے گجرات اور وہاں سے کوٹلہ ہوتے ہوئے بھمبر گیا تھا ۔ اُن دنوں میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا اور گرمیوں کی چھٹیاں تھیں ۔ وہ دن یاگار ہے ۔ راولپنڈی سے نکلتے ہی بارش شروع ہو گئی تھی ۔ گجرات پہنچے تو بہت تیز ہو گئی ۔ کوٹلہ سے پہلے سڑک پر سے اتنا پانی گذر رہا تھا کہ بس اس میں داخل نہ ہو سکی اور ہم نے پیدل پانی پار کیا ۔ وہاں ایک بس پھنسی ہوئی تھی ۔ اُس پر بیٹھ کر آگے گئے تو بھمبر نالہ بہت طغیانی میں تھا ۔ دو فوجی جوان پانچ گھوڑوں کے ساتھ جا رہے تھے ۔ اُن کی منت کی اور تین خالی گھوڑوں پر ہم تین بیٹھ گئے اور بھمبر نالہ پار کیا ۔ وہاں پہنچنے پر ساری فوجی یونٹ نے ہمارے زندہ پہنچے پر نوافل ادا کئے تھے ۔ دراصل ہمیں خطرے کا احساس نہ تھا
کیا آپ قادیانی ہیں؟ قادیانیوں کے خلاف کیوں نہیں لکھتے؟
الحق صاحب
یہ کونسا فارمولا یا ٹھیوری آپ نے لگائی ہے ؟ کیا میری تحریر سے آپ کو قادیان نظر آ رہا ہے ؟ کسی کو نیچا دکھانے کیلئے اچھا عمل کیا جاتا ہے لکھا اس کے متعلق جاتا ہے جس کے متعلق معلومات عام نہ ہوں جیسے میری یہ اور کئی دوسری تحاریر ہیں ۔ کیا تنا کافی نہیں کہ مرزائی غیر مسلمان ہیں جو ہمارے ملک کے آئین میں بھی لکھا ہے
میرے بلاگ کی ورق گردانی کیجئے ۔ مرازائیوں کے متعلق وہ لکھا نظر آئے گا جو شاید آپ کے علم میں بھی نہ ہو گا